کل ہم ايک شادي کي تقريب ميں مدعو تھے جہاں ہماري ميز پر بيٹھے اصحاب نے چند لطيفے سناۓ۔ ا ن ميں سے کئي لطيفے ہمارے ليۓ نۓ تھے اسلۓ يہاں لکھ رہے ہيں تاکہ اس گرمي اور حبس کے اثرات کو ختم کرنےکيلۓ کچھ مزاح کا سامان مہيا کرسکيں
ايک سکھ زميندار کا گدھا سر نہیں ہلاتا تھا۔ اس نے گاؤں ميں اعلان کراديا کہ جو اس گدھے کا سر ہلادے اسے وہ ہزار روپيہ انعام دے گا۔ بہت سارے لوگوں نے اپنے طريقے آزماۓ مگر گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔ ايک دن ايک سردار آيا اور اس نے گدھے کےکان ميں کوئي بات کہي اور گدھے نے نہ ميں سر ہلا ديا۔ زميندار نے اس کو انعام دينے سے پہلے پوچھا کہ تم نے کونسي ايسي بات گدھے کے کان ميں کہي کہ اس نے سر ہلا ديا۔ سکھ کہنے لگا کہ اس نے گدھے سے پوچھا کہ کيا تم سکھ بننا چاہتے ہو؟ تو گدھے نے نہ ميں سر ہلا کر کہا نہيں ميں گدھا ہي ٹھيک ہوں
ايک پير صاحب جو ايک مزار کے متولي تھے کے مريد نے ان کي کئ سال خدمت کي۔ ايک دن اس نے پير صاحب سے درخواست کي کہ اب اسے بھي اخازت دي جاۓ تا کہ وہ بھي لوگوں کي خدمت کر سکے۔ پير صاحب نے اسے رخصت کرتے وقت ايک گدھا ديا۔ کئي سالوں بعد پير صاحب کا ايک شہر سے گزر ہوا تو ديکھا کہ ايک جگہ پر لوگوں کا ہجوم لگا ہوا ہے۔ وہ جب آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ ان کا مريد پير بنا بيٹھا ہے اور لوگ مزار پر دھڑا دھڑ چڑھاوے چڑھا رہے ہيں۔ پير صاحب نے مريد سے پوچھا کہ يہ کس کا مزار ہے۔ مريد بولا کہ يہ اسي گدھے کا مزار ہے جو آپ نے مجھے عنائيت فرمايا تھا۔ پير صاحب بولے کہ حيراني ہے ميں نے اس گدھے کا باپ اپنےہاں دفن کر رکھا ہے مگر وہاں کوئي نہيں آتا۔
ايک چور کسي گھر ميں چوري کي غرض سے گھسا ہي تھا کہ گھر کي مالکہ جو بہت موٹي تازي تھي، اس نے اسے دبوچ ليا۔ مالکہ نے اسے زمين پر گرايا اور اس پر ايسے سوار ہوئي کہ چور کو سانس لينا مشکل ہونے لگا۔ مالکہ نے ملازم کو آواز دي کہ وہ جلدي سے پوليس کو بلا لاۓ۔ کچھ دير بعد جب مالکہ نے ديکھا کہ پوليس نہیں آئي تو اس نے ملازم کو آواز دي اور پوچھا کہ پوليس کو بلانے گۓ کہ نہيں۔ ملازم بولا کہ ميں تو ابھي تک اپني جوتي ڈھونڈھ رہا ہوں۔ چور فورأ بولا
اوۓ ميري پا جا
يہ سچا واقعہ ہے۔ ايک دفعہ سکھ ياتري لاہور آۓ اور جب وہ واپسي کيلۓ بس ميں سوار ہورہے تھے کہ ايک سکھ اپنے بيک پيک کے ساتھ گاڑي کے دروازے ميں پھنس گيا۔ کافي کوشش کے بعد جب وہ گاڑي ميں نہ گھس سکا تو دوسرے سردار نے اسے پيچھے سے زور دار دھکا ديا ۔سکھ اوندھے منہ گاڑي کے اندر جاگرا اور اس کے کئي دانت بھي ٹوٹ گۓ۔ دھکا دينے والے نے پاس کھڑے لاہوري سے کہا ديکھا ميرا کمال۔ لاہوري کہنے لگا کہ سردار جي پہلے تو سن رکھا تھا آج ہم نے ديکھ بھي ليا کہ سکھ قوم کيسي ہوتي ہے۔
ايک جنازے میں ايک آدمي نے کافي دير تک ميت کو کندھا ديۓ رکھا اور کسي نے اس کا ہاتھ نہ بٹايا۔ جب وہ تھک کر ہلکان ہوگيا تو اس نے لوگوں سے درخواست کي کہ وہ ميت کو تھوڑي دير کيلۓ نيچے رکھيں۔ ميت نيچھے رکھ کر وہ لوگوں سے پوچھنے لگا کہ مجھے يہ بتائيں کہ کيا ميں نے اسے مارا ہے؟
بہت عرصہ پہلے دو دوست آپس ميں شيخياں بگھار رہے تھے۔ ايک کہنے لگا کہ ميرے دادا کي گھڑي دريا ميں گري اور جب چھ ماہ بعد ملي تو پھر بھي چل رہي تھي۔ دوسرے نے کہا يہ بھي کوئي بات ہے۔ ميرے دادا دريا ميں گر پڑے اور جب چھ ماہ بعد نکالے گۓ تو پھر بھي زندہ تھے۔ پہلا دوست کہنے لگا کہ وہ چھ ماہ دريا ميں کيا کرتے رہے۔ دوسرا کہنے لگا کہ وہ تمہارے دادا کي گھڑي کو چابي ديتے رہے۔
2 users commented in " لطائف "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسبھی اچھے ہیں، شروعات آپ نے کی ہے تو اب ایک اور لطیفہ بھی بھگتیں ـ
سردار جی گھر سے باہر نکلے ہی تھے کہ سامنے کیلے کا چھلکا دیکھ کر بڑبڑائے: اوئی ما آج پھر پھسلنا پڑے گا ـ
دوسرے دن گھر سے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں ایک ساتھ دو کیلے کے چھلکے، سردار جی غصّہ ہوگئے اور بڑبڑائے: دھت تیری کی، سمجھ میں نہیں آتا پہلے اِس پر پھسلوں یا اُس پر ـ
تیسرے دن تو حد ہوگئی، ایک ساتھ چار کیلے کے چھلکے ـ سردار جی منہ سکوڑتے ہوئے بڑبڑائے: اُوہ یار حد ہوگئی، اب کہاں سے شروع کروں؟
اچھے لطیفے ہیں!!! خاص کر سکھ بھائی کا لاہور والا!!!!!
Leave A Reply