جہاں تک ہم نے سن رکھا ہے نبی پاک صلعم کے دور میں جمعہ کے خطبے میں حالات حاضرہ اور مسلمانوں کی مجموعی حالت پر بات کی جاتی تھی یعنی یہ ایک قسم کا پالیسی بیان ہوتا تھا۔ اس سنت کی نقل امریکہ نے اس طرح کی کہ امریکہ کا صدر ہر ہفتے ریڈیو پر قوم سے مخاطب ہوتا ہے۔ ہمیں پاکستان کی مساجد میں جمعہ کے خطبے پر چند تحفظات ہیں اور ان میں سے اہم یہ ہے کہ خطبے میں حالات حاضرہ سے زیادہ قصے کہانیاں بیان کیے جاتے ہیں تا کہ لوگوں کے جذبات سے کھیل کر انہیں اپنی خطابت سے متاثر کیا جا سکے۔ اگر یہی خطبے عام پبلک کی تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات حاضرہ پر ہوں تو ملک میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ ہر خطیب کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے اور کیوں ساٹھ سال کے بعد بھی ہم غیرترقی یافتہ ہیں۔
اس دفعہ ہماری مسجد والوں نے ایک فائنانشل ایڈوائزر کو خطبہ کی دعوت دی۔ اس نے قرض اور اس سے چھٹکارے کیلیے قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک اہم بات عام سے انداز میں بیان کی۔
قرض کے نقصانات کا اندازہ ہم اس سے لگا سکتے ہیں کہ ہرمقروض ملک اس وقت دوسروں کے تابع زندگی گزار رہا ہے۔
خطیب نے بتایا کہ حدیث میں ہے کہ نبی پاک صلعم نے فرمایا کہ مقروض آدمی باتیں بہت کرتا ہے اور اسے جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ یعنی وہ قرض دینے والے کو ٹالتا رہتا ہے اور جھوٹے وعدے کرتا رہتا ہے۔
پھر یہ بتایا کہ ایک دفعہ نبی پاک صلعم نے مقروض کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا اور وہ قرض بھی صرف دو درہم تھا۔ جب ایک صحابی نے انہیں آکر بتایا کہ اس نے میت کا قرض ادا کر دیا ہے تو پھر آپ نے فرمایا کہ اب میت کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔
ایک حدیث سنائی جس میں ایک صحابی نے نبی پاک صلعم سے پوچھا کہ وہ بہت پریشان رہتا ہے۔ آپ نے کہا کہ تم قرض اتار دو، تمہاری پریشانی دور ہو جائے گی۔
اسی طرح نبی پاک صلعم نے فرمایا جس نے حلال طریقے سے کمایا، حلال طریقے سے خرچ کیا اور مستقبل کیلیے بچا کر رکھا وہ بخشا جائے گا۔ بچت کے بارے میں خطیب نے ایک اور واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام کا سنایا۔ انہوں نے خوشحالی کے سات سالوں میں بچت کی جو اگلے قحط کے سات سالوں میں کام آئی۔
خطیب کی یہ بات بھی دل کو لگی کہ جب ہم دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں غیب سے مدد عطا فرما تا کہ ہم قرض اتار سکیں۔ اللہ ان کی دعا قبول کرتے ہوئے ان کی مدد کرتا ہے مگر قرض سے پھر بھی جان نہیں چھوٹتی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مقروض قرض اتارنے کی بجائے اللہ کی مدد سامان تعیش پر خرچ کر دیتا ہے۔
ان باتوں سے ثابت ہوا کہ بچت سکیمیں جو آجکل ہر بینک نے شروع کی ہوئِی ہیں ان کے پیچھے اسلام کی روح کارفرما ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ بینکوں کی قرض کی سکیمیں اپنی اصل ذر کی حفاظت کیلیے سود پر چلتی ہیں۔
6 users commented in " قرض "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاللہ سبحان و تعالٰی پاکستان سمیت ہر کسے و ناکسے کو قرض سے نجات دلائے۔آمین
اقتباس۔۔۔
قرض کے نقصانات کا اندازہ ہم اس سے لگا سکتے ہیں کہ ہرمقروض ملک اس وقت دوسروں کے تابع زندگی گزار رہا ہے۔
۔۔۔۔
اس لسٹ کے مطابق اصل صورت حال اس کے برعکس ہے۔۔
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_countries_by_external_debt
کچھ اعدادوشمار ہوسکتا ہے مختلف ہوں لیکن ایک آدھ سال میں ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہوگی۔
شاید ہر ملک جو قرض لیتا ہے اور اس کو درست استعمال نہیں کرتا وہ دوسروں کے تابع ہے۔۔۔
راشد صاحب
آپ نے درست کہا اور وہی بات ہوئی کہ قرض اتارنے کی دعا کی طرح اگر قرض ٹھیک طرح سے استعمال کیا تو ٹھیک وگرنہ تابع۔
یہاںہمارا مطلب دراصل غریب ممالک تھے۔ ریکارڈ کی درستگی کا شکریہ۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ افضل صاحب!
اگر آپ والے مسجد کا جمعہ کا خطبہ اونلائن میں دستیاب ہوتو بتادیں۔ ہم بھی اس خطبہ کو سننا اور قرض سے بچنے کی تدابیر جاننا چاہتے ہیں۔ شکریۃ۔
جناب، افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ خطبہ آن لائن نہیںہے۔ ویسے آپ قرض سے بچنے کی تدابیر آن لائن آسانی سے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ سب سے بہتر تو یہی ہے کہ قناعت میںرہا جائے اور دوسرے راشد کامران کے بقول قرض وہی لیا جائے جسے بہتر طور پر استعمال کرنے کا ارادہ ہو تا کہ اسے واپس کرنے کی کوئی سبیل بن سکے۔
یہاں (کم از کم کراچی میں) یہ تبدیل ہوتا ہوا رحجان دیکھا جا سکتا ہے کہ اب مساجد میں خطبۂ جمعہ تازہ ترین موضوعات پر دیا جاتا ہے۔ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گفتگو ہوتی ہے، ہمارے مسائل کا حل، حقوق العباد اور وہ موضوعات جن پر پہلے بہت کم خطبے دیے جاتے تھے۔ ابھی گزشتہ دنوں کراچی میں حالات خراب ہونے کے بعد ہمارے محلے کے امام مسجد نے “انما المؤمنون اخوۃ” پر بہت شاندار خطبہ دیا۔ پھر گزشتہ ہفتے سوات صورتحال پر ایک جاندار قسم کا خطبہ ہمارے دفتر کی قریبی مسجد میں دیا گیا۔
اب لگ رہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ تبدیلی کی ایک کروٹ لے رہا ہے جس کے اثرات ہر شعبہ زندگی میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے کہ وہ تبدیلی کو مثبت راستے پر رواں کرے۔
دوسری بات میرے بلاگ کا نیا ربط اپ ڈیٹ کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
Leave A Reply