سپریم کورٹ نے ۳ نومبر ۲۰۰۷ کی ایمرجنسی اور پی سی اوججوں کی برطرفی کے کیس میں سابق صدر جنرل مشرف کو عدالت میں طلب کر کے اپنی صفائی میں بولنے کا موقع دیا ہے۔ اس کیس کو آگے بڑھانے سے پہلے سپریم کورٹ کو اپنے چودہ رکنی بنچ پر نظرثانی کرنی چاہیے اور ان ججوں کو بنچ میں نہیں رکھنا چاہیے جو ایمرجنسی اور ججوں کی برطرفی کے اقدامات سے متاثر ہوئے۔
ہمیں امید ہے کہ جوں جوں یہ کیس آگے بڑھے گا سپریم کورٹ دوسرے فریقین کو بھی عدالت میں طلب کرے گی۔ وہ فریق سپریم کورٹ کے فیصلہ کرنے والے جج بھی ہو سکتے ہیں اور جنرل مشرف کے وکیل بھی۔ وہ جنرل مشرف کی حکومت کے وزراء بھی ہو سکتے ہیں اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی۔
امید واثق ہے کہ جنرل مشرف سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوں گے بلکہ وہ ملک واپس بھی نہیں آئیں گے۔ ہمارے لیے تو جنرل مشرف کیلیے اتنی ہی سزا کافی ہے کہ اپنے مخالفین کو ملک بدر کرنے والا آج خود ملک بدر ہو چکا ہے۔ مگر سپریم کورٹ کیلیے یہ ضروری ہے کہ وہ چاہے جنرل مشرف کو سزا دے نہ دے لیکن اس کیس کی صورت میں ایسی روایت قائم کر جائے کہ دوبارہ کسی ڈکٹیٹر کو اس طرح کے اقدامات اٹھانے کی جرات نہ ہو۔ یہی تمام سیاسی پارٹیوں اور جمہوری نظام کیلیے بہتر ہو گا اور سیاستدان رہتی دنیا تک سپریم کورٹ کے اس احسان تلے دبے رہیں گے۔
ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ جنرل مشرف پر مقدمہ چلے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں عبرت ناک سزا دی جائے تا کہ یہ واقعہ ہماری عدالتی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے۔ ان کی پاکستان میں ساری جائیداد ضبظ کر لی جائے۔ نصاب کی کتابوں میں ان کے غیرقانونی اقدامات کو مخصوص جگہ دی جائے تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں ایسے اقدامات اٹھانے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کے کالے کرتوتوں پر لعنت بھیجتے رہیں۔
سپریم کورٹ کی ان کوششوں کیساتھ ہماری قومی اسمبلی اور سینٹ کو بھی ایسے قوانین پاس کرنے چاہئیں جن کی رو سے ڈکٹیٹر کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں کو نہ صرف ہمیشہ کیلیے نااہل قراد دے دیا جائے بلکہ ان کیلیے اس سے بھی کڑی سزا تجویز کی جائے۔ کیونکہ ایسے ڈکٹیٹروں کو اگر کسی نے سہارا دیا ہے تو وہ ایسے مفاد پرست سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو قومی مفاد پر خودغرضی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر چوہدری برادران، ادیب مشاہد حسین، وکیل وصی ظفر، شیخ رشید، درانی، ظفراللہ جمالی، ڈاکٹر شیر افگن وغیرہ جنرل مشرف کی جھولی میں نہ بیٹھتے تو ڈکٹیٹر کیلیے اس کا اقتدار عیاشی کی بجائے عذاب بن جاتا۔
7 users commented in " مشرف کی سپریم کورٹ طلبی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackایک سوال ملک کا قومی مفاد کس میں ہے یہ کون طے کرے گا اور کیسے طے کرے گا؟
دوسرا سوال قوم کااصل مجرم کون ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا اور کیسے کرے گا؟
اقبال نے کہا کہ ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی۔ یہ ذرخیزی اب صرف زرداریوں اور شریفوں کو یہ برداشت کر سکتی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ آج ٹرین جلانے والے کب تک اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر ہمارے ان سیاستدانوں کی اور اس نظام کی واہ واہ کرتے ہیں۔ قوموں کی تقدیر کا فیصلہ اپنی ذاتی پسند اور ناپسند پر تجءیے کرنے والے قلمکار نہیں، اپنی ذاتی پسند ناپسند پر فیصلے کرنے والے منصف نہیں، اپنی ذاتی پسند اور ناپسند پر احکامات جاری کرنے والےحکام نہیں، اپنی ذاتی پسند اور نا پسند پر فتوی جاری کرنے والے علمائے دین نہیں۔ وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔
دیکھنا یہ ہے کہ لوگ کب تک بھوک برداشت کرکے آپکو ان ڈراموں کی عیاشی کرواتے ہیں۔
میری تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے
اس بہادر کمانڈو کو نوٹسز بھیجنے کی بجائے، اس کے مجسمے (مکے دکھاتے ہوئے) بنا کر ملک کے ہر بڑے شہر کے ہر بڑے چوک میںلگانے چاہیئں۔۔۔
لیکن یہ قوم تو سدا کی احسان فراموش ہے، اتنی عظیم خدمات سرانجام دینے والے عظیم ترین قائد کی ایسی بے حرمتی۔۔۔
تف ہے ۔۔۔
سپریم کورٹ کیلیے یہ ضروری ہے کہ وہ چاہے جنرل مشرف کو سزا دے نہ دے
ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ جنرل مشرف پر مقدمہ چلے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں عبرت ناک سزا دی جائے تا کہ یہ واقعہ ہماری عدالتی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ایک ساتھ دو دو باتیں کہہ رہے ہیں ۔
ویسے تو شیر بھی منگوائے گئے ہیں۔
اب دیکھئے امیر المومنین کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔
جناب چوہدری صاحب
پہلی صورت میں ہم نے سپریم کورٹ پر فیصلہ چھوڑا کیونکہ ہمیں یقین نہیں کہ سپریم کورٹ جنرل مشرف کو سزا دے پائے گی اور دوسرا ہمارا اپنا نقطہ نظر ہے یعنی ہم چاہتے ہیں کہ جنرل مشرف کو عبرتناک سزا دی جائے۔
محترم افضل صاحب۔
چھین کر کوئی بھی شخص کچھ حاصل کرے یہ عمل غلط ہے چاہے وہ چپراسی کی ہی نوکری ہو، یہاں تک میں آپ کے ساتھ متفق ہوں اور اس بات پر بھی کہ آئندہ ایسا نہیں ہونا چائیے۔
مگر ہمارے ملک کے تو علمئے ہی عجیب و غریب، ہم لسانی کمیونٹی میں اور اس کے بعد برادیوں میں بٹے ہوئے ہیں، کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں انتخابات صحیح ہوتے ہیں اور کیا صحیح لوگ اسمبلیوں میں آتے ہیں۔
تو پھر سارا نضلا صرف مشرف کے لیے ہی کیوں۔
مجھے ڈر ہے کہ اس طرح مسائل اور بڑھ سکتے ہیں، اب آگے چلیں اور اصل مثائل کی حل کی بات کریں اور سسٹم کو صحیح کرنے پر توجہ دیں۔
حشمت صاحب اور انیقہ صاحبہ کے سوالات اور بہت سے سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں ویسےایک اور سوال ہے جو اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کراچی والے مشرف کے فیور میں کیوں ہیں چاہے وہ پنجابی ہوں پٹھان ہوں سندھی ہوں بلوچی ہوں یا مہاجر(خیال رہے یہاں بات اکثریت کی ہورہی ہے )،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ 62 سال میں پہلی بار کسی حکمراں کو یہ خیال آیا کہ جس گائے سے دودھ نکال نکال کر اس کے تھن خشک کیئے دے رہے ہیں اسے کچھ چارا بھی کھلایا جائے ورنہ کہیں گائے کا خاتمہ بلخیر ہوگیا تو پورا پاکستان کس پر پلے گا اور یوں بھی کراچی والوں کا سیاسی شعور پورے ملک میں سب سے زیادہ بیدار بھی ہے،وہ اچھی طرح جانتے ہین کہ کون اس ملک کا دوست اور کون دشمن ہے،
افضل صاحب آپ کا نقطئہ نظر تو نعوذ باللہ اللہ تعالی کے بارے میں بھی خاصا مشکوک ہے اور اس کی گواہ آپ کی کئی تحریریں ہیں جن میں سے ایک پر تو آپکو فرمان صاحب سے ٹھیک ٹھاک ڈانٹ بھی پڑی تھی،شکر کیجیئے کہ آپ کی ایک اور تحریر ان کی نظر سے نہیں گزری جس میں آپ اللہ کی موجودگی پر بھی شکوک و شبہات کا شکار دکھائی دے رہے تھے 🙁
Leave A Reply