جب دو پارٹیوں کے درمیان چپقلش کی وجہ سے دونوں کو نقصان پہنچے تو ایسے موقع پر بولتے ہیں دو ملاؤں کے درمیان مرغی حرام۔ مگر جب دو پارٹیوں کے درمیان چپقلش کی وجہ سے عوام کا نقصان ہونے لگے تو ایسے موقع پر بولنا چاہیے دو کتوں کے درمیان ہڈی حرام کیونکہ اس سے بڑی کتی حرکت ہو ہی نہیں سکتی کہ دو حکومتیں اپنے اپنے ذاتی مفاد کیلیے عوام کو بالکل بھول جائیں اور ان کو نقصان پہنچائیں۔
چینی کے موجودہ بحران میں کچھ ایسی ہی صورتحال آج کل پاکستان میں نظر آ رہی ہے۔ پہلے تو ہائی کورٹ کا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں مقرر کرے کیونکہ ہائی کورٹ نہ تو مینوفیکچرنگ کا تجربہ رکھتی ہے اور نہ ہی اسے اندر کی صورتحال کا پتہ ہوتا ہے۔ یہ کام حکومتوں کا ہے جو عوام کو اشیائے خوردونوش سستے داموں مہیا کریں۔ مگر چیف جسٹس چوہدری افتخار کی بحالی کے بعد ایسی روایت چل پڑی ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں حکومتی معامالات میں اپنی ٹانگیں اڑانے لگی ہیں۔ یہ تبھی ہوتا ہے جب حکومتیں اپنے فرض سے لاپرواہی برتتی ہیں اور ججوں کو عوام کے مفاد میں کچھ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
اس جھگڑے میں ظاہر ہے نقصان عوام کا ہی ہو رہا ہے۔ چینی مارکیٹ سے غائب ہو چکی ہے اور ذخیرہ اندوزوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ شوگر مل مالکان بھی اپنی ضد پر اڑ چکے ہیں اور وفاقی حکومت بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ جیت شوگر ملوں کی ہی ہو گی کیونکہ وہ حکومت بھی ہیں اور سرمایہ دار بھی۔ اب ہو گا یوں کہ سرمایہ دار سپریم کورٹ میں اپیل کر دیں گے اور حکم امتناعی لے لیں گے۔ اس طرح پنجاب حکومت اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گی اور وفاقی حکومت پنجاب حکومت پر الزام تراشی شروع کر دے گی۔
لعنت ہے ایسی سیاست پر اور ایسی حکمرانی پر جس کی چپقلش کی وجہ سے ان کی خود غرضی جیت جائے اور عوام ہار جائیں۔ اس سارے جھگڑے میں وفاقی حکومت کی حلیف جماعتیں ایم کیو ایم، اے این پی اور جمیعت العلمائے اسلام سب خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ کسی میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ عوام کی خاطر اس جھگڑے میں کود پڑے۔
کتنا اچھا ہو اگر آج سے عوام چینی کا بائیکاٹ کر دیں اور عید تک چینی کا استعمال ترک کر دیں۔ پھر دیکھیے گا مل مالکان کے بھی ہوش ٹھکانے آ جائیں گے اور ذخیرہ اندوزوں کو بھی نانی یاد آ جائے گی۔ جب چینی گوداموں میں گلنے سڑنے لگی تو خود بخود سرمایہ دار تیس روپے کلو پر بھی بیچنے کیلیے تیار ہو جائیں گے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا یعنی عوام میں ایسی تحریک کون بیدار کرے گا؟ میڈیا اگر بازی لے جانا چاہے تو ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں یہ آئیڈیا مشہور کر دے اور پھر دیکھے اپنی طاقت کا کمال۔ ایم کیو ایم کراچی میں اپنے ووٹرز کو چینی کے بائیکاٹ پر اکسائیں اور اے این پی سرحد میں۔
مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ نہ ہی میڈیا آزاد ہے اور نہ ہی ہماری حکومت۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب بلاگرز اتنے قابل ہو جائیں گے کہ وہ اس طرح کی تحریکوں کو عوام میں پھیلانا شروع کر دیں گے۔ اس کے بعد حکومت عوام کی مرضی کے خلاف ایک بھی فیصلہ نہیں کر پایا کرے گی۔ تب تک انتظار اور بس انتظار۔
8 users commented in " دو کتوں کے درمیان ہڈی حرام "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackعوام عید تک چینی نہ استعمال کریں۔۔۔
جس دن عوام میں اتنا شعور یا جراءت آگئی اس دن یہ حکومتیں یہ واری نیاری پاکدامن مگر دنیا کی ذلیل تریں اشرافیہ، مفاد پراست سیاستدان، ناجئز منافع خور سرمایہ دار، چور اور ٹھگ مل مالکان، بغیر کسی ذاتی ، اصولی، یا قومی پالیسی کے صرف پیسہ اور اثر و روسوخ بنانے والا میڈیا، طرح طرح کے گرگٹ جو جعل سازیوں اور ہیراپھیری کی بنیاد پہ طرح طرح کی ڈگیوں کی کتابیں اٹھائے پاکستان کے مختلف عہدوں پہ قابض ہیں اور اپنی لاعلمی کو علم کہہ کر پیش کرتے ہیں، اہلیت سے فارغ ایسے وغیرہ وغیرہ کہ پاکستان میں ایسے طبقے کی ایک لمبی وغیرہ وغیرہ ہے یہ طبقہ جان بچانے کے لئیے کونوں کھدروں میں گھستا پھرے گا، ابھی پاکستانی عوام میں وہ شعور اور اپنے حقوق کے لئیے جدوجہد کی ہمت و توفیق نہیں ہے۔ مگر کب تک؟
بلاگرز تحریک پیدا کرنے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں لیکن پاکستان کی آن لائن کمیونٹی اتنی چھوٹی ہے کہ اس کا اثر اس سطح کا نہیں ہوپاتا جو حکومتیں ہلانے کے لیے درکار ہے۔ فی الحال ٹی وی کی ہی پہنچ اس سطح کی ہے لیکن وہاں افسانہ نویس کالم نویسوں کا راج ہے اور ان سے سنسنی کی توقع کے علاوہ کچھ ادھار نہیں۔
اپنی تو کوشش ہے که کچھ کاروبار میں کامیاب هو گر یہاں جاپان کی سیاست ميں لوگوں سومل کرلیں
اور جاپانی حکومت کو منا لیں که جو امداد جاپانی حکومت پاکستان کو تعلیم کی مد میں دیتی هے
اس امداد کو اپنی نگرانی ميں صرف پندرھ سال تعلیم پر لگا دیں ـ
تو جی ایک نسل تعلیم یافته تیار هو جائےگی
پھر دیکھیں که انقلاب اتا ہے که نهیں ـ
سواے آّخری پیرا گراف کے، افضل صاحب آپ کا تجزیہ اور باتیں سب کی سب سچ ہیں اور تجزیہ یقیناً درست ہے، معاشرے کے ان ناسوروں (نا کے بغیر بھی لفظ ٹھیک ہے) کے سینے میں کوئی دل نہیں ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
باقی رہے پاکستانی بلاگرز تو یہ ناممکن سی بات لکھ دی آپ نے، قطرہ قطرہ والی کوئی مثال یہاں لاگو نہیں ہو سکتی۔
یہاں میں تھوڑی سی تصحیح کرنا چاہتی ہوں۔ دو ملائوں کے بیچ مرغی ھرام اسوقت اس استعمال کرتے ہیںح جب دونوں مولانا مرغی کے اوپر بحث شروع کر دیں کبحی وہ ایک مولانا کے دربار میں پڑی ہو اور کبھی دوسرے کے۔ اور اسکے مستقبل کا کچھ فیصلہ نہ ہو پا رہا ہو۔ اس صورت حال سے ملائووں کا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ یہ مرغی ہوتی ہے جو اپنے مقدر کے فیصلہ ہونے کی اذیت سے گذرتی ہے۔
باقی رہے کنزئور راءٹس اور لوگوں کا ان سے آگاہ ہونا اور انہیں استعمال کرنا۔ یہ ہم اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک ہم دکھاوے کی زندگی سے باہر نہیں نکلتے۔ سیاسی جماعتیں ہمارے درمیان سے نکلتی ہیں اور انکی نفسیات بھی ہم سیٹ کرتے ہیں۔
میں خود اس چیز پر سختی سے عمل کرتی ہوں کہ جب کسی چیز کی قیمت حد سے بڑھی تو دوکاندار کو یہ کہہ کر چھوڑ دیتی ہوں کہ جب یہ سڑنے والی حالت کے قریب پہنچے گی تو ضرور دیکھونگی کہ اسکی کیا قیمت ہوتی ہے۔لیکن بہر حال چونکہ اکثریت ایسا نہیں کرتی اس لءے کچھ مثبت نتاءج نظر نہیں آتے۔
رہا بلاگرز کا اثر۔ میرے خیال سے اس پہ مجھے تفصیل سے اپنے بلاگ پر لکھنا چاہءیے۔
ہمارے ہاں نفسیات کچھ اس طرح کی ہے کہ جس چیز کی ترسیل میں کمی یا قیمت بڑھنے کی خبر آئے اسے دھڑا دھڑ خریدنا شروع کر دیتے ہیں ۔
عقلمند یا دور اندیش عوام جب کوئی چیز اچھی نہ مل رہی ہو یا مہنگی ہو تو نہیں خریدتے ۔
اسی رمضان میں پہلے دن سستے آٹے کے ٹرک آئے تو مار دھاڑ ہو گئی ۔ ہفتہ عشرہ بعد ٹرک کھڑا تھا خریدار نہ دارد ۔یہ اخباری خبر نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے
لگتا ہے ہماری تجویز پر وزیر اطلاعات کی نظر پڑ چکی ہے تبھی تو انہوں نے اس کی تائید کی ہے۔ ہاہاہاہاہاہا
جنگ کی یہ خبر پڑھیے۔
http://www.jang.com.pk/jang/sep2009-daily/09-09-2009/u4901.htm
یہ تمام مسائل عوام کے ہی پیدا کردہ ہیں نا افضل بھائی۔ ان سرمایہ داروں، مل مالکوں، ذخیرہ اندوزوں کوووٹ بھی تو عوام ہی دیتے ہیں نا۔ بلاگر کمیونٹی شائد ایک دن اس انقلاب کا پیش خیمہ بن سکے لیکن جب تک آپ ایک سادہ دیہاتی کی سوچ نہیں بدلیں گے کہ وہ ووٹ اصول کی بنا پر دے اس وقت تک انقلاب نہیںآنےکا۔
Leave A Reply