جنگ کی خبر کے مطابق راولپنڈی بورڈ کے میٹرک کے امتحان میں اڈیالہ جیل کے ایک قیدی نے جنرل گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعلی شہباز شریف میٹرک میں نمایاں پوزیشن لینے والے طلباوطالبات میں انعامت تقسیم کریں گے۔ ہم شہباز شریف سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ اس قیدی کو نہ صرف تقریب میں بلا کر انعام دیں بلکہ اس کے کیس کو ہنگامی بنیادوں پر نمٹانے کا حکم دیں تا کہ یہ ہونہار قیدی تعلیم کو جاری رکھ سکے۔ اگر اس کا جرم بہت بڑا نہیں ہے تو اسے انعام میں دی جانے والی رقم کیساتھ ساتھ بری کرنے کا تحفہ دینا بھی بہت بڑا احسان ہو گا۔
میٹیا کو بھی چاہیے کہ وہ اس قیدی کو خبروں میں نمایاں جگہ دے تا کہ ایک طرف تعلیم کی اہمیت اجاگر ہو اور دوسری طرف نوجوانوں میں کچھ کرنے کی جستجو کی پیدا ہو۔ سچ ہے اگر آدمی کچھ کرنا چاہے تو پھر وہ راستے کی تمام رکاوٹیں ہٹاتا جائے گا اور اگر آدمی کچھ نہ کرنا چاہے تو پھر وہ سارا الزام پیپر چیک کرنے والے پر لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دے دے گا اور اس کے والدین اس کی باتوں میں آ کر اس کے پرچے دوبارہ چیک کرانے کے چکر میں وقت ضائع کرتے رہیں گے۔
اگر ایک قیدی جیل کی کوٹھڑی میں جہاں بجلی کیا پنکھے تک کی سہولت نہیں ہو گی پڑھ کر پوزیشن لے سکتا ہے تو پھر آزاد فضا میں سانس لینے والے ان طالبعلموں کے سارے بہانے جھوٹے پڑ جائیں گے جو فیل ہونے کے بعد طرح طرح کے بہانے گھڑ کر والدین کو بیوقوف بنا رہے ہوں گے۔
2 users commented in " قیدی کی میٹرک میں نمایاں کارکردگی "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackSubmitted on 2009/08/02 at 7:18am
بعض اوقات انسان جب بھٹکتا ہے تو کچھ لمحوں میں ہی بھٹک جاتا ہے۔ اڈیالہ جیل میں اغواء برائے تاوان کے جرم میں پچیس سال سزا کاٹنے والے قیصر ندیم کی میٹرک کے امتحان میں پنجاب بھر میں دوسری پوزیشن لینے پہ اس بات پہ حیرانگی ہوتی ہے ۔ کہ ایسا گھناؤنا جرم کرنے والا تعلیم کی اہمیت کو کیسے سمجھ گیا۔
یا تو وہ پیشہ ور مجرم نہیں تھا ۔ اور جذبات اور حالات کے دباؤ میں آکر اتنا بڑا جرم کر گیا۔ یا پھر اسکے کیس میں عمومی رواج کے عین مطابق ہماری ہر دلعزیز پولیس نے اسے قربانی کا بکرا بنا ڈالا۔
اگر تو اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے تو اسکے کیس کو دوبارہ ری اوپن کیا جائے۔ یا پھر اس نے یہ جرم کیا ہے تو اسے قانون میں ایسے جرائم کرنے والوں کے ساتھ اچھے کردار یا نمایاں کارنامہ قرار دینے والوں کی زیادہ سے زیادہ رعایت دی جائے۔ تعلیم کے میدان میں اس کی مزید مدد کی جائے۔
مگر میڈیا کے دباؤ یا کسی اور وجہ سے اگر وہ واقعی اغواء برائے تاوان کا مجرم ہے تو اسے معاف نہیں کیا جائے۔
ہمیں آپ سے اختلاف ہے۔ اغواء برائے تاوان کوئی معمولی جرم نہیں۔ یہ قتل اور اقدام قتل جیسا انتہائی سخت فوجداری جرم ہے۔ پاکستان میں اغواء برائے تاوان جس میں اکثر و بیشتر اغواء کئے گئے افراد یا بچوں کو تاوان نہ ملنے پہ قتل کر دیا جاتا ہے۔ اور بعضوں کو تو تاوان لینے کے بعد بھی پہچانے جانے کے خوف سے مار دیا جاتا ہے ۔ جبکہ جس خاندان کا کوئی فرد اغواء ہوجاتا ہے وہ جیتے جی مر جاتے ہیں۔ انکا ایک ایک لمحہ سولی پہ گزرتا ہے۔ اگر مغوی کوئی بچہ ہو تو یہ عذاب اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
تاوان کے لئیے رقم اکھٹی کرنے کے لئے لوگ کس طرح عمربھر کی کمائی کے اثاثے اونے پونے بیچتے ہیں۔ عزیزو اقارب سے قرضہ لیتے ہیں۔ یہ الگ سے ایک المیہ ہے۔
پاکستان کے جرائم پیشہ لوگوں نے یہ منفعت جرم کاروبار کے طور پہ اپنا لیا ہے ۔ کہ عالم یہ کہ اسطرح کے جرائم کرنے والے مفرور مجرم اب اینٹوں کے بھٹے پہ کام والے غریب مصلیوں تک کو اٹھا لیتے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو ٹھیکیدار لاکھ دو لاکھ اپنے مزدوروں کو چھڑاوانے کے لئے تو دے گا ہی۔ کہ اسے اپنا سیزن چلانا ہوتا ہے۔
اغواء برائے تاوان کوئی چوری چکاری کی طرح معمولی جرم نہیں۔ جس میں دوسرے فریق کو محبوس نہیں کیا جاتا اور اس کی جان کو خطرہ نہیں ہوتا۔ اغواء برائے تاوان میں بات ہی مغوی کی سلامتی کے بدلے تاوان کی ہوتی ہے اور تاوان نہ ملنے کے بدلے مغوی کو قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ قتل کی طرح کا سنگین جرم ہے
یہ ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ اپنے باشندوں کی حفاظت کی خاطر ایسے جرائم اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور مظلوم کی دادارسی ہو۔ اسکے آنسو پونچھیں جاسکیں۔
اس لئے معاشرے میں اسطرح کے بڑھتے ہوئے جرائم پہ قانون میں دی گئی معافی کے علاوہ کوئی معافی نہیں دی جانی چاہئیے۔ البتہ اچھی پوزیشن پہ انعام و اکرام اور قانونی رعائیتیں دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جیل کی انتظامیہ کو بھی انعام و ترقی ملنی چاہئیے کہ انہوں نے اپنے قیدی کو ماحول و اسباب مہیاء کئے اور اسکی حوصلہ افزائی کی ۔ اگر تو یوں ہوا ہے تو۔
نجیب احمد نے مندرجہ ذیل خبر اپنی فیس بک پر لگائی ہے جس پر ہم حکومت پنجاب کے شکرگزار ہیں۔
حکومت پنجاب کی طرف سے دو لاکھ روپے انعام ‘ 10 ماہ قید کی معافی اور جیل میں خصوصی سہولیات دینے کا اعلان
راولپنڈی ۔ اڈیالہ جیل میں اغواء برائے تاوان کے جرم میں 25 سال قید کے سزا یافتہ نوجوان قیصر ندیم کو میٹرک کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے پر حکومت پنجاب کی جانب سے دو لاکھ روپے انعام اور 10 ماہ قید کی معافی اور جیل میں خصوصی سہولیات دینے کا اعلان کیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق قیصر ندیم نامی نوجوان قیدی اغواء برائے تاوان کے جرم میں 2003 ء سے اڈیالہ جیل میں قید ہے اور اسے 25 سال قید کی سزا ہے قید کے دوران اس نے تیاری کر کے میٹرک کا امتحان دیا اور دوسری پوزیشن حاصل کی ہے ۔ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سعید گوندل نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میٹرک کے امتحان میں پوزیشن حاصل کرنے پر قیدی قیصر ندیم کو 10 ماہ کی معافی دی جائے گی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے خصوصی مشیر سید مہدی نے کہا کہ اس قیدی کے لئے 2 لاکھ روپے کا انعام دیا جائے گا ۔ سعید گوندل نے کہا کہ اس قیدی کو میٹرک کلاس کی سہولیات بھی دی جائیں گی ۔ اس کے لئے پنجاب حکومت کو درخواست دی جائے گی
Leave A Reply