نوع انسانی میں جب بھی کسی کو ٹھیس لگی ہے تو وہ اپنوں سے ہی لگی ہے۔ جب لوگ اپنے مہمانوں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں تو وہی مہمان ان کو لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ یہی مہمان چالاکی سے اونٹ کی طرح پہلے گردن خیمے میں گھسانے کی اجازت مانگتے ہیں اور پھر مالک کو خیمے سے باہر کر دیتے ہیں۔ آج کل ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی یہی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ دھوکہ ہمیشہ مخلص اور اعتماد کرنے والا کھاتا ہے۔ یعنی آپ نے کسی پر اندھا اعتماد کیا اور اس نے آپ کی وفا کا وہ صلہ دیا کہ آپ ساری عمر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو وہی لوگ کامیاب نظر آئیں گے جو شریفوں کی شرافت سے فائدہ اٹھا رہے ہوں گے۔ دکانداروں کا گاہکوں کو کولڈ ڈرنک یا چائے پیش کرنا شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا ایک آسان طریقہ ہے۔
ازل سے لیکر ابد تک حملہ آوروں نے پہلے حکمران کا اعتماد حاصل کیا اور پھر اسی کی پیٹھ پر چھرا گھونپ کر ملک پر قبضہ کر لیا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کیساتھ بھی گوروں نے ایسا ہی ہاتھ کیا۔ پہلے اس کے دور میں قدم جمائے اور پھر اسے سسک سسک کر مرنے کیلیے ملک بدر کر دیا۔ جلاوطنی میں ہی اس نے شاعری میں اپنی روداد سپرد قلم کی۔
ہم نے جب پہلی دفعہ محمد رفیع کی آواز میں بہادر شاہ ظفر کی یہ غزل سنی تھی تو آبدیدہ ہو گئے تھے۔ آج بھی جب ہم یہ غزل سنتے ہیں تو جلاوطنی میں بہادر شاہ ظفر کی حالت زار کا سوچ کا کانپ اٹھتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کی کہانی حکمرانوں سے لیکر عام آدمی تک کیلیے راہ ہدایت بلکہ عبرت کا نشاں ہے۔ یعنی حکمرانوں کو رعایا سے غداری کرتے ہوئے غیروں کو اپنا سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے اور عام آدمی کو اپنے ارد گرد خوشامدیوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
نہ تو میں کسی کا حبیب ہوں نہ تو میں کسی کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصبیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
میرا رنگ روپ بگڑ گیا، میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
پہ فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
5 users commented in " اعتماد کو ٹھیس "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکہا جاتا ہے کہ جس راستہ سے بہادر شاہ ظفر کو ہاتھی پر سوار کرا کے کلکتہ لے جایا گیا تھا اس راستے میں پتوں اور درخت کی چھال پر لکھے یہ شعر ملے تھے اور غزل پوری اکٹھی نہ کی جا سکی تھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ درمیان سے کچھ شعر غائب ہیں
یہ اشعار ہم نے رفیع کے گانے سے نقل کیے ہیں۔ کوشش کے باوجود ہم پوری غزل نہیں ڈھونڈ سکے۔ وارث صاحب یا دوسرے بلاگر شعرا حضرات ہو سکتا ہے غزل کے باقی شعر لکھ دیں۔
بس ایک تصیح کرلیں کہ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے دربار تک رسائی حاصل نہیں کہ بلکہ ان کو اقتدار ملتے ملتے تو انگریز متحدہ ہندوستان میں ایک بڑی طاقت بن چکے تھے۔ انگریزوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار تک رسائی حاصل کی اور 1757 میں پلاسی کی جنگ کے بعد سے ہندوستان پر قبضے کی بنیاد رکھ دی تھی جو بہادر شاہ ظفر کے دور میں 1857 کو رسمی طور پر انجام پذیر ہوئی ورنہ بہادر شاہ ظفر کی اہمیت تو اپنے گیلانی صاحب سے بھی گئی گزری تھی۔
راشد صاحب، تصیح کا شکریہ۔ ہم نے پوسٹ میں تبدیلی کر دی ہے۔
بہادرشاہ ظفر کو کالے پانی نہیں برما کے دارلخلافہ رنگون میں جلاوطن کیا گیا تھا۔ صحیح فرما لیں۔
بہادر شا ظفر کا پورا نام بمع تخلص ۔۔ ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر ۔۔تھا
انگریز ڈاکٹروں نے شاہجہان کی ایک بیٹی کے جل جانے پہ اسکا علاج کیا تھا تو شاہجہان نے خوش ہوکر انہیں ھندوستان کے جنوبی ساحل پہ کچھ تجارتی کوٹھیاں تعمیر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب انگریزوں کے ساتھ ولندیزی اور پرتگیزی بھی ہندوستان پہ ریشہ خطمی ہورہے تھے۔ اور آپس میں ایک دوسرے کے حریف تھے۔ مگر انگریز اپنی روایتی مکاری اور ظالم فطرت کی وجہ سے کامیاب رہے۔
اورنگ زیب عالمگیر کے دور تک انگریز برصغیر کی عمومی اندرونی سیاست میں اپنے سازشی ذہن کی بدولت، بہت دخیل ہوچکے تھے۔ اورنگزیب انگریزوں کی سازشوں کو سمجھ چکا تھا اور اقتدار پہ قبضہ مکمل ہوتے ہی اورنگزیب نے مندرجہ بالا کوٹھیاں انگریزوں سے خالی کروالیں اور انگریزوں کو دی گئیں تمام کی تمام مراعات واپس لے لیں۔
آپ نے اوپر جس غزل کو محمد رفیع کی آواز میں سنا ہے اسے بہت سے غزل خواہوں نے گایا ہے ۔ آپ اس غزل کو حبیب ولی محمد کی آواز میں سنیں ۔ انسان کے اندر سناٹے چھا جاتے ہیں۔
بہادرشاہ ظفر کی ایک اور بہت مشہور غزل ہے۔
——————————————————————————–
لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں
بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکّھی تھی فصلِ بہار میں
کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں
عُمْرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
Leave A Reply