کئی روز سے کراچی سمیت ملک کے عوام بارش کا انتظار کر رہے تھے۔ اس خشک سالی کو کوئی موجودہ حکومت کے گناہوں سے تعبیر کر رہا تھا، تو کوئی خدا سے معافی مانگنے کی درخواست کر رہا تھا۔ پھر اس ویک اینڈ پر کراچی میں ایسی بارش برسی کہ پچھلے تمام ریکارڈ تو ٹوٹ گئے مگر ساتھ ہی زیرزمین نکاسی آب کا سسٹم بھی بلاک ہو گیا۔ شہر کے انڈرپاس دریا کا منظر پیش کرنے لگے۔ مقامی حکومت کی شامت آ گئی اور اس نے چوبیس گھنٹے پانی نکالنا شروع کر دیا۔ اس پر ظلم یہ کہ بجلی پانی بھی غائب۔ یعنی ابر غریبوں کیلیے رحم بن کر بھی برسا اور مصیبت بھی۔
بچپن میں بارش میں نہانے کا اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔ پانی سے جب کھیت اور میدان بھر جاتے تو ان میں لڑکے کھیل کھیلنا شروع کر دیتے۔ جو تیراکی جانتے تھے وہ برساتی نالے میں جا کر نہانا شروع کر دیتے۔ ایک آدھ دفعہ تو برساتی نالے کا بند ٹوٹنے سے شہر میں سیلاب بھی آ گیا۔
بارش چاہے زحمت ہو یا رحمت اس کی آواز میں جو رومانیت ہے اس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ جب بھی بارش شروع ہوتی ہے ہم اپنے گھر کی کھڑکی سے بیک یارڈ میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہرے بھرے میدان میں بارش کی بوندوں کا گرنا ایک سماں باندھ دیتا ہے۔ اسی طرح بارش کی گرج چمک اس منظر کو مزید حسین بنا دیتی ہے۔ بارش کے بعد قوس قزاح کا منطر آنکھوں کو راحت پہنچاتا ہے۔
ایک موسیقار نے اس بارش کے منظر کو اس ویڈیو میں بہت کمال سے پیش کیا ہے۔ بارش کے آغاز سے لیکر گرج چمک اور آخری بوندا باندی کی آواز انسانوں کی حرکات سے پیدا کر کے موسیقار نے اپنے فن کی انتہا کر دی ہے۔ آپ بھی دیکھیے اور فن کار کے فن کی داد دیجیے۔
7 users commented in " بارش "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکراچی والے بڑے زندہ دل لوگ ہیں جی۔ اتنی بارش اور تباہی کے باوجود میں نے کسی کے منہ سے یہ لفظ نہ سنا کہ بس اب بارش بند ہو جائے، ھل من مزید کی صدائیں اب بھی بلند ہو رہی ہیں 🙂
حقیقت یہ ہے کہ شہر کراچی میں بارش سے نمٹنے کے لیے کوئی انتظام کیا ہی نہیں جاتا۔ پہلے بھی جتنی بار بارشیں ہوئیں مجھ سمیت ہزاروں لوگ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں کر کے گھر پہنچے۔ جانی و مالی نقصان ایک طرف، پانی جمع ہونے سے جس ذہنی کرب کا سامنا مختلف آبادیوں کو کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ وہاں جا کر ہی ہو سکتا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس روز میں ہفتہ وار تعطیل کے باعث گھر پر تھا، ورنہ ایک طویل و دکھ بھری داستان میرے بلاگ پر بھی ملتی 🙂
بارش سے بچنے کا انتظام کہاں سے ہو جب لوگ کراچی کے نالوں کو باپ کی جاگیر سمجھ کر ان پر گھر تعمیر کرنے لگیں اور خالی کروانے پر لسانی فساد کو ہوا دینے لگیں تو کوئی کیا کرسکتا ہے ،ناشکرے پن کی حد یہ ہے کہ لوگوں کو وہ وقت یاد نہیں جب بارش کا پانی ہفتوں بلکہ مہینوں سڑکوں پر بھرا رہتا تھا اور پھر سورج کی تپش سے خود ہی رفتہ رفتہ سوکھ جاتا تھااور سڑکیں مہینوں بلکہ سالوں مہنجو دڑو کا نقشہ پیش کیا کرتی تھیں
عبداللہ صاحب کی نذر۔۔۔
ایک ہی نظم ہے ان کی، جس کو
ہر کہیں جا کے سنا دیتے ہیں
بھول جاتے ہیں جو کوئی مصرعہ
سامعین ان کو بتادیتے ہیں
میرا باس کہنے لگا “اگر میں تم پر چڑھائی کرناچاہوں تو ۔۔۔ میرے لئے یہی کافی ہے کہ تم نے آج جو کرتا پہنا ہے اس کا رنگ اچھا نہیں ۔۔۔ مجھے پتا ہے کہ اس سے تمھارے کام کا تعلق نہیں۔
یہ تو 250 ایم ایم بارش تھی وہ بھی چار گھنٹوں ۔۔۔۔
گدھے ہیں جو اس قوم کی خدمت میں گدھوں کی طرح لگے ہیں ، اور فرشتوں کی تکالیف دور کرنے پر لگے ہیں جو لاہور اور کراچی میں بلبلا رہے ہیں اپنی اوقات سے بڑھ کر، حانکہ وہ جانتے ہیں آسمان پرتھو کا منہ پر ہی آتاہے۔
محترم افضل صاحب۔
آپ نے مندرجہ بالاتبصرہ میں کچھ تبدلی کی ہے ؟؟ بحرحال شکریہ اور خاص کر ہماری باتوں کو برداشت کرنے کا۔ یہ بزم آپکی ہی ہے ہماری شرکت تو عارضی ہے جہاں تک آپکی اجازت ہو۔
حشمت صاحب اگر ایسا ہے تو آپ اپنا تبصرہ دوبارا بھیج دیں اور اس بار نعمان کے بلاگ پر اسی موضوع پر جو پوسٹ ہے اس پر بھیج دیجیئے جیسے میں کرتا ہوں کیونکہ حق بات کو دوسروں تک ضرور پہنچنا چاہیئے 🙂
حشمت صاحب
ہم تبصرے میں اردو کے الفاظ کی درستگی کی حد تک تبدیلی کرتے ہیں مثال کے طور پر جب ہم نے دیکھا کہ لفظ قمیض خط نستعلیق کو گڈمڈ کر رہا ہے تو ہم نے اسے کرتے سے بدل دیا اس کے علاوہ ہم نے کیا بدلا خدا شاہد ہے ہمیں یاد نہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری تبدیلی سے آپ کے نقطہ نظر میںتبدیلی آگئی ہے تو آپ دوبارہ لکھ دیجیے ہمیںکوئی اعتراض نہیںہوگا۔ آپ نے دیکھا ہی ہے ہم سخت سے سخت ذاتی تنقید والا تبصرہ بھی نہیںہٹاتے چہ جائیکہ کوئی بدتمیزی پر نہ اتر آئے۔ آپ کی حاضری اور عملی شرکت کا شکریہ۔
Leave A Reply