کيدو کو نيچا دکھانے کيلۓ
ہوئي رانجھے سے ہير کي ملاقات
ہے دو لٹيروں کا ملن ليکن
نوازشريف اور بے نظير کي ملاقات
حالات آدمي کو کتنا نيچے گرا ديتے ہيں اور مجبور کر ديتے ہيں کہ اپنے ازلي دشمنوں کے گھر خود چل کر جاتا ہے اور اس کے گھر کھانا بھي کھاتا ہے۔ کہاں ارب پتي اور سابق وزيرِ اعظم جو ايک وقت مخالفت ميں ايک دوسرے کے گھر والوں کو قيد کرنے سے بھي نہيں ہچکچاتے تھے اور کہاں اب وہ سارا غرور اور عزت پيچھے چھوڑ کر ايک دوسرے کو ملنے چلے آۓ۔ ايک وقت تھا کہ وہ ايک دوسرے کو ملنا تو درکنار ديکھنا تک گوارہ نہيں کرتے تھے۔ اب تک ايک دوسرے کے خلاف قائم کۓ ہوۓ مقدمات ان کو دنيا ميں ذليل کررہے ہيں اور وہ ملک واپس آنے سے بھي قاصر ہیں۔ ہمارے پاکستان ميں اگر عزت دار ايک دفعہ اپنے عزيزوں کے مقدمات ميں پھنس جاتا تھا تو ساري عمر اس عزيز کے منہ تک نہيں لگتا تھا مگر اب لوگ قتل ہو جانے کے بعد اپنے دشمن کے گھر گھٹنے ٹيکنے چلے جاتے ہيں اور مقدمے ميں ملوث اپنے عزيز کي جان بچانے کچھ بھي کرنے کو تيار ہوتے ہيں۔ اب يہي حال نواز شريف اور بے نظير کا ہے۔ ايک وقت تھا کہ بے نظير نے نواز شريف کے والد کو بھي گرفتار کرنے سےگريز نہيں کيا اور دوسري طرف نواز شريف نے زرداري کو قيد رکھا اور اس پر ايسے ايسے مقدمے درج کراۓ جن سے آج تک خلاصي نہيں ہو پائي۔
کيا ہم سمجھتے ہيں کہ واقعي ان دونوں ليڈروں نے اپني ماضي کي غلطيوں سے ضرور سبق سيکھا ہو گا اور ايک دوسرے کو دل و جان سے معاف کرديا ہو گا؟
نہيں ، ايسا نہيں ہوا ہو گا کيونکہ ان کي حکومتوں کي برخاستگيوں کے بعد بھي ان ميں کوئي خاص تبديلي نہيں آئي اور نہ ہي انہوں نے ابھي تک يہ ثابت کيا ہے۔ يہ ہمارا يقين ہے کہ اگر دوبارہ ان ميں سے کسي ايک کو دوبارہ حکومت دے دي گئ تو وہ وہي کريں گے جو انہوں نے پہلے کيا تھا۔ حقيقت تو يہ ہے کہ ابھي تک ہمارے سياستدانوں ميں سے کوئي بھي ايسا نہيں ہے جو ملک کيساتھ مخلص ہو اور جس سے يہ توقع ہو کہ وہ ملک کيلۓ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
نواز شريف اور بے نظير کو چھوڑيۓ، اس وقت تو ملک ميں کوئي بھي با اختيار اہلکار اور مستقبل کا اميدوار ايسا نہیں ہے جس کے دل ميں پاکستان اور اس کے عوام کا درد ہو اور جس سے توقع کي جاۓ کہ وہ پاکستان کيلۓ اپني جان بھي دينے سے گريز نہيں کرے گا۔
6 users commented in " نواز شريف بےنظير ملاقات "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackAap bhi baray bholay hain Jaan denay kay liay awaam hain na,siasatdan bhi jaan detay hain kursi per pilaton per murabon per or nachnay ganay walion per or sab say berh ker America per……..
yeh mail mulaqaat to ik bahana hay piar ka silsila purana hay,aap nay suna naheen hay jang mohabat or siasat main sab kuch jaaiz hay,waisay bhi meray dushman ka dushman mera dost…..
ماشاءاللہ بہت خوب لکھتے ہیں آپ ۔۔۔ بہت اچھی تحریر ہے، تقریبا ایک سال پہلے اسی موضوع پر میں بھی ایک تحریر لکھی تھی ‘ بہترین مفاد میں‘ http://pkblogs.com/apnadera/2005/04/blog-post_111262391706464187.html
ذرا اسے بھی ملالحظہ کیجیئے گا۔
ھم يہ بات بہول جاتۓ ھیں کہ پاکستانی سياست کۓ اجزاء نمبر ايک بيوروکريسی اور خاص طور پر ملٹری بيوروکريسی يعنی فوج کو حکومت کا چسکا لگ چکا ھۓ۔ اور فوج کو حکومت کرنۓ کيلۓ ملاوءں کی ضرورت ھوتی ھۓ۔ اس لءۓ ملا ملٹری الاءنس وجود ميں آتا ھۓ۔
اس لۓ نوازشريف اور بے نظير ملاقات
کو دو لٹيروں کا ملن قرار دينا فوج اور ملاؤں کی حکومت کو سپؤرٹ کرنآ ھے
Wah Irfan Sahab aap nay bhi kia baat kahi,foj ho ya siasat daan pakistani awaam kay liay to aisa hi hay kay aagay kunwan peechay khaai,
عوام کو تو واقعی اب تک کوءی ريليف نھيں ملا۔ ليکن آپ کو معلوم ہونا چاہۓ کہ لولی لنگڑی جمہريت بہی آمريت سے بہتر ہوتی ہے ۔ بات يہ ہے کہ کوءی ينسان اگر مر رہا ہو تو اسے فوری طور پر کھانے کی ضرورت ہے اسکے اس کي اصلاح کی کوشش کي جانی چاہۓ۔ اسی طرح پاکستان کو زندھ رھنے کيلۓ پھلے جمھوريت کی ضرورت ہے۔ جب ملک ھی نھ رہے گا تو کھاں کی عوام۔
Leave A Reply