جنرل مشرف نے بلدیاتی نظام متعارف کرایا اور اسمبلی ممبران کے متوازی سیاستدانوں کی ناظمین کی شکل میں نئی فوج بنا ڈالی۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرف کو ناظمین سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہی نہ ملا۔ اب جب بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں تو حکومت کو ڈر ہے کہ انتخابات میں حکمران جماعتیں ہار جائیں گی اور اس کا علاج وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کی سفارش پر خراب حالات کا بہانہ بنا کر انتخابات ملتوی کر دینے میں ڈھونڈا ہے اور وہاں پر ایڈمنسٹریٹرز لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تا کہ نہ انتخابات ہوں اور نہ حکومتی جماعتیں ہاریں۔
لیکن حیرانی حزب اختلاف پر ہے جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کے بعد بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرنے پر بھی کوئی شور نہیں مچا رہی بلکہ مسلم لیگ ن نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب حزب اختلاف چھوٹے چھوٹے ایشوز پر عوام کو سڑکوں پر لے آتی تھی، ایک یہ وقت ہے بڑے بڑے مواقع ملنے کے بعد بھی حزب اختلاف خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ مسلم لیگ ن پنجاب کی حکومت پر اکتفا کیے بیٹھی ہے اور اسے وفاق میں حکومت بنانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔
یہ نورا کشتی کی دوسری مثال ہے۔ اس سے قبل وفاقی بجٹ کی منظوری، پٹرول مہنگا کرنے والا آرڈینینس پر خاموش رہنے کی مثالیں نورا کشتی کا ثبوت تھیں۔ اب لگتا ہے کوئی پوشیدہ طاقت حزب اختلاف اور حکومت دونوں کو کنٹرول کیے بیٹھی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو پھر حالات سدھرتے نظر نہیں آتے کیونکہ جب سیاستدان مل کر بندر بانٹ شروع کر دیں گے تو پھر عوام کے ہاتھ میں ٹھینگا ہی آئے گا۔
9 users commented in " بلدیاتی نظام ختم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackامریکن ایجنڈے میں مسلم لیگ ن کے نواز شریف کو نیا وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ مگر اس کے لئیے ضروری ہے کہ موجودہ سیٹ اپ اپنی مدت پوری کرے۔ دوسری شرطوں کے ساتھ ساتھ یہ ایک بڑی شرط ہے۔
لانگ مارچ کی رات پاکستانی عوام کی قوت دیکھتے ہوئے بھی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر جان لڑا دی جائے تو عز و وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی رات امریکن ، نواز لیگ مکا مکا ہوئی اور اب ۔۔۔ دور دور تک خاموشی طاری ہے۔
رہ گئے عوام۔ تو انھیں زندہ رہنے کی اپنی جنگ خود لڑنی ہوگی-
تھوڑا انتظار کیجئے ۔ صرف چند ماہ میں صورتِ حال نمایاں ہونے لگے گی
گٹھ جوڑ کیا بات نہیں، ن لیگ تو پہلے ہی اسکے خلاف تھی۔ آپکو یاد ہو گا کہ سلمان تاثیر کی قیادت میں کونسلرز کا ن لیگ سے جھگڑا چل رہا تھا، شہباز شریف نے کمشنری نظام بھی بحال کیا تھا کچھ ڈویژنز میں۔ یہ افسوس ناک بات ہے کہ اس نظام کو چلنے نہیں دیا جا رہا ورنہ یہ ایک بہترین نظام ہے۔
جو سازشوں کے تانے بانے بنا کرتے ہیں ان کی بات پر دھیان دیجیئے اور تھوڑا انتظار کیجیئے۔ صرف چند ماہ میں صورت حال نمایاں ہونے لگے گی 🙂 🙂 🙂
ہم کو ان سے ہے وفا کی امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے،
یہ دیکھ کر بڑی ہنسی آتی ہے کہ آج کل لوگوں کے پیٹ میں بڑے مروڑ اٹھ رہے ہیں،بے چارے پریشان ہیں کہ کہیں لوگ جاگ نہ جائیں اور آپس کی دھینگا مشتی چھوڑ کر ان کا اور ان کے آقاؤں کا گریبان نہ پکڑنا شروع کر دیں حفظ ما تقدم یا بزدلی کی وجہ سے اپنے بلاگ پر اپنے ناپسندیدہ تبصرے بلاک کر کے آزادی اظہار کا گلا گھونٹ کر بہت خوش ہیں اور جو دل چاہتا ہے آئیں بائیں شائیں لکھا کرتے ہیں،کوئی ان سے پوچھے بھلا کہ اگر یہ ملک خداداد بنانے والوں نے مسلمانوں کے لیئے ہی بنایا تھا تو ہندوستان کے مسلمانوں پر ان کے آقاؤں نے اس کے دروازے بند کیوں کردیئے ،بنگلہ دیش کو عذاب کہہ کر اس سے جان کیوں چھڑائی گئی مگر ایسے کسی سوال کا جواب دینا ان جیسے لوگ گوارا ہی نہیں کرتے،
اورمزید فرماتے ہیں کہ کراچی سے متحدہ والے ان سے مشورہ لینے کے لیئے ان کو فون کیا کرتے تھے چہ خوب!(پھر تو اس لسانیت کے جرم میں جناب بھی برابر کے شریک ہیں! کیوں؟):)
مگر ہم کیسے یقین کر لیں جب تک کوئی متحدہ کا بڑا اس بات کی تائید نہ کرے ورنہ ایسے افسانے تو ہم ان سے بہت سنا کرتے ہیں عظیم احمد طارق کے غم میں مگر مچھ کے آنسو بہانے والے غلام حیدر وائںن کے لیئے نہ تو کسی دکھ کا اظہار فرماتے ہیں اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کا قصور کیا تھا کہ انہیں جیتا نہ رہنے دیا گیا یا وہاں بھی ایم کیو ایم والے پہنچ گئے تھے!
آگے کہتے ہیں کہ اس کتاب کو بند ہی رہنے دیں میرا قلم چل پڑا تو۔۔۔۔۔۔۔۔
اجی حضرت قلم چلائیے نا آپ کو کس نے روکا ہے آدھی باتیں کرنے اور آدھا سچ بولنے کی عادت چھوڑیئے وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے،مزے دار بات یہ ہے کہ میری لکھی کسی بات کا آنجناب کے پاس کبھی کوئی جواب نہیں ہوتا، مزے لگے پڑے ہیں بھئی27 فیصد رو دھو کر دیتے ہیں اور 65 فیصد واپس لے لیتے ہیں،اور جاتا کہاں ہے ان کے اور ان کے پیاروں کے پیٹ میں،
پنجاب کابینہ نے جس نظام کو ختم کرنے کی منظوری دی ہے وہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں متعارف کروایا گیا تھا اور بہت سے انتظامی اور مالی اختیارات صوبوں سے لے کر ضلع تحصیل اوریونین کونسل کی سطح پر منتقل کیے گئے تھے۔
مشرف دور کے نظام میں صوبائی حکومت کے علاوہ افسر شاہی کے اختیارات میں بھی کمی ہوئی تھی لیکن موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں اب ان اختیارات کی بحالی چاہتی ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/07/090711_local_bodies_na.shtml
ہائے ۔۔۔ اب مصطفی کمال بھائی کا کیا ہوگا
بڑے بھائی کے پاس لندن چلے جائیں۔۔۔
اور یہ غزل گائیں دونوں مل کے
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو پکار ہائے گل، میں چلاؤں ہائے دل
ارے ہاں۔۔۔
بھول گیا تھا کہ اپنے لال بجھکڑ عرف کالیا عرف پاکستان کی تاریخ کے سب سے ایماندار حکمران عرف مجھے ڈر نئیں لگتا اے، بھی وہیں موجود ہیں۔۔۔
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے ۔۔۔۔۔
یاروں ہنسی مزاق نہیں یہ ایک سنجیدہ مسلہ ہے۔ آج کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہ نظام موجود ہے اور یہیں سے متوسط طبقے کی قیادت سامنے آتی ہے۔ سونچ لو اگر آج چپ تو پھر ہمیشہ کی چپ اور پھر اولادوں اور اولادوں اور اولادوں کی تعبیداری کے لیے تیار ہو جاؤ۔
اس سے آگے میرے بھی وہی خیالات ہیں جو گوندل صاحب کے ہیں ، اللہ انہیں جزائے خیر دے۔
Leave A Reply