اس وقت عوام کے مسائل کو اگر دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ انقلاب آیا کہ بس آیا۔ لیکن اگر دوسری طرف عوام کے صبر کو ناپا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ انقلاب ابھی بہت دور ہے۔
جب تک لوگ
بجلی کی لوڈشیڈنگ بارہ بارہ گھنٹے برداشت کر سکتے ہیں
رشوت دیتے ہوئے جہنم سے نہیں ڈرتے
پیدل چلنے والے شخص کو کچلنے والے ڈرائیور کو نہیں پکڑسکتے
تعلیم کے دوہرے معیار کیخلاف آواز بلند نہیں کرسکتے
چوہڑے اور چوہدری کے درمیان برہمن اور شودر والا فرق برقرار رکھتے ہیں
حکمرانوں کے مظالم خدا کا لکھا سمجھ کر برداشت کرسکتے ہیں
کسی بھی پبلک مقام پر لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار نہیں کر سکتے
اپنے گلی محلوں کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے
امام مسجد اور استاد کو اس کا جائز مقام نہیں دیتے
محلے کے بدمعاش کیخلاف اجتماعی طاقت استعمال نہیں کرتے
تب تک انقلاب کے بارے میں سوچنا ہی بیکار ہے۔
13 users commented in " انقلاب ابھی بہت دور ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکاہے کا انقلاب صاحب، جہاںاپنے مہاجر ہم وطنوںکی امداد کے نام پر عام شہریوںکو لوٹنے جیسی عادت ہو، وہاںکاہے کا انقلاب!!!!!!!!!!!!۔
صاحب کاہے کا انقلاب، ایسا بھی ہوا ہے کبھی؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تب تک انقلاب کے بارے میں سوچنا ہی بیکار ہے۔
محترم افضل صاحب!
واقعی انقلاب کے بارے میں نہیں سوچنا چاھئیے۔انقلاب صدیوں کی روایات کو دنوں میں ہضم کر جاتا ہے۔ بڑے بڑوں کا دامن بیچ چوراھے میں تار تار ہوجاتا ہے۔ ھزاروں انسانوں کو نگل جاتا ہے۔ لاکھوں کہانیوں کو جنم دے جاتا ہے۔انقلاب نیچے سے اوپر کو اٹھتا ہے ۔ عوام سے خواص کو گھیرتا ہے ۔ یہ بڑا تیز ی اور سرعت سے پھیلتا ہے۔ انقلاب کے سامنے ہر دلیل۔ ہر منطق ناکام ہوجاتی ہے۔ اکثر اوقات فائدہ کم اور خون زیادہ بہتا ہے۔ مگر پسے اور مجبور و بے بس لوگوں کو غلامی سے نکال کر آزادی کے نشے سے سرشار کرجاتا ہے۔ اور صدیوں نہ بدلنے والے معاشرے ، مہینوں میں ایک مختلف اور نیا رنگ و روپ اپنا لیتے ہیں۔ بسا اوقات یہ تبدیلی بہت مہنگی پڑتی ہے۔
تاہم ایک طریقہ اور بھی ہے ۔ اصلاحات۔ کسی بھی معاشرے کو سدھارنے اور درست کرنے کے لئیے امن پسند قومیں، جب اپنے اہداف مقرر کر لیتی ہیں۔ تو پھر دیانتداری سے اس پہ کاربند ہو جاتی ہیں۔
اصلاحات بہت آہستہ آہستہ، رفتہ رفتہ اپنا ثمر دیتی ہیں اور مکمل پھل پانے کے لئیے پچیس تیس سال لگ جاتے ہیں۔ اور وہ بھی اس شرط پہ کہ اس دوارن سب حکومتیں ان اصلاحات پہ متواتر عمل درآمد کرتی رہیں۔ اور اصلاحات کا سفر اور ثمر اوپر سے نیچے۔ خواص سے عوام تک پہنچتا ہے۔
اس کی ایک تازہ مثال اسپین ہے۔ اس ملک نے انیس سو چھتیس سے انیس سو انتالیس تک تباہکن خانہ جنگی لڑی ۔ پھر دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ اس دوران اور بعد میں اسپین نے انیس سو چھتیس سے لیکر انیس سو چوہتر تک بدنام زمانہ ڈکٹیٹر جرنل فرانکو کو بھگتا ہے۔ آزادیاں سلب تھیں ۔ ڈکٹیٹر کا فرمان قانون تھا۔ معمولی معمولی بات پہ گروہ در گروہ لوگوں کو گولیاں ماری گئیں۔ گاؤں کے گاؤں اجتماعی قبروں میں دفنا دئیے گئیے درجنوں لاکھوں لوگ دوسرے ملکوں میں پناھ گزین ہوئے۔ لاکھوں لاوارث بچے جن کے مان باپ خانہ جنگی میں مارے گئے۔ روس اور لاطینی امریکہ میں یتیم خانوں میں پلے وہیں جوان ہوئے اور بوڑھے ہوئے ۔ اور جب انیس سو چوہتر میں جرنل فرانکو مرا تو اگنت داستانیں تھیں ۔ سوسائٹی دو بڑے حصوں فرانکو کی حمایت اور مخالفت میں بٹی ہوئی تھی۔ اسپین باقی ماندہ یوروپ سے کئی دہائی پیچھے تھا۔معاشرہ یوروپ کے مقابلے میں انتہائی پسماندہ تھا۔ باسک، اسپین سے علیحدگی کی جنگ لڑ رہے تھے ۔ قتئلونیہ میں اسپین علیحدگی کا رحجان قتئلان ہونے کی پرکھ اور کسوٹی تھا۔ اور پورا قتئلونیہ میں علیحدگی پسند چھائے ہوئے تھے۔ اور عام خیال تھا کہ اسپین میں پھر ایک دوسری بڑی خانہ جنگی ہو گی۔ تب سینے سلگ رہے تھے۔ انتقام انتقام کی پکار تھی۔ مگر اس دور کے سب سیاستدانوں نے۔ وہ جو ملک کے اندر تھے یا جو ہمیشہ سے جلاوطنی میں رہ رہے تھے۔ کیمونسٹ۔ سوشلسٹ ۔ بائیں بازو کی تمام قوتیں اور دائیں بازو کی تمام سیاسی پارٹیوں نے ایک لائمہ عمل تیار کیا کہ ہمیں اپنے ملک اسپین کو بچانا ہے۔ اور مزید خون خرابے کو ہر صورت روکنا ہے۔ سب نے مل جل کر ایک آئین بنایا۔ اور اس پہ ڈٹ گئے ۔
اس دوران فوجی بغاوتیں ہوئیں فرانکو کی باقیات نے بارہا بارہا سازشیں کیں ۔ اور فرانکو کی باقیات سب حکومتی مشینری پہ حاوی تھیں۔ مگر ہسپانوی سیاستدانوں نے بڑے تحمل اور برداشت سے سب کچھ جھیلا اور برداشت کیا۔ رفتہ رفتہ ساری مشینری کو فرانکو کی باقیات سے ۔ انکی پنشن کی عمروں پہ پنشنیں دے کر گھر بیجھا ۔ بہت سی اصلاحات کیں اور تیس سال سے کم عمر آج کا اسپینش اپنے آپ کو کسی طرح بھی باقی یوروپین سے کم نہیں پاتا۔ خواہ وہ حکومتی مشینری ہو۔ یا عام ادارے ۔ ہر کوئی ایک دوسرے کا احترام کرتا ہے اور فرانکو اور اس کی باقیات کو صرف درسی کتابوں کی وجہ سے جانتا ہے۔ اور دائیں اور بائیں بازو کی خوفناک تقسیم کب کی دفن ہوچکی ہے۔
افضل صاحب !
کیا پاکستان کے سیاستدانوں اور اشرافیہ کے پاس اصلاحات کا کوئی منصوبہ ہے۔؟ اگر تو آپ کا جواب نفی میں ہے تو پھر پاکستان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال اور اقلیتی مقتدر طبقے اور اکژیتی غیر عوام کے طبقے کے درمیان قوت خرید کا خوفناک سمندر جیسا فرق انقلاب کا رستہ دیکھ رہا ہے
ہماری قوم میں انقلاب کی بات تو ایسے ہی ہے کہ اندھا گلے کاڑھنے لگے
سب کیلئے ہے نہ کہ کسی ایک کو مخاطب کیا ہو
یہ اردو میں بولا جانے والا لفظ انقلاب فارسی کا ہے
کیا نبی اور صحابہ کے دور میں بھی ایسا کوئی لفظ بولا گیا؟ جیسا کہ فاضل جاوید صاحب نے بتایا کہ انقلاب آئے گا تو خون ہوگا یہ ہوگا وہ ہوگا، تو کیا ایسے کاموں سے بہتری آئے گی؟ کیا کافر کا مسئلہ تو روٹی کی تقسیم ہے، اور انقلاب کے بعد کون سا فرانس یا اسپین میں سب ایک سی کھاتے ہیں
اسلام جس تبدیلی اور کامیابی کی بات کرتا ہے وہ اکائی کی تبدیلی ہے کہ محنت کرکے لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کیا جائے انکو ایک اللہ اور رسول کی دعوت پر لایا جائے
اگر یہ عمل سے محروم عوام کھڑی ہو کر سب ظالوموں کو قتل بھی کر دالے تو کیا اس کے بعد سب اللہ سے ڈرنے والے اور باعمل بان جائیں گے؟ کیا منافق، مرتد رافضی اور قادیانی اپنے شیطانی کاموں سے توبہ کرکے کافروں کا راستہ ہموار کرنا بند کر دیں گے؟ نہیں نہیں
اپنی اپنی ہانکنے سے بہتر ہے کہ قرآن اور حدیث سے جواب تلاش کرو اور پہلے اتنا زرہ برابر ایمان دل میں بنا لو کہ جو تلاش کرو وہ سمجھ بھی آنے لگے ورنہ کیڑے نکالتے رہو گے اور بنی اسرائیل کی طرح اگر مگر کرنے لگو گے
اللہ کے عزاب کے خلاف کون سا انقلاب لانے لگے ہو؟اگر آج کوئی صحابی اللہ زندہ کردے تو لوگ اسکو دقیانوس، ان پڑھ اور دہشت گرد کہیں گے، کیا آپ نہیں؟ بلکل
عمل سے زنگی بنتی ہے
اسلام وہی ہے جس کو بنی نے بتایا اور صحابہ نے عمل کر کے دکھایا، باقی جو ہے بس فتنہ ہے
تو طے کرلو اس راستے پر ہو یا نہیں ہو اور اس راستے پر ہو تو لوگوں کو بھی عمل کی دعوت دو اور اللہ سے مدد مانگو
اگر صحابہ سے بغض ہے انکار ہے تو الگ ہو اپنا کام اپنے الگ نام سے کرو ، کھل کر سامنے آؤ اور مسلمانوں کو اپنا عمل درست کرنے دو اور اپنا بندوبست کرنے دو
مگر ایسا ہوگا نہیں، وہی منافقت چلتی رہے گی اور اس سےاصلاح کا کام سست ہوتا رہے گا
کیا اللہ پاک نے آپکا مسئلہ روٹی بتایا ہے؟اللہ تو کہتا ہے رزق تم کو ہم دیں گے
اے ایمان والو ایمان لاؤ ( القراں)۔
انقلاب ایک بُری چیز ہے ۔ اس کا موجد اللہ پر یقین نہ رکھنے والون سے پیدا ہوتا رہا ہے اور ہر انقلاب تباہی و بربادی لے کر آیا ہے ۔ یہ بات ہے اس انقلاب کی جو سب دنیا جانتی ہے ۔ اس انقلاب کا تعلق فقط جسم اور اس کی ضروریات سے ہوتا ہے
اچھے لوگ بھی انقلاب لاتے ہیں لیکن وہ انقلاب سوچ کا ہوتا ہے جس میں کوئی جون خرابہ نہیں ہوتا نہ کھینچا تانی ہوتی ہے ۔ اس انقلاب کیلئے سب سے پہلے اپنے کردار کو مثال بنانا پرتا ہے اور پھر دوسروں کو اپنے اطمینان کی وجہ بتا کر مائل کرنا ہوتا ہے ۔ ایسے انقلاب کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے ۔ اس میں مادیت کا عنصر نہیں ہوتا صرف انسانیت کا سبق ہوتا ہے
دورِ حاضر میں جہاں ایک طرف لوگ مادیت کی طرف بہت راغب ہیں وہیں ایسے جوان پیدا ہو رہے ہیں جو دنیاوی علم رکھتے ہوئے انسانیت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ ان شاء اللہ ہمارے ملک میں سوچ کا انقلاب آئے گا
محترم احمد صاحب!
غالباً میں اپنی بات درست طریقے سے بیان نہیں کرسکا۔
1)۔: انقلاب بہت مہنگے ہوتے ہیں۔
2)۔: معاشرتی استحکام کے لئیے اصلاحات ایک جائز اور درست طریقہ ہے۔
3)۔:معاشرتی اصلاحات انسانی ضمیر تعمیر کرتی ہیں۔ اور عام عوام میں برداشت کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کی بات سننے، اپنا اپنا مافی الضمیر بیان کرنے اور سمجھنے کی عادت پڑتی ہے۔ اور نتیجے میں اچھے فیصلوں پہ پہنچنےمیں مدد ملتی ہے۔4)۔: اصلاحات نام ہی اکائی اور اجتماعی تربیت اور تبدیلی کا ہے۔ جب کسی قوم یا ملک کا ذکر کیا جاتا ہے تو مقصڈ ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ہم بھی سو فیصد انھیٰ کی طرح معاشرے کی تبدیلی کے لئیے معاشرے کی اصلاح کریں۔ کیونکہ ہر معاشرے میں سوسائٹی ڈیمانڈز مختلف ہوتی ہیں۔
5)۔: چین اور پاکستان کی آزادی میں ہم عصری کے باعث جس طرح چین کی ترقی کی مثال دی جاتی، تو اس کامطلب یہ نہیں کہ ہمیں بھی بعین چین کی طرح کا نظام اپنانا چاھئیے۔ یا تب کے اسپین کے حالات ہمارے آج کے پاکستان سے ملتے جلتے ہیں۔ اس لئیے اسپین کی مثال دی ہے۔ اور یہ ظاہری سی بات ہے کہ پاکستان میں قانون و قاعدے اسلام کے مطابق ہوں گے اور اکائی یا اجتماعی تربیت اسلامی اخلاق اور کردار کی حامل ہوگی۔ کیونکہ یہاں مسلمان بستے ہیں اور مسلمانوں نے یہ ملک صرف اور صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ، اسلام کی خاطر حاصل کیا۔ ہندؤستان پہ مطلق العنان باشاہتیں ہونے اور بہٹ بڑی اکثریت کے غیر مسلم ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے دل میں اپنے مسلم تشخص کی تڑپ تو تھی۔ مگر یہ تڑپ مسلم کردار میں نہ بدل سکی۔ اور ہم بہ حثیت مسلمان قوم اپنا احتساب کرنے اور مسلم اخلاق اپنانے۔ ایک دوسرے کی عزت کرنے اور کرانے ، او درست مسلمان بننے سے باز رہے۔ اور آج اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
اور ابھی بھی یہ اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں مگر اس کے لئیے انقلاب نہیں اصلاحات سے کام لیکر معاشرے کا بگاڑ درست کر نے اور سوسائٹی میں استحکام پیدا کرنے کے بعد اچھی امیدیں رکھ سکتے ہیں۔ اور عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لئیے یہ بہت ضروری ہے۔ جب تک عامآدمی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہونگے تب تک عام آدمی اسلام، ملک، ملت سے واجبی سی دلچسپی رکھے گا۔ اور اسلامی کردار تعمیر نہیں ہو پائے گا۔ بھوکے سے جب بھی پوچھا جائے دو اور دو کتنے ہوتے ہیں بھوکا آدمی کا جواب چار روٹیاں ہونگی۔ اس کا بڑا ثبوت ہمارے پچھلے ساٹھ سال ہیں۔
6)۔: جب مسلمانوں کی بات ہوتی ہے تو مسلمانوں کی ہی بات کی جاتی ہے اس میں مرزائی ۔ قادیانی۔ وغیرہ شامل نہیں۔ وہ غیر مسلم ہیں۔
محترم جاوید صاحب
آپ نے اپنی بات کر دی تھی اور وضاحت میں بھی تقریبا وہی بات ھی دہرا دی ہے
تو کیا جس کے پاس کم روٹی ہوگی اسکو اللہ کی بات کرو اور یاد دلاؤ کے تم مسلمان ہو اعمال کی درستگی کرلو تو وہ کہے گا ، پہلے روٹی دو؟ واہ۔ یعنی صحابہ اور اب بھی دین دار لوگ غریب نہیں ہے ، کیا خوب
ایک بات کا اور جواب دے دیں، جب مسلمانوں کی حکومتیں ( مختلف اوقات میں)امیر کبیر اور مظبوط ہوتی تھیں تو پھر ایسا وقت کیوں آجاتا تھا کہ ذلت ، غربت ، غلامی میں گھیر لی جاتی تھیں؟۔
لاالہ کہنے والوں کی کامیابی اور تحفظ روٹی میں نہیں ہے
ایک اور مثال ، آپ کے پاس ایٹم بم ہے اور آجکل اسکو تحفظ کا سب سے بڑا زریعہ سمجھاجاتا ہے، مگر آپ کا ملک اور قوم تھفظ میں نہیں ہے؟، تو کیا مسلمان کا تحفظ ایٹم بم میں تھا؟۔
کاش آپ یہ بات سمجھ سکیں
مسلمان خیر امت ہیں کیوں؟ یہی آیت پڑھ لیں
منافقوں کو واضع کرنے ، بے نقاب کرنے کا مقصد بھی یہی کہ ان کے کام اور راستے کو جان کر اپنے آپ کو دیکھیں اور صحابہ کے راستے پر آئیں۔ یہاں ایک رافضی لڑکی ایک شوشہ چھوڑتی ہے اور دیکھا دیکھی لوگ نماز کی تبدیلی سے لیکر کہاں کہاں جا نکلتے ہیں ۔ قادیانی آئے روز یہاں لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں
اگر اتنی ہی لوگوں کہ پہچان ہوتی تو اس ملک پر رافضی صدر کیوں مسلط ہوتا اور اپنی کابینہ کے ساتھ ملکر قوم کے پیسوں پر متعہ کرتا پھرتا؟۔ پولیس سے لیکر اخبارات تک سب ان کے ہاتھوں میں کیوں ہوتا؟۔
یہ سب تو عزاب ہے کوئی سمجھے گا تو اپنا ہی بھلا کرے گا۔ ورنہ وہ قوم بھی جو بادل کو سایہ سمجھ کر اسکے نیچے جمع ہوئی اور وہ عزاب نکلا
آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ ، بہتر بات کیا کریں، اور
تم میں اس سے اچھی بات کس کی ہوگی جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے ( القران)۔
آج اللہ کی بات کرنے والا مجنون ہے، نا سمجھ ہے ۔۔۔۔ کال یہی سب کچھ انبیاء کو کہا جاتا تھا کیوں کہ وہ بھی وقت سے پہلے لوگوں کہ سمجھاتے تھے۔
بس بھائی! کامیابی دنیا کی ہو یا آخرت کی صرف اور صرف دین میں ہے اور دین وہی ہے جس کو نبی نے بتایا اور صحابہ نے عمل کر کے دکھایا،
باقی جو ہے بس فتنہ ہے
اللہ مجھے ، آپ کو اور سارے مسلمانوں کو ہدایت دے اور صحابہ والا ایمان دے
آمین
احمد صاحب!
آپ کی باتیں سر آنکھوں پہ۔
مگر جو پاکستان پچھلے ساٹھ سالوں میں مسلمان نہیں ہو سکا ۔ وہ پاکستان صرف آپ کی یا میری خواہش پہ ایک ہی رات میں مسلمان ہونے سے رہا ۔
یا پھر آپ ہی ارشاد فرما دیں کہ اس نیک کام کا آغاز کہاں سے ہوگا۔؟
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہے اور اس گڑ بڑ کو دور کیا جانا بہت ضروری ہے
پھر وہی بات
ارے سمپل ہے کہ آزمائش
اللہ تعلی جو زیادہ صبر والا ہو زیادہ ایمان والا ہو اس کو زیادہ آزماتہ ہے ۔۔ قوم پر آزمائش ۔۔ آزمائش ہی تو ہے
انقلاب !!!!
ایں خیال است و محال است و جنوں۔۔۔
بھرے پیٹ کے ساتھ اسلام نافذکرنےکی باتیں کرنا بہت آسان ہے۔۔۔
غربت کفر کے نزدیک لے جاتی ہے۔۔۔
یہ کس کا فرمان ہے ۔۔۔
اس پر بھی کچھ خطبہ ارشاد فرمادیں۔۔۔
محترم جاوید صاحب
مجھے آپ کی یہ بات اچھی لگتی ہے کہ آپ معقول بات کو قبول کرلیتے ہیں ورنہ لوگ صم بکم کا شکار ہیں
ٹھیک ہے ایک دن میں پاکستانی مسلمان نہیں ہونے لگے اور ہم بھی تبدیلی کے مکلف نہیں ہیں، کوشش کرنا اور اللہ سے مدد مانگنا ہم پر لازم ہے
10 واضح باتیں ہم کو اپنانی ہوں گی
1۔ استغفار کثرت سے
2۔نماز کی ہر حال میں ادائیگی
3۔حرام کھانے سے بچنا
4۔لوگوں کو، گھر والوں کو سب کو پیار سے اللہ کی بڑھائی بیان کرنا، نماز کی طرف لانا، اور ہر جگہ اور روز یہ کام کرنا بہترین انداز میں۔ لوگ ناراض ہوں تو صبر کرنا، سورہ العصر پڑہیے گا
5۔مسجد سے تعلق کو مظبوط کرنا
6۔قرآن اور خاص کر حدیث کی تعلیم روزانہ گھر پر بھی
7۔منافقوں مرتدوں سے دور رہنا ہوگا کیون خۃ انکی باتیں اور صحبت ایمان کا کھا جاتی ہے
8۔صحابہ سے ہٹ کر جو راستہ ہو ، اس سے الگ ہونا ہوگا اور انکو لعن طعن کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے ، اب ایسے لوگوں کا دفع کرنا اور انکے حوالے قوم کا ںصیب کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
9۔اللہ پر ایمان بنانا ، مخلوق اور سامان سے امید ہٹانا
10۔جب قربانی کا وقت آجائے تو صحابہ کی سنت کی پیروی کرنا
انشاءاللہ تحفط ہوگا
اللہ سبحان و تعالٰی۔ پوری قوم کو آپ کی باتوں پہ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین اور ہمیں نیک اور سچا مسلمان بنائے آمین
Leave A Reply