بلاگر حجاب نے مرد عورت کے موضوع پر ایسی بحث چھیڑی ہے جس پر الگ سے لکھنا ضروری سمجھا ہے کیونکہ یہ موضوع ایسا ہے جس پر ایم کیو ایم اور مذہب کے بعد سب سے زیادہ تبصرے ہوتے ہیں۔ فلسفہ جھاڑنے کی بجائے ہم شب کی پوسٹ پر اجمل صاحب کے تبصرے کی تائید میں چند مثالیں دے کر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کیے دیتے ہیں۔
چند ماہ قبل ہمارے ایک جاننے والے قتل ہوئے۔ ان کے اپنی بیوی کیساتھ جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ انہی جھگڑوں میں ان کے تین بچے ہوئے جو اب جوان ہو چکے ہیں۔ یہ صاحب اپنے والدین تک سے ناراض تھے اور سنا ہے ان کا قتل بھی کسی دوسری عورت کے چکر میں ہوا ہے۔ قتل سے چند روز قبل انہوں نے اپنی بیوی سے کہا اس بات کا فیصلہ چند روز میں ہو جائے گا کہ اس گھر میں تو رہے گی یا میں۔ قتل کے بعد بیوی کی زبانی سنا گیا کہ اللہ نے خود ہی انصاف کر دیا ہے کہ کون اس گھر میں رہے گا۔
ہمارے ایک اور جاننے والے کی بیگم پرلے درجے کی بیوقوف ہیں۔ ان کی بیوقوفی کی انتہا یہ ہے کہ اس وقت میکے اور سسرال دونوں رشتے داروں کو وہ چھوڑ چکے ہیں۔ ان کی بیگم سے کسی بھی موضوع پر بحث چھیڑو تو وہ لاجواب ہو کر رونا شروع کر دیتی ہیں۔
ایک دوست کی شادی انگلینڈ کی رہائشی کزن کیساتھ ہوئی۔ شروع شروع میں ان کے اتنے جھگڑے ہوئے کہ دوست کے بہن بھائیوں نے اسے بیوی سے لاتیں کھاتے بھی دیکھا۔ مگر دوست نے حالات کیساتھ سمجھوتہ کر لیا اور بیس سال سے وہ ابھی بھی میاں بیوی ہیں اور ان کے بچے اب جوان ہو چکے ہیں۔
ہمارے ایک عزیز کی شادی انتہائی بدماغ عورت کیساتھ ہوئی۔ چند لڑائیوں کے بعد انہوں نے اپنی بیوی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور دونوں کی ازدواجی زندگی پچاس سال سے بھی لمبی رہی۔
ہمارے محلے میں ایک صاحب نے انتہائی خوبصورت عورت کو پیار میں اس طرح پھنسایا کہ وہ جوان بچے چھوڑ کر اس کے نکاح میں چلی آئی۔ بعد میں مرد نے اس پر اتنے ظلم کیے کہ اسے پاگل پن کا ڈرامہ کر کے جان چھڑانی پڑی۔ وہ انہی حالات میں اللہ کو پیاری ہو گئی۔
ثابت یہ ہوا کہ حالات کی خرابی کا ذمہ دار مرد یا عورت کو ٹھہرانے کی بجائے برے انسان کو ٹھہرانا چاہیےیعنی برا انسان مرد بھی ہو سکتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن کسی پر برے انسان کا ٹھپا لگانے سے پہلے ہمیں دونوں فریقین کے اعتراضات ضرور سن لینے چاہئیں۔
جس طرح امریکہ نے چند انتہاپسندوں کی غلطیوں کی وجہ سے پوری مسلم قوم کو انتہا پسند مشہور کر دیا ہے یا پھر مسلمانوں نے امریکہ کے چند برے حاکموں کی وجہ سے پوری امریکی قوم کو برا سمجھنا شروع کر دیا ہے اسی طرح کسی ایک فرد کے قول و فعل سے اس کی پوری نسل کو برا سمجھنا غلط ہے۔ ہر انسان کے اچھا یا برا ہونے کو انفرادی معنوں میں لینا چاہیے اور ایک انسان کی غلطی کی وجہ سے پوری انسانیت کو گالیاں نہیں دینی چاہئیں۔
14 users commented in " قصوروار کون؟ مرد یا عورت "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ نے مسئلے کی جڑ کی نشاندہی کر دی ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک ڈکیتی ہوئی، لوگ پوچھنے کے لیے گئے تو ان میں سے ایک صاحب فوراً ہی اپنی قوم پرستانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ “پٹھان ہوں گے؟” تو وہاں موجود ایک شخص نے بہت اعلی جواب دیا کہ “ڈاکو کا کوئی مذہب، کوئی زبان، کوئی نسل، کوئی قبیلہ اور کوئی رشتہ نہیں ہوتا، اس کا سب کچھ صرف ڈکیتیاں کرنا ہوتا ہے۔”
ادھر بھی ہم اسی کلیے کو لاگو کریں گے کہ برا شخص بلا امتیاز صنف ہوتا ہے۔ دوسری بات کسی بھی معاملے پر ہم تب تک فیصلہ نہیں کریں گے جب تک فریقین کے موقف نہ سن لیں۔ اس کے بغیر ہمارا کوئی رائے قائم کرنا انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔
بالکل درست کہا۔۔۔ برائی کی نشاندہی ہونی چاہئے
اور اس میں جنس کی تخصیص نہیں ہونی چاہئے۔۔۔
اور نفرت بھی برائی سے ہی ہونی چاہئے ۔۔۔۔
نہ کہ انسان سے
چاہے مرد ہو یا عورت۔۔۔
نام بدنام ہے یہاں بہت زیادہ ۔۔ رشتوں کا ۔۔
انسان کی قدر نہیں رہی یا کوئی اور سائیلالوجیکل وجہ ہے یا غربت کچھ سمجھ نہیں آتا ۔۔
پر خواتین نے بھی کمپرومائیزنگ کو اپنا زیور بنایا ہوتا ہے ۔
مرد بھی جب تک دھونس نا جمالیں ان کو شاید یقین نہیں ہوتا کہ وہ مرد ہیں
افضل صاحب!
ہماری سوسائٹی میں اپنے حقوق پہ بہت زور دیا جاتا ہے اور فرائض کا بھاری پتھر کوئی بھی اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا۔ ساتھ معاشرتی ناہمواری، عدم برداشت۔ اور تعلیم سے بے بہرہ ۔ یہ سب مل ملا کر ایسی کاک ٹیل بم بنتا ہے جو کہیں بھی پھٹ سکتا ہے ۔ اگر پھٹے نہیں تو ہر روز دھواں ضرور دیتا ہے اور جہنم سی زندگی بھی آخر کٹ جاتی ہے۔ مگر ایسی زندگی ۔ جس میں ہر روز جوتوں میں دال بٹے ۔ایسی زندگی کو مثالی نہیں سمجھنا چاھئیے۔
ہمارے معاشرے میں بے قصور ہونا بھی ایک قصور ہے
السّلامُ علیکُم ، میرا پاکستان ، افتخار انکل کے تبصرے کی تائید میں بھی کرتی ہوں قصور دونوں کا ہوتا ہے مگر میں نے اُس سزا پر پوسٹ لکھی ہے جس کی وجہ سے ایک عورت آئی سی یو میں ہے اور میں نے جو کچھ لکھا اور عنوان مرد کیا چاہتے ہیں میں مرد سے مراد شوہر ہے ، اور میں نے پڑوسن آنٹی کے شوہر کا ذکر کرتے ہوئے پوسٹ لکھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ جو مرد( مرد سے مراد شوہر ) اکثر مردوں کا ذکر کیا ہے میں نے ، پوری انسانیت کے لیئے کچھ نہیں لکھا نہ ہی کوئی ایسے الفاظ استعمال کیئے جو گالی لگتے ہوں۔
قصُور وار کوئ ايک اِنسان کبھی بھی نہيں ہوتا حالات کی ذِمّے داری کِسی ايک پر ڈال دينا عجيب بات ہے کبھی کبھار قصُور وار عورت ہوتی ہے اور کبھی مرد ،کبھی عورت مرد کو اِتنا مجبُور کر ديتی ہے کہ اپنی عِزّت کے ہاتھوں چُپ ہو جاتا ہے اور کبھی يہی حرکت عورت کرتی ہے کہنے والا يا ديکھنے والا يہ سمجھتا ہے ہميشہ کہ بے چاری عورت ہے ليکِن ايسا ہوتا نہيں ہے آپ کہيں گے کہ ايک عورت ہو کر ميں يہ مِثال کِيُوں دے رہی ہُوں تو وجہ اِس کی يہ ہے کہ ايک نہيں کئ ايسی مِثاليں اِرد گِرد ديکھی ہيں جِن ميں اکثر خواتين ايسے حالات پيداکر ديتی ہيں کہ بندہ مجبُور ہو جاتا ہے خاموشی اِختيار کرنے پر ايسے ميں مرد کے پاس ايک ہتھيار ہميشہ رہتا ہے جو وُہ بوقتِ ضرُورت اِستِعمال کر تا ہے ٹُول کے طور پر بے چاری ميری پياری بہن نے دُکھی ہو کر لِکھ دِيا اور آپ سب نے اُس بے چاری کو پريشان کر ديا بُری بات کِسی کا دِل نہيں دُکھاتے نا اب آپ سب مرد حضرات ايک طرف اور اب ديکھيں نا ميں نے بھی حق بات کہنے کا شايد بيڑا اُٹھا ليا ہے تو معزرت اگر کُچھ بات کِسی کو بُری لگی ہو تو
پاکستانی معاشرہ ایک کنفوز معاشرہ ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ابھی تک ہم یہ طے نہیں کرپائے ہیں کہ آخر ہم اپنے معاشرہ کی کیا خدوخال رکھنا چاہتے ہیں۔
اس کی کئی ایک بنیادی وجوہات اور مجبوریاں ہیں۔
1۔ غربت 2۔ آبادی 3۔ جہالت 4۔ جاگردانہ نظام یا ذہنیت 5۔ مغربیت کی پیروی 6۔ بے جا ملائیت 7۔ تعثبیت اور قوم پرستانہ ذہنیت ۔
ایک معاشرہ کو بنانے میں اس کے پڑھے لکھے اور سمجھدار طبقے کا بہت بڑا کردار ہوتا، مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے اس طبقے کے کچھ لوگ بھی کبھی کبھار ڈی ٹریک ہوجاتے ہیں اور غیر معیاری مثال دے جاتے ہیں۔
بنیاڈی طور پر ہم مسلمان ہیں اور حقیقتآ ہر پاکستانی پاکستان میں اعتدال پسند اسلامی نظام ہی اپناناچاہتا ہے، مگر دین سے لا علمی اور متذکرہ بالا اپنی 7 مجبوریوں کے باعث ہم ابھی تک اس معاشرے کو تخلیق کرنے سے قاصر ہیں جس کی تمنا ہر دل میں موجود ہے زیادہ یا کم۔
“ اگر ہمیں اپنے دین سے واقفیت ہوتی تو ہمیں عورتوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے ان تمام احکامات اور احادیث کا نمونہ پیش کرنا چاہیے جس میں اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے اور سب سے بڑھ کرتو وہ حدیث ہے جس میں عورت کے متعلق یہ فرما گیا کہ یہ پسلی کی ہڈی کے مانند جسکو سیدھا کرنے میں تم اسے توڑ دو گے۔
نسخہ کمیا میں امام بخاری نے ایک جگہ حضورصلی اللہ وسلم کے غزوات سے واپسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ آپ صلی اللہ وسلم جب مدینہ کے قریب پہنچتے تو لشکر سلام ایک رات مدینۃ سے باہر قیام کرتے ، جس کی اطلاع گھر والوں کو ہوجاتی کہ لشکر واپس آچکاہے۔
اللہ کے رسول کی اس عمل میں کیا حکمت تھی یہ تو اللہ اور کا رسول ہی بہتر جانتا، تاہم صوفی اعظم کی رائے میں دراصل یہ موقع دیا جاتا تھا گھر والوں کو کہ وہ اپنے معاملات کو درست کرلیں اور کوئی ایسی بات نہ ہو جو شوہر کو ناگوار گزرے۔
اسلام نام ہی احساسات کے احترام کاہے، نہ اس میں جبر ہے اور نہ تشدد۔
اللہ ہم سب کو صحیح معنوں میں مسلمان بنائے اور دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا پرمائے آمین۔ عورت مردوں اور منجملہ تمام انسانیت کے بنیادی حقوق اسی میں پوشیدہ ہیں۔
صاحبان، حجاب کی پوسٹ ملاحظہ کریں، پہلی چند سطروںمیںایک سوال ہے کہ، ایسی کیا بات ہوتی ہے کہ مرد پل میںہی کچھ کر بیٹھتا ہے، غصہ، گرجنا وغیرہ۔ ایسا ہی کچھ پوچھا ہے۔ میںبھی یہ سوال دہراؤںگا، کہ قتل ہوتے ہیںتو وہ بھی ایک لمحے کا غصہ اور فیصلہ ہوتا ہے۔ اور ہمارے ہاںتقریباً 99 فیصد قتل مرد کرتے ہیں، یہ بالکل ایسی ہی کچھ کیفیت ہوتی ہے، بس شدت میںفرق۔
مجھے اس کا جواب ہو سکے تو دیں۔ معاشرتی و نفسیاتی پہلو کیا ہیںاس کے؟
(ہو سکتا ہے کہ یہ سوال شاید کچھ موضوع سے ہٹکر لگے، لیکن میرے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ یک دم کے غصے اور پھر ٹھنڈے پڑجانے کی کیفیت سے میںبھی دوچار ہوتا ہوں، تو کیا ہو سکتا ہے اس بارے؟)
محترم عمر بنگش صاحب۔
غصہ دراصل ایک کمزوری اور بیماری ہے۔ ایسے ہم نفسیاتی بیماری بھی کہ سکتے ہیں۔
عموما دیکھنے میں آیا ہے کہ غصہ کمزور اور جاہل لوگ زیادہ کرتے ہیں۔ یا پھر وہ لوگ جن کی قوت برداشت کم ہوتی ہے۔
اس بیماری کا علاج صرف انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اوراس کے لیے مشہور حدیث ہم سب کے علم میں ہے۔
واہ چوہدری حشمت صاحب ،کمال کردیا آپنے اور مجھے آپکی بہت سی باتوں سے اتفاق کرنا پڑے گا 🙂
ویسے اصل قصور وار جہالت ہے اور بس،باقی تو اس سے پیدا ہوئی بیماریاں ہیں،ویسے من حیث القوم ہم سب کی قوت برداشت خاصی کم ہو گئی ہے،
اور مینے حجاب بی بی کی پوسٹ پر جو لکھا ہے وہ بھی لکھ دیتا ہوں کہ کوئی انسان ظلم اس وقت ہی کرتا ہے جب اسکی جواب دہی کا خوف نہیں رہتا نہ اللہ کے سامنے اور نہ معاشرے کے سامنے،
جس دن یہ خوف جاگ جائے یا پیدا ہو جائے ظلم سے ہاتھ خود بخود ہی رک جاتا ہے،اور اس کے لیئے ظالم کا ہاتھ پکڑنا بے حد ضروری ہے ، اس لحاظ سےاگر دیکھا جائے تو ظالم کے ظلم میں مظلوم بھی برابر کا شریک ہوتا ہے،
اور نسخہ کیمیاکے مصنف کا نام آپ غلطی سے امام غزالی کی جگہ امام بخاری لکھ گئے ہیں،
جس طرح ھاتھ کی سب انگلیاں برابر نہیں اسی طرح سارے مرد قصور وار نہیں اور ساری عورتیں بری نہیں، واقعی بات انسان کی ہے
اچھے برے انسان ہر جگہ ہر معاشرے اور ہر قوم میں موجود ہیں
ہاں ماحول اور پرورش انسان کی ذہیت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں
جس طرح کچھ سعودی خاندانوں کے بچے بھی پاکستانی ، انڈین اور بنگالی کو غلام سمجھتے ہیں، اب بچوں کو کیا پتا کہ اس ک پاس سے گزرنے والا پاکستانی ایک مزدور ہے اور اس سے حقارت سے بات کرنی ہے، ظاہر ہے اپنے ماں باپ کا رویہ اور ارد گرد کا ماحول دیکھ کر ہی اسے پتا چلتا ہے کہ اس معاشرے میں کچھ اونچے لوگ ہیں اور کچھ کو کم اوقات کا سمجھنا ہے
اور یہ تفریق آپ کو تمام عرب ممالک میں نظر آئے گی
اسی طرح اگر کسی بچی یا بچے کے ماں باپ جھگڑتے رہتے ہیں تو وہ جھگڑالو بیوی یا جھگڑالوخاوند ہی بنے گا
ماہر نفسیات کے مطابق مستقبل کا شوہر بچہ عہد طفلانہ میں اپنے گھر سے اپنی مستقبل کی زوجہ کے ساتھ برا سلوک کا سبق شعوری یا لا شعوری طور پہ سیکھتا ہے۔ معاشرتی ماحول اور جہالت اسکا واجبی اور احساس کمتری پہ مبتلاء جھوٹی مردانگی کا خول مذید پختہ کرتی ہے۔
ایک کریلا اور دوسرا نیم چڑھا۔ جہاں پوری دنیا میں کواتین کے ساتھ مثالی سلوک نہیں ہوتا۔ وہیں پاکستان میں اسلام کے بتائے اصولوں کے بر عکس خواتین سے اسقدر گھٹیا سلوک کی ایک وجہ نہلے پہ دہلا کے مصداق کئی صدیاں اقلیت کے طور پہ ھندؤ ں کے ساتھ مخلوط طور پہ رہنے کی وجہ سے جھوٹی مردانگی کا وہ کلچر بھی ہے۔ ہے جو مسلمانوں میں بھی عود کر آیا اور جس میں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔
ھندؤں میں مذھبی طور پہ عورت کو پاؤں کی جوتی برابر اہمیت دی جاتی ہے۔ اور اچھی عوت وہ سمجھی جاتی ہے جو اپنے مرد کے پاؤں دھو کر پیتی ہے۔ یہ انکی ایک مذھبی رسم بھی ہے۔اور اس طرح کی بہت سیمذھبی رسوم عورت پہ مسلط ہیں۔ جس میں سے ایک ستی وغیرہ کت بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں۔ اب معاشی طور پہ کمزور ، علمی طور پہ جاہل اور عددی طور پہ اقلیت مسلمانوں کا لگ بھگ ھزار سال تک ھندؤں کے ساتھ رہنے سے یہ سوچ رفتہ رفتہ ختم ہوگی۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں جہاں اکثریت بستی ہے۔ خود بوڑھی عورتیں اپنی بہوؤں وغیرہ کے متعلق اس طرح کی باتیں کرتی ملیں گی ۔ جو خواتین کے بارے میں ھندؤ ثقافت کے قریب اور اسلامی احکامات سے دور ہیں۔
مرد حضرات عموماً اپنے کمپلیکسز کی وجہ سے اپنی اہلیہ سے گھٹیا سلوک اور مار پیٹ کرتے ہیں۔ یہ سوچ رفتہ رفتہ ختم ہو گی۔
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے
برداشت کا مادہ آج کل ختم ہو چکا ہے سب میں
Leave A Reply