حکومت نے غیروں کے کہنے پر مالی فائدے کیلیے سوات میں جو جنگ چھیڑی ہے وہ شاید جلد ختم نہ ہو سکے اور اگر ختم ہوئی تو مک مکا پر ہو گی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
حکومت نہیں چاہے گی کہ جنگ جلد ختم ہو کیونکہ اسی سے اس کی روزی روٹی چلنی ہے۔
جنگ اگر ختم ہو گئی تو حکومت بھکاری کے اپاہج بچے کی طرح نقل مکانی کرنے والوں کا واسطہ دے کر بھیک کیسے مانگے گی۔
غیر بھی نہیں چاہیں گے کہ جنگ جلد ختم ہو کیونکہ اس طرح پاکستان غیر مستحکم رہے گا۔
بھارت بھی چاہے گا کہ جنگ کبھی ختم نہ ہو کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ہماری فوج دوبارہ اس کے بارڈر پر تعینات کر دی جائے۔
اگر اتحادی آٹھ سال میں افغانستان فتح نہیں کر سکے تو ہماری افواج اپنے علاقوں کو دس پندرہ روز میں کیسے فتح کر پائیں گی کیونکہ یہاں بھی اسی نسل کے لوگ رہتے ہیں جو اتحادیوں کیخلاف لڑ رہے ہیں۔
اس جنگ میں نہ ہماری افواج کو فتح ہو گی اور نہ طالبان کو شکست، نقصان ہو گا تو بیچارے نقل مکانی کرنے والے سواتیوں کا جو پتہ نہیں کب اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا جنگ سے طالبان کا خاتمہ ہو جائے گا؟ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کبھی نہیں۔ انڈیا اپنے علاقوں سے اگر کشمیر، آسام اور تامل کی جنگ نہیں جیت سکا تو پھر پاکستان کیسے یہ جنگ جیت لے گا۔
ہم لوگ بیوقوف ہیں جو پچھلے سو سال کی تاریخ سے بھی سبق نہیں سیکھ سکے۔ امریکہ ویتنام فتح نہ کر سکا، انگلینڈ آئرلینڈ سے باغیوں پر کنٹرول حاصل نہ کر سکا، مغربی جرمنی مشرقی جرمنی کو طاقت سے نہ دبا سکا، بھارت کشمیر کی آزادی کی تحریک کو ختم نہیں کر سکا، اسرائیل غزہ کو قابو نہ کر سکا تو پھر ہماری افواج کیسے سمجھتی ہیں کہ وہ شمالی علاقوں اور بلوچستان کو بندوق سے فتح کر لیں گی۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ان علاقوں پر فوج کشی کی گئی ہے اس سے پہلے بھی کئی حکمرانوں نے فوج کشی کی اور نسلوں کی نسلیں اڑا دیں مگر وہ مذہب کو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال سکے۔ یہ بحث الگ ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں کا مذہب ہماری نظر میں ٹھیک ہے یا غلط مگر ایسے لوگوں کو مذاکرات سے راہ راست پر لانا جنگ کی نسبت زیادہ آسان تھا اور ہے۔ یہ جنگ ختم ہو سکتی ہے اگر بندوق کی بجائے زبان کی شیرینی سے کام لیا جائے۔ تمام مذہبی رہنما سواتیوں سے ملیں اور ان کی سنیں۔ اسی طرح حکومت کو بھی چاہیے کہ بندوق نیچے رکھے اور مذاکرات دوبارہ بحال کرے۔
جنگ شارٹ کٹ ہوتا ہے مسائل حل کرنے کا مگر اکثر یہ حل ناکام رہتا ہے۔ اصل حل یہی ہے کہ لوگوں کے دلوں کو میڈیا اور تعلیم میں تبدیلی سے بدلا جائے۔ جس طرح پاکستان کے باقی عوام کی سوچ کو بدلنے کیلیے میڈیا اور تعلیم پر اتحادی بے پناہ خرچ کر رہے ہیں یہی کام وہ شمالی علاقوں میں بھی کر سکتے ہیں مگر وہ فی الحال یہ کرنا نہیں چاہتے کیونکہ ابھی انہیں پاکستان میں استحکام نہیں چاہیے۔ یہی ان کا مشن ہے جس کا ایندھن ہم خود بنے ہوئے ہیں۔
ہم کیا اکثر پاکستانی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں ہے۔ نہ ڈرون ہمارے ہیں اور نہ توپیں، ہیلی کاپٹر اور ٹینک۔ ڈرون اتحادی خود چلا رہے ہیں تا کہ ان کا جانی نقصان نہ ہو، باقی ہتھیار ہم چلا رہے ہیں کیونکہ ہمارا جانی نقصان اتحادیوں کا جانی نقصان نہیں ہے۔
خدارا یہیں پر جنگ بندی کیجئے اور اپنوں سے مذاکرات کیجیے۔ اگر آپ بھارت سے اپنے علاقے واپس لینے کیلیے تاشقند کا معاہدہ کر کے اپنے پانیوں سے محروم ہو سکتے ہیں، فوجیوں کی واپسی کیلیے شملہ معاہدہ کر کے کشمیر کے ایشو سے دستبردار ہو سکتے ہیں تو پھر اپنوں کیساتھ مذاکرات کرنے میں کیا برائی ہے؟
12 users commented in " نہ ختم ہونے والی جنگ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجنوبی کوریا نے کب شمالی کوریا پر حملہ کیا تھا؟
افضل بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے ہی کاٹنے کے درپے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند ایک کے سوا کم و بیش تمام اردو بلاگرز اس اہم مسئلے کو مسلسل جان بوجھ کر نظرانداز کر رہے ہیں۔۔۔۔۔معزز ہمعصر بلاگرز حکومتی پراپیگنڈہ کا نہ صرف خود شکار رہے ہیں بلکہ دوسروں کو کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان سب کی سابقہ تحریریں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے خوشی ہے کہ آپ نے حقائق کا صحیح ادراک کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس اہم مسئلے پر آپ کو ابھی بہت کم احباب کی تائید ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن مندرجہ بالا خدشات کو وقت لازمی ثابت کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت مہنگا کیا ہے ہم نے سودا
حمیت بیچ دی ڈالر کے بدلے
جو گھر بھی بک گیا تو کیا کریں گے؟؟؟
بھری تو ہے تجوری گھر کے بدلے
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلزار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
کاش کہ یہ جنگ کسی ہار جیت کے کلیے پر عمل پیرا ہو کر کھیلی جا رہی ہوتی، تو شاید کوئی تو نتیجہ نکلتا ناں! عذاب در عذاب آتے چلے آ رہے ہیں جی، اب یہ اور بات ہے کہ کوئی حکومت، تو کوئی پیسہ، کوئی مفادات، تو کوئی علاقائی امن، کوئی خطے کا“دارا“ بننے کو بے چین تو کوئی اپنے جنگی کھلونے بیچنے کو لڑرہا ہے جنگ۔ اب اس سب کے لیے مذہب سے بہتر میدان اور پاکستانیوںاور افغانیوںکے سینوںسے بہتر کونسے حالات اور مقامات ہو سکتے ہیں۔ بس ڈر یہ ہے اس سب ڈگڈگی تماشے میںکیا ہو گا، “میرے پاکستان“ کا اور “میرے پاکستانیوں“کا؟
آجکل میڈیا خدا بنا ھوا ہے۔ جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہ میڈیا سے ضرور ڈرتا ہے۔
ابھی کچہ دن پہلے ایک کسان نے احتجاجا“ بھوک ہڑتال کرکے اپنی جان دیدی۔ اسکے مرنے تک نا صدر کو خیال آیا نا سندۃ کے گورنر کو۔ جب بیچارہ پریس کلب کے سامنے مرگیا تو صدر صاحب نے بھی ایک بیان جاری کردیا اور چوھدری افتخار نے بھی۔
http://zagtalk.surferzag.com/?p=701
یہ پرھیے آپ کے رونگتے کھڑے ھہجاینگے۔
دوستوں سلام۔
مسلمان کابے جاخون بہے تو مسلمان بھائی کو ملال ہوگا۔ سوال ہے بے جا خون دا۔
یاروں تی لوگی بڑے بھولے ہو۔ تساں بھی حد کر دی تی ہے۔ وہ ساڈے جواناں دے گلے کٹاں اور اسی انادے نال مک مکاؤ کرئے۔
ٹف ہے ساڈی غیرت تے، آو بے غیرت نہ مسلمان ہیں نہ ہی انسان، او درندے نے نیرے درندے۔ انادے اپنے ٹارگیٹ نے ، وہ مسلماں دا روپ ڈھار کے رشین مفادات دا کام پیسے لیکر کر رہے نے۔
افسوس تے اس گل دا بھی ہے کہ کل امیرکہ دا نال مل کر تسی بڑے خوشی نال افغانستان تے وچ لڑ تے سی آج توڈی عقلوں نو کی ہویا۔
بھائہ اے وار لاڈ نے انا پیسہ امریکہ توں بند ہو گیا اس لیے انا نے رشیا، انڈیا تے اسرائیل نا مک مکاؤ کرلیا ہے۔
اور تسی جلدی جلدی مارے خوف دے انا دے نال مک مکاؤ کرلو کیونکہ تواڈی موت اپنے وقت پے تے نہیں انی ہے انا دے لڑو گے تے مارے جاؤ گے۔
چوھدری حشمت ،
چوری صاب، تو ہماری فوج کو کہاں سے پیسہ ملتا ہے؟
یہ امداد کے نام پے دلالی کا پیسہ نہیں ہے تو کیا ہے؟
اور ہمارے میڈیا کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آگیا کہ چتو چتو صحافی بھی مہینہ کے لاکھ لاکھ روپے کماتے ہیں؟
ھمارا میڈیا ہی سب سے بڑا دشمن ہے۔ حکومت کو پہلے آپریشن کرنے پر اکساتے ہیں اور پھر پارسا بن جاتے ہیں۔
جن لوگوں کا مقصد پیسہ کمانا ھوتا ہے وہ پہاڑوں میں نہیں اسلام آباد کے محلوں میں رھتے ہیں اور نام نہاد پاکستان کی وفا کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔
ھماری قوم سادہ لوح قوم ہے، تھوڑی جزباتی ویڈیو دکھا دو اور دو تین جھوٹی کہانیاں سنا دو، بس پھر یہ قوم بھول جاتی ہے، کہ ھمارے رہزن کون ہیں، ڈاکو کون ہیں، قوم کو کون لوٹ رھا ہے اور ساتھ ساتھ تھوک لگا رھا ہے۔
آج فوج ان کو مار رہی ہے، کل وہ بدلہ لیں گے، پھر فوج انہیں ماریگی، پھر وہ بدلہ لیں گے۔
نتیجہ کیا ھوگا؟ ہم ہی لہولہان ھونگے، اور دوسری قومیں ھمیں دیکھیں گی اور ہنسیں گی۔ اور پوری دنیا میں ھمارا یونہی تماشہ بنتا رہیگا۔
زیک صاحب
ہمارا اشارہ کورین وار کی طرف تھا جس میں شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر چڑھائی کر دی تھی۔ دراصل الفاظ الٹے لکھے گئے۔ ہم نے سوچا بہتر یہی ہے کہ اس مثال کو حذف ہی کر دیں۔ ہمیشہ کی طرح تصیح کا شکریہ۔
واقعی منافقت اس کو نہیں تو اور کس کو کہتے ہیں آج میڈیا وہ نہیں دکھا اور سنا رہا جو ہم دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں تو برا ہے اور جو کہ رہا ہے وہ سب جھوٹ ہے اور 80 90 کی دہائی میں جب ساری دنیا جانتی تھی کہ میڈیا صرف سرکاری اور ایجینسیوں کی زبان بولتا تھا تو اس وقت کا کہا ہوا آج بھی قرآن اور حدیث سمجھا جاتا ہے،
جو کچھ صوبہ سرحد میں ہورہا ہے اس کو سمجھنے کے لیئے حسن بن صباح کی داستان پڑھ لیں سب سمجھ آجائے گا وہ بھی دین کے نام پر سب کچھ کرتا تھااور دوسروں کو کافر کہ کر اپنے پیروکاروں سے قتل کرواتا تھا اس میں صرف حکمراں ہی نہیں بڑے بڑے دین کے عالم بھی شامل تھے،
نیم حکیم خطرہ جان
نیم ملا خطرہ ایمان
عبداللہ صاحب نے حسن بن صباح اور انکے ساتھ علماء کا بھی ذرا یہ بھی بتا دیتے کہ حسن بن صباح کون تھا اور اسکے ساتھ کون سے علماء تھے؟ افسوس صد افسوس کہ لوگ ایمان میں اتنے گئے گزرے ہوگئے کہ مرتدوں اور منافقوں کا نام لیتے درتے ہیں
Leave A Reply