ملک میں جب سے کریڈ کارڈوں کا استعمال شروع ہوا ہے ان کے فراڈ بھی منظرعام پر آنے لگے ہیں۔ ان دنوں مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی شمائلہ رانا کریڈٹ کارڈ فراڈ میں ملوث پائی گئی ہیں۔ ابھی تک کی خبروں سے یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ فراڈ ہوا کیسے؟
یعنی کیا شمائلہ رانا نے اپنے ساتھ ورزش کرنے والی خاتون کا کریڈٹ کارڈ استعمال کیا اور اگر ایسا کیا تو دکاندار نے دوسری عورت کے کریڈٹ کارڈ پر شمائلہ کو خریداری کی اجازت کیسے دے دی؟
اگر شمائلہ کے پاس دوسری عورت کی آئی ڈی بھی تھی تو تب بھی دکاندار کو وہ کریڈٹ کارڈ چارج نہیں کرنا چاہیے تھا چاہے اسے استعمال کرنے والی صوبائی رکن اسمبلی ہی کیوں نہ ہوتی۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک حد سے زیادہ رقم کی کارڈ پر خریداری پر دکاندار بنک سے منظوری لیتا ہے تا کہ فراڈ کا امکان نہ رہے۔ کیا دکاندار نے بنک سے خریداری کی اجازت لی اور اگر نہیں تو کیوں؟
کریڈٹ کارڈ چارج کرتے ہوئے جیولرز بہت محتاط ہوتے ہیں کیونکہ فراڈ کی صورت میں وہ رقم سے محروم ہو سکتے ہیں۔ دکاندار نے اس رسک کے باوجود اتنی بڑی خریداری پر کریڈٹ کارڈ بنک کی منظوری کے بغِر کیسے چارج کر لیا؟
اکثر اس طرح کے فراڈوں میں یا تو خریدار جعلی آئی ڈی کیساتھ خود کو کریڈٹ کارڈ کا مالک ظاہر کرتا ہے یا پھر دکاندار اس سے ملا ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے شمائلہ نے خاتون کے کریڈٹ کارڈ کیساتھ اس کا شناختی کارڈ بھی چوری کر لیا ہو مگر ایسی صورت میں شمائلہ کو رکن اسمبلی ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب مقدمہ درج ہو چکا ہے اور امید ہے پولیس کی تفتیش کے دوران اصل صوتحال جلد سامنے آ جائے گی۔
ویسے ایسا اکثر ہوتا ہے کہ لوگ چھوٹی چھوٹی کمینی حرکتوں کی وجہ سے اپنا کیریئر تباہ کرلیتے ہیں اور یہی شمائلہ نے اپنے ساتھ کیا ہے۔
کریڈٹ کارڈ کا فراڈ یورپ میں بھی عام ہے۔ ایک فراڈ اس طرح ہوتا ہے کہ آپ جب کریڈٹ کارڈ کسی دکان پر استعمال کرتے ہیں تو دکاندار کریڈٹ کارڈ کی مشین کے ساتھ ساتھ دوسری مشین پر کریڈٹ کارڈ چلاتا ہے جس پر کریڈٹ کارڈ کی ساری معلومات منتقل ہو جاتی ہیں جنہیں ایک سافٹ ویئر کے ذریعے ڈھونڈ لیا جاتا ہے اور اس طرح ان معلومات کی روشنی میں نیا یعنی جعلی کریڈٹ کارڈ بنا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ دکان پر لگا سکیورٹی کیمرہ آپ کا پن کوڈ بھی چوری کر لیتا ہے جو اے ٹی ایم مشین سے کیش نکالنے کیلیے درکار ہوتا ہے۔
دوسرا فراڈ کا طریقہ یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ کے مالک کی آئی ڈی بھی چوری کر لی جاتی ہے۔ اس کی معلومات کی روشنی میں جعلی آئی ڈی بنا لی جاتی ہے اور ملزم جعلی آئی ڈی دکھا کر اصل کریڈٹ کارڈ استعمال کر لیتا ہے۔
آج کل گروسری سٹوروں اور پٹرول پمپوں پر کریڈٹ کارڈ براہ راست استعمال ہونے لگے ہیں یعنی آپ دکاندار سے ملے بغیر خریداری کر سکتے ہیں مگر اس کیلیے بھی رقم کی میعاد مقرر ہے اور اگر خریداری اس میعاد سے بڑھ جائے تو پھر آپ کی آئی ڈی چیک کی جاتی ہے۔ لوگ چوری کے کارڈ یہاں پر استعمال کرتے ہیں مگر میعاد پر پابندی کی وجہ سے نقصان کم ہوتا ہے۔
اگر آپ کیساتھ اس طرح کا فراڈ ہو جائے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہوش و ہواس میں رہتے ہوئے کریڈٹ کارڈ والے بنک کو اس فراڈ سے آگاہ کیجیے اور پھر سارا معاملہ بنک پر چھوڑ دیجیے۔ بنک آپ سے فراڈ کی رقم کا مطالبہ بھی نہیں کرے گا اور آپ کی کریڈٹ ہسٹری بھی خراب نہیں ہو گی۔
کریڈٹ کارڈ کے فراڈ سے بچنے کیلیے مدرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ایک وقت میں اپنے بٹوے میں سارے کریڈٹ کارڈ مت رکھیں
اپنی ذاتی معلومات اپنے بٹوے میں رکھنے سے گریز کریں
اپنے کریڈٹ کارڈ پر اپنا پن کوڈ نہ لکھیں
دکاندار کو کریڈٹ کارڈ دوسرے کمرے میں نہ لے جانے دیں اور کہیں کہ وہ کریڈٹ کارڈ آپ کے سامنے چارج کرے اور ایک ہی دفعہ مشین سے گزارے۔
خیال رکھیں کہ دکاندار ایک سے زیادہ مشینوں پر آپ کا کریڈٹ کارڈ نہ چلائے
اپنی تمام آئی ڈیز یعنی ڈرائیونگ لائسنس، گرین کارڈ، شناختی کارڈ، سوشل سکیورٹی کارڈ اپنے بٹوے میں ایک ساتھ مت رکھیں۔ آئی ڈی کیلیے شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس ہی کافی ہے
اپنی ذاتی معلومات یعنی تاریخ پیدائش، سوشل سکیورٹی نمبر، شناختی کارڈ نمبر، والدہ کا نام وغیرہ اپنے عزیز ترین دوست کو بھی مت بتائیں۔
اگر کریڈٹ کارڈوں کے بارے میں مزید معلومات درکار ہوں تو ہماری پوسٹ کریڈٹ کارڈز اور کریڈٹ ہسٹری پڑھ لیجیے۔
7 users commented in " کریڈٹ کارڈ فراڈ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمجھے لگتا ہے ، محترمہ ایم پی اے صاحبہ سمجھتی ہون گی کہ شائد چوری کا کریڈٹ کارڈ بھی جعلی چیک کی طرح چل جائے گا۔
روشنامہ جنگ کی خبر سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ حرکت ایم پی اے صاحبہ نے جان بوجھ کر کی ہے۔۔
حقیقت تو اللہ جانتا ہے۔۔
کریڈٹ کارڈ پر 80 ہزار کوئی ایسی بڑی رقم بھی نہیں کہ جس کے لئے بینک سے ویریفکیشن کی جائے اور ویسے بھی دکاندار کو تو کہنا ہے کہ میں نے بینک سے پوچھا تھا تو کلئیرنس ملی تھی کہ کارڈ گم یا چوری ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ااور جب دکاندار نے خاتون سے کوئی اور آءی ڈی مانگی تو خاتون نے جھٹ اسی عورت کا دوسرا چوری شدہ کارڈ نکال کر دے دیا۔ تو اس میں تو شک کی گنجائش تقریباں نا ہونے کے برابر رہ جاتی ہے نا۔ میرے خیال میں تو اصولاً بینک کو دکاندار کو پیمنٹ کرنا چاہئے
اور خاتون کو جیل کے اندر
ہمارے ملک میں ان لوگوں کی پڑتال کی جاتی ہے جو دیکھنے میں بڑے آدمی نہ لگیں اسلئے دکاندار نے پڑتال نہیں کی ہو گی ۔ میں تو کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کے حق میں نہیں کہ فضول خرچی کا باعث بنتا ہے ۔ ویسے میں نے لوگوں کو استعمال کرتے دیکھا ہے دکاندار اسے مشین میں سے گزارتا ہے پھر پرنٹ نکلتا ہے تو کارڈ والے سے دستخط کروا لیتا ہے ۔ بس ۔ سو چوری کا کارڈ بآسانی استعمال ہو سکتا ہے
میرے ایک عزیز ہیں۔ انھوں نے کمال معصومیت سے، کل مجھے مخاطب کرتے ہوئے مجھ سے ایک سوال کیا ہے کہ ۔۔بھائی جان! کیا ملک میں اسقدر لوٹ کھسوٹ کرنے کے بعد بھی ایسے (شمائلہ رانا جیسے ) لوگوں کا پیٹ نہیں بھرتا کہ وہ ایک عام شہری کے بنک کارڈ چوری سے اڑا لیں۔ اور اس قدر دیدہ دلیری سے انھیں استعمال کر لیں۔؟
اور جواب میں۔۔۔ میں صرف ایک لمبی ۔۔-ہونہہ۔۔ کر کے رہ گیا۔
اسلام و علیکم
بھائی آج کل جس تھوک کے حساب سے کریڈٹ کارڈز چل رہے ہیں
سارا بزنس کریڈٹ کارڈ کی بدولت ہو ہو رہا ہے
اب آپ یہ بھی بتائیے کیا ضروری ہے کے میرا کارڈ صرف میں ہی استعمال کروں میرا بھائی میری بیوی ماں بہن کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے ضرورت پڑنے پر اور ایسا ہونا بھی چاہیئے
ضرورت اس امر کی ہے کے ایسے واقعات سے روکنے کی تجاویز پیش کی جائیں
طارق صاحب‘
آپ کی تجویز پر اگر عمل کیا جائے تو پھر ایسے واقعات روکنا ناممکن ہے۔ کریڈٹ کارڈ صرف اس کے مالک کو استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور اگر مالک چاہتا ہے کہ اس کے رشتے دار اس کا اکاؤنٹ استعمال کریں تو اپنا کارڈ ان کے ہاتھ تھمانے کی بجائے وہ ایڈیشنل کارڈز ان کے نام کے بنوا دے۔
پریشانی کیا ہے اس دیگ کے گندے چاول ایک ایک کرکے باہر آرہے ہیں
Leave A Reply