جب بھی کسی حکومت نے شو شا دکھانا ہو وہ چھاپے مارنے شروع کر دیتی ہے اور ان چھاپوں کا عتاب سب سے زیادہ ذخیرہ اندوزوں اور حزب اختلاف پر نازل ہوتا ہے۔ ایوب خان، ضیاءالحق یا جنرل مشرف چھاپوں میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ ایوب خان کے چھاپوں سے مخالفین اندر ہوئے۔ جنرل ضیاء کے چھاپوں نے ایک طرف پی پی پی کے کارکنان کو کوڑے لگوائے اور دوسری مٹھائی کی دکانوں پر جالیاں لگوا دیں۔ پرویز مشرف کے چھاپوں سے مولویوں کی شامت آ گئی اور انہیں غیروں کے ہاتھ بیچ کر ڈالر کمانے کا دعویٰ کیا گیا۔
آج کل وفاقی حکومت کی بجائے پنجاب حکومت چھاپوں کے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ چینی کے بحران سے نمٹنے کیلیے پچھلے ایک ہفتے سے ذخیرہ اندوزوں کی سختی آئی ہوئی ہے۔ جس کے گودام سے ایک سو بوری سے زیادہ چینی برآمد ہو رہی ہے وہ بھی اندر اور اس کی چینی بھی اندر۔ ذخیرہ اندوز کی ضمانت تو ایک دو روز میں ہو جاتی ہو گی مگر اس کی چینی کا کیا حال ہوتا ہو گا اللہ جانتا ہے۔ لگتا ہے اس چینی سے پولیس والے بھی اپنے منہ میٹھے کر رہے ہوں گے۔
ہلکی پھلکی کرپشن کے باوجود پنجاب حکومت نے ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کاروائی کر کے نیکی کا کام کیا ہے۔ ابھی تک ایسی کوئی شکایت نہیں آئی کہ ان چھاپوں کا نشانہ صرف حزب اختلاف بنی ہوئی ہے۔ لیکن یہ خبر بھی ہم پڑھنے کو ترس رہے ہیں جس میں لکھا ہو کہ پنجاب کے کسی وزیر کی شوگر مل یا گودام پر بھی چھاپہ پڑا ہے۔ رمضان سے پہلے اس نیک کام پر ہم حکومت پنجاب کو مبارک باد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں پنجاب حکومت ہر کام ادھورا چھوڑنے کی ہماری جبلی عادت کا شکار نہیں ہو گی اور اس دفعہ اس کاروائی کے اثرات رمضان میں چینی سستی ہونے کی صورت میں نظر آئیں گے۔
حیرانی سرحد اور سندھ حکومتوں پر ہے۔ دونوں حکومتوں نے دکھاوے کے دو چار چھاپے پشاور اور کراچی میں مارے ہیں مگر پنجاب حکومت کی طرح اندرون سندھ کے ذخیرہ اندوز ابھی تک چھاپوں کی زد میں نہیں آئے۔ ہو سکتا ہے دونوں صوبے بھی ذخیرہ اندوزوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہوں مگر ہم نے اخباروں میں ایسی کوئی خبر نہیں پڑھی۔
5 users commented in " چھاپے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackچھاپے شو شا کے علاوہ کچھ نہیں لگ رہے
میں نے آتے ہوئے دیکھا کہ یوٹیلٹی ستور کے سامنے خواتین کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے ۔ وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ چینی کے انتظار میں ہیں جو آئی نہیں
دس لاکھ بوری ریکوری کے بعد اور وزیر اعلٰی کے اس بیان کے بعد کہ ایک دن میں یہ چینی مارکیٹ میں ہو گی کو تین دن گزرنے کے بعد بھی آج اوپن مارکیٹ میں چینی 53 روپے بک رہی ہے
یہ بات تو بالکل درست ہے کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب حکومت قریبآ ہر معاملہ میں زیادہ پھرتی دکھاتی ہے۔ یہاں کے وزیراعلیٰ و دیگر صوبائی حکام کو فرصت ہی نہیں کہ اخبارات میں اشتہارات دینے اور فوٹوسیشن سے فارغ ہوکر عوام پر اپنی نظر کرم فرمائیں۔
کرپشن، کریڈٹ کارڈ چوری، پرچہ میں نقل، ائیرپورٹ اسٹاف سے بدتمیزی جیسے واقعات کے باوجود پنجاب حکومت زرا بھی نہیں ہلی۔ شاید ان سب چیزوں کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں اتحادی حکومت نہیں جبکہ دیگر صوبوں میں دو تین جماعتوں نے مل بانٹ کر حکومت بنائی ہے۔ اور یہاں اتحاد میں یہ سوچا جاتا ہے کہ مجھے کتنی وزارتیں ملیں اور دوسرے کو کتنی۔ اتفاق میں برکت والے محاورہ کو تو شاید دیمک کھا گئی ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
سب لانتی انکے کام لانتیوں والے
http://www.bbc.co.uk/blogs/urdu/2009/08/post_487.html
پاکستان چینی پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ لیکن یہاں کی شوگر مافیا اتنی ہی طاقتور ہے جتنی کہ سسلی کی سنڈیکیٹڈ مافیا یا افغانستان کی ڈرگ مافیا یا کولمبیا کی کوکین مافیا۔ اس ملک میں تراسی چینی ساز کارخانے ہیں جن میں سے پچاس کے لگ بھگ کارخانے ان کے ہیں جو مسلم لیگ ن، ق اور پیپلز پارٹی میں شامل ہیں یا ایوانِ صدر سے لے کر رائے ونڈ براستہ گجرات سالم تانگے میں آتے جاتے ہیں۔
جو اس قوم نے ایوب خان کے ساتھ کیا وہی شوگر مافیا نے اس قوم کے ساتھ کردیا۔ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ نہیں، تین دفعہ۔ ہور چوپو تے چوپدے رہو!
Leave A Reply