دونوں تصاویر کو دیکھیں اور غور کریں اس اونچ کا نتیجہ کیا نتیجہ نکلے گا۔ پہلی تصویر میں حکمران رمضان بازار میں شاپنگ نہیں بلکہ دورہ کر رہے ہیں اور دوسری تصویر میں عوام رمضان بازار میں شاپنگ کر رہے ہیں۔ حکمران مسکرا رہے ہیں اور عوام کے چہروں پر ہوایاں اڑی ہوئی ہیں۔
9 users commented in " اونچ نیچ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاوپر والی تصویر میںبھی دھکم پیل ہورہی ہے۔ ایک “عامی“ کو دبوچ کر پیچھے کھینچا جارہا ہے وزیر اعظم کے پیچھے غالبآ
منافقت کا بازار گرم ہے۔ جس میں حکام، میڈیا، صحافی اور تقریبا معاشرے کا ہر اہم ستون شامل ہے۔ لعنت ہے ایسے لوگوں پہ ۔ صرف ایک اسی تصویر کو دیکھ کر اپنے پاکستانی ہونے پہ شرم آتی ہے۔ یہ تصویر دکھا کر ہم کسے بتا سکتے ہیں کہ ہم ایک باوقار اور آزاد مسلمان ملک کے باسی ہیں؟ جہاں اللہ کے پیدا کئیے رزق پہ انسان محض زیادہ دولت کمانے کے لئیے سانپ بنے بیٹھے ہیں اور دنیا کی اشرف المخلوق اور مسلمان خواتین دو وقت کی روٹی روزی کے لئیے بنیادی جز آٹا کے لئیے روپوؤں سے محض قدرے کم قیمت پہ خیرات کی طرح بانٹے گئے آٹے کے کچھ تھیلے قیمتا خریدنے کے لئیے۔ پاکستانی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بڑھی غریبی کے ہاتھوں بے بسی و مجبوری کی تصویر بنیں دھکم پیل کر رہی ہیں ۔
یہ خواتین کسی کی ماں کسی کی بہن بیٹی اور کسی کی بیوی ہوں گی۔
دولت کی ناجئز تقسیم کی وجہ سے دوہرے معیار کے شکار ایسے معاشرے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔
لعنت ہے۔ اللہ ہمارے حال پہ رحم فرمائے۔
خرم بھائی وہ ایک بچہ ہے جسے اس کا باپ گود مین اٹھانے کی کوشش کررہاہے 🙂
لعنت بھیج کر رحم کی دعا بھی کیا خوب ہے!۔
صرف ایک نقطہ کا ہی تو فرق ہے جناب! اوپر والوں کے لیے بابرکت رمضان باعث “رحمت” اور نیچے والوں کے لیے باعث “زحمت” بن چکا ہے۔
طبقاتی تفریق تو 1972ء میں اعلٰی حکومتی سطح سے شروع کی گئی تھی اور دن بدن فروغ پذیر رہی کیونکہ ہمارے بابو لوگوں کی اکثریت انسانی تفریق کی خواہش رکھتی ہے ۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے لوگ اپنے سے کم عہدہ کے شخص کے سلام کا جواب دینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پچھلے 35 سال سے جاری و ساری ہے
رہی اوپر کی تصاویر تو ہمارے ذرائع ابلاغ ہمیشہ تصویر کا اپنی مرضی کا رْخ دکھاتے ہیں ۔ میں نے پچھلے سال سستا آٹا تقسیم ہوتے دیکھا تھا ۔ باوجود منتظمیں اور پولیس کی پوری کوشش کے کوئی قطار بنانے کو تیار نہ تھا اور جس کا زور چلا اس نے پہلے آٹے کا تھیلا لیا ۔ کسی عورت کو دو تھیلے سر پر رکھے جاتے دیکھا تو کسی مرد کو تین تھیلے موٹر سائیکل پر لیجاتے دیکھا ۔ کئی لوگ اپنے گھر کے کئی افراد لے کر آئے ہوئے تھے ۔ کچھ ایسے بھی تھے جن کی باری آنے تک ٹرک خالی ہو گیا ۔
پچھلے سال میں یوٹیلیٹی سٹور پر چینی لینے گیا تو اس کیلئے لمبی قطار لگی تھی ۔ میں باقی سودا لے کر واپس آ گیا ۔ اسی طرح مزید دو دن ہوا ۔تو میں نے منیجر سے کہا “میں آپ کا روزانہ کا خریدار ہوں مگر مجھے پچھلے ایک ماہ میں چینی نہیں ملی ۔ یہاں جو لوگ روزانہ چینی لے رہے ہوتے ہیں ان میں سے بہت کم اس علاقہ میں رہتے ہیں”۔اس نے کہا “ہم کیا کریں کسی کو انکار کر نہیں سکتے ۔ روزانہ 80 فیصد چینی کے خریدار ایسے ہوتے ہیں جو چینی فروخت کرتے ہیں”۔
معاشرے تعلیم سے تبدیل ہوتے ہیں یہاں میں اس تعلیم کا ذکر نہیں کررہاہوں جسکانام ڈگریاں لے لیناہے۔
سونچو کہ اگر یہ نبی ص کا صدیق اکبر یا فاروق اعظم (رضی اللہ عنہ) کادور ہوتا اور چلو اگر یہ ہمارا ہمسایہ ملک چین ہوتا تو ان تصویروں کی کیانوعیت ہوتی۔
یقینآ بے حد مختلف، بات دراصل یہ ہے کہ ہم ایک ڈسپلن قوم ہیں ہی نہیں، یہ میں پاکستانیوں کو نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ مجموعی طور پر پوری مسلم امہ کا یہی حال ہے۔
غربت و لاچاری آپ کو اس بات سے عاری نہیں کرتی کہ آپ ڈسپلن کا مظاہرہ نہ کریں۔
اس کے علاوہ یہ حکومت کی بھی نااہلی اور بہت بڑی مس مینجمنٹ ہے، اگر انہیں یہ کام کرنا ہی تھا تو کم از کم اس بات کا اندازہ کرنا چاہے تھا کہ جس جگہ یہ سٹال لگائے جائیں وہاں وافر مقدار میں ٹرک موجود ہوں اور لوگوں کو پرشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اسکے علاوہ تبدیلی اسی وقت آسکتی جب لوگ خود یہ طے کریں کہ کیا میں ذکات اور خیرات لینے کا مستحق ہوں بھی کہ نہیں، ہمارا تو موٹو یہی ہوتاہے “ لوٹ لو“ چاہے آپ اس کے حقدار ہو بھی یا نہیں۔
پشتو کا ایک فقرہ ہے : اغلانہ پخ پل دے ۔ سب سے پہلے اپنا آپ ۔ یہ بات ہمارے آج کے معاشرے پہ بالکل صادق آتی ہے ۔ اگر ذرا تنظیم سے کام لیں ، تو شاید اتنی مشکلات نہ ہوں۔ بلکہ تنظیم نہ بھی ہو، دوسروں کا ذرا سا خیال بھی ہو تو بھی بندہ دوسروں کی آسانی کا سامان کر ہی لیتا ہے ،
مجھے افتخار اجمل صاحب! چوہدری حشمت صاحب! اور مکرمی غفران صاحب! ان تینوں حضرات سے کچھ باتوں سے قدرے اختلاف ہے
پاکستان دنیا میں چینی پیدا کرنے والے چند ایک بڑے ممالک میں سے ایک ملک ہے۔ پاکستان ایک زراعتی ملک ہے اور دنیا کی گرانقدر تقریبا سبھی اجناس پاکستان میں وافر ہوتی ہیں۔آخر کیا وجہ ہے۔ کہ کبھی آٹا غائب ہو جاتا ہے کبھی چینی ۔؟ اس مصنوعی یا اصلی قلت کے زمہ دران پاکستانی عوام تو ہر گز ھر گز نہیں ہیں۔ عوام سے جو قربانی مانگی جاتی ہے وہ ہر دور میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر دیتے آئے ہیں دوسرے لفظوں میں عوام نے اپنی ہر وہ ذمہ داری جو ان پہ بنتی بھی نہیں تھی مگر انہوں نے ہمیشہ پوری کی۔ جبکہ چینی ، آٹا، چاول، بجلی، تعلیم۔ نظم و ضبط سکھانا یہ سب پاکستان کی حکومتوں کے فرائض میں آتا تھا اور آتا ہے۔ مشرف کے دور میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے محض درآمدی مافیا کو گھٹیا ٹماٹر اور دیگر اشیاء درآمد کرنے کی اجازت دینے کے لئیے انھیں کروڑوں سے نوازنے کے لئیے۔ پاکستان میں ٹماٹر کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی۔ ٹماٹر کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔عوام پریشان ہو اٹھے۔ پاکستان کے اس دور کے ننگ ملت حکمران مشرف نے عوام کا ٹھٹا اڑات ہوئے کہا کہ اگر ٹماٹر دستیاب نہیں تو لوگ کوئی دوسری سبزی خرید لیں۔ اب ایسے ناہل حکمران کو کون یہ نکتہ سمجھاتا کہ ٹماٹر سبزی نہیں بلکہ پاکستان کے غریب عوام کی سبزی چٹنی کا ایک بنیادی جز ہے۔ کیا ایک غریب ملک کے حکمران اس طرح ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے بادشاہ لوگ ہیں ؟
آپ سب صدق دل سے سوچیں کیا پاکستان کی حکومتیں اپنا فرض ، اپنی ذمہ داریاں بحسن طریقے سے پوری کرتے رہے ہیں۔کیا عیاش اور چور حکمران اپنے اللے تللوں کا بوجھ بھی عوام کو نہیں منتقل کرتے رہے۔ ایسے میں عوام کو دوش دینا مناسب بات نہیں۔ عوام اس برے طریقے سے چند روپے کمانے کے لئیے ایک زون سے دوسرے زون میں لمبی لائینز لگاتے ہیں ۔ اس کی وجہ بھی بے روزگاری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے ۔ کہ ایسی حکومت بنائی جائے جس کا مفاد پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفادات سے ہو ۔ دیانتدار ہو۔ خوف خدا رکھتی ہو۔ خدا ترس ہو۔ اور پاکستان کے مسائل کا فہم و ادراک رکھتی ہو۔پاکستان کے مسائل کو پاکستانی بنیادوں پہ پاکستان کے ٹیکنو کریٹس کی مشاورت سے مقامی وسائل پہ انحصار کرتے ہوئے لوگوں کو روزگار، تعلیم اور شعور دلانے میں اپی ذمہ داریاں پوری کر سکے۔ ان میں اہلیت ہو۔ سب ضرورتیں پوری کرنے اور عوام کو سکھانے کے بعد ان سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ لائن بنائیں۔ اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں۔
یاد رہے یہ وہ عوام ہیں وہ قوم ہے جس نے پاکستان بنا کر دنیا کو حیران کرد یا۔ یہ وہی قوم ہے جسے ساری دنیا ہجوم کہتی تھی مگر پاکستان کے خوفناک زلزلے میں انہوں نے ساری دنیا کو انگشت بداں کر دیا جبکہ پاکستان کے عیاش حکمران وسائل کی کمی ۔ ہیلی کاپٹروں کی قلت کا رونا رو رہے تھے۔ فوج کے حرکت کرنے اور زلزلہ زدگان کی مدد شروع کرنے میں تین لگے مگر عوام کا ایک سیل روان تھا جو ہر قسم کی مدد لیکر اگلے چند گھنٹوں میں مصیبت زدگان کی مدد کو پہنچا۔ ہمارے نااہل حکمران اس جذبے کو کوئی رستہ نہیں دے سکے۔ جس طرح پاکستانی عوام کی قربانی اور ایثارکی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ اسی طرح شاید ہمارے حکمران طبقہ بھی دنیا کا اول ترین چور اور کرپٹ طبقہ ہے۔ عوام کو الزام نہیں دینا چاہئیے حکمرانوں سے جواب طلبی کرنا چاہئیے۔
Leave A Reply