اس بات سے قطع نظر کہ اکبر بگٹي کا قتل جائز تھا يا ناجائز يا اس قتل سے ملک کو فائدہ ہوا يا نقصان، ہم يہ سوچ سوچ کر پريشان ہو رہے ہيں کہ اکبر بگٹي کي موت کو پراسرار کيوں بنا ديا گيا۔ اس سارے ڈرامے کا آغاز ملک کے بڑے بڑے اخبارات کي شہ سرخيوں سے ہوا جن ميں واضح طور پر درج تھا کہ حکومت نے ايک حملے میں اکبر بگٹي اور ان کے ساتھيوں کو ہلاک کرديا۔ ان کو ان کے سيٹيلائٹ فون کے مقام کي نشاندہي سے تلاش کيا گيا اور پھر ليزرگائيڈڈ ميزائيل داغ کرموت کي نيند سلا ديا گيا۔
پہلے تو حکومت نے اس قتل کا کريڈٹ لينے کي کوشش کي مگر جونہي حالات کا رخ بدلتا ديکھا اس قتل سے انکاري ہوگئ اور اس کے جواز ميں اتني کمزور دليليں دي گئيں کہ حکومت کي عقل پر شک ہونے لگا۔
سب سے پہلے تو يہ کہا گيا کہ ہمارے پاس ليزر گائيڈڈ ميزائل ہيں ہي نہيں تو پھر ان کے داغنے کا سوال ہي پيدا نہيں ہوتا۔ ليکن يہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ دہشت گردي کو ختم کرنے کيلۓ ہمارے اتحاديوں نے ہميں جو ہتھيار مہيا کۓ گۓ ہيں ان ميں يہ ميزائل شامل ہي نہيں بلکہ اس سے قبل ہم انہيں وزيرستان اور افغانستان کي سرحد پر استعمال بھي کرچکے ہيں۔
پھر يہ فرمايا گيا کہ جس سرنگ ميں بگٹي صاحب پناہ لۓ ہوۓ تھے وہ سرنگ ايک زور دھماکے سے تباہ ہوگئ اور يہ دھماکہ سرنگ کے اندر موجود اسلحے کے پھٹنے سے ہوا۔ اتنے ترقي يافتہ دور ميں ہم اگر چاہيں تودھماکے کي وجہ ايک منٹ ميں معلوم کرسکتے ہيں مگر ہم نے يہ ضروري نہيں سمجھا۔
پھر ساتھ ہي حکومتي اہلکاروں کي ہلاکت کي بھي خبر دے دي گئ تا اپنے کيس کو مضبوط بنايا جا سکے۔ حالانکہ يہ ہو ہي نہيں سکتا کہ حکومتي اہلکار غار کے اندر موجود ہوں اور حکومت غار کو تباہ کردے۔
اس قتل کے بعد لاش کو پراسرار بنانے کا عمل شروع ہوگيا۔ پہلے يہ کہا گيا کہ لاش اس قدر بگڑ چکي ہے کہ يہ شناخت کے قابل نہيں رہي۔ پھر يہ کہا گيا کہ صرف چہرہ ٹھيک ہے باقي جسم مسخ ہوچکا ہے۔ ليکن جديد ٹيکنالوجي کي موجودگي کے باوجود حکومت بگٹي صاحب کي لاش کو ٹھوس بنيادوں پر شناخت نہ کرسکي۔
زرقاوي کے قتل پر اتحديوں نے اس کے فوٹو گراف بنا کر ميڈيا ميں چھپواۓ تاکہ عراقيوں کو يہ ثابت کرسکيں کہ زرقاوي مر گيا ہے۔ يہي طريقہ صدام کے بيٹوں کي شناخت کيلۓ اپنايا گيا۔ حکومت اگر چاہتي تو بگٹي صاحب کے چہرے کي فوٹو بنا کر اخباروں ميں چھاپ سکتي تھي۔ مگر معلوم ہوتا ہے حکومت اس قتل کو پراسرار ہي بنانا چاہتي تھي۔
لاش کيلۓ تابوت بنانے کا ايک يہ بھي طريقہ ہے کہ چہرے کي طرف ايک شيشہ لگا ديا جاتا ہے تاکہ لوگ مرنے والے کا چہرہ ديکھ سکيں۔ اگر چہرہ اس قابل تھا کہ نمازِ جنازہ پڑھانے والا حکومتي مولوي ملوک شناخت کرسکتا تھا تو پھر عام پبلک کو چہرہ کيوں نہيں دکھايا گيا اورتابوت کو تالا کيوں لگا ديا گيا۔
کيا يہ سب اسلۓ کيا گيا کہ لوگ يہي سمجھيں کہ بگٹي صاحب ابھي بھي زندہ ہيں يا پھر ان کي لاش پر سياست کرنے والوں کو جتنا ہوسکے کم مواد مہيا کرنے کي کوشش کي گئ۔ حکومت کي جو بھي نيت تھي اس جديد دور ميں ايسا نہيں ہونا چاہيۓ تھا۔ صحيح طريقہ يہي تھا کہ بگٹي صاحب کا منہ عام پبلک کو دکھايا جاتا اور ان کي ميت ان کے لواحقين کے حوالے کي جاتي۔ مگر يہ دور چونکہ خود غرضي کا دور ہے اسلۓ حکومت نے وہي کچھ کيا جو اس کيلۓ فائدہ مند تھا۔ حکومت کو اس بات سے کوئي غرض نہيں تھي کہ بگٹي صاحب کے مرنے کے بعد لوگ کيا کيا قياس آرائياں کريں گے اور ان کے قتل کو ايک ديومالائي کہاني بنا ديں گے۔
No user commented in " اکبر بگٹي کي پراسرار موت "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply