آج سپریم کورٹ نے نواز شریف کو طیارہ شازش کیس سے بری کرتے ہوئے ان کی تمام سزائیں کالعدم قرار دے دیں۔ اس کیس سے ہمارے ذہنوں میں کئی سوالات ابھرے ہیں۔ سب سے چبھتا ہوا سوال یہ ہے کہ اگر مشرف پاکستان کا صدر ہوتا تو کیا سپریم پھر بھی وہی فیصلہ دیتی یا اگر موجودہ حالات ہوتے تو کیا دہشت گردی کی خصوصی عدالت یہی فیصلہ دیتی اور سندھ ہائی کورٹ اس فیصلے کو برقرار رکھتی؟ ان دونوں سوال کا جواب اگر نفی میں ہے تو پھر چیف جسٹس آف پاکستان کو تحقیقاتی کمیشن قائم کرنا چاہیے جو یہ جانے کہ پہلے عدالتوں نے نواز شریف کو مجرم کیوں قرار دیا اور اب بری کیوں دیا؟
ہمار تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارا عدالتی نظام موم کی ناک کی طرح ہے جسے ہر حکمران اپنی مرضی سے جدھر چاہتا ہے موڑ دیتا ہے۔ کبھی کبھی تو آمر اس ناک کو غائب ہی کر دیتا ہے۔ آمر مشرف نے اس کا حلیہ بگاڑا اور آمر زرداری اسی بگڑے ہوئے آئین کے بل بوتے پر آج ایوان صدر میں بیٹھے ہیں۔ خدا نے چیف جسٹس کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ آئین کو موم کی ناک سے لوہے کی ناک میں بدل دیں جو کبھی کاٹی نہ جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا چیف صاحب کچھ کرتے ہیں یا پھر ان کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں۔
تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں عدالتی نظام اور ملکی قوانین میں تبدیلیاں کی جائیں اور غلط فیصلے ثابت ہونے پر ججوں کو بھی نہ بخشا جائے بلکہ انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس کیساتھ ساتھ اس وقت کے حکمران کو بھی عدالتی کٹہرے میں لا کر پوچھا جائے کہ انہوں نے اپنے مخالفین پر جھوٹے مقدمات کیوں بنائے۔
حیرانی ان لوگوں پر ہے جو نواز شریف کو سزا ملتے وقت حکومت وقت میں شامل تھے اور اس وقت کچھ نہیں بولے بلکہ نواز شریف کیساتھ غداری کرنے کے بعد انہیں لعن طعن کرتے رہے۔ اب وہی لوگ نواز شریف کو بری ہونے پر مبارکبادیں دے رہے ہیں۔
ساری صورتحال سے یہی ثابت ہو رہا ہے کہ جس طرح صدر زرداری اور ان کی پیپلز پارٹی این آر او کے بدلے جنرل مشرف کو عدالتی کٹہرے میں لانے سے کترا رہی ہے، اسی طرح نواز شریف بھی اپنی سزائیں بخشوانے کے بدلے حکومت کو کھلا ہاتھ دے رہے ہیں۔ مگر یاد رہے جس طرح پی پی پی نے حکومت ملتے ہی جنرل مشرف کی چھٹی کرا دی، کہیں نواز شریف بھی تمام سزائیں معاف کرانے کے بعد حکومت وقت کیلیے وبال جان نہ بن جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی حکومتیں اپنے مخالفین کو اگر جیل سے رہا بھی کر دیتی تھیں مگر ان کے مقدمات ختم نہیں کرتی تھیں تا کہ وہ حکومت کیلیے خطرہ نہ بنیں۔ لیکن شاید حکومت کو یقین ہے کہ اب وقت بدل چکا ہے، کیونکہ اب نواز شریف کی طرح سیاستدانوں کو نہ صرف جیلوں میں بند نہیں کی گیا بلکہ ان کے مقدمات بھی ختم کئے جا رہے ہیں۔ وہ اسلیے کہ اب کوئی تیسری بڑی قوت ان کے درمیان ضمانتی ہے جس کی بدولت حکمرانوں کو اب حزب اختلاف کو تھانے کچہری کے چکر لگوانے کی ضرورت پیش نہیں آ رہی۔
8 users commented in " طیارہ سازش کیس "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackایک ۔ طیارہ نہ ہائی جیک ہوا تھا اور نہ اسے اترنے سے روکا گیا تھا کیونکہ جس نے کراچی کی بجائے طیارے کو نوابشاہ اتارنے کا حکم دیا تھا وہ شام سات بجے سے پہلے فوج کی حراست میں تھا [نواز شریف]۔ ساڑھے سات بجے تک پاکستان کی تمام اہم ايئرپورٹس پر فوج کا قبضہ ہو چکا تھا جبکہ طیارہ پانچ منٹ کم آٹھ بجے کراچی کی فضا میں داخل ہوا تھا
دو ۔ پہلے پی سی او کو نہ ماننے والے تمام جج جن میں سپريم کورٹ کے چیف جسٹس اور دوسرے چھ جج اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شامل تھے کو بر طرف کر دیا گیا تھا مگر قوم سوئی رہی تھی
تین ۔ سات سال طوفانِ بدتمیزی چلتا رہا مگر قوم سوئی رہی ۔ دعا دینا چاہيئے سیّد عدنان کاکاخیل کو جس کی تقریر کی وڈیو دیکھ دیکھ کر وکلاء کو ہوش آیا اور دوسرے چیف جسٹس کی برطرفی پر وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور پھر مسلم لیگ نون ۔ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف بھی ان کے ساتھ مل گئے ورنہ آج بھي وہی کچھ ہو رہا ہوتا جو سات سال ہوتا رہا تھا
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ مشرف نے ان لوگوں کی ذاتی بھینس چرائ تھی یا نواز نے ان لوگوں کو بھیسیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ملک توڑ کر ٹکڑے کرنے والوں کی باقیات کے آنے پر بھنگڑے پڑتے ہیں۔ قانون پر حملہ کرانے والوں کو قانوں کا محافظ بنا دیا جاتا ہے اور پھر اسی احسانمند قانون سے مقدمات معاف کرواکے بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں۔ ان سے نواز شریف پر یہ الزام بھی غلط ثابت کرادیں کہ انہوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کروایا تھا اپنے دور حکومت میں۔ خدا جانے ان عقل والوں کو کب سامنے کا راستہ نظر آئے گا یا یہ لوگ بھنگڑے ڈالتے اور مٹھاءیاں بٹواتے رہیں گے بار باری۔
I agree with you aneeqa.This decision has some biasing. But as a human being people are trying to accept Nawaz Sharif ‘s that act as a fault that should be forgot about as there are no more new generation leaders. We need leaders. Then we could have improvements in all departments of life.
اس کیس کے میرٹس پر بات کرنے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں
گلی محلے کی پنچایت میں بھی کوئی ایسا کیس پیش ہو تو پنچ مدعی کو ساٹھ چھتروں کی سزا دے دیں اسی وقت۔۔۔
اور جی مشرف صاحب کے خلاف بات نہ کیاکریں۔۔۔
اتنے عظیم جمہوریت پسند، آزاد (مادر پدر) خیال، اور روشن خیال اعتدال پسند قائد کا تو مجسمہ بنانا چاہئے پاکستان کے ہر بڑے شہر کے ہر بڑے چوک میں ۔۔۔
پھر آپ کو پتہ چل جائے گا کہ قوم ان سے کیسی عقیدت رکھتی ہے۔۔۔
قوم کی کیا بات ہے جناب قوم تو مرد مومن مرد ھق سے اس سے زیادہ عقیدت رکھتی ہے، قوم تو بھٹو صاحب سے اتنی عقیدت رکھتی ہےکہ انکے مجسمے تو نہیں تصویریں ہر جگہ چھائی ہوئی ہیں۔ یہ وہ صاحب ہیں جو ایک جلسے میں کہتے ہیں کہ میں شراب پیتا ہوں خون تو نہیں پیتا، یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے پاکستان توڑنے کی جدو جہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا اور اسکے نتیجے میں ہزارون انسانوں کا خون نا حق بہایا۔ نوے ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کی سعادت حاصل کرنے کا موقع دیا۔ جو انڈیا کی جیلوں میں پڑے سڑتے رہے۔ جناب نے دوسری شادی کرنے کے لئے اگر کسی کو پسند کیا تو وہ ایران کی ایک بیلے ڈانسر تھیں۔
قوم کے عظیم رہنما کو رتبہء شہادت ملا۔ اور اگر ہمارے یہاں مجسمے لگانے کی روایت ہوتی تو انکے مجسموں یہ قوم سجدہ بھی کرتی۔
جواب خاسہ لمبا ہوجائے گا۔ میں اسے یہیں ختم کرتی ہوں۔ جناب ہماری قوم کی محبت اور نفرت کا کوئی پیمانہ بتا سکتے ہیں آپ جس پہ اتر کر میں یا کوئی اور عظیم لیڈر بن جائے۔
گسہ کر گئی ہیں آپ۔۔۔
کسی کو تپا کے کتنا مزا آتا ہے نئیں!!
😀 😀
یار جعفر تپا کوئی اچھی عادت تو نہیں۔
سونچو، سمجھو اور سمجھاؤ کہ ہم کس طرف کو جارہے ہیں۔
کیا پھر ایک ترمیم ایک گھنٹہ میں پاس اور ابکے “میں“ “امیر المومنیں“
لوگوں نے کیا خوشی سے مشرف کی آمد پر مٹھائیاں باٹیں تھیں، مجھے تو اس وقت کا خوف ہے جب تین صوبے امیرالمومنین کی حاکمیت ماننے سے انکار کر دیں گے ایسی لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے بوٹوں کی آواز آنا شروع ہو گئی ہے۔
واہ چوہدری حشمت صاحب آپنے ایک بار پھر مار دیا پاپڑ والے کو ؛):)
Leave A Reply