آج امريکہ سميت پورے يورپ ميں مدر ڈے منايا جارہا ہے۔ يورپ ميں چونکہ مصروف اور مادي زندگي کي وجہ سے پہلے تو والدين کي اکثريت اپنے بچوں کو اٹھارہ سال کا ہوتے ہي گھر سے نکال ديتي ہے اور دوسرے ان کے ہاں ہماري طرح کا اجتماعي خانداني سسٹم نہيں ہے۔ چونکہ يہاں ہر فيملي کے اوسظاٌ دو بچے ہوتے ہيں ناں کہ ہماري طرح چھ سے دس تک۔ اسلۓ ان کے پاس بچوں سے توقع کي مقدار بھي ہماري نسبت کم ہوتي ہے۔ والدين بوڑھے ہونے تک کام کرتے رہتے ہيں اور ريٹائرمنٹ کيلۓ بھي جمع پونچي ان کے پاس ہوتي ہے اور وہ اسي رقم سے اپني عمر کا آخري حصہ ايک اچھي سي بلڈنگ کے ايک اچھے سے اپارٹمنٹ ميں گزار ديتے ہيں۔ جن کے پاس جمع پونجي نہ ہو وہ سرکاري نرسنگ ہومز ميں چلے جاتے ہيں جہاں پر حکومت ان کے گزر بسر کا بندوبست کرتي ہے۔ اس دوران اگر بچوں کو فرصت ملے تو وہ کبھي کبھار اپنے والدين کو ملنے آجاتے ہیں۔ يہاں کے والدين کيلۓ وہ دن عيد سے کم نہيں ہوتا جس دن ان کي اولاد ان سے ملنے آتي ہے يا فون پر بات کرتي ہے يا پھر کسي تہوار پر کارڈ ڈالتے ہيں۔ ان محروميوں کو کم کرنے کيلۓ انہوں نے مدر ڈے اور فادر ڈے متعارف کرواۓ ہوۓ ہيں۔ ان دنوں کے منانے کي ايک وجہ تو والدين کي اہميت کو اجاگرکرنا ہوتا ہے اور دوسرا کمرشل ازم بھي ہے۔ اسي کمرشل ازم کي وجہ سے ان کے کاروبار چلتے ہيں۔ کہتے ہيں مدر ڈے پر تقريباٌ ايک سو پچيس ملين کارڈ ارسال کۓ جاتے ہيں۔ ايک صاحب بتانے لگے کہ مدر ڈے اور فادر ڈے پر سب سے زيادہ کليکٹ کاليں ہوتي ہيں۔ کليکٹ کال کا مطلب ہے کہ کال ريسيو کرنے والے کو کال کے اخراجات ادا کرنا پڑتے ہيں۔ ليکن ان کالوں کے اخراجات دينے کے باوجود مائيں اپنے بچوں کي کاليں ريسيو کرکے خوش ہوتي ہيں۔
اب کچھ عرصے سے ہم نے بھي يورپ کي اندھا دھند تقليد ميں مدر ڈے، فادر ڈے اور ويلنٹائين ڈے منانا شروع کرديۓ ہيں۔ ابان دنوں ٹي وي پر سپيشل پروگرام نشر ہوتے ہيں اور اخباروں پ ميںمضامين چھپتے ہيں۔ يہاں تک کہ ٹيليفون پر لوگ ايک دوسرے کو مبارک بھي دے رہے ہوتے ہيں۔
ہمارے خيال ميں ہميں يورپ کي اندھا دھند تقليد کرنے کي بجاۓ پہلے ايسي نقالي پر غور کرنا چاہيۓ کہ ان تہواروں کے پيچھے کونسي اصل روح کارفرماں ہے۔ اور اس کے بعد اگر ہم نے ايسے دن منانے ہي ہيں تو پھر اپنے معاشرے اور اس کي روايات کو مدِ نظر رکھتے ہوۓ مخصوص دنوں کا اہتمام کرنا چاہيۓ۔
ہماري نظر ميں جس طرح يورپ ميں والدين کو نظر انداز کيۓ جانے کو وجہ سے مدر ڈے اور فادر ڈے منايا جاتا ہے اسي طرح ہميں بھي سوچنا چاہيۓ کہ ہمارے ہاں کن لولوں يا چيزوں کي اہميت اجاگر کرنے کي ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے ميں سب سے زيادہ محروم طبقوں ميں سے ايک مساجد کے امام ہيں۔ ہم ان کي نسبت سے امام ڈے منا سکتے ہيں۔اس دن ہم امام صاحب کے اعزاز ميں دعوت کر سکتے ہيں۔ ان کيلۓ تحفہ خريد سکتے ہيں يا پھر ان کي فيملي کيلۓ کچھ کر سکتے ہيں۔
اسي طرح ہمارے معاشرے ميں ذات پات کي بہت بڑي بيماري ہے۔ اس کو ختم کرنے کيلۓ ہم چھوٹي ذات والوں کا دن منا سکتے ہيں۔ اس دن ہم سب چھوٹي ذات والوں کو ان کي اہميت ياد دلائيں اور ان کو باور بھي کرائيں کہ ہم سب برابر ہيں اور کوئي چھوٹا بڑا نہيں ہے۔
ہماري پوليس کا عوام سے رابطہ بہت کمزور ہے اور ايک عام آدمي تھانے کے آگے سے گزرتے ہوۓ ڈرتا ہے۔ ہم پوليس ڈے منا سکتے ہيں جس دن لوگ تھانے کا چکر لگائيں پوليس والوں سے مليں اور ان کے اچھے کاموں کي داد ديں۔ اسي طرح پوليس والے بھي اس دن اچھے رويۓ کا مظاہرہ کريں اور لوگوں کو بتائيں کہ وہ بھي انہي کي طرح کے انسان ہيں۔
ہماري فوج بھي اپنے آپ کو ايک الگ مخلوق سمجھتي ہے اور ايک خاص سلوک کي معاشرے سے توقع رکھتي ہے۔ بار بار کے مارشل لا سے بھي فوج اور عوام ميں فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس فاصلے کو کم کرنےکيلۓ ہم فوج ڈے منا سکتے ہيں۔ اس دن فوجي اپني چھاونيوں کو عام پبلک کيلۓ کھول ديں تاکہ عوام ان کو قريب سے جان سکيں۔
ليکن ہم اس طرح کے دن نہيں منائيں گے کيونکہ اس طرح ہماري شان ميں کمي آجاۓ گي اور جو جاہ و جلال ہمارا عوام سے دور رہ کر ہے وہ ختم ہوجاۓ گا۔ ہم تو مغرب کي تقليد ميں پہلے مدر ڈے منائيں گے اور پھرايک دن نرسنگ ہومز بھي بنوانا شروع کرديں گے تاکہ گوروں کي طرح والدين کے بوڑھا ہوتے ہي ہم ان کو وہاں ڈمپ کر سکيں۔
13 users commented in " مدر ڈے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبہت خوب ۔ تجاويز بھی اچھی ہيں اور يہ بھی درست ہے کہ ہمارے لوغ انہيں نہيں اھنائيں گے ۔ وہ پہلے انگريز بننا چاہتے تھے اور اب امريکن بننے کے خواب ديکھ رہے ہيں ۔
تصحيح ۔ لوگ انہيں نہيں منائيں گے
مجھے سمجھ نہیں آتی جب ہم سب یہ سوچ سکتے ہیں تو عمل کیوں نہین؟
مغربی عوام سوچتے ہیں تو عمل بھی کرتے ہیں لیکن ہم کبھی کسی صحیح چیز کی تقلید نہیں کر سکتے۔۔
افضل صاحب، کل کو اگر میں وزیر اعظم ہوا (ہنستے ہوئے) تو آپ میرے مشیر خاص بیں گے، اگر میں بھی دوسروں کی طرح ملک و قوم کا بیوپاری نہ نکلہ تو۔۔
کسی اچھے کام یا عمل کے لئے کوئی دن مخصوص کرنا درست نہیں! ایسا ہر روز یا جب کبھی موقع ملے کر لو! ایسے دن کی ایک وجہ جیسے آپ نے بیان کر دی ان ماں باپ کی احساس محرومی کو دور کرنا ہے جن سے ان کی اولاد تعلق توڑ لیتی ہے (اب اس کی وجہ کوئی بھی ہو خواہ خود ضرورت کے وقت جب اولاد کو والدین کی ضرارت تھی تو وہ نہیں میسر تھے انہیں یوں ان میں وہ محبت کا رشتہ پروان نہ چل سکا یا کوئی اور۔۔۔) اور دوسرا کمرشل ازم۔۔۔
ہمارے ملک میں ابھی رشتوں کی سمجھ بوجھ باقی ہے کسی حد تک۔۔۔۔ مادہ پرستی آ تو گئی ہے مگر ابھی اس جن نے رشتوں کی پہچان کو اس قدر مسخ نہیں کیا۔۔۔۔
ماں!!!! کے بارے میں لکھنا بہت مشکل کام ہے! ایسے رشتے بیان سے باہر ہوتے ہیں!!! یہ دیکھ لیں کہ خود قرآن پاک میں جب اللہ تعالٰی بندے سے اپنی محبت بیان کرتا ہے تو فرماتا ہے کہ میں تمہیں ستر مائوں سے بھی ذیادہ پیار کرتا ہو!!!! جو رشتہ خود محبت کی پیمائش ہو اس کے رتبہ کا کیا کہنا!
میں تو اپنی ماں کو خدا مانتا ہوں وہ ہزاروں میل دور رہ کر بھی اپنی اولاد کا دکھ سکھ سمجھتی ہے ـ میرے تو خیالات ہی کچھ ایسے ہیں رزق دینے والی بھی ماں ہے اُسکے بچوں کی بھوک برداشت نہیں کرسکتی یہاں تک کہ وہ اپنا کلیجہ کاٹ کر اولاد کا پیٹ بھر دیتی ہے ـ ماں تو ماں ہے اور میری نظر میں اُسکی عظمت کا ثانی دوسرا کوئی نہیں ـ اگر اپنے ہی باپ کو قتل کردیں تو قانون سزا دیتا ہے جبکہ ماں اُسکا سہاگ اُجاڑنے والے بیٹے کو معاف کر دیتی ہے ـ ماں جیسی شخصیت دنیا میں کوئی نہیں اور مدرز ڈے کا اہتمام کرنا فیشن ہی نہیں بلکہ عقیدت بھی ہے ـ میں تو چاہتا ہوں روزانہ اپنی ماں کی عبادت کروں جس نے مجھے زندگی دی اور بہت کچھ دیا ـ
شعیب نے بالکل ٹھیک کہا ماں کی محبتوں کا صلہ کبھی نہیں دیا جا سکتا، اسی طرح شعیب صفدر نے بھی ٹھیک کہا کے ماں کی محبت کسی ایک دن کی محتاج نہیں۔۔ اولاد کے لیے ہر دن مدر ڈے اور ہر دن فادر ڈے ہونا چاہیے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
زمانه اب بھی نهیں ، جس كے سوز سے فارغ
میں جانتا هوں ، وه تش ترے وجود میں هے
تری دوا نه جنیوا میں هے ، نه لند ن میں
فرنگ كی رگ جاں پنجه یهود میں هے
سنا هے میں نے غلامی سے امتوں كی نجات
خودی كی پرورش و لذت نمود میں هے
Hum bohat khosh thay kal(guzra howa) hamari Ammi pahli baar hamaray paas aanay wali theen laikin kuch wajohaat ki bina per ab woh kal(aanay wala)insha Allah aain gi,14 ko hamaray batay nay bhi humain Pakistan say phone kerkay Happy Mother’s day Ammi, kaha to aankhon main aanso aagay phir hum nay hans ker kaha yeh to woh log manatay hain jo saal bher yeh naheen pochtay kay amaa zinda hay ya mergai to woh naraz ho ker bola mager humlog to aisay naheen hain bas aap ki yaad aai moqa bhi tha to dil chaha phone kerloon,(Allah tumhari omer daraaz keray beta or tumhain eeman ki dolat say malamaal keray,aameen)
Afzal Sahab aik sawaal aap say bachon ki tadad ka tawaqaat say bhala kia taluq hay?:)
آپ سب احباب کے شاندار تبصروں کا شکريہ۔
افشاں صاحبہ آپ کے سوال کا جواب يہ ہے کہ ہمارے ہاں يہ ايک سوچ ہے کہ اگر زيادہ بچے ہوۓ تو کوئي نہ کوئي بڑھاپے کا سہارا بن ہي جاۓگا۔ حالانکہ اس سوچ سے ہم اتفاق نہيں کرتے مگر لوگ اسي وجہ سے زيادہ بچے پيدا کرتے ہيں۔ پہلے جب پاکستان ميں بچوں کي اموات زيادہ ہوا کرتي تھيں تب بھي لوگ يہ سوچ کر بچے زيادہ پيدا کيا کرتے تھے کہ اگر دوچار فوت بھي ہوگۓ تب بھي کچھ نہ کچھ ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے کيلۓ بچ ہي جائيں گے۔
Laikin humara khayaal to yeh hay kay jis roh ko Allah nay bhejna hay woh aaker rahay gi,is ka sab say bara suboot to yeh hay kay ager yeh insan kay ikhtayaar ki baat hoti to hamaray bhi 2 say ziada bachay na hotay 🙂
hamara dosra khayaal yeh hay kay tawaqaat ka taluq tadaad say naheen hota balkay apni sonch say hota hay jo maan baap apni olaad kay liay ziada kertay hain woh olaad say bhi ziada ki tawaqaat baandh laytay hain or jo kam kertay hain unhain apni olaad say itni tawaqaat naheen hoteen waisay kabhi kabhi is ka ulat bhi hojatahay laikin bohat kam,
humnay apni zindagi ka ussol yeh banaya hay kay insano say koi tawaqaat na rakho pori na hoon to bari takleef hoti hay apni zimadarian ada kiay jaao or silay ki umeed sirf Allah say rakho kay Woh bahtreen sila denay wala hay 🙂
sab batoon say qata nazar yeh aap ki umda post main say aik post thi,Allah keray zore qalam or ziada:)
تاریخی اعتبار سے اس دن کا آغاز سن 1870ء میں ہوا جب جولیا وارڈ نامی عورت نے اپنی ماں کی یاد میں اس دن کو شروع کیا جولیا وارڈ اپنے عہد کی ایک ممتاز مصلح، شاعرہ، انسانی حقوق کی کارکن اور سوشل ورکر تھیں۔ بعد ازاں 1877ء کو امریکہ میں پہلا مدر ڈے منایا گیا۔ 1907ء میں امریکی ریاست فلاڈیفیا میں اینا ایم جاروس نامی سکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو منانے کی رسم کا آغاز کیا۔ اس نے اپنی ماں این ماریا ریویس کی یاد میں یہ دن منانے کی تحریک کو قومی سطح پر اجاگر کیا یوں ان کی ماں کی یاد میں باقاعدہ طور پر امریکہ میں اس دن کا آغاز ہوا۔ یہ تقریب امریکہ کے ایک چرچ میں ہوئی۔ اس موقع پر اس نے اپنی ماں کے پسنددیدہ پھول تقریب میں پیش کیے۔ اس تحریک پر اس وقت کے امریکی صدر وڈ رولسن نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد یہ دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے برطانیہ میں اس دن کو Mothering Sunday بھی کہا جاتا ہے۔ مغربی دنیا میں لوگ اپنی ماؤں کو تحائف پیش کرتے اور ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ یوں سال بھر بوڑھے والدین میں سے ماؤں کو اس دن کا انتظار رہتا ہے۔ امریکہ سمیت یورپ بھر میں بوڑھے والدین کو گھروں کی بجائے اولڈ ہومز میں رکھا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ اس دن اولڈ ہومز میں اپنی ماؤں سے ملاقات کرتے اور ان کو سرخ پھولوں کے تحائف پیش کرتے ہیں۔ جن لوگوں کی مائیں اس دنیا میں نہیں ہیں وہ سفید پھولوں کے ساتھ اپنی ماؤں کی قبروں پر جاتے اور وہاں یہ گلدستے سجاتے ہیں۔ ہر ملک میں مدر ڈے کو منانے کے لیے مختلف دن مختص ہیں تاہم امریکہ، ڈنمارک، فن لیند، ترکی، اسٹریلیا اور بیلجیم میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو ہی منایا جاتا ہے۔
Leave A Reply