آخر کارتين اگست کو ملائيشيا ميں او آئي سي کا اجلاس منعقد ہو ہي رہا ہے۔ او آئي سي کي اگر سابقہ تاريخ کا جائزہ ليا جاۓ تو يہي نظر آتا ہے کہ جو ہو گا زباني کلامي ہو گا اس سے آگے کچھ نہيں۔ اب تک جتني بھي آفتيں مسلمانوں پر ٹوٹيں کبھي بھي او آئي سي کے ريکارڈ ميں ان کے بارے میں کوئي ايسي بات نہيں ملتي جس سے نتيجہ اخز کيا جاۓ کہ اس دفعہ وہ کوئي اہم فيصلہ کريں گے۔ اب تک مسلمانوں نے 1973 کي جنگ میں تيل کا ہتھيار مشترکہ طور پر استعمال کرنے کے علاوہ کبھي اتحاد کا مظاہرہ نہيں کيا۔
اب کيا ہوگا اور ايک روز کے اجلاس ميں ہو بھي کيا سکتا ہے۔ پنجابي ميں کہتے ہيں کہ پتر کپتر پوتڑوں سے ہي پہچانے جاتے ہيں۔ اب تک مسلمان ملکوں کا جو انفرادي ردِ عمل ہے اس کا عکس اس اجلاس میں نظر آۓ گا۔ اسرائيل لبنان پر حملے تب تک جاري رکھے گا جب تک اپني پوري تسلي نہيں کر ليتا يہ الگ بات ہے کہ حزب اللہ کيلۓ يہ کوئي نئ چيز نہيں ہے اور وہ اس جنگ کے بعد مزيد مظبوط ہوگي۔ مگر ہم مسلمان پہلے الگ الگ يہ نظارہ ديکھ رہے تھے اب او آئي سي کے اجلاس ميں ملکر ديکھيں گے۔
دہائي خدا کي ٥٩ مسلمان ملک اور سب کے سب مٹي کا ڈھير۔ اگر يہ سارے ملک ملکر اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائيں تو دنيا کو ہلا کر رکھ ديں۔ مگر وہ ايسا نہيں کرسکتے کيونکہ ہر ايک کي حکومت کسي اور کي مرہونِ منت ہے اور کوئي بھي اپني کرسي کي قرباني دينے کو تيار نہيں ہوگا۔ دنيا ميں کل 200 سے زيادہ ممالک ہيں اور اس طرح مسلمان ملکوں کي تعداد دنيا کے 3/2 ملکوں کے برابر بنتي ہے مگر آج تک اتحاد کے فقدان کي وجہ سے يہ اکثريت ريت کي ديوار ہي بني رہي ہے جسے جس نے جب چاہا گرا ديا اور جب چاہا دوبارہ بنا ديا۔
اب اگرمسلمان ملکوں کي حکومتوں کا جائزہ ليں تو ہرطرف ڈکٹيٹرشپ ہي نظر آتي ہے۔ دو چار ملکوں ميں اگر جمہوريت ہے بھي تووہ ہھي براۓ نام۔ اب اس طرح کي حکومتيں جو عوامي نہيں ہوتيں وہ عوام کي خيرخواہي کيسے سوچ سکتي ہيں۔ وہ تو ہميشہ اپنے پيٹ پر ہاتھ پھرتي رہيں گي چاہے اس کيلۓ انہيں اپنے عوام کو ہي قرباني کا بکرہ بنانا پڑے۔
ہماري دعا ہے کہ خدا او آئي سي کي غيرت کو جگاۓ اور وہ کچھ اسطرح کے فيصلے کرے۔
١۔ اقوامِ متحدہ کا جلاس بلاۓ اور جنگ بندي کيلۓ ايک سخت قسم کي قرار دار منظور کرے۔ اگر قرارداد ويٹو کردي جاۓ تو سارے ملک اقوامِ متحدہ کي رکنيت ترک کر کے او آئي سي کا پليٹ فارم مظبوط کريں۔
٢۔ جو جو ملک اس جنگ بندي کے خلاف ووٹ ديں ان کا مشترکہ بائيکاٹ کر کے ان سے لين دين مکمل طور پر بند کر ديا جاۓ۔
٣۔ عرب ممالک اپنا سارا سرمايہ دوسرے ملکوں سے نکال ليں اور اپنے اپنے گھر میں اس سرماۓ سے تحقيق کا آغاز شروع کرديں۔
٤۔ تمام سلامي ملکوں کي حکومتيں اپنے آقاؤں سے بغاوت کرديں اور عوام کي طرف رجوع کريں۔ عوام کي طاقت ايسي ہے جو پائيدار ہے اور جس کے خلاف کوئي کچھ نہيں کرسکتا۔
٥۔ اسلامي ملک صرف اور صرف ايک دوسرے کے ساتھ تجارت شروع کرديں۔
٦۔ اسلامي ملکوں کي يہ روش تب تک جاري رہے جب تک لبناني جنگ کے حامي ہار نہ مان ليں
جيسا کہ ہم پہلے اس خدشے کا اظہار کرچکے ہيں کہ اس طرح کے اقدامات کي توقع بلکل نہيں ہے مگر دعا کرنے اور اميد رکھنے ميں کيا ہرج ہے۔ کبھي تو وہ دن آۓ گا جب کسي ملک کے پاس ويٹو کي طاقت نہيں ہوگي اور چھوٹے بڑے ملک اقوامِ متحدہ کے پليٹ فارم پر جمہوري انداز ميں بڑے بڑے فيصلے کيا کريں گے۔
1 user commented in " او آئي سي کا اجلاس – خدشات اور توقعات "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسلام
اسلامی ممالک کے حکمران انہی کے چمچے اور کفگیر ہیں۔ اپنے بارے میں سوچنے سے فرصت ملے تو کچھ کریں۔
ویسے ابھی حال ہی میں ایک دفعہ عرب سربراہان کو عقل آئی تو انہاں نے نو دو گیارہ کے واقعے کے بعد امریکا سے سرمایہ نکالنا چاہا تو بینکوں نے انکار کر دیا اب یہ بھاگے بھاگے صرد امریکہ کے پاس گئے تو انہاں نے ٹکا سے جواب دیا کہ بینکوں پر انکا کوئ ذور نہیں ہاں ان سے درخواست ضرور کریں گے کہ تم لوگوں کا مسئلہ حل کریں۔
ورنہ سب کے سب سوئے پڑے ہیں
Leave A Reply