بی بی سی کے ایک اور ایک فیچر کے مطابق پاکستان میں شرابیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس سے قبل الکوحلزم کے اشتہار اور شراب کی تلفی پر ہم شراب نوشی پر لکھ چکے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں شراب اس قدر پی جانے لگی ہے یعنی ہر بارہواں پاکستانی شراب پیتا ہے۔
جس طرح شرابیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں پانی کی بجائے شراب کی نہریں بہ رہی ہوں گی اور لوگ لوڈشیڈنگ کا غم غلط کرنے کیلیے شراب سے دل بہلا رہے ہوں گے۔
ویسے سوچنے والی بات ہے کہ ایک مسلمان شراب جیسی حرام چیز کیسے پی لیتا ہے؟ جواب سیدھا سا ہے یعنی اس مسلمان کا ایمان کچا ہے یعنی وہ نام کا مسلمان ہے۔ اس کا آخرت پر یقین ہی نہیں ہے کیونکہ اگر دوزخ کے ہونے کا اسے یقین ہوتا تو وہ کبھی شراب پی کر خود کو جہنمی نہ بناتا۔ ہمیں ان ملازمین کی ہمت کی داد دینی پڑے گی جو یہ جانتے ہیں کہ شراب بنانے، بیچنے اور پینے والے سب جہنمی ہیں مگر پھر بھی پاکستانی شراب فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔
ہماری حکومت کو قوم کے شرابی پن کو سنجیدگی سے لینا ہو گا اور اس بیماری کے تدارک کیلیے کچھ کرنا ہو گا۔ ہمارے دشمن تو چاہیں گے کہ ہم دن رات شراب میں مدہوش رہیں تا کہ نہ مسلمان ترقی کریں اور نہ ان کیلیے خطرہ بنیں۔ مگر ہمیں خود اس بیماری سے لڑنا ہو گا۔
اگر فرانس سکارف لینے پر پابندی لگا سکتا ہے تو پاکستان غیرمسلموں کے شراب پینے پر پابندی کیوں نہیں لگا سکتا۔ یہ غیرمسلموں کے پرمٹ ہی ہیں جن کی بنیاد پر مسلمانوں کو شراب مہیا کی جا رہی ہے۔ اگر فرانس کے مسلمان اپنی بچیوں کو سکارف اتار کر سکولوں میں بھیج سکتے ہیں تو غیرملکی بھی شراب کے بغیر پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔
مگر کیا کیا جائے جب ملک ہی غیرمسلموں کے قبضے میں ہو تو پھر حکومت بھی بے بس ہو گی اور حزب اختلاف بھی۔ نہ سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لے گی اور نہ وکلاء کوئی تحریک چلائیں گے۔ نہ الیکٹرونک میڈیا شور مچائے گا اور نہ اسمبلی کے ارکان اس پر بحث کریں گے۔ ایسی قوم کو شراب پینے سے کوئی نہیں روک سکتا جس کے سربراہوں کی اکثریت خود شراب پیتی ہو۔
23 users commented in " ڈیڑھ کروڑ شرابی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپی کر نہیں دیکھ سکتے ورنہ جانتے کے آکر اتنا کیا ہے ک سب کچھ بھلا دیتے ہیں لوگ اس کو پینے کی خاطر
ماں باپ بھائی بہن دوست رشتے دار۔۔۔۔۔۔۔۔ مزہب اور غرض ہر شئے
محترم افضل صاحب!
بی بی سی کی ہر بات پہ دھیان مت رکھیں۔ یہ وہی پالیسی ہے اور وہی لوگ ہیں جنہوں نے پیسنٹھ کی جنگ میں لاہور پہ بھارتی قبضے کی من گھڑت خبر چلادی تھی۔
آپ نے جہاں، جس اردو انٹر نیٹ ایڈیشن سے اس خبر کا حوالہ دیا ہے آخر وہ اردو ایڈیشن کون سے گورے لوگ پڑھتے ہیں۔؟ اور انگریز قوم کی پائی پائی کا حساب رکھنے کی عادت سے یہ حسن ظن رکھنا کہ وہ پاکستانی مسلمانوں کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رکھنا چاہتے ہیں۔اسلئیے زرِ کثیر استعمال کر تے ہوئے۔ عام ٹیکس گزار انگریز کے ٹیکس سے وہ پاکستانی مسلمانوں کے لئیے نشریات و اخبار کا ایک پورا نیٹ ورک چلارہے ہیں۔ عقل سے بالا ہے۔
بی بی سی کو کچھ خوب قسم کے زرخرید لکھنے والے بھی مل گئے ہیں۔ بی بی سی ماہانہ میلینز پاؤنڈز کا بجٹ ہے جو برطانیہ کی وزارت خارجہ مہیا کرتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر انگلستان کے مسلمانوں اور خاصکر پاکستان میں، وہ کونسے مفادات ہیں جو وہ ایک مخصوص رائے عامہ کو تیار کرنے میں پچھلی کئی دہائیوں سے کوشش کر رہے ہیں۔
انٹر نیٹ نے ان کے اس کام کو بہت ہی تیز اور آسان بنا دیا ہے۔ جس سے آپ سب پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ پاکستان کے متعلق بی بی سی کے من گھڑت تجزئیوں اور پاکستان کے متعلق مشکوک خبروں پہ آپ میں سے ہر ایک بلاگر روزانہ یا ھفتے میں ایک دفعہ کسی ایسی خبر یا تجزئیہ کو بنیاد بنا کر حقیقت کاادراک کرتے ہوئے مکمل معلومات کے ساتھ ثابت کر سکے کہ یہ تجزئیہ یا خبر حقائق پہ مبنی نہیں ، نیز جو لوگ فہم رکھتے ہیں وہ صبح شام بی بی سی کی انگریز سرکار والا اتبار کو بذرئعیہ ای- میل یہ بتاتے رہیں کہ آپ کی کون کون سی بات پہ ہمیں اعتراض ہے ۔
یہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے اردو میں کالم سیاہ کرنے والوں کے بارے میں ان کے انگریز آقاؤں کو یہ معلوم ہوسکے گا کہ کس قدر پاکستانی رائے عامہ ہم سے متعرض ہے۔ نیز جب بی بی سی کی خبروں اور تجزئیات بشمول پاکستان کے بارے میں اوٹ پٹانگ بلاگز کا تجزئیہ پاکستانی بلاگر حقائق کی روشنی میں کریں گے تو پاکستان کے خلاف بڑھی تیزی بگڑتی نوجوان رائے عامہ کو کسی حد تک مفید رہنمائی مل سکے گی۔
آپ سب نے ایک بات غالبا نہیں نوٹ کی کہ یہ ادارہ عام پاکستانی پڑھنے والے کو ، آنے بہانے سے پاکستان بلکہ مذھب کے بارے میں بھی زبردست قسم کے احساس کمتری میں مبتلا کر رہا ہے۔ اسلئیے بھی ضروری ہے کہ کہ پاکستان میں قحط الرجال ہونے کی وجہ سے جب قومی سطح پہ کسی کرشماتی قومی رہنماء کی غیر موجودگی میں پاکستانی رائے عامہ کو درست سمت دئیے رکھنا بہت ضروری ہے۔
شراب کو اسلام میں اُم الخبائث اس لئیے قرار دیا گیا کہ شراب پینے والا جہاں صحت ، عزت پیسے کی بربادی تو کر ہی رہا ہوتا ہے وہیں وہ معاشرے میں حلال حرام کی تمیز کو کھو دیتا ہے۔ جس سے تمام خباثتیں جنم لیتی ہیں۔ اور بی بی سی کی حسرتوں میں سیں سے ایک حسرت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں رنگ و مئے کا بول بالا ہو اور اس طرح کے مشکوک تجزئیوں اور سروؤں سے عام آدمی کو یہ سبق دینا ہے کہ اس حمام(پاکستان) میں اکثر لوگ ننگے ہیں تاکہ ایک عام آدمی جسے پہلے ہی اپنے بارے میں کوئی خاص خبر نہیں ہوتی وہ عام آدمی حلال حرام کو طاق پہ رکھتے ہوئے حمام کے ننگوں میں شامل ہو جائے کہ ہمارے ہاں اکثریت اگر اپنے کام کُتر آئے تو تو کان کُترنا بھی ایک عام بات سمجی جاتی ہے کہ اکثر لوگوں کے کان کُترے گئے ہیں ۔ جہاں فیشن یا چلن ہی ہے کہ دوسرے لوگوں کی تقلید میں کوئی برائی نہیں اور ہم اس میں حرامحلال کی تمیز بھول جاتے ہیں۔اور بی بی سی کی مشاورتی کونسل کے ماہرین پاکستانی عوام کی یہ نفسیاتی کمزوری کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
اور بی بی سی کی پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ شرابی ہونے کی اطلاع کا مقصد عام آدمی کو شراب کو عام فام لینے کی ایک درپردہ کوشش ہے۔
جاوید صاحب آپ کی بات میں وزن ہے لیکن اگر بی بی سی کی بات آدھی بھی درست ہوتو بھی یہ انتہائی خطرنات صورتحال ہے۔
ہم کوشش کریں گے آئندہ بی بی سی کے تجزیوں کو زیادہ چھان بین کے بعد ذریعہ خبر بنایا کریں۔
صاحبان بی بی سی کی خبر پر اتنی حیرت نہیں ہونی چاہیئے جیسے کہ محترم جاوید گوندل صاحب نے جو کہا وہ درست ہے کہ یہ ادارے ہماری بھلائی کے لئے نہیں بلکہ ہمیں گمراہ کرنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں یہ کام تو ہمارے اپنے چینلز بہ خوبی انجام دے رہے ہیں چہ جائے کہ بی بی سی وہ تو ہے ہی برطانوی ہمارے خود کے چینلز پو جو پروگرام دیکھائے جارہے ہیں ان سے قوم ذہنی اذیتوں کاشکار ہو رہی ہے یہاں بولا کچھ جا رہا ہوتا ہے اور دکھایا کچھ اور جاتا ہے۔ ایک معروف پاکستانی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام چلتا ہے (عالیہ نے پاکستان چھوڑ دیا) آگر آپ اس پروگرام کو غور سے دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ جو کچھ عالیہ کہ رہی ہوتی ہے وہ تو تضاد ہوتا ہی ہے مگر جس جگہ اور جس مقام پر کھڑی ہوکر کہ رہی ہوتی ہے اس کے بیک گراونڈ میں جو کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ دکھانا اس پروگرام کا اصل مقصد ہے خیر ہمیں حالات کے بارے میں باخبر رہنا چاہیئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر کسی کی بات پر یقین کریں، پاکستان میں شراب نوشی ہورہی ہے اس سے اتفاق ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام حکومت پر دباو ڈالے کہ وہ اس کے تدارک کے لئے اقدامات کرے ۔
یہ سراخی سا بدن لے کے میرے پاس مت آ
میں شرابی ہوں شرابی کا بھروسہ کیا ہے۔۔۔؟
تقریباً اسلام آباد راولپنڈی کے پانچ سو شرابیوں کو تو میں بذات خود جانتا ہوں
آہو جی یہ بات ٹھیک ہے
“پانی ندارد شراب بہت“ والا معاملہ ہو جائے گا
اس کو ہی تو کہتے ہیںخوشحالی
ہم تو غلط بات کو غلط کہیںتو لوگ ہمیںہی لتاڑنا شروع ہو جاتے ہیں 🙁 ۔
سلام پاکستان جی
دو تین سال پہلے ایک رپورٹ پڑھی تھی نئے سال پہ ایک رات میں جن ہوٹلز کے پاس شراب بیچنے کا پرمٹ تھا کروڑوں کا بزنس کیا ھے
اس وقت ایک سائٹ پر لکھتی تھی وہاں ایک ڈی آئی جی کا بیٹا اکثر تبصرہ کرتا تھا اس کا بڑا بھائی فوج میں اعلیٰ عہدے پہ تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کیا پاکستان میں واقعی ہی اتنی شراب پی جاتی ھے تو اس نے کہا اگر اس کا جواب چاہیے تو بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کی کسی پارٹی میں شرکت کر کے دیکھ لیں سادہ پانی چھوٹے بچے پیتے ھیں اور اعلیٰ عہدوں پر چھوٹے بچے فائز نہیں ھوتے، بڑے عہدے پانے کے لیے انسان کو بڑا ھونا چاھیے
میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے اس ملک میں شراب شہید ہی دیکھتا آیا ہوں
اس خبر میں بہت حد تک سچائی ہے، ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہر بات کو تعصب قرار دیا جا سکتا ہے، یہ بیماری پاکستان کے ہر گلہ، محلے، شہر میں پھیل چکی ہے، صرف بیوروکریٹس یا اعلیٰ طبقے کی بات نہیں کہ وہاں شراب بھی اعلیٰ قسم کی چلتی ہے، ہمارے محلوں اور شہروں میں خام اور سستی شراب بکتی ہے جو اور بھی زیادہ نقصان دہ ہے، شادیوں پر شراب پینا بھی عام بات ہے۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ہی کہا جا سکتا ہے اپنی اس حالت پر۔ اور یہ بھی کہ ہماری حکومتیں اس سلسلے میں کچھ نہیں کرنے والیں۔
شائد وہ وقت نزدیک ہے یا آگیا ہے جس کے لیئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ ہر شخص صرف اپنے ایمان کی حفاظت کرے کیونکہ نصیحتیں اثر نہیں کریں گی،بہت بڑی زمہ داری ہے والدین اور خصوصا“ماؤں کی اور اچھی تعلیم یافتہ ماؤں کی جنہیں اچھے برے کی تمیز ہو تاکہ وہ اتنی بہترین تربیت اپنے بچوں کی کرسکیں اور ان کی بنیادیں اتنی مطبوط ہو جائیں کہ دنیا کی غلاظت میں ان کے پاؤں ڈگمگا نہ سکیں،محلے محلے کھلے شراب خانے اور حرام کی کمائی نوجوانوں کی بربادی کا باعث بن رہی ہے
ڈیڑھ کروڑ کی بات تو میری علم میں نہیں۔۔۔
میرے جاننے والوں میں کوئی نہیں پیتا، لیکن کہانیاں سب سناتے ہیں کہ پاکستان میں شراب جتنی عام آجکل ہے کبھی نہیں تھی۔ میرے ایک کزن لاہور کی ایک بڑی ملٹی نیشنل میں اچھے عہدے پر ہیں۔ اس کی زبانی جو طلسم ہوشربا سننے کو ملتی ہے، اس پر یقین نہیں آتا، لیکن بندہ چونکہ راست گو ہے اس لئے یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔
ہم اپنے حلقہ کا کیا بتائيں؟ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ صحافت اور شراب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ تو اللہ کا بھلا ہو کہ گزشتہ چند دہائیوں میں دائیں بازو کے لوگوں کا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اب پریس کلب کھلے عام شراب خانے نہیں بنے ہوئے ورنہ کراچی پریس کلب کا تو پہلے یہ حال تھا کہ ہر رکن ایک ہاتھ میں شراب کی بوتل اور بغل میں لڑکی لیے پھرتا تھا۔
اس وقت بھی کئی سینئر صحافی ایک برانڈڈ شراب کی رشوت کے عوض بہت سارے “کام” کر جاتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ شہروں سے جاری ہونے والے ایک اخبار کے گروپ ایڈیٹر کا تو مقامی ناظم شہر سے “بھتہ” ہی یہ طے ہوا ہوا ہے کہ وہ روزانہ رات کو اعلیٰ قسم کا کھانا کھائیں اور ایک غیر ملکی شراب کی بوتل پئیں گے۔ اسی اخبار کے ایک چینل سے کالم نگاروں کا ایک پروگرام آتا ہے۔ یقین جانیں اس میں سے محض دو یا تین کالم نگار ہیں جو پینے پلانے کے شائق نہیں ورنہ باقی تو لگتا ہے نہاتے بھی شراب میں ہیں۔ اللہ خیر کرے۔
غیر ملکی ابلاغی ادارے کے پاکستانی چینل سے وابستہ ایک معروف ٹی وی میزبان ہیں۔ وہ تو اس حد تک بدنام ہیں کہ ہمارے ساتھی کہا کرتے ہیں کہ انہیں hire کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، روزانہ ایک بوتل کے عوض بھی کام کر لیں گے 🙂
اس گھٹیا کردار کے حامل لوگ جب ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر یہ راگ الاپتے ہیں کہ ملک کو سدھارنے کے لیے یہ نظام ہونا چاہیے اور الزامات لگاتے ہیں کہ فلاں بندہ بدعنوان اور عیاش ہے تو یقین جانیں ہم جیسے لوگوں کا تو خون جل جاتا ہے۔
محمد وارث صاحب ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔
مگر کیا کریں ہماری تو عادت ہے، اصل میں ہمیں وہی تجزیہ پسند آتے ہیں جو ہمارے مطلب کے ہوں۔
سوموٹو ۔۔۔۔۔۔ غلاظت ، اور برائیوں کے خلاف ۔۔۔۔ افضل صاحب کیا بات کرتے ہیں ۔
اپنوں اور ۔۔۔۔ کے گلے میں بھی کوئی پھندہ ڈالتاہے۔
آپ بھی بڑے بھولے بادشاہ ہو۔
::ابو شامل:: گروپ ایڈیٹر کو تو پہچان گیا میں، ٹی وی میزبان کے بارے میں الجھن میں ہوں، یہ وہی صاحب تو نہیں جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے ایک بڑے ایونٹ میں میڈیا کوآرڈینیٹر بھی رہ چکے ہیں؟؟؟؟
اور ابوشامل صاحب یہ دو تین جو پینے پلانے کے شوقین نہیں ہیں یہ وہی مومنین ہیں نا جو نون لیگ اور نواز شریف کے پکے چمچے لگتے ہیں کیوں ٹھیک پہچانا نا میں نے 🙂
ویسے مقامی ناظم اور ایڈیٹر کا نام بھی لکھ دیتے تو بہتان + غیبت بھی مکمل ہوجاتی،
کیوں جعفر پی جے میر سے کوئی ذاتی دشمنی ہے کیا کہ اتنے میزبانوں میں اس ہی کا نام یاد آیا:)
نہیں جعفر یہ پی جے میر نہیں ہیں۔
عبد اللہ صاحب! جعفر کی میر سے کوئی دشمنی تو نہیں ہوگی لیکن مختلف بلاگز پر میرے تبصروں پر آپ کے جوابی تبصرے تو دیکھ کر یہ لگتا ہے آپ نے مجھ سے دشمنی پال لی ہے 🙂 ویسے آپ کو کیسے پتہ کہ میری یہ باتیں بہتان ہیں؟
::ابوشامل:: ذرا ایک برقی پیغام ہی بھیج دیں اس میزبان کے بارے میں۔۔۔
عبداللہ بھائی، اصل میں پریکٹس کررہےہیں ۔۔۔ بھائی کی جگہ سنبھالنے کی ۔۔ اسلئے سوال پوچھنا منع ہے۔۔۔
خدانخواستہ میں آپ سے دشمنی کیوں پالوں گا میں تو جہاں آپ غلط بیانی فرماجاتے ہیں اس کی تصھیح کی ادنا سی کوشش کرتا ہوں تاکہ لوگ میڈیا کی یاوہ گوئیوں سے آگاہ رہیں البتہ اس چکر میں مینے بہت سے دشمن ضرور پال لیئے ہیں مگر حق بات کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے اس لیئے ڈرنا کیا،ویسے آپ کی بات کا جواب مینے عنیقہ ناز کی پوست بات وہ ادھی رات کی پر دے دیا تھا امید ہے کہ نظر سے گزرا ہوگا،
اگر یہ مقامی ناظم مصطفے کمال ہیں تو یہ صرف اور صرف بہتان ہے،دشمنی مین اپنے ایمان کا بھی خیال رکھیئے،
جعفر آپ اپنی بچوں سے گئی گزری عقل کو ذیادہ زحمت نہ دیا کریں نا 🙂
ویسے ابوشامل صاحب آپ جس طرح پرانے صحافیوں کی آنکھوں دیکھی کہانیاں سنا رہے ہیں آپ کی عمر تو اتنی زیادہ نہیں لگتی کیا بچپن سے ہی صحافت فرمارہے ہیں جناب 🙂
ویسےآپ کے تبصرے سے اندازا ہوا کہ پچھلے دور کے صحافی جو ہاتھ میں بوتل اور بغل میں لڑکی لے کر گھوما کرتے تھے ان کی تحاریر پر قطعی بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ وہ تو ایک بوتل پر بک جانے والے لوگ تھے اس کا مظلب ہے کہ جو کچھ وہ متحدہ کے بارے میں زہر افشانیاں کرتے رہے ہیں وہ بھی بوتل کے نشے کی لنترانیاں ہوں گی کیوں،
بچہ ہوں میں چھوٹا سا
پر کام کروں گا بڑے بڑے
آپ کو عنقریب چار نمبر کی بس میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوجائے گا۔۔۔
عبد اللہ صاحب! آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے میری عمر کے بارے میں یہ اندازہ لگایا ہے ورنہ یہاں جتنے بھی ملے مجھے 55 سال کا شخص سمجھتے ہیں۔
آپ کی “حق گوئی” کا بہت شکریہ۔ میں نے یہ خامہ فرسائی صرف اس لیے کی تاکہ ہمارے عوام جو میڈيا پر اندھا اعتماد کرنے لگے ہیں، انہیں اس کے کارندوں کے کرتوت بھی پتہ چلیں۔ آپ نے غیبت و بہتان کا جو ذکر کیا ہے تو آپ کے اس خود ساختہ “اصول” کے مطابق ایک سیاسی رہنما کو لتاڑتے رہنا بھی اسی زمرے میں آ جائے گا اس لیے آئندہ آپ خیال رکھیے گا۔ میرے خیال میں یہ آپ جیسے قاری ہی ہوتے ہیں جو کسی شخص کے اعتدال کی جانب جھکاؤ کو پسند نہیں کرتے اور اسے شدت پسندی پر مجبور کرتے ہیں، آپ کے اندازے کے بارے میں میں کیا کہوں؟ آپ جواب پڑھتے نہیں اور اگر پڑھتے ہیں تو سمجھتے نہیں اور اپنی ناقص تفہیم کے مطابق جواب ہانک دیتے ہیں۔ اب مجھے یہ بتائیے کہ مصطفی کمال کون سے جنم میں صحافی رہے ہیں؟ اور کون سے پروگرام کے میزبان رہے ہیں؟ یہ آپ کو ہر جگہ ایم کیو ایم دشمنی ہی کیوں نظر آتی ہے؟ یہاں ذکر صحافیوں کا ہو رہا ہے، آپ کھینچ تان کر مصطفی کمال کو لے آئے۔ لاحول ولا قوۃ
میں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ یہ سب آنکھوں دیکھی باتیں ہیں۔ کچھ دیکھی ہیں اور کچھ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ان کے ہم مشربوں سے سنی ہیں۔
ابو شامل ساحب اگر میں یہی جملے آپ سے اس طرح کہوں کہ آپ اپنا لکھا پڑھتے نہیں اور پڑھتے ہیں تو سمجھتے نہیں تو کیسا رہے گا۔ آپ کا جملہ دوبارہ نقل کیئے دے رہا ہوں تاکہ ڈھوندنے کی زحمت نہ کرنا پڑے 🙂
پاکستان میں سب سے زیادہ شہروں سے جاری ہونے والے ایک اخبار کے گروپ ایڈیٹر کا تو مقامی ناظم شہر سے “بھتہ” ہی یہ طے ہوا ہوا ہے کہ وہ روزانہ رات کو اعلیٰ قسم کا کھانا کھائیں اور ایک غیر ملکی شراب کی بوتل پئیں گے۔،
یہ آنجناب کے سب سے پہلے تبصرے کے بیچ کی لائنیں ہیں،
اور اس پر ہی میں نے پوچھا تھا کہ وہ مقامی ناظم کون ہے،اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ ناقص تفہیم کے مطابق کون ہانکتا ہے 🙂
باقی شکر آپ نے یہ تو مانا کہ ان میں سے کچھ باتیں سنی سنائی بھی ہیں،ویسے سنی سنائی کو آگے پھیلانے سے ایک مستند صحافی کو زیب نہیں دیتا اور اس کی ساکھ کو شدید نقصان بھی پوہنچتا ہے،اگر آپ مستند صحافی ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیا پر عوام کے اندادھند اعتماد کی فکر اچانک ہونے کی یقینا“ کوئی خاص وجہ ہی ہو گی،دیگ کے گندے چاولون کے کچے چٹھے جو کھل رہے ہیں کیا اسی لیئے 🙂
اور ہاں جناب ابو شامل صاھب میں ایک سیاسی رہنما(اگر اپ اسے ایک سیاسی رہنما سمجھتے ہیں تو :))کو لتاڑتا رہتا ہوں مگر صرف ان باتوں پر جو دنیا پر روز روشن کی طرھ آشکارا ہیں بہتان اس کو نہیں کہتے اپ کو چاہیئے کہ اپنے اساتزہ کے سامنے دوبارا زانوئے تلمذ تہ کریں 🙂
ویسے اپ کی تڑپ اس سیاسی رہنما کے لیئے دیکھ کر اب بات کچھ سمجھ میں آنے لگی ہے ؛)
Leave A Reply