پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جس کی آدھی آبادی بیکار ہے یعنی کاروباری معاملات ميں عورتیں مردوں کا ہاتھ نہیں بٹاتیں۔ یہ ایک حساس موضوع ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے نقطہ نظر سے بہت سارے لوگ اختلاف بھی کریں گے کیونکہ مشرقی معاشرے میں عورتوں کا کام کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اس کی وجہ عورتوں اور مردوں کے اکٹھا کام کرنے سے پیدا ہونے والی قباحتیں ہیں۔
لیکن اگر پچھلے دس سالوں کا عرصہ دیکھا جائے تو کام کرنے والی عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اب ٹریفک پولیس سمیت بہت سارے محکموں میں عورتیں فرنٹ ڈیسک پر آپ کی خدمت کرتی نظر آتی ہیں۔ ابھی حالیہ وکلاء تحریک میں بھی وکلاء عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا اور سڑکوں پر آنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
اس رجحان کی عکاسی ہماری آج کی تصویر بھی کر رہی ہے جس میں رحیم یار خان جیسے پسماندہ شہر کی لڑکیاں بھی سائیکل پر سکول جارہی ہیں۔ اس سے پہلے لڑکیوں کیلیے سائیکل چلانا معیوب سمجھا جاتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عام شہروں میں لڑکیاں یا عورتیں اب بھی سائیکل چلاتی نظر نہیں آتیں۔
7 users commented in " آدھی بیکار آبادی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ نے بہت صحیح کہا ہے ۔۔
قباہتیں نہیں۔۔۔ !قباحتیں!
درستگی فرمالیں
ویل ہم کو نا جو اردو لکھنے میں غلطیاں کرتے ہیں شاید بلاگنگ نہیں کرنی چاہیے ۔
ارے محترم تبصرہ کرنے والے بھائی آپ کو سمجھ تو آگئی تھی نا اس لفظ کی ۔۔ مجھ کو بھی آگئی تھی
میں خود سے تحریر لکھو گا اس موضوع پر فل وقت یہاں یہ کہوگا کہ جو اردو پھر ہم نے درسی کتابوں میں پڑھی ہے اسے کون لکھتا اور سمجھتا ہے یہاں ۔۔ یا وہ کوئی اور زبان ہے
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب عورتوں کا گاڑی چلانا بھی ‘فحاشی‘ کے زمرے میں آتا تھا، لیکن اب ہمارے شہر سیالکوٹ میں بچیاں سایئکلوں پر اسکول جاتے نظر آتی ہیں۔ بہتر مستقبل کیلیے ہمیں اپنی رویوں میں تبدیلی لانا ہی ہوگی، ہمیں شعور اور آگہی کا دامن تھامنا ہی پڑے گا!
جاوید گوندل صاحب
ہجے کی درستگی کا شکریہ۔ ہمیں اس لفظ کے بارے میں شک پیدا ہوا تھا مگر درست لفظ لکھنے میں ناکام رہے۔
ریحان صاحب
ہماری طرف داری کا شکریہ مگر ہم آپ کے نقطے سے متفق نہیںہیں، امید ہے آپ غصہ نہیںکریںگے۔
آپ کی اس موضوع پر پوسٹ کا انتظار رہے گا مگر اس میںغصہ کرنے کی بجائے ہمیں غلطی کی نشاندہی کرنے والے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے آپ کو کچھ سکھایا اور وہ بھی مفت میں۔
امید ہے آپ اپنی آنے والی پوسٹ میں جاوید گوندل صاحب جیسے قارئین کی حوصلہ شکنی سے گریز کریں گے۔
صاحب یہ تو رویوں کی بات ہے۔۔ ابھی کل ہی کہیں پڑھا کہ عورتوں کے جج بننے کے بارے میں فتوی دیا گیا ہے کہ اسلام میں عورت کا جج بننا حرام ہے جن معاشروں میں ابھی تک فیصلہ ہی نہیں ہوا کہ عورت اور مرد کو برابری کا حق ہے وہاں اسطرح کی چیزیں اچھنبے کا باعث بنتی رہیں گی۔۔۔۔ پاکستان میں غالبا ابھی تک عورتوں کی موٹر سائیکل چلانے کا لائسنس نہیں دیا جاتا ہے اور اگر کوئی چلائے تو جوق در جوق اسے دیکھنے کے لیے لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔۔
فکر ناٹ
تھوڑے دن کی بات ہے
شریعت براستہ پشاور یہاں پہنچنے کو ہی ہے
لیکن اس جرم کی سزا کیا ہو گی؟
کوڑے یا سنگساری؟
کوئی ٹینشن نہیں،
صوفی صاحب کا دماغ بہت ذرخیز ہے
امید ہے کہ کوئی شرعی سزا نکل ہی آئے گی
Leave A Reply