دو روز قبل ہمارے ایک فیملی ممبر کا آئی فون گم ہو گیا۔ ہم نے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا مگر فون نہ ملا۔ اگلے دن کسی نے اسی آئی فون سے ٹیکسٹ میسج بھیجا کہ یہ فون ان صاحب کو ملا اور انہوں نے پولیس آفیسر کے حوالے کر دیا۔ ہم لوگ اس شہر کے پولیس سٹیشن گئے مگر معلوم ہوا کہ فون ابھی تک کسی نے دفتر میں جمع نہیں کرایا۔ آج قریبی پولیس سٹیشن سے ہمارے ہی فون کے ذریعے کاال آئی اور بتایا گیا کہ دوسرے شہر کی پولیس نے آئی فون ان کے حوالے کیا ہے اور ہم آ کر اپنا فون لے جائیں۔ ہم لوگ پولیس سٹیشن گئے اور فون لے کر واپس آگئے۔ فون ویسے کا ویسا ہی تھا جیسا ہم نے کھویا تھا۔
اگر یہی واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو فون کے ملنے کے بہت کم چانسز ہوتے۔ کھویا ہوا فون ملنا تو درکنار پاکستان میں فون عام آدمی سے چھینے جانے کی وارداتیں عام ہو چکی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ مسلمان بے ایمانی، دھوکہ دہی اور فراڈ کا سمبل بنتے جا رہے ہیں اور یورپ کے کافر ایمانداری اور مخلصی میں پاکستانیوں سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ امریکہ کے چند برے علاقوں کو چھوڑ کر آپ کی چیز باہر پڑی رہے تو کوئی اس کی طرف دیکھتا تک نہیں مگر پاکستان میں آپ کی نظر آپ کے سامان سے ہٹی نہیں اور آپ کا سامان غائب ہوا نہیں۔ یورپ میں عورت تنگ لباس اور بے پردہ جا رہی ہو کوئی اس کی طرف کم ہی دیکھتا ہے، پاکستان میں عورت برقعے میں بھی جا رہی ہو تو مرد حضرات اسے پردے کے اندر سے بھی جھانک لیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
ہماری ناقص عقل میں اس کی جو وجہ آئی ہے وہ ہے والدین اور اساتذہ کا بچوں کی تربیت ایمانداری سے نہ کرنا۔ آپ کے بچے اگر یورپ کے کسی سکول سے میڑک پاس کر لیں تو وہ آپ کی پاکستانی ذہینت کو ناپسند کرنا شروع کر دیں گے۔ آپ کو دوسروں کی غیبت کرتے ہوئے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ بولتے ہوئے ٹوکیں گے۔ کیونکہ انہیں سکول میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولو، دھوکہ نہیں دو اور اگر کہیں کوئی چیز پڑی مل جائے تو اسے اس کے مالک تک پہنچانے کی کوشش کرو۔
گھر میں تربیت میں کمی رہ جانے کے باوجود ہم یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے بچوں کی صرف سکول کی تربیت کی بدولت ایمانداری اور کردار کی پختگی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ یہی بچے بڑے ہو کر یورپی معاشرے کا حصہ بنتے ہیں اور ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ ان بچوں کو اگر پاکستانی بچوں سے ملوایا جائے تو پاکستانی بچے انہیں بدھو اور بیوقوف سمجھتے ہیں کیونکہ یہ بچے چکری نہیں ہوتے۔
ہمارے خیال ميں اگر پاکستان کے اساتذہ بھی دل سے کوشش کریں تو وہ اچھے افراد کی شکل میں اگلی نسل کو بہترین تحفہ دے سکتے ہیں۔ بچے کو اگر بچپن سے ہی اچھی تربیت دی جائے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ خود کو بدلنے کیساتھ ساتھ اپنے والدین کو بھی راہ راست پر نہ لا سکے۔ تبدیلی کیلیے ضروری ہے کوئی حکمران، کوئی افسر، کوئی ہیڈماسٹر اس نیک کام کو شروع کرے اور پھر دیکھے کہ ہم مسلمان دوبارہ باوقار اور باکردار مشہور ہو جائیں گے۔
7 users commented in " ایسا کیوں؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمحترم افضل صاحب!
بات بہت پرانی ہے۔ تب معاشرے میں اتنا بگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا۔ کچھ یار لوگوں نے محکمہ تعلیم کے اساتذہ اور خاص کر جونئیر یعنی پرائمری کے اساتذہ کی بھرتی کا معیار اعلٰی، مشاھیرہ گرانقدر ، سہولتیں وافر اور انکہ عزتِ نفس کا پاس جیسی تجویزیں دی تھیں۔ اور پولیس کے محکمے کو بھی انھی طرزوں پہ کھڑا کرنے کی تجاویز تھیں۔ کسی بھی تہذیب یافتہ معاشرے میں ۔ اساتذہ قوم کا انسانی اخلاق تعمیر کرتے ہیں۔ اور عموماً دیکھا گیا ہے کہ اچھے اساتذہ سے تعلیم حاصل کتنے والے طلباء اعلٰی اخلاق کے اور کردار کے مالک ہوتے ہیں۔ اور دوسرا محکمہ انصاف یا قانون کا ہے کہ جو اعلٰی اخلاقی تعلیم کے باوجود ہیرا پھیری سے باز نہ آئے اس کے لئیے قانون کا پورابوجھ ہونا چاھئیے تا کہ لوگ عبرت حاصل کریں۔
جب ایک پرائمری ٹیچر دس کلومیٹر دور کے موضع میں روزانہ سائیکل جیسی سواری پہ موسم کے سخت گرم جھیل کر بامشقت اسکول پہنچے سارادن بچوں سے سر کھپائے پھر اتنا سفر کرے کے واپس پہنچے۔ نوکری برقرار رکھنے کے لئیے علاقے کے تمام سیاسی اہلکاروں کی جی حضوری کرے۔ اپنے محکمے کے افسروں کے دورے پہ نان اشنان کا بندوبست بھی جیسے تیسے کرے۔ آتے جاتے ان پڑھ سیاسی کونسلر اُسے ُ ُ اُوئے اشکول ماشٹر،، جیسے خطاب سے بھی نوازیں اور مہینے کے آخر بھی گھر کی دال روٹی بھی پوری نہ ہو ۔ اور اس وجہ گھر والی روٹھ کر میکے جا بیٹھے۔ تو آپ ہی بتا دیں کونسی تعلیم اور کہاں کا اخلاق ایسے استاد سے تعمیر ہوگا۔
اور پولیس کے چھوٹے اہلکاروں کے ساتھ بھی اسی طرح کا طرفِ تماشہ ۔ انھیں واجبی سی تعلیم کے ساتھ انتہائی بے عزت مقام دیکر جس میں نہ انھیں اپنی عزت کا اور نا شہریوں کی عزت کا احساس رہتا ہے۔ معولی سی تنخواہوں کے ساتھ پولیس والوں کا قانون کا اندھا اور بے لگام اختیار بمع ڈنڈا تھما دیا جاتا ہے اور سرکار ان سے یہ امید بھی رکھتی ہے کہ بھوکا پیٹ پہ پتھر باندھ کر روٹیوں کے ڈھیر کی حفاظت کرے گا۔ یہ محض اپنے آپ کو دہوکا دینے والی بات ہے اور عجیب تماشہ ہے کہ ہم متواتر ساٹھ باسٹھ سالوں سے ہر جگہ ہر میدان میں اپنے آپ کو دہوکا دیتے آرہے ہیں۔اور اب فصل پک چکی مگر اس کے باوجود ہم آنکھیں کھولنے کو تیار نہیں۔
یہ جو ہر طرف طالبان طالبان ہو رہی ہے۔ یہ کسی شرعی نظام کی پکار نہیں بلکہ اس بوسیدہ اور ناکرہ نظام ، جس میں صرف اور صرف لٹیرہ صفت لوگوں کو ہر قسم کا تحفظ ہے اور جو ہر قسم کے ملکی وسائل پہ آنے بہانے سے قابض ہیں کبھی فوجی آمروں کے سائے میں کبھی نام نہاد جمہوریت کے پردوں میں مگر ایک بات ثابت ہے کہ پچھلے باسٹھ سالوں سے ایک ہی قسم کے لوگ مستفید ہوتے چلے آرھے ہیں۔ اور عام عوام فاقہ مستی کو پہنچ چکے ہیں۔ اور اس بوسیدہ نظام کے بدلے لوگ آنکھیں اٹھا اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے آئے ہیں کہ یا اللہ کوئی مسیحا بیجھ ۔ اور ہر طرف سے مایوس ہو کر اب طالبان طالبان کا شور اٹھنے لگا ہے۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب ناانصافی حد سے زیادہ بڑھی تو انقلابِ فرانس۔ اشتراکی نظام الغرض عام عوام نے ہر نئے ازم ہر نئی تحریک کو خوش آمدید کہا اور اسکے لئیے زمین ھموار کی۔ یہ فطری تقاضے ہیں۔ بارش کا پانی ہمیشہ پہاڑوں سے نشیب کو بہتا ہے۔ نشیب سے بلندی کو نہیں بہتا۔
why always something odd happen with the peopel you know… 🙂 i m just woundering
wondering**
جاوید گوندل صاحب نے اساتذہ والی بات جو کی ہے یہ میرے تجربہ کے مطابق ہے ۔ مجھے جن اساتذہ نے پڑھایا اُن کی تنخواہیں تو زیادہ نہ تھیں مگرعزت اُن کی بہت کی جاتی تھی ۔ یہ عزت عوامی دور نے لُوٹ لی اور پھر عزت پیسے کی ہو گئی
پاکستان میں تمام نامساعد حالات کے باوجود ابھی کچھ ایسے دیانتدار لوگ موجود ہیں کہ کبھی کبھی طبیعت خوشگوار ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح سڑک پر کار چلاتے یا کبھی پیدل سڑک پار کرنا ہو ۔ عام طور پر تو کوئی راستہ نہیں دیتا لیکن کبھی کبھی کوئی شریف آدمی اپنی گاڑی روک کر جانے کا اشارہ دیتا ہے تو حوصلہ بڑھتا ہے کہ ابھی اچھے لوگ ہماری قوم میں باقی ہیں
محترم اجمل صاحب!
آپکی بات درست ہے ابھی بھی ہمارے پاس اخلاق اور دیانتداری کا اصلی اور شاندار بیج، نیک لوگوں کی صورت میں موجود ہے۔ اگر ابھی بھی نیک نیتی سے کوشش کی جائے تو کوئی عجب نہیں اگلے بیس پچیس سال میں ہم بھی باوقار اور محترم قوموں میں شمار کیے جائیں۔
شیپر صاحب
ارد گرد پیش آنے والے انہونے واقعات کو بیان کرنے سے ہم لوگ سبق سیکھتے ہیں۔ عام قسم کے واقعات تو ہم سب کی زندگی کا حصہ ہیںانہیںبیان کرنے کا کیا فائدہ۔
افضل صاحب اس طرح کا بلاگ میں نے لگایا تھا تو مجھے جواب ملا کہ آپ یورپ میں رہتی ہیں اس لیے آپ کو وہاں کی برائی نظر نہیں آتی ، کیونکہ یوں ان لوگوں کی چال ہے ۔ مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اگر یہ ان لوگوں کی چال ہی سہی ہم کیوں نہیں اچھی باتیں سیکھتے ۔ جھوٹ منافقت ۔ بے ایمانی چوری یہ وہ باتیں ہیں جو ہم مسلمانوں مین ہونی چاہے ، لیکن آج ہم ان باتوں سے کوسوں دور ہیں ۔خود اچھائی اپناتے بھی نہیں ہیں اور دوسرے پر کیچڑ بھی اچھاتے ہیں ۔میرے پاس کچھ عسیائی لوگ آئے اپنی کتاب لے کر جو کے ادرو میں لکھی ہوئی تھی ۔ میں نے کتاب سے پہلے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ ہماری کتاب قرآن پڑھتے ہو یا کبھی پڑھنے کی کوشش کی ہے تو جواب ملا ۔ جی ہاں انگریزی میں ہم پڑھتے ہیں اور حضرت محمد کے بارے میں بتانے لگے ۔
جہاں تک ہمارے استادوں کا سوال ہے ۔ میں ان کی عزت کرتی ہوں لیکن جو ہمارے ٹیچرز ہیں انکا اپنے شاگردوں کے درمیاں اتنا فاصلہ ہوتا ہے کہ بچہ سوال کرنے سے پہلے سوچ رہا ہوتا ہے ۔ پتا نہیں جواب ملتا ہے کہ نہیں لیکن ڈنڈا ضرور پڑے گا ۔یہاں کے استاد اپنے پیشے سے اتنی محبت کرتے ہیں چاہے کوئی بھی ہو ۔ معزور بچہ سب کے ساتھ ہوگا چاہے وہ کچھ سیکھے یا نا لیکن وہ کلاس میں برابر سمجھا جائے گا ۔ ہماری استادوں کو پتہ نہیں کیا مسلہ ہے کہ لائق بچے پر تو توجہ دیتے ہیں لیکن جو کم زور ہو گا پڑھائی میں اس کی مدد کرنے کی بجائے آخر مین بیٹھا کر ہر وقت یہی کہا جائے گا کن زہن نالائق اور نا جانے کیا کچھ اس نے اگر کچھ کرنا بھی ہو گا تو اپنی بےعزتی کی وجہ سے نہیں کر پائے گا۔
Leave A Reply