آج کے اخبارات پر اگر نظر دوڑائیں تو ہر طرف ایک ہی واویلہ نظر آتا ہے کہ پاکستان ٹوٹ رہا ہے۔ سینٹ کی بحث ہو، حزب اختلاف کا شور ہو یا امریکہ کے صدر اور آرمی چیف ہوں، ہر کوئی یہی کہ رہا ہے کہ پاکستان ٹوٹ رہا ہے۔
اگر پاکستان ٹوٹ رہا ہے تو پھر صدر زرداری غیرملکی دورے پر کیوں چلے گئے ہیں؟ اگر پاکستان ٹوٹ رہا ہے تو پھر حزب اختلاف اور حکومت دونوں چین کی نیند کیوں سو رہی ہیں؟ اگر پاکستان ٹوٹ رہا ہے تو پھر اسے ٹوٹنےسے بچانے کی سعی کیوں نہیں کی جا رہی۔
امریکہ کہتا ہے کہ ہماری جمہوری حکومت کمزور ہے، فوج جمہوری حکومت پر حاوی ہے، پاکستان دہشت گردوں کیخلاف کھل کر کاروائی نہیں کر رہا۔ حزب اختلاف کہتی ہے سرحد اور فاٹا میں آگ لگی ہوئی ہے، بلوچستان کو شکایات ہیں اور کراچی جل رہا ہے مگر اسلام آباد میں اگر آپ چلے جائیں اور وہ بھی شاہراہ ایوان پر تو کہیں بھی ملک ٹوٹنے کے آثار نظر نہیں آتے۔
اگر واقعی ملک ٹوٹ رہا ہے تو پھر زرداری گورباچوف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حکومت بے بس ہے اور فوج بھی اس جرم میں شریک ہے۔ کیا سرحد، بلوچستان اور کراچی کے معاملات کا فوجی کاروائی کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے؟ کیا دہشت گرد اتنے مضبوط ہیں کہ وہ ملک توڑ دیں گے؟ کیا ملک ٹوٹنے سے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں رہیں گے جن کا شور یورپی ممالک مچا مچا کر دنیا کو ڈرا رہے ہیں۔
اگر واقعی ملک ٹوٹ رہا ہے تو حکمرانو اور سیاستدانو ہوش کے ناخن لو۔ کیا تمہاری دنیا میں یہی کامیابی ہے کہ ملک توڑ کر اس کے ہر حصے پر الگ الگ حکمران بن بیٹھو۔ کیا کراچی کو الگ کر کے الطاف حسین صدر بن کر تاریخ میں مجیب الرحمن کی طرح نام رقم کرانا چاہتے ہیں۔ کیا حکومت کی اتحادی اے این پی صوبائی حکمرانی سے خوش نہیں ہے اور سرحد کو الگ کر کے وہ مرکزی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے؟ کیا پنجاب کےحکمران بلوچستان کوالگ کر کے بہت بڑا معرکہ سر کرلیں گے؟
ان تمام سوالوں کا جواب ایک ہی ہے یعنی خودغرض لوگ کرسی کیلیے اپنی غیرت بھی نیلام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ خود غرض لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا اور انہیں صدام حسین کی طرح اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کی خود غرضی سے کروڑوں کا ملک کھنڈر بن جائے گا اور اس کی دولت پر جارح قبضہ کر لے گا۔
8 users commented in " کیا واقعی پاکستان ٹوٹ رہا ہے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackانہیں صدام حسین کی طرح اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کی خود غرضی سے کروڑوں کا ملک کھنڈر بن جائے گا اور اس کی دولت پر جارح قبضہ کر لے گا۔
خیرآپ صدام حسین بے چارے کو تو یہ الزام نہ دیں۔ وہ غلط آدمی رہا ہوگا مگر جس قدر اس نے فلاح و بہبود اپنے ملک کے عوام کے لئیے ۔یہ تاریخ کا حصہ ہے اور تا قیامت سند رہے گا۔ صدام بے شک امریکہ کی مرضی۔ منشاء سے عراق میں مطلعق العنان ڈکٹیٹر بن کر مسندِ اقتدار و اختیار پہ بیٹھا تھا مگر عراق کی دولت قبضہ کرنے کروانے میں صدام کا نہیں بلکہ مالکی اور اس کے پیشرؤؤں جیسے ننگِ ملت لوگوں کا ہاتھ تھا۔ صدام بے چارے نے تو اپنی اور اپنے اہل عیال کی خوابگاہوں کی شرمناک حد تک تعداد میں اجتماعی ہتیاروں کی تلاش میں گورے انسپکٹروں کو تلاشی دی۔ اور صدام کو اپنی اور امریکہ و یوروپی اقوام کی طاقت۔ انکے لاؤ لشکر اور جنگی جنون کا اندازہ عام کم فہم مسلمان حکمرانوں سے زیادہ تھا۔ اور صدام حسین کو یہ بھی پتہ تھا کہ وہ اکیلا بے یارو مددگار ہے اور اسے یہ بھی علم تھا کہ پوری عرب اور مسلم دنیا کے ناتواں اور بزدل ممالک سے کوئی اس کی مدد کو نہیں آئے گا۔ اور کچھ کچھ عرب ممالک اس کی تباہی اور بربادی پہ مسرت و اطمینان محسوس کریں گے۔
اس نے ایک بہادر آدمی کی طرح ہر ممکن کوشش کی کہ مغرب عراق پہ جنگی چڑہائی سے باز آجائے مگر ناچار جب جنگ کا وقت آیا تو صدام بھاگا نہیں۔ نا اپنے اہل و اعیال کو کہیں بیجھا ۔ نہ کسی سوئس بنک میں جمع قوم و ملک سے لوٹے ہوئے اربوں ڈالروں کے بل بوتے پہ بارہا کی پیش کش کے باوجود اس نے کسی دور دراز ملک میں پناہ گزین ہونے کو ترجیج دی۔ وہ جانتا تھا اسکا اپنا انجام بہت خراب ہوگا، اسے اسکی اولاد، اسکا خاندان مار ڈالا جائے گا۔ وہ کچھ سال قبل کویت کی جنگ ہار چکا تھا اور وہ اور اسکے عوام تاریخ کی سخت ترین پابندیوں میں جکڑ دئیے گئے تھے۔ اور اپنے آپ کو افضل تہذیب ماننے والے ۔ بات بات پہ انسانی حقوق کی بات کرنے والے۔ ایک بلی اور کبوتر کے بچے کی جان بچانے کے لئیے (جو احسن قدم ہے) ریڈیو اور ٹی وی پہ اعلان کرنے والے ۔ کویت کی پہلی خلیجی جنگ اور عراق پہ قبضے کے لئیے دوسری خلیجی جنگ کے دوران اپنے آپ کو اعلٰی تہذیب کا دعواہ کرنے والوں کے عراق کے محاصرے کے دوران چند سالوں میں ساڑھے سات لاکھ کے لگ بھگ عراقی بچے محاصرے کی وجہ سے ادویات اور دودھ پہ پابندی ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بنے۔
عراق پہ جن اشیاء کی پابند لگائی گئی ان ھزاروں آئٹم میں سے بچوں کے لکھنے کے لئیے ایچ بی پنسل تک اس میں شامل تھی ۔ اور ان اموات کے اعدادو شمار بھی مغرب کے مہیا کردہ ہیں۔ مگر عالمی ضمیر کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔ اور صدام کی جنگ کو ٹالنے کی سب کوششیں بے کار گئیں۔ اور جب وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹے مروائے مگر بھاگا نہیں اور خود کسمپرسی کی حالت میں کلمہ شہادت پڑھتا ہو ادار پہ جھوُل گیا۔ اور اسکی موت کو عبرت کا نشان بناتے ہوئے اسکی موت کی ویڈیو کو المتشہر کرنے کا باقاعدہ سامان کیا گیا۔ تا کہ مستقبل کے امریکن پٹھو حکمران عبرت پکڑیں اور یس سر اور نو سر سے آگے نہ بڑہیں۔ اور ڈو مور بوائے کی پکار پہ لبیک کہتے ہوئےاپنی ہی قوم و عوام پہ چڑھائی سے باز نہ آئیں۔ اور ایک پیغام پوری مسلمان دنیا کے عوام کو بھی دیا گیا کہ آپ کے ہیروز ( اچھے برے ڈکٹیٹر یا جیسے بھی ہوں) ان کا ہم کیا حشر کرتے ہیں۔ آپ اپنی مسلمان قوموں کے کے کتنے قائدان میں صدام جیسی پامردی پاتے ہیں، وہ برا تھا تو بھی ۔ وہ بھلا تھا تو بھی ۔ وہ اپنی مستقل مزاجی سے عام مسلمان عوام میں معتبر ہو چکا تھا۔ اور یہ چیز اسکی عبرت ناک موت کا سبب بنی۔ اسے امریکہ نےتخلیق کیا اور تاریخ کی بدترین بد عہدی اس سے امریکہ نے کی۔ جس دن صادم کو پھانسی دی گئی اور جس شان سے وہ بوڑھا مرد کلمہ شہادت کہتا ہوا مقتل میں دار پہ جھُولا اس واقع نے اور اسکی منظر کشی ۔ نے اپنے جزبات پہ قابو رکھنے میں مشہور بڑے بڑوں کو خون کے آنسو رلا دیا تھا۔
جہاں تک خاکم بدہن پاکستان کے ٹوٹنے کی بات ہے۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں انیس سو اسی کے لگ بھگ پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھ امریکن بدنام زمانہ جاسوسی ادارے سی آئی اے کے کچھ کاغذات لگے تھے جس میں سن دو ھزار پندرہ تک پاکستان کی عملاً عملداری اسلام آباد اور اندروں پنجاب کے کچھ اضلاع تک محدود کرنے کا منصوبہ تھا ۔ کہ باقی علاقے ہوں گے تو پاکستان کا ہی حصہ مگر عملاً ان پہ پاکستان کی پولیس و فوج یا حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ اور یہ مغرب کی پرانی منصوبہ بندی ہے۔ رہی سہی کسر مشرف جیسے ننگ ملت نے پوری کردی ۔کہ ستم ظریفی کی حد دیکھئیے کہ جن ایٹمی ھتیاروں نے پاکستان کیحفاظت کرنی تھی۔ آج آن ھتیاروں کی حفاظت میں پاکستانی حکومت ۔ فوج اور قوم ہلکان ہوئے جاریہ ہے اور مغرب ہے کہ ماننے کو ہی تیار نہیں۔ اور نہلے پہ دہلا اوپر سے ہمیں ایک سے برح کر ایک ۔قائد۔ملا ہے جو امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائے جارہے ہیں اور جو سبق انہیں پڑھا دیا جاتا ہے اسے طوطے کی طرح رٹے لگائے چلے جاتے ہیں۔اور جس ملک کے وزیر داخلہ رحمان ملک جیسے مشیر و وزیر باتدبیر ہونگے ۔ جو وزیر داخلہ کی بجائے وزیر اطلاعات زیادہ نظر آتے ہیں۔انھوں نے آج ہی کراچی میں تین چار نو گو ایریاز کی کا انکشاف کیا ہے اور بس اور جس ملک کے بے چارے وزیرِ اعظم کو علم ہی نہیں ہوتا اور ان کے نام سے فرمان جاری ہوجاتے ہیں۔اور ملک کا صدر جس دورے پہ جاتے ہیں انکا ایک ہی ایجنڈا ہوتا ہے ۔ کہ جناب باقی باتیں چھوڑیں ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ کی داد دیں اور یہ بتائیں آپ اس ملک کی ماؤں کے لخت جگروں کی قربانیوں کے بدلے کتنی خیرات دیں گے ۔ کیا قیمت ہے آپ کے پاس ہماری جانوں کی۔ جب کسی قوم کے کرتادھرتاؤں کے حالات ایسے ہوں۔ اور جس ملک کے اند اپنے لوگ ہی اس کے دشمن ہوں اور جرنیل اتنے بہادر کہ ایک ہی فون پہ یس سر کہہ کر کھڑے ہو کر سیلوٹ مار کر بقیہ کال سنیں ۔ وہاں خاکم بدہن مغرب و بھارت کو پاکستان ٹوڑنے کے لئیے کسی جنگ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہم خود کافی ہیں ۔ اور تان ٹوٹتی ہے طالبان پہ ۔ اللہ جانے وہ کون لوگ ہیں ان کا کیا منشور ہے ۔ وہ نظام عدل سے مخلص ہیں یا نہیں ، عام آدمی کے پاس وہ ہی سچ ہوتا ہے جسے اس کو پہچانے کا اہتمام ہماری حکومت اور وزیر شذیر کرتے ہیں جن کا ہر گھنٹے بعد بیان بدلا ہوتا ہے۔ وہ کبھی طالبان کو دشمن نمبر ایک اور کبھی ان کے مطالبوں پہ قربان جاتے ہوئے ان کا وہ دفاع کرتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ چلییں مان لیا طالبان صحیح لوگ نہیں ۔ وہ نظام عدل سے مخلص نہیں اور سو کال نظامِ عدل میں سو خامیاں ہیں اور سوات کے عوام کیا اس سے تو سوات کی گائے بکریوں تک کو چارہ نہیں ملے گا۔ آپ کی سب باتیں بجا ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی پاکستان کے جو اٹھارہ کروڑ عوام ہیں کیا انھیں آپ نے ہر قسم کا انصاف اور جائز اور پانی بجلی روزگار جیسی بنیادی ضرورتیں پوری کردی ہیں ۔؟ کیا آپ نے اپنی قوم سے ہر قسم کی بے چینی اور بے یقینی کا خاتمہ کر دیا ہے ۔کیا امن و عامہ آپ کی حکومت میں پہلے سے بہتر ہو گیا ہے۔؟ کیا آپ کی حکومت نے عام عوام کی مجبوریوں اور سختیوں کو کم کیا ہے۔؟ چلیں ہم آپ کی یہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ پاکستان بہت غریب ملک ہے اور اس کے پاس وسائل نہیں خزانہ خالی ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔ تو کیا ایسی صورت میں آپ نے اپنے اور اپنے درباریوں کے شاھی اخراجات کم کر دیے ہیں۔ ؟ ھٹو بچو اور نقیبوں کی فوج کو کم کر دیا ہے۔ آپ اپنی زندگی میں سادگی لے آئیں اور ملک پہ سکاری خاراجات کا بوجھ پہلے سے کم ہو گیا ، اور آپکے ادارے کم آمدن میں سو فیصد کام کر رہیں اور سخت محنت کر رہے ہیں کہ اگلے پانسالہ منصوبے یا دس سالہ منصوبے عام عوام کو کامیابی دلائیں کے ۔ اور عام آدمی کے آنسو پونچھیں جائیں گے ۔ اگر یہ سب یوں ہے تو پھر تو آپ اس امید رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کے عام عوام آپ پہ سخت وقت آنے پہ آپ اپنے اہل عیال اپنی جان مال ہر شئے آپ پہ قربان کر دیں گے ۔اور اگر تو جواب نفی میں ہے تو میں سمجھتا ہوں ہمارئ ایلیٹ کلاس (اشرافیہ) احمقوں کی جنت میں رہتی ہے اور انکے بیانات اور کاٹھ کے الؤ چند نام نہاد دانشور جو ماسوائے زبانی جمع تفریق کے کوئی حل ملک و قوم کو نہیں سجھاتے تو پھر یہ سب منافقت کے زمرے میں آتا ہے، اور ایسے مٰن آپ طالبان ۔ یا امریکہ کی پیشقدمی کیسے روک سکتے ہیں۔؟
پاکستان کبھی نہیں ٹوٹے گا انشاءاللہ ۔ اسے توڑنے والے ہاتھ ٹوٹ جائیں گے۔ اور جب تک اس دنیا میں چاند ستارے ہیں باقی ، تب تک پاکستان ہے باقی ۔ اور یہ پاکستان آپ ہیں میں ہوں اور پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام ہیں، جو لاکھ مسکین اور غریب سہی مگر آپ کو ھمیں اور سب کو پتہ ہے یہ خطہ ہمارے ہاتھ سے نکلا تو ہمیں تو کیا ہماری نسلوں کو بھی کہیں پناہ نہیں ملے گی ، پاکستان ہماری ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی ۔ ہماری عزت بھی ہے اور ہماری شان بھی۔ اور یہ جذباتی نعرہ نہیں بلکہ پاکستان کی فکر کرنے والے اور پاکستان کے حقیقی وارثوں سے تو ابھی کسی نے یہ پوچھا ہی نہیں کہ پاکستان تمہارے لئیے کیا درجیہ رکھتا ہے اور پاکستان کی ھفاظت کون کرے گا۔ اور یہ پاکستان کے یہ وارث پاکستان کے وہ مظلوم مگر غیرتمند عوام ہیں جنہوں نے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کو ایک شریف چیف جسٹس کی خاطر چنے چبوا دیے اور جو اپنے آپ کو امریکہ کی آنکھ کا تارہ سمجھتے تھے انھیں راتوں رات گھٹنے ٹیکتے بنی اور چیف جسٹس کو بحال کرتے بنی ۔ یہ ہیں پاکستان کے اصلی وارث اور محافظ ۔ خدا نا کرے پاکستان پہ کبھی اس طرح کا وقت آیا تو ہر گھر سے ایک پاکستان نکلے گا۔اور پاکستان کے دشمن ۔ عراق اور افغانستان میں عام عوام کی مزاحمت کو بھول کر پاکستانی مزاحمت کی مثال دیں گے۔
اسلئیے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ پاکستان اتنا تر نوالہ نہیں جو بھارت و امریکہ اسے نگل لیں۔ یہ مغربی سفراء و وزراء وغیرہ کے بیانات صرٍف پاکستانی حکومت کو ڈو مور بوائے کے کلیے پہ لانے کے لئیے اور حکومت اور فوج پہ دباؤ ڈالنے کے حربے اور چالیں ہیں۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
ان حکمرانوں اور سوئی قوم سے کچھ بھی بعید نہیں
جو کام ایک دفعہ کر کے چاکا کھل گیا ہے وہ دوبارہ کرنے میں اتنا مسئلہ ہونا تو نہیں چاہئے
ہمیں باہر سے کوئی خطرہ نہیں اپنے حکمرانوں سے خطرہ ہے، اور آپ کو تو پتا ہے کہ حکمران صرف سیاستدان نہیں
افضل صاحب پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک یہ چکر چلتا ہی رہتا ہے یہاں تک کہ ایک دفعہ تو توڑ کی ہی دم لیا ۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ شمالی علاقوں کی جس سورش کو پاکستان ٹوٹنے کا ذریعہ سمجھا جارہا ہے اسے کچھ نہیں ہونا ۔۔ وہاں تو پورا ملک افغانستان پاکستان کے بغیر نہیں چل سکتا شمالی علاقوں نے کہاں جانا ہے ۔۔ اصل آگ بلوچستان میں لگی ہوئی ہے جس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی جارہی ہے اور یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
صدام حسین کی مثال سے میں متفق ہوں ۔۔ نہ معلوم کیوں لوگ ایک جذباتی منظر سے اس کی باقی تاریخ بھول جاتے ہیں۔۔ کردوں اور عراقی شیعوں سے کوئی اس کے مظالم کی داستان سنے اور ایک دہائی تک پڑوسی ملک سے امریکی ایما پر حالت جنگ میں رہا اور کویت پر بلا وجہ کی چڑھائی کر کے پہلی خلیج جنگ کا جواز مہیا کیا۔۔ نہ معلوم جاوید احمد گوندل صاحب جیسے باخبر آدمی اسے ہیرو کا درجہ دینے پر تلے ہیں اگر عراق صرف تکریت اور بغداد تک محدود ہے تو پھر بڑی ترقی کی ہوگی عراق نے۔۔۔ صدام بھاگا اس لیے نہیں بھاگ کر کہاں جاتا؟ اپنے مغربی آقاؤں سے بگاڑ لی تھی اور آس پاس کے عربوں سے بھی تعلقات سرد مہر تھے۔ آخر سارے بادشاہ اور ڈکٹیٹر ہی کیوں ملتے ہیں ہمیں ہیرو بنانے کے لیے ؟
کچھ احمقوں کی جنت میں رہنے والے بڑھکیں لگاتے رہتے ہیں کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب تو پاکستان ٹوٹے بھی چالیس سال ہونے والے ہیں، ہماری قوم نے تو اس کا دکھ اسی وقت فراموش کر دیا تھا جب پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ ایک طرف مکتی باہنی اور پاکستانی فوج بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کو قتل کر رہے تھے، دوسری جانب عوام کو ایک نئے پاکستان کے جنم کی خوشخبری سنائی جا رہی تھی۔ آج کے سیاستدان 1971 کے سیاستدانوں سے بھی کہیں زیادہ بدتر ہیں اور آج کے عوام پہلے سے بھی زیادہ بے حس اور جاہل۔ کسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ملک پر کیا گزر رہی ہے، ہر کوئی اپنے اپنے الطاف حسین یا طالبان کا راگ الاپنے میں مصروف ہے۔
میرا اللہ ہی اس پاکستان کو بچائے رکھے گا ۔ اللہ کسی قوم کو اس وقت تباہ کرتا ہے ۔ ایک ۔ جب خلقِ خدا انصاف سے مکمل طور پر محروم کر دی جائے اور بہتری کی کوئی صورت نہ ہو ۔ دو ۔ جب خلقِ خدا خالق سے بیزار بن جائے ۔ یہ دونوں صورتیں پاکستان میں ابھی نہیں ہیں ۔ دنیا میں پہلی بار وکلاء تحریک کا نہ صرف اُٹھنا بلکہ اس کا ہمہ گیر اور پائیدار ہونا اور پھر توقع کے خلاف نان پی سی او ججوں کا بحال ہو جانا بتاتا ہے کہ ابھی اللہ کو اسی قوم سے کچھ اچھے کام لینا ہیں
نبیل صاحب
کیا آپ وہی نبیل ہیں جو اردو سیار ترتیب دینے میں منسلک رہے ہیں ؟
آپ کا یہ جملہ مبنی بر حقیقت ہے “ایک طرف مکتی باہنی اور پاکستانی فوج بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کو قتل کر رہے تھے، دوسری جانب عوام کو ایک نئے پاکستان کے جنم کی خوشخبری سنائی جا رہی تھی۔
اور یہ بھی کہ ” آج کے سیاستدان 1971 کے سیاستدانوں سے بھی کہیں زیادہ بدتر ہیں اور آج کے عوام پہلے سے بھی زیادہ بے حس اور جاہل۔ کسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ملک پر کیا گزر رہی ہے، ہر کوئی اپنے اپنے الطاف حسین یا طالبان کا راگ الاپنے میں مصروف ہے”۔
پاکستان ٹوٹے یا نہ ٹوٹے
عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے
محاورے والا آخری تنکا بھی اونٹ کی پیٹھ پر دھر دیا گیاہے
یہ جو ہنگامہ برپا کیا جارہا ہے
پاکستان کے ٹوٹنے کا
یہ اصل میں اشرافیہ اپنی لتریشن ہوتے دیکھ کر برپا کر رہی ہے
اور اگر یہ لوگ سدھرے نہ
جس کی امید کم ہی ہے
تو پھر تیار ہوجائیں
ایکشن سے بھرپور فلم کے لئے
جس میں اس دفعہ ہیرو کا کردار ایکسٹرا کردار ادا کرنے والے
اداکار ادا کریں گے
یعنی
عوام
راشد کامران کا تبصرہ
نہ معلوم جاوید احمد گوندل صاحب جیسے باخبر آدمی اسے ہیرو کا درجہ دینے پر تلے ہیں۔
محترم! کامران صاحب!
آپ نے غالباً سرسری نظر سے میری رائے پڑھی ہے۔ افضل صاحب نے لکھا تھا صدام حسین کی طرح اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کی خود غرضی سے کروڑوں کا ملک کھنڈر بن جائے گا ۔ جس سے یہ گُمان ہوتا ہے کہ ژاید صدام حسین نے امریکہ کو حملے کی دعوت دی ہو ۔ اور عراق کو تباہ و برباد کرنے میں صرف اور صرف صدام کا قصور تھا اور ننگی جارحیت کرنے والی امریکہ اور مغربی اقوام ہر گناہ سے پاک تھیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے اور آپ کسی بھی باخبر ذریعے سے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ کویت پہ چڑھائی کی خبر عراق سے باہر صرف اور صرف امریکہ کو تھی۔ اور اُس وقت کی عراق میں امریکہ کی خاتون سفیر کویت پر عراقی حملے سے سرکاری طور پہ عراق کی طرف سے اطلاع دیے جانے پہ حملے سے سے تین دن پہلے امریکہ واشنگٹن امریکی حکام سے ھدایات کے لئیے جاچکی تھیں۔ بلکہ کچھ حلقے اس میں یہاں تک اضافہ کرتے ہیں اور اس پہ شک کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بنتی، کہ کویت پہ قبضہ کرنے کی ترغیب صدام حسین کو امریکہ نے دی تھی۔ اور صدام حسین ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور اپنی ناعاقبت اندیشی سے امریکہ کے جال میں پھنس گیا ۔ اور یہ وہ نکتہِ آغاز تھا۔ جو عرب دنیا میں پھوٹ کا باعث بنا۔ اور امریکہ نے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اور جو لوگ انٹیلیجنس اور کاؤنٹر انٹیلیجنس اداروں کے طریقہ کار سے آگاہی رکھتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کی سازشیں اور مطلب برارایاں امریکہ اور دیگر کئی اقوام کے سازشی تانوں بانوں کا حصہ ہیں۔ اور یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی کہ صدام حسین نے ان ممالک کے باشندوں کو یرغمال بنایا ۔ جن کے بارے میں صدام حسین کو شک تھا کہ انہوں نے اسے دہوکہ دیا ہے۔ اور میں نے عراق کی دوسری بڑی جنگ کے بارے میں ان اسباب پہ روشنی ڈالی ہے ۔ کہ کسطرح حقیقت کا ادراک ہونے صدام حسین نے اپنے ملک پہ امریکن حملے کو کو ٹالنا چاہا ۔
نیز میں نے صدام کو ہیرو کا درجہ نہیں دیا اور یہ بھی واضح طور پہ لکھا ہے کہ صدام حسین امریکہ کا تخلیق کردہ تھا۔ اور صدام حسین ایک مطلق العنان ڈکٹیٹر تھا۔ مگر ایک وقت پہ امریکہ کے آمنے سامنے آ جانے پہ اور اپنی جان بہادری سے جان آفرین کے سپرد کرنے سے وہ قحط الرجالی کے اس موسم میں جب ساری مسلم دنیا قحط الرجال کا شکار ہے۔ مسلمانوں میں کوئی ایک آدہ بھی کرشماتی کردار کا مالک رہنماء نہیں ۔ صدام حسین کس طرح ایک ڈکٹیٹر سے مظلوم سربراہ قرار پایا ۔ البتہ میں صدام کی بہادری کی دادا دیتا ہوں کہ کھیل ختم ہونے پہ کسطرح اس بوڑھے انسان نے جس طرح کمال تحمل اور بہادری سے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنی جان دی۔ وہ لمحات میں نے ویڈیو پہ دیکھے ہیں۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں اس کے لئیے میں آج بھی مغموم ہوں۔
صدام کے دور کے عراق کی ترقی آپ اس دور کے عراق کے اعداوشمار باقی عرب دنیا سے موازنہ کر لیں آپ خود بخود ہی درست تسلیم کر لیں گے۔ ترقی سے مراد عام آدمی کی ترقی ہے اور اس میں شعیہ سنی کی کوئی تخصیص نہیں۔ آپ کو اعداو شمار نہ ملیں تو مجھے بتائیے گا میں انشاءاللہ مہیا کر دونگا۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
گوندل صاحب۔
سارے نو چھڈو نوازے نو لاو ۔
ذرداری اورجرنل کیانی نے تے سانو رسوا کرن دا ٹھیکہ لے رکھا۔ او تے ناسمجھ تے کم عقل نے ۔ نئے امریکی فارمولے تے عمل کرو۔ پاکستان دا تے صرف اک ہی خیر خواہ اور اودے کارکن حاجی پرویز جئے
اللہ پاکستان کی حفاظت کرنے والا ہے اور وہی اسے بچائے گا۔ بندوں پر بھروسہ مت کرو اپنے اعمال درست کروگے تو بچو گے ورنہ سویت یونین دی مثال بھی سامنے ہے۔ وہ بھی بھوکے اور ننگے ہو گئے تھے جب ہی انا نے باقی ریاستوں سے جان چھڑائی۔
مدایوں کے تماشے میں عقل ماعوف ہو جاتی ہے۔ طاقت کے نشے میں کئے گئے ہر فیصلے درست نہیں ہوتے۔ دیکھدے ہیں جسٹس کس غریب نو کتنے دنا وچ کنا انصاف دلواندا ہے۔ ان کو صرف ایک ٹاس دیا گیا اور دس پندرہ دنوں میں مذید سامنے اجائے گا۔ اس کے بعد کہاں جسٹس اور کہاں کا چیف ۔ ہر طرف پھر بلے بلے نوازا وزیر تے زرداری امیر عوام دی خیر ہی خیر ۔۔ بلے بلے بلے
Leave A Reply