یاسر مرزا صاحب نے زندگی کے ایک بہت اہم پہلو پر قلم اٹھایا ہے اور ہم امید کرتے ہیں باقی بلاگرز بھی اس موضوع پر ضرور لکھیں گے۔ چلیں ہم ان سے وعدے کے مطابق ابتدا کرتے ہیں۔ مسئلہ کیا ہے سب کو معلوم ہو چکا ہے اسلیے ہم ڈائریکٹ اس کا حل تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
ہم اس موضوع پر پہلے بھی کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں اور سمجھیں کہ ہمیں اس موضوع پر دسترس حاصل ہے کیونکہ ہم نے ستر کا دور بھی دیکھا ہے جب لوگ دبئی گئے اور پھر اسی کا دور بھی جب دبئی والے لوگوں کی بیویوں کی اکثریت گمراہی کا شکار ہوئی، بچے سکولوں سے بھاگ گئے اور چالاک رشتے دار اور محلے دار ان کی دولت پر ہاتھ صاف کر گئے۔ ان لوگوں کی اکثریت جب دبئی سے واپس آئی تو ان کی معاشی حالت وہیں تھی جہاں سے دس پندرہ سال قبل انہوں نے آغاز کیا تھا ہاں کچھ کے مکان پکے بن چکے تھے اور بچے دبئی جانے کیلیے بیتاب بیٹھے تھے۔
دراصل ہمیں ان لوگوں سے سخت چڑ ہے جو شادی کے ایک دو ماہ بعد ہی بیوی کو سسرال اور معاشرے کے حوالے کر کے پردیس چلے جاتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ لوگ پردیس میں کیسے وقت گزارتے ہیں اور ان کی بیویوں کا اس عرصے میں کیا حال ہوتا ہے مگر چانسز اسی فیصد سے زیادہ ہیں کہ ان کی بیویاں بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بیرون مقیم ممالک افراد کی بیویاں مکار، عیار اور بدمعاش مردوں کیلیے بہت آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں جنہں وہ پیار، محبت، تحفے تحائف سے گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کبھی وہ محلے دار کے پیار کا شکار ہو جاتی ہیں تو کبھی جیٹھ یا دیور کی ہمدردی کا، کبھی وہ کسی کزن کی مکاری میں پھنس جاتی ہیں تو کبھی سسر کی شیطانیت کا لقمہ بن جاتی ہیں۔ لیکن وہ بھی کیا کریں قصور ان کا بھی نہیں ہوتا۔ اگر عورت کنواری ہے تو پھر چانسز زیادہ ہیں کہ وہ مرد کے بغیر زندگی گزار سکے مگر جب اس کی شادی ہو گئی اور اسے مرد کیساتھ زندگی گزارنے کا مزہ آنے لگا تو پھر اسے بے راہ روی سے روکنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ آدمی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس واپس آ جاتے ہیں لیکن اکثریت یا تو اپنی بیوی کو پاک باز سمجھتی رہتی ہے یا پھر آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں۔ کچھ آدمی ایسے ہوتے ہیں جن کو جونہی بیوی کی بے راہ روی کا علم ہوتا ہے وہ اسے طلاق دے کر معاشرے میں بے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں۔
اب جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ہم ان کی مجبوریوں پر ہنس رہے ہیں تو ان سے ہم معذرت چاہتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے چاہے آپ اسے مانیں یا نہ مانیں۔ ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کو پہلے تو شادی کرنی ہی نہیں چاہیے اور اگر شادی کر لیں تو پھر اپنی فیملی کو زمانے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے، چاہے اس کیلیے پردیس چھوڑ کر پاکستان میں دھکے ہی کیوں نہ کھانے پڑیں۔ دراصل ہم پردیسی لوگوں کی اکثریت نے ملک اس لیے چھوڑا کیونکہ ہم تن آسان تھے اور اپنے معاشرے کا مقابلہ کرنے کی ہم میں ہمت نہیں تھی وگرنہ جو لوگ پاکستان میں رہ گئے اور انہوں نے ہمت کی وہ ہم سے بھی آگے نکل گئے۔ اس لیے اب ہم نے یہ جانا ہے کہ محنت کہیں بھی کی جائے اس کا صلہ ملتا ہے مگر وقت پر۔ اس لیے یہ سوچنا کہ پاکستان میں ہمارا گزارہ نہیں ہوگا یہ غلط ہے۔ آپ لوگ اپنے بیوی بچوں کے پاس جائیں اور یقین کریں روکھی سوکھی میں جو مزہ آئے گا وہ یورپ کے فاسٹ فوڈ سے زیادہ ہو گا۔
یہ بھی کوئی زندگی ہے شادی کی، باہر چلے گئے، سال بعد ایک ماہ کیلیے گھر آئے اور اس طرح جوانی کے تیس سالوں میں آپ نے اپنی فیملی کیساتھ تیس ماہ گزارے۔ ان تیس مہینوں کے صدقے ان کے ہاں ہاں بچے پیدا ہوئے یا تیس سالوں کے صدقے یہ اللہ جانتا ہے، جو ان کے ریٹائر ہونے پر باہر چلے گئے۔ وہ جو جوانی اکیلے گزار چکے تھے اب بڑھاپا بھی اکیلے گزارنے لگے۔ حتی کہ ایک دن انہیں دفن ہونے کیلیے بھی بچوں کا پردیس سے آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
12 users commented in " بیوی بچوں سے دور زندگی بھی کوئی زندگی ہے "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackI totally agree!I also work in Dubai and and I do understand how difficult life is here! There is a good thing though and that’s am not married :p.
آپ آجکل بہت دکھی ہور رہے ہیں۔ خریت تو ہے۔؟
جو لوگ یورپ، امریکہ یا کسی بھی دوسرے ملک میں معاشی مجبوریوں کی وجہ سے پھنس چکے ہیں۔ ان میں سے ننانوے فیصد کے بچے بلکہ نسلیں اب کبھی بھی دوبارہ لوٹ کر پاکستان میں آباد نہیں ہونگی۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔
جس طرح ، جن لوگوں نے بچپن میں اسکول آتے جاتے اپنے ہمجولیوں کے ساتھ اسلم کے ڈیرے سے بیر توڑ کر کھائے۔ رستے میں آتے جاتے آنکھ بچا کر مکئی کا بھٹہ توڑ لیا۔ کبھی گنے توڑ کر چوس لیے۔ نہر پہ نہا لیا۔ دن کو دیکھے اور تاڑے گئے بالُو کے کھیت کے پکے پکے تربوزوں پہ رات کو شب خون مار لیا۔ چپکے سے گھر کی چھتوں سے اترے اور آدھی آدھی رات تک جنگل میں بے فائدہ سؤر کے شکار میں مارے مارے پھرتے رہے۔ اسکول کالج سے آنے کے بعد بھینسوں کو پانی چارہ ۔ نہلا دھلا ، دودھ دھلوا، ڈیرے پہ رات کو کتوں کو کھلا چھوڑنا۔ سخت گرمی کی دوپہروں کو ساگ پات دال سبزی اچار چٹنی مکئ کی روٹی مکھن گھی کی دوستوں کے ساتھ دعوتِ شیراز۔ گاؤں محلے کی چوپال پہ بڑے بوڑھوں کی ہزار دفعہ سنی سنائی بے مقصد باتیں۔ عید بقرعید پہ چوری چھپے سینما دیکھنا۔
الغرض ایسی بے شمار چیزیں ہیں جو ہر ایک اپنے ماحول کے لحاظ سے اپنے اپنے دور میں بچپن اور لڑکپن میں ملیں۔ جن سے انھوں نے بھرپور لطف اٹھایا ۔ بس نمبر اچھے آئے۔ یا شریک برادری میں کسی کا لڑکا کسی فارن کنٹری کیا گیا، باپ یا بڑے بھائی نے اپنے بیٹے کو بھی جیسے تیسے کر کے یورپ بجھوا دیا ۔ امریکہ کا ویزا لے دیا۔ اس ویزے کی خاطر ، بسا اوقات ماں نے اپنے زیور بیچے، باپ نے کچھ زمیں گروی رکھ کر ادھار لیا۔ آبائی زمین اونے پونے بیچ ڈالی۔ بس پھر کیا تھا بیٹا باہر چلا گیا، تعلیم مکمل کی۔ پاکستان اسے بہت چھوٹا نظر آیا۔ وہاں مواقع نہیں۔ معقول جابز نہیں۔ ہر شاخ پہ ایک ایک الؤ بیٹھا نظر آیا اور گلستان کے انجام سے زیادہ اپنے انجام کی فکر دامن گیر ہوئی۔ باہر ہی اچھی جاب کی آفر آگئی ۔ بعضوں کو آفر کے ساتھ ساتھ نینسی نے بھی اپنے آپ کو پیش کردیا۔ بس پھر کیا تھا مزے ہی مزے، اچھی جاب، گرم خون، چڑھتی جوانی، بھری جیب، نینسی کا ساتھ یا پاکستان میں گھر والوں کا دیا گیا وی آئی پی پروٹوکول، نشہ ہی نشہ۔ کہاں تو بچہ پاکستان میں کسی پھٹے والے کے پاس تین ہزار روپے میں سارا دن ویلڈنگ سے آنکھیں خراب کرتا تھا اور کہاں یورپ امریکہ وغیرہ میں ہر مہینہ پاکستانی ایک لاکھ کی بچت پاکستان جانے لگی۔ کچے مکانوں سے جان چھوٹی۔ مکان پکے اور پھر کوٹھی میں تبدیل ہوگئے۔ پہلے پہل پچاس سی سی کا نیا ھنڈا آیا۔ پھر سارے گاؤں میں واحد سکینڈ ہینڈ کار گھومتی نظر آنے لگی۔ شریک جل کر زیر لب دو تین ننگی گالیاں دیتے اور ملنے پہ بظاہر مسکرا دیتے ۔اس دوران ماں کو چاند سی بہو لانے کا شوق اٹھا بس پھر کیا تھا۔ لڑکا جی باہر ہے ۔ کوئی ایسی ویسی بات ہے ۔ میرا بیٹا ایک لاکھ پاکستانی گھر بھیجتا ہے ۔ خیر بہو بھی مل گئی اور شادی پہ بگھیوں پہ بارات گئی۔ پورا گاؤں کئی ماہ بعد بھی تزکرے کرتا رہا کہ خیر سے جی ولیمے پہ پچاس پچاس کاریں آئیں تھیں۔ شہر کا مشہور میرج ہال ( گاؤں والوں کے نزدیک شادی حال) بُک کروا لیا گیا نو قسم کے کھانے سولہ مصالحوں کے ساتھ کھلائے گئے ۔ پورے گاؤں میں ڈولی(دلہن کو بیاہ کر لائے جانے کی) کی ایک کلو مٹھائی فی گھرانہ بانٹی گئی۔ بے بے ہر آتی جاتی ملنے والی سے بات کرتے ہوئے نوٹوں کی ایک دتھی (گڈی)ہاتھ میں لے کر قسم قسم کے مانگنے والیوں میں کمال نخوت سے باٹنے لگی۔
شادی ہوگئی ، بہو رہ گئی، بیٹا عازمِ سفر ہوا۔ پہلے بے بے کی مدھانی بجلی کی آئی تھی اور باپ کے کلف لگے کپڑے پریس کرنے کے لئیے استری آئی تھی۔ اب بہو کے لئے ہئیر ڈرائیر، ڈیجیٹل کیمرہ ، سیمی کمپیوٹر موبائل ٹیلی فون۔ مووی کیمرہ اور برانڈنڈ پرفیوم اور کاسمیٹکس آنے لگا ۔ بہور ہر روز روز اول کی طرح سجنے دھجنے لگی۔
بے بے اپنے لاڈلے کی کمائی میں اچانک ایک نئی حصے دار کو دیکھ کر سٹپٹا کر رہ گی ۔ یہ تو ماں کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ لاڈلے کی کمائی میں کوئی اچانک دعویدار بھی پیدا ہوجائے گا اور دعویدار بھی خود سے تلاش کی ہوئی چاند سی بہو۔ بیٹے کی فضول خرچیاں اور بہو کے انداز دیکھ کر ماں سر پیٹ کر رہ گئی۔ پہلے پہل بیٹے کو فوں پہ دبے لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کی۔ بات بہو پہ بھی آشکارہ ہونے لگی ۔ بیٹا دو کشتیوں کا مسافر پھنس کر رہ گیا۔ بیوی کو اپنا درد بتایا، بیوی ساس سے لڑ کر روٹھ کر میکے جابیٹھی۔ بیچ بچاؤ کرنے والوں نے پوری کوشش کی مگر لڑکی والے اڑ گئے کہ بیٹی اب یہاں سے تبھی جائے گی جب اس کا خاوند اس کا باہر کا ویزاہ بیھج دے گا۔ ورنہ ہمیں کوئی بوجھ تھوڑا ہے ۔ نہ ہمیں اپنی بیٹی بھاری ہے۔ بیچ بچاؤ کرانے والوں نے بہت کوشش کی، بات نہ بنی۔ آخر کار چاند سی بہو باہر ہی گئی۔
لڑکے کے ماں باپ کو کبھی کبھار کچھ رقم ملنے لگی۔ پہلا پوتا کوئی سال بھر باہر ہی ہوا ۔ اسکا نام شازل رکھا ۔ دوسرے سال نازل رکھا چوتھے سال بہو بیٹا پاکستان ملنے آئے تو شازل نازل کے علاوہ گودی میں کچھ ماہ کی نازلی بھی تھی۔ پاکستان اور گاؤں کی فضا، مکھیاں، مچھر، گرمی، حبس، ماحول کی گھُٹن، بجلی کی آنکھ مچولی، نوٹوں سے بھرا پرس (بٹوا) مگر اشیاء ندادر، شہر دور، بہو بیٹے کا تین ماہ کا پاکستان پروگرام بڑی مشکل سے پچیس دن چل سکا اور وہ واپس لوٹ گئے ۔ شازل نازل کا اسکول نازلی کی لگاتار مزید دو بہنوں کی آمد اپنا مکان خریدنے کی فکر نے اگلے پانچ سال صرف فون پہ ماں کی ٹھنڈی آہیں سنوائیں۔ بوڑھا باپ مزید بوڑھا ہوگیا۔ بہو نے بھی باہر کے رنگ ڈھنگ اپنا لیے واک، پارک، مارکیٹس، ذاتی گاڑی، ذاتی مکان، بچوں کی پڑھائی، اتنے اخراجات، اُف ہر ماہ یہ رسید وہ رسید یہ بل وہ مکان کی قسط۔ بوڑھے ماں باپ کا ملنے کا اصرار، بہن کی شادی، جیسے تیسے بہو بیٹا بمع اپنے پانچوں بچوں کے باہر سے آئے (یہ باہر امریکہ یورپ وغیرہ کا کوئی بھی ملک یا کوئی بھی صارف ملک یعنی کنزیوم سوسائٹی ہو سکتی ہے)۔ پانچوں باہر کے اچھے ماحول اچھی خوراک کے پروردہ نازک سے پھولوں کو پھپھو کی شادی پہ رلتے دیکھ کر بہو کا کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ بڑی مشکل سے شادی کی رسومات ختم ہوئیں۔ ہفتے دس دن بعد بچوں کی تعلیم کا بہانہ کر کے بہو واپس لوٹ گئی۔ بیٹے نے کمر خمیدہ بوڑھے ماں باپ کو اپنے ساتھ لے جانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ مانے ۔ آخر کار بڑی منت سماجت سے وہ بیٹے کے ساتھ محض اس لئے باہر چلے گئے کہ اب انھیں سنبھالنے والا کوئی خاص نہیں تھا۔ بیٹا بار بار آ نہیں سکتا۔ باہر بوڑے ماں باپ ہر وقت اپنے گاؤں اور رشتے داروں کو یاد کر کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے ، بہو کا غصہ بھی ہر وقت ناک پہ اڑا رہتا اور بہو تنی رہتی۔ ماں باپ نے منت سماجت کر کے بیٹے کے مامے کے پاس واپس جانے کی ٹکٹیں کروا لیں۔ وہ پاکستان چلے گئے ۔ ایک دن مامے کا فوں آیا تمہاری ماں سخت بیمار ہے اگر منہ دیکھنا ہے تو فوراً آجاؤ۔ بڑی مشکل سے ٹکٹ لیکر بیٹا روتا پیٹتا رستے میں تھا کہ فون آیا ماں قضائے الہٰی سے مر گئی ۔ برف لگا دی گئی ہے منہ دیکھنا ہے تو پہنچ جاؤ۔ دوسال گزرے پھر باپ بھی لقمہِ اجل ہوگیا۔
اب شازل نازل گریجوئیشن کر رہے ہیں۔ انکے دوست ڈیوڈ ، اسمتھ، لزا۔ روزی ہیں۔ وہ باہر ہی پلے بڑھے ہیں ۔انکے ہیرو مکی ماؤس سے ہوتے ہوئے انتونیو بندیرا ہیں۔ وہ برگر کنگ اور مکڈولنڈ جیسی فاسٹ فوڈ پہ اپنے دوستوں سے ملتے ہیں۔ کوک پیتے اور جمعہ کے جمعہ اور کسی کسی ویک اینڈ پہ باپ کے ساتھ مسجد اور اسلامک سنٹر جاتے ہیں ۔ شام کے امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ اور عربی میں خطبہ سنتے ہیں۔ چھ میں سے چار کلمے اور پوری نماز بڑی مشکل سے جانتے ہیں۔ اپنی بہنوں نازلی شازلی وغیرہ کو گھر پہنچ کر انگریزی میں روز کے نئے نئے تجربے بیان کرتے ہیں۔
ابا بوڑھا ہو چکا ہے اسے اپنے بچپن میں اسکول آتے جاتے اپنے ہمجولیوں کے ساتھ اسلم کے ڈیرے سے بیر توڑ کر کھائے۔ رستے میں آتے جاتے آنکھ بچا کر مکئی کا بھٹہ توڑ لیا، کبھی گنے توڑ کر چوس لیے، نہر پہ نہا لیا، دن کو دیکھے اور تاڑے گئے بالُو کے کھیت کے پکے پکے تربوزوں پہ رات کو شب خون مار لیا۔ چپکے سے گھر کی چھتوں سے اترے اور آدھی آدھی رات تک جنگل میں بے فائدہ سؤر کے شکار میں مارے مارے پھرتے رہے۔ اسکول کالج سے آنے کے بعد بھینسوں کو پانی چارہ ۔ نہلا دھلا ، دودھ دھلوا، ڈیرے پہ رات کو کتوں کو کھلا چھوڑنا۔ سخت گرمی کی دوپہروں کو ساگ پات دال سبزی اچار چٹنی مک کی روٹی مکھن گھی کی دوستوں کے ساتھ دعوتِ شیراز۔ گاؤں محلے کی چوپال پہ بڑے بوڑھوں کی ہزار دفعہ سنی سنائی بے مقصد باتیں۔ عید بقرعید پہ چوری چھپے سینما دیکھنا۔ سب بہت شدت سے یاد آتا ہے۔ مگر شازل نازل کا بچپن ویڈیو گیمز اور سپائیڈرمین کے اسٹیکر چینج کرتے، اسکول کالج کے لڑکوں کے ساتھ فٹبال کھیتے گزرا ہے۔ وہ باپ کی پاکستان، پاکستان کی گردان پہ باپ کو عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ باپ کے بہت اصرار پہ بیزارگی سے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا گھستے ہیں۔
اب ماں یا باب کے دارِ فانی ہونے پہ زیادہ سے زیادہ انکی میت(ڈیڈ باڈی) لکڑی اور لوہے کے ٹھنڈے تابوت، جس کے اوپر چہرے کے سامنے چوکور شیشہ لگا ہوگا اور تابوت کو کسی بھی صورت نہ کھولنے کی ہدایت ہوگی، اس تابوت میں بند کروا کے ماں باپ کے جاننے والے انہی جیسے دوست یا علاقے کے لوگ چندہ اکھٹا کر کے انکے آخری سفر پہ پاکستان بیجھیں گے۔ گاؤں کی مسجد میں اعلان کیا جائے گا۔ جہاں گاؤں والے ایک ٹھنڈی قبر کے پاس آدھی رات کو باہر سے آنے والی میت (ڈیڈ باڈی ) جسے چند بڑے بوڑھوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہوگا ۔ اس کی قبر پہ آدھی رات کو گاؤں کے لوگ بیزارگی سے انتظار کر رہے ہوں گے کہ صبح صادق جنازہ پڑھا کر اس ناخوشگور فرض کو پورا کر سکیں۔
اس ماں اور باپ کے بعد (اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کے بعد) ان بچوں، انکے بچوں، انکے بچوں کو کوئی مسلئہ نہیں ہوگا ۔ انکی کوئی یاد پاکستان یا اپنے آبائی گاؤں سے وابستہ نہیں ہوگی۔ انکے بیڑ، بانٹے، ٹھنڈے تربوز کی یادیں سب باہر ہی ہونگی۔ وہ باہر جس کا سفر شریک برادری کو نیچا دکھانے کے لئے یا بچے کے اچھے نمبر آنے سے شروع ہوا تھا ۔ وہ باہر اپنے ساتھ ایک نسل ہی نہیں بلکہ آئیندہ پوری نسلیں ہی ساتھ لے گیا۔
جس بستی کے مان سنوارنے نکلا تھا
لوٹا ،تو وہ بستی ہی نہیں تھی
پہلے جاوہدگوندل صاحب۔
بھائی اتنا زیادہ ۔۔۔۔ زرا مشکل ہوجاتاہے۔۔۔ پڑھنا۔
محترم افضل صاحب۔
بات کچھ ٹھیک ہے لیکن آپ نے زرا زیادہ سیرئس کردی اتنا نہیں ہے جتناآپ کہہ رہے ہیں اور رہی خراب ہونے والی عورتیں تو معزرت کے ساتھ اس کے لیے شوہر کا باہر ہونا ضروری نہیں۔ الحمداللہ ہمارامعاشرہ ابھی اتناخراب نہیں ہوا ہے اور ایسی بیشمار نیک عورتوں کی کمی نہیں جنہوں نے صبراور شکر کے ساتھ زندگی گزار دی۔
رہی جہاں تک دبئی کے پیسوں کی بات تو اگر آپ ایمان کے اس انتہائی درجہ کونکال دیں جوکہ ولیوں کی میراث ہے اور آپ سنجیدہ تجزیہ کریں تو دبئی کے پیسوں نے درمیانے اور نچلے طبقے کے حالات ضرور بدلے ہیں تاہم بیوی بچوں سے بہت عرصہ تک دور رہنے کے معاملے پر میں آپ سے متفق ہو۔
ان لوگوں کو اپنے ٹارگیٹ رکھنا چایہے اور اس کے بعد اگر وہ اپنے بیوی اور بچوں کو وہاں نہیں بلاسکتے ہیں جہاں خود مقیم ہیں تو انہیں توکل اللہ کرکے واپس آجانا چاہئے۔
ویسے برانہ مانے “ کیاپاکستان اب رہنے کی جگہ رہی ہے“ میں چاہوں گا کہ اہک پوسٹ آپ اس پر بھی لکھں اور لوگوں سے درخواست کروں گا کہ اس موضوع پر اپنے دل کی سچی سچی لکھیں۔
جاوید گوندل صاحب کی تحریر خاص توجہ چاہتی ہے اسلیے ہم نے اسے الگ سے چھاپ دیا ہے۔
چوہدری صاحب، آپ کی بات سے ہم متفق ہیں کہ نوے کی دہائی کے بعد دبئی والوں کے حالات بدلے مگر اکثریت کے نہیں۔ ہاں یورپ والوں نے اپنی فیملی کے وارے نیارے کر دیے۔ ہمارا موضوع ہی یہ تھا کہ فیملی کو لمبے عرصے کیلیے تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے جس کے نقصانات زیادہ ہیں فائدے کم۔
بہت اچھا اور سچ لکھا گیا ، ایک ایک حرف حقیقت پر مبنی ہے ماسوائے اس کے کہ عورتیں خراب ہو جاتی ہیں ۔ اس پر بات اس لیے نہیں کر سکتی کہ میرے مشاہدے میں ایسی کوئی کہانی نہیں آئی ۔ جہاں تک فیملی کو ساتھ رکھنے کا سوال ہے تو میں بھی یہی کہوں گی کہ اس پیسے کا کوئی فاہدہ نہیں اور نا ہی اس محنت کا جو آپ اپنی فیملی کے لیے باہر رہ کر کرتے ہیں ۔ بچوں کو جہاں ماں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں باپ کا پاس ہونا بھی بہت اہم ہے ۔ باپ کی کمی کو نا تو ماموں اور نا چاچا پوری کر سکتا ہے ۔اور خاص کر آج کے دور میں اکیلی ماں کچھ نہیں کر سکتی ۔ معاشرہ کتنا خراب ہے اس پر تو بعث بعد کی بات ہے پہلے اس عورت کو بھی اپنی ذات کے لیے سکون چاہے ۔ وہ حضرات جو اپنے بیوی کو ماں باپ اور بہن بھائی کی خدمت کے لیے چھوڑ جاتے ہیں ۔ان کو سوچنا چاہے ۔ اگر آپ کی بیوی آپ کے خاندان کی خدمت میں لگی رہی تو آپ کے بچوں کی تربیت کیسے ممکن ہے ۔ اور جب آپ واپس آتے ہیں ۔ کئی سالوں بعد تو کیا اس وقت کو واپس لا سکتے ہیں ۔ جو بچوں کے بچپن میں ساتھ گزارہ ہوتا ہے ۔ پھر نا تو آپ اور نا ہی آپ کی بیوی عمر کے اس حصے میں ہوتی ہے اور نا ہی آپ کے بچے جن کے ساتھ رہ کر آپ اپنی زندگی کے شروع کے چند خوشگوار سال گزارتے ہیں ۔
جو لوگ یورپ، امریکہ یا کسی بھی دوسرے ملک میں معاشی مجبوریوں کی وجہ سے پھنس چکے ہیں۔ ان میں سے ننانوے فیصد کے بچے بلکہ نسلیں اب کبھی بھی دوبارہ لوٹ کر پاکستان میں آباد نہیں ہونگی۔ یہ ایک فطری عمل ہے
توجہ ٹلب تحریر ہے
جاوید گوندل صاھب جو لوگ غیر قانونی طریقوں سے جاتے ہیں مجھے تو اُن پہ رشک آتا ہے۔
پیسے کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے
انکل افضل
بات واقعی حد سے زیادہ سیریس ہو گئی, جو بات آپ کر رہے ہیں ویسا ہو سکتا ہے مگر ماحول کا فرق بھی ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر جگہ ایسا ہو
بہر حال میری رائے بھی یہی ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو زیادہ دیر تک اکیلا نہ چھوڑا جائے، فیملی ویزے کے حصول کے لیے کچھ عرصہ تو سب کو درکار ہوتا ہے، یقینن فوری طور پر ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، اور اگر آپ ایسا کرنے میں جلدی کامیاب ہو جائیں تو یہی بہترین حل ہے، یہی ہمارے دین کے مطابق ٹھیک بات ہے اور یہی معاشرتی لحاظ سے ٹھیک بات ہے اور یہی انسانی ضروریات کے حوالے سے ٹھیک بات ہے۔
میں انشا اللہ ایسے موضوع پر پھر لکھنے کی کوشش کروں گا، بہت شکریہ کے آپ نے میری تحریر کے حوالے سے اپنے بلاگ پر ایک مضموں لکھا
دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا ہے جی آپ نے ۔۔۔۔
وہ عورتیں خراب ہوتی ہیں جی ۔۔ جن کے مرد باہر جا کر دوسری عورتوں سے خراب ہوتے ہیں۔۔۔
مکافات عمل ہوتا ہے جی یہ۔۔۔
خلیجی ممالک میں کام کرنےوالوں کی تو دال روٹی ہی چلتی ہے جی آجکل۔۔۔
بچتا وچتا کچھ نہیں ہے۔۔۔
ہاں یورپ امریکہ والوں کے مزے ہیں۔۔۔
جاوید صاحب کی کہانی بہت اچھی ہے اور ہمارے معاشرے سے مطابقت رکھتی ہے، اسی کہانی پر اگرایک ڈرامہ بنایا جائے تو کیا بات ہو
مگر اسے سچی کہانی کے زمرے میں لکھا جا سکتا ہے، ہمارے خاندان میں بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں ، جو یورپ امریکہ جا کر سیٹل ہوے تو انکی فیملی تباہ برباد ہو گئی
مگر ایسے بھی بہت سارے لوگ ہیں جو باقاعدہ بہترین طریقے سے پلانگ کر کے اپنے خاندان کو بکھرنے سے بچائے رکھتے ہیں اور بالاخر واپس اپنے وطن کو لوٹ آتے ہیں
السلام علیکم
یہ بہت ہی حقیقت پر مبھنی تحریر ہے، البتہ جہاں تک عورتوں کی بے راہ روی کے بارے میں کہا گیا، یہ تو بس بیک گراونڈز پر ڈیپنڈ کرنے والی باتیں ہیں، کیونکہ کسی بھی حالات میں ہر گھر میں کرائم نہیں ہوتا، ہاں، چانسس بن جاتے ہیں۔
ایک اہم بات یہ کہ، بعض مجبوریوں کی بنا پر وقع پذیر ہونے والی دوریوں کو یہ مضمون سپورٹ نہیں کرتا، جہاں دو روٹی کھاکر، عزت بچاکر، کچھ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے زندگانیاں قربان ہوتی ہیںِ اور یہ قربانیاں محض چار پیسے کمانے کی بات نہیں عزت بلکہ سانس کی ڈوری ٹوٹنے سے بچانے کے لئے ایک وجود کی قربانیوں سے بہت سے وجود کے چہروں پر مسکان بکھیری جاتی ہے۔
واللہ اعلم
Leave A Reply