جدید الیکٹرونکس کی آمد کے بعد فحاشی ہمارے معاشرے میں اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ اس کو مکمل طور پر بند کرنا اب ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو چکا ہے۔ کل پولیس نے ایکشن دکھا کر جن دو اداکاراؤں کو فحاشی کے الزام میں گرفتار کیا ہے وہ صرف دکھاوا ہے۔ اس وقت اگر حکومت فحاشی ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے تو پھر اسے نہ صرف قانون سازی کرنی پڑے گی بلکہ اس پر سختی سے عمل بھی کرنا پڑے گا۔
پرانے وقتوں میں جب وی سی آر ابھی نہیں آیا تھا، فحاشی صرف ایک خاص طبقے تک محدود تھی۔ یعنی وہ لوگ جو انگریزی فلمیں دیکھنے جایا کرتے تھے انہیں ٹوٹے دکھا دیے جاتے تھے۔ اسی طرح یورپ کی سیر کو جانے والے وہاں فحش فلمیں اور فحش عورتوں کے بارے میں واپس آ کر بتایا کرتے تھے۔ یورپ پلٹ لوگ کبھی کبھار فحش میگزین بھی چھپا کر لے آیا کرتے تھے۔ ویسے اس وقت فحش لٹریچر اور شراب کی درآمد میں ایئرفورس کے ان نوجوانوں نے بہت کام دکھایا جو سرکاری جہازوں کیساتھ یورپ جایا کرتے تھے۔ لیکن جب وی سی آر آیا تو پھر فحش ویڈیوز عام ہو گئیں اور فحاشی تک خاص آدمی کی رسائی آسان ہو گئی۔ اس وقت بھی پولیس کاروائی ڈالنے کیلیے کبھی کبھی چھاپے مار کر وی سی آر اور بلیو ویڈیوز قبضے میں لے لیا کرتی تھی۔
وی سی آر نے معاشرے پر ستر کی دھائی سے نوے کی دھائی تک راج کیا۔ جنرل ضیاء نے چاہے حالات کی مجبوری کے تحت سہی، فحاشی کو کنٹرول میں رکھا۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ اس کے دور میں کنجر خانے بند ہوئے، سینما پر فحش فلمیں غائب ہو گئیں اور معاشرہ بظاہر اسلامی اور پاکستانی نظر آنے لگا۔ مگر اس کے جانے کے بعد گھٹن ایسی چھٹی کہ فلم سازوں کی موج ہو گئی۔ سٹیج ڈراموں نے فحاشی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلیو فلمیں سینماؤں پر چلنے لگیں اور شراب بھی عام ملنے لگی۔
نوے کی دھائی میں جدید الکٹرونکس کی آمد سے فحاشی عام آدمی کی دسترس میں آ گئی۔ لوگوں کو کمپیوٹر، سی ڈی پلیئرز، انٹرنیٹ کیفے اور سینما تک رسائی کیا حاصل ہوئی انہوں نے جی بھر کر اپنی گھٹن دور کی۔ اسی عرصے میں سٹیج ڈراموں نے فحش ذومعنی فقروں اور ڈانسز کی وجہ سے خوب بزنس کیا۔ یہ ڈرامے اب انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور ہر کسی کی پہنچ میں ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ لائیو ڈرامے دیکھنے والوں کی زیادہ تر تعداد آدمیوں کی ہوتی ہے مگر انٹرنیٹ نے اب ان ڈراموں کو ہر گھر میں پہنچا دیا ہے۔
یہ واقعی سچ ہے کہ یہ ڈرامے انتہائی لچر اور زومعنی فحش فقروں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ان ڈراموں میں نہ صرف ڈانسرز اپنے خفیہ جسم کے حصوں کی نمائش کرتی ہیں بلکہ جن گانوں پر وہ ڈانس کرتی ہیں وہ بھی فحاشی کی بلندیوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ ریکارڈ کیلیے بتا دیں پاکستان میں سب سے پہلے جس گانے پر فحاشی کی وجہ سے پابندی لگی وہ فلم ٹھاہ کا “آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے” تھا جو نورجہاں نے گایا تھا۔ حالانکہ فلم میں ہیروئن کا نیم عریاں سینہ نہیں دکھایا گیا تھا مگر بولوں کی وجہ سے گانا فحش قرار پایا۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ نصیبو لال کے فحش گانوں پر دیدار، انجمن شہزادی، نرگس، حنا شیخ، میگھا، ندا چوہدری، سونو لعل وغیرہ اپنی چھاتیوں کیساتھ کیا کچھ نہیں دکھاتیں مگر فحاشی کے ذمرے میں شمار نہیں ہوتیں۔ اب فحاشی کی بیماری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ بہت بڑے آپریشن اور منصوبہ بندی کے بغیر اسے ختم کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔
اگر حکومت فحاشی ختم کرنے میں واقعی مخلص ہے تو پھر دکھاوے کے چھاپوں کی بجائے باقاعدہ منصوبہ بندی کیساتھ ایکشن لے اور اداکاراؤں کی بجائے ان پروڈیوسروں اور مالکان کو گرفتار کرے جو یہ دھندہ ایسی عورتوں سے کروا رہے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں کے فحاشی کے اڈے بند کرے، سڑکوں پر اپنے جسموں کا کاروبار کرنے والے ہیجڑے نما آدمیوں کو گرفتار کرے، شراب کی پابندی پر سختی سے عمل کرائے، کیبل پر فحش فلمیں دکھانے والوں کو گرفتار کرے، امراء کی کوٹھیوں میں قائم شراب و کباب کی محفلوں والے کلب بند کرے وغیر وغیرہ۔ مگر حکومت ایسا نہیں کرے گی کیونکہ غلاموں کو اس قسم کا کوئی مشن سونپا ہی نہیں گیا بلکہ الٹا اس طرح کی فحاشی پھیلانے کو کہا گیا ہے تا کہ معاشرہ اسلام سے بیگانہ ہو جائے اور مسلمان ان عیاشیوں میں کھو کر یورپ کیلیے خطرہ نہ رہیں۔
مزے کی بات یہ ہے نہ پہلے کبھی کسی کو فحاشی کے چکر میں سزا ہوئی اور یاد رکھیں نہ اب ہو گی۔ اس طرح کے ڈرامے پہلے بھی ہوتے تھے اور اب بھی اداکاراؤں کی گرفتاری ڈرامہ ہے۔ ہمیں یاد ہے ہمارے ایک عزیز جو پرانے وقتوں میں ڈی ایس پی تھے نے مہدی حسن کو شراب میں مدہوش سڑک پر غل غپاڑہ کرتے گرفتار کیا اور صرف تھانے میں گانا سن کر چھوڑ دیا۔ اب بھی پولیس ان اداکاراؤں کو چھوڑ دے گی اور ان جیسے فحاشی کے دھندے کرنے والوں سے نظریں چرا کر فحاشی کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔
15 users commented in " فحاشی کیخلاف مہم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ان عورت نما چیزوں کی بجائے ان ڈراموں کے پروڈیوسرز کی تشریفوں پر لتر لگیں تو کم ازکم یہ کنجر خانہ تو بند ہو ہی جائے گا، لیکن بات وہی ہے کہ دودھ کی رکھوالی پر بلی بیٹھی ہو تو دودھ کیسے بچے گا؟؟؟؟
سر آج کل کے کارٹون پروگرامز بھی ایسے ہیں کہ میرے سے خود دیکھے نہیں جاتے تو بچے ان سے کیسا اثر لیتے ہونگے ۔۔ مار دھاڑ اور شور شرابے سے بھرپور کیبل ۔۔ اور ہیلتھی انٹیرتینمنٹ کے فقدان نے ہمارے معاشرہ کو گھیر رکھا ہے ۔۔ بچے بھی کیا کرے جی وہی کرے گے جو بڑوں کو کرتا دیکھے گیں ۔
موبائیل فونز کا سکولز کالجز میں استعمال کے بارے میں تو کبھی سوچا تک نا تھا ۔۔ آج کا بچا تو کلاس روم میں اپنے مابائیل پر ہی ہر طرح کی ویڈیو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔
والیدن و اساتذہ کا کردار ہی اہم ہے ۔۔ بچوں کے ہر طرح کے سوال کا جواب ان کے پاس ہونا چاہیے ۔ گر بچا سوال نہیں کر پا رہا پھر بھی زمہ داری والدین و اساتذہ کی ہے کہ ایسا کمفرٹیبل ماحول پیدا کیا جائے کہ بچا بے راو روی کا شکار نا ہو ۔۔۔ اور پھر حکومت کی زمہ داری ہے کہ ہیلتھی انٹیرٹینمنٹ کو فیسلیٹیٹ کرے ۔
اور ہم بڑوں کی زمہ داری کے اپنے چھوٹوں کے لیے ہر شعبہ ہائے زندی میں ایک مثال بنیں کیو کہ چھوٹے کچھ حد تک وہی کرنا چاہیں گے جو ہم کر رہے ہوگے
پاکستان مین پکڑا وہ جاتا ہے جو کمزور ہوتا ہے۔
اور پکڑا بھی اسی لیے جاتا ہے کی اگلی دفعہ جرم کرنے سی پہلے اسکا لائسنس لے لے۔
جب حرام خور صدر ہو اور دلے فوج کے سربراہ ہوں تو جو بھی ہو وہ کم ہی لگتا ہے۔
کاش امیرالمومنین حضرت ضیاء الحق حیات ہوتے تو ہماری آپ کی نسل فحاشی کے ہجّوں تک سے نا واقف ہوتی۔
کسی بھلے مانس کا شعر ہے
کوئی حد نہیں ہے کمال کی
کوئی حد نہیں ہے جمال کی
اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں
کوئی حد نہیں ہے دلال کی
کوئی حد نہیں ہے زوال کی
اور یہ واقعی ہمارا زوال ہے، بدترین زوال، صحیح یاد نہیں لیکن کچھ سال پہلے گوگل کی ایک رپورٹ دیکھی پڑھی تھی کہ گوگل پر تلاش کے حوالے سے، اسلامی ممالک میں سے سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس تلاش کرنے والا ملک پاکستان تھا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
فحاشی اور ہمارا ترسا معاشرہ ایک لفظ کے دو معانی
وارث صاحب کے تبصرے کے جواب میں کہنا تھا کہ
وہ گوگل کا ایک سیمپلڈ سروے تھا جو پورے ڈیٹا پر نہیں کیا گیا تھا
اس لئے اس کی اتنی اہمیت نہیں
مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان فنکاراؤں کے جسم میں خفیہ حصے ہوتے ہیں۔ کیا یہ ان سے جاسوسی وغیرہ کا کام کرتی ہیں؟
نعمان میں یہ ترکیب پڑھکر کافی دیر تک ہنستی رہی اور ایکدم خفیہ درازیں اور گودام و تہ خانے یاد آگئے۔ خیر میں تو یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ہمارا معاشرہ آخر کیوں اتنا ترسا ہوا ہے۔ جو ہر وقت اس چیز کا حوالہ ملتا ہے۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ سب ایک لائن میں کھڑے ہیں۔ جنہوں نے دو تین شادیاں کی ہوئیں ہیں وہ حد سے زیادہ ترسے ہوئے ہوتے ہیں۔ بات یہ نہیں ہے بات یہ پے کہ ہمارے یہاں مرد بچوں کی تربیت میں بڑا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہ ساری چیزیں مردانگی سے جوڑی جاتی ہیں۔ مرد بچہ ہے جی، عمر بھی ہے، خون تو گرم ہوگا جی۔ تو اس خون کی گرمی کا توڑ اسی نسخے سے تیار ہوتا ہے۔
جناب یہ سب میڈیا کا کھیل ہے
آج میڈیا دیکھا ہی یہی رہی ہے سب کے جزبات سے کھیلا جا رہا ہے
کل تک میڈیا اتنا آزاد نہ تھا جتنا آج ہے
آزادی کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے
آج پاکستان کے نجی ٹی وی چینل دیکھے جائیں جانے کیا سکھایا جا رہا ہے بچہ بچہ اپنی ماں بہن کے ساتھ یہ ڈرامے دیکھ رہا ہے
جب ماں بہن کے ساتھ آج یہ سب بیٹھ کر دیکھا جا سکتا ہے تو کیا شرم کیا حیا
کل تو اور تباہی آنے والی ہے
کسی کو کچھ نہیں ہو رہا
کوئی کچھ نہیں سوچ رہا
بس آزادی چاہیئے سب کو
سو مادر پدر آزاد ہو رہے ہیں سب
میری آپکی یہ باتیں کل کس دقیا نوسی کہلائیں گی
اور جلد ایسا ہونے والا ہے سننے والا ہی نا ہوگا یہ سب کوئی
جنرل ضیاء کے دور میں کنجر خانے بند ہوئے اور گلی گلی کنجر خانے کھل گئے،سینما پر فحش فلمیں بند ہوگئیں اور گھر گھر میں فحش فلمیں دیکھی جانے لگیں،معاشرہ بظاہر اسلامی اور پاکستانی نظر آنے لگا مگر غلاظت اندر ہی اندر سڑ کر بدبو دینے لگی،
یہ ننگے ڈانس زیادہ تر پٹھان اور پنجابی ہی کیوں شوق سے دیکھتے ہیں؟کوئی اس سوال کا جواب دے گا،
برائے مہربانی نوٹ کر لیجیئے کہ یہ سوال کسی تعصب کے بغیر پوچھا گیا ہے،
ویسے عابد صاحب کی عبادت گزاری دیکھ کر دل گارڈن گارڈن ہوگیا،اللہ ان کی اس زبانی عبادت میں کمی عطا فرمائے آمین،
اگر لوگوں کو اس بات کا اندازا ہو جائے کے گالیاں دے کر وہ اپنی شخصیت کی بدصورتی کو لوگوں پر آشکارا کرتے ہیں جبکہ جسے گالیاں دیتے ہیں اس کا کوئی نقصان نہیں کرپاتے،تو شائد گالیوں سے پرہیز کرنے لگیں،
او نا یار عبداللہ غلط بات نہیں
ننگے ڈانس میں نے تو کراچی میںاپنے مہاجر کزنوں کے ساتھ پہلی دفعہ دیکھے تھے
ویسے ایک بات تو بتاؤ
پٹھان اور پنجابی کی درجہ بندی کیسے کرتے ہو؟
ڈفر آپ نے ضرور اپنے مہاجر کزنز کے ساتھ جاکر ننگے ناچ دیکھے ہوں گے ،ویسے آپ کے کزن ہوتے ہوئے بھی مہاجر ہیں حیرت ہے بہرحال میں نہ تو خود مہاجر ہوں اور نہ میں کسی مہاجر کو جانتا ہوں ہاں اردو اسپیکنگ سے ضرور میرے تعلقات اور رشتہ داریاں ہیں اورپتہ نہیں یہ محض اتفاق ہے یا کوئی اور بات کہ ہمارے خاندان میں بمع میرے ننھیال اور ددھیال کے کسی کو ننگے ناچ دیکھنے کا شوق نہیں ہے،ویسے بات ہوتی ہے اکثریت کی اور مینے بھی اسی حوالے سے سوال کیا تھا،اب اگر آپ کی بھڑاس نکل گئی ہو تو میں مزید کچھ عرض کروں میری ناقص عقل میں ایس چیزوں میں رغبت کی وجہ عنیقہ صاحبہ کی بتائی ہوئی وجوہات کے علاوہ گھر کے ماحول کی گھٹن اور گھر کے بڑوں کی منافقت ہوتی ہے،اور ان سب باتوں کی بڑی وجہ میں جہالت کو سمجھتا ہوں مگر جب آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ ان کاموں کا اعتراف کرتے ہیں تو اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنا پڑتی ہے،امید ہے کہ بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی بغیر کسی تعصب کے 🙂
اب سوال یہ کہ مجھے کیسے پتہ چلا کہ ان چیزوں کی رغبت پٹھانوں اور پنجابیوں میں زیادہ پائی جاتی ہے تو اللہ کو انکھ سے نہیں دیکھا مگر عقل سے پہچانا ہے اخبارات آئے دن پنجاب میں ہونے والے پروگراموں اور ان پر پرنے والے چھاپوں سے بھرے ہوتے ہیں اور پشتو اور پنجابی فلموں اورجہاں یہ لگی ہوں وہاں سے نکلنے والی جینٹری بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہوتی،
Leave A Reply