کل جو مسئلہ ہم نے پیش کیا، لگتا ہے وہ ہمارے لیے کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے، اسی لیے صرف چار قارئین نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن آج جو مسئلہ ہم پیش کرنے جا رہے ہیں وہ بہت بڑا مسئلہ ہے اور امید ہے اس پر خوب بحث ہو گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ چند روز قبل ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایکپریس ٹی وی پر انٹرویو میں احمدیوں کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے قادیانوں پر ہونے جانے والے مظالم کی مذمت کی اور انہوں نے سب سے درخواست کی کہ وہ قادیانیوں کو بھی پاکستان میں زندگی گزارنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قادیانیوں کو تبلیغ کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔
یہاں تک تو بات سچ ہے کہ اگر ہندو، عیسائی اور سکھ پاکستان میں آزادی سے رہ سکتے ہیں تو پھر قادیانیوں کو بھی یہ حق دینا چاہیے۔ مگر انہوں نے خود سے قادیانیوں کو غیرمسلم نہیں کہا اور صرف یہ کہا کہ اگر آپ قادیانیوں کو مسلمان نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے قادیانیوں کا لٹریچر پڑھا ہے اور ان کی محفلوں میں بھی شرکت کی ہے۔ وہ ترنگ میں آ کر کہنے لگے کہ قادیانی بھی وہی کلمہ یعنی لا لہ اللہ محمد الرسول اللہ پڑھتے ہیں اور محمد صلعم کو آخری نبی مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کیا کرتے ہیں الطاف حسین نے وہ بیان کرنے سے گریز کیا۔ اگر یہی سچ ہے تو پھر قادیانیوں کو ساری مسلم امہ نے غیرمسلم کیوں قرار دیا؟
بعد کی تقریر میں الطاف حسین نے اپنی صفائی میں کہا کہ وہ مسلمان ہیں اور فقہ حنفی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے جدامجد کے فتوں کا ذکر کر کے ثابت کیا کہ وہ مسلمان خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ بقول الطاف حسین کے اگر قادیانی کلمہ گو ہیں اور نبی پاک صعلم کو آخری نبی مانتے ہیں تو پھر وہ غیرمسلم قرار کیوں پائے؟
70 users commented in " الطاف حسین اور قادیانی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackویسی الطاف حسین کا مقصد تو احمدیوں کی وکالت کرنا ہی تھا۔ ان کے پاس تو ویسے بھی احمدیوں کا نیا اور پرانا سب لتریچر موجود ہوگا۔
قادیانی مذہب
فہرستِ مضامین
تعارف
غلام احمد قادیانی کون ہے؟
سیالکوٹ کو منتقلی
حکیم نورالدین بہیروی
غلام کا دعویٰ نبوت
اس کا دعویٰ کہ نبوت کا دروازہ ابھی تک کھلا تھا
اس کا دعویٰ کہ وہ نبی اور رسول ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے
بعض دوسرے نبیوں پر اپنی فضیلت کا غرور اور بحث
اس کا دعویٰ کہ اُسے خدا کا بیٹا ہونے کا فخر حاصل ہے اور وہ بمنزلہ عرش کے ہے
اجماع امت محمدیہ کہ محمد خاتم المرسلین تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور یہ کہ جو اس سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔
خاتم النبیین کی قادیانی تفسیر
اس کا دعویٰ کہ انبیاء نے اس کی شہادت دی
نزول و رفع مسیح کے بارے میں اس کے متضاد بیانات
نزولِ ملائکہ کے بارے میں اس کی توضیح اور اس کا ادعا کہ وہ خدا کے بازو ہیں۔
ہندوستان میں برٹش شہنشاہیت سے وفاداری اور جہاد کی موقوفی
قادیان کا حج اور یہ دعویٰ کہ اس کی مسجد، مسجد اقصٰی ہے، وہ خود حجر اسود ہے۔
الہام کے دعویٰ کی بنیاد پر قرآن میں تحریف اور اس کی مثالیں
قادیانی فرقی کی ہندوؤں میں منظورِ نظر بننے کی کوشش اور اس پر ہندوؤں کو مسرت
قادیانیت اور اسلام میں اختلاف
غلام کا بیان کہ اس کا خدا، اس کا رسول، اس کا قرآن وہ نہیں جو اسلام کے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال کا بیان کہ قادیانی اسلام سے اس سے بھی زیادہ دور ہیں جتنے سکھ ہندوؤں سے۔
لاہوری جماعت اور اس کے باطل عقائد
——————————————————————————–
شروع ساتھ نام اللہ کے جو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
تمام تعریفیں صرف اللہ ہی کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا مالک ہے۔ اور حق شناسوں کے لیے انعام خداوندی ہے۔ اور درود و سلام تمام و کمال سید المرسلین و خاتم النبیین پر اور ان کی طیب و طاہر آل و اولاد اور صحابہ پر اور ان پر جنہوں نے ان کا راستہ اختیار کیا اور ان کے نقشِ قدم پر چلے، قیامت کے دن تک۔
قادیانی مذہب (جو فرقہ احمدیہ کے نام سے بھی مشہور ہے) ایک جدید فرقہ ہے۔ اس کی بنیاد ہندوستان میں اس دوران پڑی جب مسلمان برصغیر میں برٹش حکومت کے ہوئے کو اپنے ملک سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ تب انگریزی حاکموں کو مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور ان کے آتشیں جوش کو ٹھنڈا کرنے کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ یہ نظر آیا کہ غلام احمد قادیانی نامی ایک شخص کو، جس کی پیدائش ایک مسلمان خاندان میں ہوئی تھی، ایک ایسے مذہب کا اعلان کرنے کی طرف متوجہ کریں جو اجماع المسلمین کے بالکل خلاف ہو۔ جس کے ذریعہ اسلام کے اصولوں کا بطلان کیا جا سکے اور ان باتوں سے انکار کیا جائے جو اس کے علم میں اس مذہب کا ہی لازمی حصہ تھیں۔
اس نے دعویٰ کیا کہ وحی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا تھا اور یہ کہ وہ خدا کی طرف سے جہاد کو موقوف کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا اور انگریز حاکموں کے ساتھ، جو اس کے بیان کے مطابق، ارض ہند پر خدا کی رحمت کے ظہور کے طور پر بھیجے گئے تھے، صلح کرنے کے فرض کی دعوت دینے کے لیے مامور کیا گیا تھا۔
غلام احمد قادیانی کون ہے ؟
غلام نے اپنی کتاب استفتاء جو 1378 ھ میں نصرت پریس ، ربوہ ، پاکستان میں طبع ہوئی، کے صفحہ 72 پر اپنا تعارف اس طرح کرایا ہے : “میرا نام غلام احمد ابن مرزا غلام مرتضیٰ ہے۔ اور مرزا غلام مرتضیٰ مرزا عطا محمد کا بیٹا تھا۔” اسی صفحہ پر وہ اپنے بارے میں کہتا ہے ” اور میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ ہمارے آباواجداد مغلیہ نسل سے تھے۔ مگر خدا نے مجھ پر وحی بھیجی کہ وہ ایرانی قوم سے تھے، نہ کہ ترکی قوم سے۔” اس کے بعد کہتا ہے، ” میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ میرے اسلاف میں سے کچھ عورتیں بنی فاطمہ میں سے تھیں۔” صفحہ 76 پر وہ کہتا ہے، ” اور میں نے اپنے والد سے سنا ہے اور ان کے سوانح میں پڑھا ہے کہ ہندوستان میں آنے سے پہلے وہ لوگ سمرقند میں رہا کرتے تھے۔”
غلام احمد 1835ء یا 1839ء اور یا شاید 1840ء میں ہندوستان میں پنجاب کے موضع قادیان میں پیدا ہوا۔ بچپن میں اس نے تھوڑی سے فارسی پڑھی اور کچھ صرف و نحو کا مطالعہ کیا۔ اس نے تھوڑی بہت طب بھی پڑھی تھی۔ لیکن بیماریوں کی وجہ سے، جو بچپن سے اس کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور جن میں قادیانی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق مالیخولیا (جنون کی ایک قسم) بھی شامل تھا، وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکا۔
——————————————————————————–
سیالکوٹ کو منتقلی
وہ نوجوان ہی تھا کہ ایک دن اُسے اس کے گھر والوں نے اپنے دادا کی پنشن وصُول کر لانے کے لیے بھیجا، جو انگریزوں نے اس کی انجام کردہ خدمات کے صلے میں اس کے لیے منظور کی تھی۔ اس کام کے لیے جاتے ہوئے اس کا ایک دوست امام الدین بھی غلام احمد کے ساتھ ہو گیا۔ پنشن کا روپیہ وصول کرنے کے بعد غلام کو اس کے دوست امام الدین نے پُھسلایا کہ قادیان سے باہر کچھ دیر موج اُڑائی جائے۔ غلام احمد اس کے جھانسے میں آ گیا اور پنشن کے روپے تھوڑی ہی دیر میں میں اُڑا دیئے گئے۔ روپے ختم ہونے پر اس کے دوست امام الدین نے اپنی راہ لی۔ اور غلام کو گھر والوں کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگنا پڑا۔ چنانچہ وہ سیالکوٹ چلا گیا جو اب مغربی پاکستان کے پنجاب کے علاقہ میں ایک شہر ہے۔ سیالکوٹ میں اُسے کام کرنا پڑا تو وہ ایک کچہری کے باہر بیٹھ کر عوامی محرر (نقل نویس) کا کام کرنے لگا۔ جہاں وہ تقریباً 15 روپے ماہوار کے برائے نام معاوضہ پر عریضوں کی نقلیں تیار کیا کرتا۔
اس کے سیالکوٹ کے قیام کے دوران وہاں ایک شام کا اسکول قائم کیا گیا جہاں انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔ غلام نے بھی اس اسکول میں داخلہ لے لیا اور وہاں اس نے بقول خود ایک یا دو انگریزی کتابیں پڑھیں۔ پھر وہ قانون کے ایک امتحان میں بیٹھا لیکن فیل ہو گیا۔
پھر اس نے 4 سال بعد سیالکوٹ میں اپنا کام چھوڑ دیا اور اپنے باپ کے ساتھ کام کرنے چلا گیا جو وکالت کرتا تھا۔
یہی وہ زمانہ ہے جب اس نے اسلام پر مباحثے منعقد کرنا شروع کئے اور بہانہ کیا کہ وہ ایک ضخیم کتاب، جس کا نام اس نے ” براہینِ احمدیہ ” رکھا تھا، تالیف کرے گا۔ جس میں وہ اسلام پر اعتراضات اٹھائے گا۔ تب ہی لوگ اُسے جاننے لگے۔
حکیم نور الدین بُہیروی
سیالکوٹ میں قیام کے دوران غلام احمد کا واسطہ نور الدین بُہیروی نامی ایک منحرف شخصیت سے پڑا۔ نور الدین کی پیدائش 1258 ھ مطابق 1841ء بُہیرہ ضلع شاہ پور میں ہوئی جو اب مغربی پاکستان کے علاقہ پنجاب میں سرگودھا کہلاتا ہے۔ اس نے فارسی زبان، خطاطی، ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی۔ 1858 عیسوی میں اس کا تقرر راولپنڈی کے سرکاری اسکول میں فارسی کے معلم کے طور پر ہو گیا۔ اس کے بعد ایک پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر بنا دیا گیا۔ چار سال تک اس جگہ پر کام کرنے کے بعد اس نے ملازمت سے استغفٰی دے دیا اور اپنا پورا وقت مطالعہ میں صرف کرنے لگا۔ پھر اس نے رامپور سے لکھنؤ کا سفر کیا جہاں اس نے حکیم علی حسین سے طبِ قدیم پرھی۔ علی حسین کی معیت میں اس نے دو سال گزارے پھر 1285 ھ میں وہ حجاز چلا گیا جہاں مدینہ منورہ میں اس کا رابطہ شیخ رحمت اللہ ہندی اور شیخ عبد الغنی مجددی سے ہوا۔ اس کے بعد وہ اپنے وطن واپس آ گیا۔ جہاں اس نے مناظرہ بازی میں کافی شہرت حاصل کی۔ پھر اس کا تقرر جنوبی کشمیر کے صوبہ جموں میں بطور طبیب ہو گیا۔ 1893ء میں اسے اس عہدہ سے برطرف کر دیا گیا۔ جموں میں قیام کے دوران اس نے غلام احمد قادیانی کے بارے میں سنا۔ پھر وہ گہرے دوست بن گئے۔ چناچہ جب غلام نے ’براہینِ احمدیہ‘ لکھنی شروع کی تو حکیم نور الدین نے ’تصدیقِ براہین احمدیہ‘ لکھی۔
پھر حکیم نے غلام کو نبوت کا دعویٰ کرنے کی ترغیب دینی شروع کی۔ اپنی کتاب ’سیرت المہدی‘ میں صفحہ 99 پر حکیم نے کہا، کہ اس وقت اس نے کہا تھا : “اگر اس شخص (یعنی غلام) نے نبی اور صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کیا اور قرآن کی شریعت کو منسوخ کر دیا تو میں اس کے اس فعل کی مخالفت نہیں کروں گا۔”
اور جب غلام قادیان گیا تو حکیم بھی اس کے پاس وہیں پہنچ گیا۔ اور لوگوں کی نگاہ میں غلام کا سب سے اہم پیرو بن گیا۔
ابتدا میں غلام نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بعد میں اس نے کہا کہ وہ مہدی معہود تھا۔ حکیم نورالدین نے اُسے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرنے کے لئے آمادہ کیا اور 1891 عیسوی میں غلام نے دعویٰ کر دیا کہ وہ مسیح موعود تھا اور لکھا :
“درحقیقت مجھے اسی طرح بھیجا گیا جیسے کہ موسیٰ کلیم اللہ کے بعد عیسیٰ کو بھیجا گیا تھا اور جب کلیم ثانی یعنی محمد آئے تو اس نبی کے بعد، جو اپنے اعمال میں موسیٰ سے مشابہت رکھتے تھے، ایک ایسے نبی کو آنا تھا جو اپنی قوت، طبیعت و خصلت میں عیسیٰ سے مماثلت رکھتا ہو۔ آخرالذکر کا نزول اتنی مدت گزرنے کے بعد ہونا چاہیے جو موسیٰ اور عیسیٰ ابنِ مریم کے درمیانی فصل کے برابر ہو۔ یعنی چودھویں صدی ہجری میں۔
——————————————————————————–
پھر وہ آگے کہتا ہے :
“میں حقیقتاً مسیح کی فطرت سے مماثلت رکھتا ہوں اور اسی فطری مماثلت کے بنا پر مجھ عاجز کو مسیح کے نام سے عیسائی فرقہ کو مٹانے کے لئے بھیجا گیا تھا کیونکہ مجھے صلیب کو توڑنے اور خنازیر کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ میں آسمان سے فرشتوں کی معیت میں نازل ہوا جو میرے دائیں بائیں تھے۔”
جیسا کہ خود غلام احمد نے اپنی تصنیف ’ازالہ اوہام‘ میں اعلان کیا، نور الدین نے درپردہ کہا کہ دمشق سے، جہاں مسیح کا نزول ہونا تھا، شام کا مشہور شہر مراد نہیں تھا بلکہ اس سے ایک ایسا گاؤں مراد تھا جہاں یزیدی فطرت کے لوگ سکونت رکھتے تھے۔
پھر وہ کہتا ہے : “قادیان کا گاؤں دمشق جیسا ہی ہے۔ اس لئے اس نے ایک عظیم امر کے لئے مجھے اس دمشق یعنی قادیان میں اُس مسجد کے ایک سفید مینار کے مشرقی کنارے پر نازل کیا، جو داخل ہونے والے ہر شخص کے لئے جائے امان ہے۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے منحرف پیروؤں کے لئے قادیان میں جو مسجد بنائی تھی وہ اس لئے تھی کہ جس طرح مسلمان مسجد الحرام کو حج کے لئے جاتے ہیں، اسی طرح اس مسجد کے حج کے لئے آئیں، اور جس میں اس نے ایک سفید مینارہ تعمیر کیا تھا تا کہ لوگوں کو اس کے ذریعہ یہ باور کرایا جا سکے کہ مسیح کا (یعنی خود اس کا) نزول اسی مینارہ پر ہو گا۔
——————————————————————————–
اس کا نبی ہونے کا دعویٰ
غلام احمد نے اپنے گمراہ پیروؤں میں سے ایک شخص کو قادیان میں اپنی مسجد کا پیش امام مقرر کیا تھا جس کا نام عبد الکریم تھا۔ جیسا کہ خود غلام نے بتایا، عبد الکریم اس کے دو بازوؤں میں سے ایک تھا جبکہ حکیم نورالدین دوسرا۔
1900 عیسوی میں عبد الکریم نے ایک بار جمعہ کے خطبہ کے دوران غلام کی موجودگی میں کہا کہ مرزا غلام احمد کو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا اور اس پر ایمان لانا واجب تھا۔ اور وہ شخص جو کہ دوسرے نبیوں پر ایمان رکھتا تھا مگر غلام پر نہیں، وہ درحقیقت نبیوں میں تفریق کرتا تھا اور اللہ تعالٰی کے قول کی تردید کرتا تھا جس نے مومنین کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
“ہم اس کے نبیوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔”
اس خطبہ نے غلام کے پیروؤں میں باہمی نزاع پیدا کر دیا جو اس کے مجدد، مہدی معہود اور مسیح موعود ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ لہٰذا جب انہوں نے عبد الکریم پر تنقید کی تو اس نے اگلے جمعہ کو ایک اور خطبہ دیا اور غلام کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ : “میرا عقیدا ہے کہ آپ اللہ کے رسول اور اس کے نبی ہیں۔ اگر میں غلط ہوں تو مجھے تنبیہہ کیجئے۔” اور نماز ختم ہونے کے بعد جب غلام جانے لگا تو عبد الکریم نے اُسے روکا۔ اس پر غلام نے کہا : ” یہی میرا دین اور دعویٰ ہے۔” پھر وہ گھر میں چلا گیا۔ اور وہاں ہنگامہ ہونے لگا جس میں عبد الکریم اور کچھ اور لوگ ملوث تھے جو شور مچا رہے تھے۔ شور سنکر غلام گھر سے باہر نکلا اور کہا، ” اے ایمان والو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔”
——————————————————————————–اس کا دعویٰ کہ نبوت کا دروازہ ابھی تک کُھلا تھا
غلام نے واقعی کہا تھا کہ نبوت کا دروازہ ہنوز کُھلا ہوا تھا۔ اس کا اظہار اس کے لڑکے محمود احمد نے، جو قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ تھا، اپنی کتاب ’حقیقت النبوت‘ کے صفحہ 228 پر اس طرح کیا تھا : “روز روشن میں آفتاب کی طرح یہ واضح ہے کہ بابِ نبوت ابھی تک کُھلا ہوا ہے۔” اور ’انوارِ خلافت‘ میں صفحہ 62 پر وہ کہتا ہے : “حقیقتاً، انہوں نے (یعنی مسلمانوں نے) کہا کہ خدا کے خزانے خالی ہو گئے ہیں۔ اور ان کے ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خدا کی صحیح قدر و قیمت کی سمجھ نہیں ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ بجائے صرف ایک کے ہزاروں نبی آئیں گے۔” اسی کتاب کے صفحہ 65 پر وہ کہتا ہے : “اگر کوئی شخص میری گردن کے دونوں طرف تیز تلواریں رکھ دے اور مجھ سے یہ کہنے کے لئے کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں یقیناً کہوں گا کہ وہ کاذب ہے۔ کیونکہ ایسا نہ صرف ممکن بلکہ قطعی ہے کہ ان کے بعد نبی آئیں گے۔” رسالہء تعلیم (مطبوعۃ ربوہ، پاکستان 1386ھ) کے صفحہ 14 پر خود غلام کہتا ہے : “یہ ذرا بھی نہ سوچنا کہ وحی زمانہ پارینہ کا قصہ بن چکی ہے، جس کا آجکل کوئی وجود نہیں ہے۔ یا یہ کہ روح القدس کا نزول صرف پرانے زمانے میں ہی ہوتا تھا، آجکل نہیں۔ یقیناً اور حقیقتاً میں کہتا ہوں کہ ہر ایک دروازہ بند ہو سکتا ہے مگر روح القدس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔”
’رسالہء تعلیم‘ کے صفحہ 9 پر وہ کہتا ہے : “یہ وہ ہی خدائے واحد تھا جس نے مجھ پر وحی نازل کی اور میری خاطر عظیم نشانیاں ظاہر کیں۔ وہ جس نے مجھے عہدِ حاضر کا مسیح موعود بنایا، اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں، نہ زمین پر نہ آسمان پر۔ اورجو اس پر ایمان نہیں لائے گا، اس کے حصہ میں بدقسمتی اور محرومیت آئے گی۔ مجھ پر حقیقت میں وحی نازل ہوتی ہے جو آفتاب سے زیادہ واضح اور صریح ہے۔”
اس کا دعویٰ کہ وہ نبی اور رسول ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے
غلام ’مکتوب احمد‘ (مطبوعہ ربوہ 1383 ھ طبع پنجم) کے صفحہ 7 اور 8 پر کہتا ہے : “اس کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے مجھے ان ناموں سے مخاطب کیا ” تم میری حضوری کے قابل ہو، میں نے تمہیں اپنے لئے انتخاب کیا۔” اور اس نے کہا، ” میں نے تمہیں ایسے مرتبہ پر فائز کیا جو خلق کے لئے نامعلوم ہے۔” اور کہا ” اے میرے احمد، تم میری مراد ہو اور میرے ساتھ ہو۔ اللہ اپنے عرش سے تمہاری تعریف بیان کرتا ہے۔” اس نے کہا۔ ” تم عیسیٰ ہو، جس کا وقت ضائع نہیں ہو گا۔ تمہارے جیسا جوہر ضائع ہونے کے لئے نہیں ہوتا۔ تم نبیوں کے حلیہ میں اللہ کے جری ہو۔” اس نے کہا، “کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے اول ہوں۔” اس نے کہا، ” ہمارے جوہر سے اور ہمارے حکم کے مطابق جائے پناہ تعمیر کرو۔ جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی اطاعت کا عہد کر رہے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔” اس نے کہا، “ہم نے تمہیں دنیا پر صرف رحمت بنا کے بھیجا۔” غلام کہتا ہے، “اس کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب اس نے دیکھ کہ پادری حد سے زیادہ مفسد ہو گئے ہیں اور کہنے لگے ہیں کہ وہ ملک میں بلند مرتبوں پر پہنچ گئے ہیں تو اس نے ان کی سرکشی کے سیلاب اور تیرگی کے عروج پر مجھے بھیجا۔” اس نے کہا، ” آج تم ہمارے ساتھ کھڑے ہو، طاقتور اور قابلِ اعتماد۔ تم جلیل القدر حضوری سے آئے ہو۔” غلام کہتا ہے : “اس نے مجھے یہ کہتے ہوئے پکارا اور مجھ سے کلام کیا : میں تمہیں ایک مفسدین کی قوم کی طرف بھیجتا ہوں۔ میں تمہیں لوگوں کا قائد بناتا ہوں اور تمہیں اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہوں اور عزت کی علامت کے طور پر اور اپنے دستور کے مطابق، جیسا کہ پہلے لوگوں کے تھا۔”
——————————————————————————–غلام کہتا ہے : “اس نے مجھے ان ناموں سے مخاطب کیا : میری نظر میں تم عیسیٰ ابنِ مریم کی مانند ہو۔ اور تمہیں اس لئے بھیجا گیا تھا کہ تم اپنے رب الاکرم کے کئے ہوئے وعدہ کو پورا کرو۔ حقیقتاً اس کا وعدہ برقرار ہے اور وہ اصدق الصادقین ہے۔” “اور اس نے مجھ سے کہا کہ اللہ کے نبی عیسٰی کا انتقال ہو چکا تھا۔ انہیں اس دنیا سے اٹھا لیا گیا تھا اور وہ جا کر مُردوں میں شامل ہو گئے تھے اور ان کا شمار ان میں نہیں تھا جو واپس آتے ہیں۔” (مکتوب احمد صفحہ 9)۔
اسی کتاب کے صفحہ 63 اور 64 پر غلام کہتا ہے : “خدا نے مجھے یہ کہتے ہوئے خوشخبری دی : اے احمد، میں تمہاری تمام دعائیں قبول کروں گا، سوائے ان کے جو تمہارے شرکاء کے خلاف ہوں گی۔ اور اس نے اتنی بے شمار دعائیں قبول کیں کہ جگہ کی کمی کے باعث ان کی فہرست اور تفصیل کا تو ذکر ہی کیا اس جگہ ان کا خلاصہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔ کیا تم اس معاملے میں میری تردید کر سکتے ہو؟ یا مجھ سے پِھر سکتے ہو؟”
اپنی کتاب ’مواہب الرحمٰن‘ (مطبوعہ ربوہ 1380 ھ) کے صفحہ 3 پر وہ کہتا ہے : “میرا رب مجھ سے اوپر سے کلام کرتا ہے۔ وہ مجھے ٹھیک طرح سے تعلیم دیتا ہے اور اپنی رحمت کی علامت کے طور پر مجھ پر وحی نازل کرتا ہے میں اس کی پیروی کرتا ہوں۔”
’استفتا‘ (مطبوعہ ربوہ 1378 ھ) کے صفحہ 12 پر غلام کہتا ہے : “میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔”
اسی کتاب کے صفحہ 17 پر وہ کہتا ہے : “خدا نے مجھے نبی کہہ کر پکارا۔”
اسی کتاب کے صفحہ 20 پر وہ کہتا ہے : “خدا نے مجھے اس صدی کے مجدد کے طور پر، مذہب کی اصلاح کرنے، ملت کے چہرے کو روشن کرنے، صلیب کو توڑنے، عیسائیت کی آگ کر فرو کرنے اور ایسی شریعت کو جو تمام خلق کے لئے سودمند ہے قائم کرنے، مفسد کی اصلاح کرنے اور جامد کو رواج دینے کے لئے بھیجا۔ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں۔ خدا نے مجھے وحی اور الہام سے سرفراز کیا اور اپنے مرسلین کرام کی طرح مجھ سے کلام کیا۔ اس نے اپنی ان نشانیوں کے ذریعہ جو تم دیکھتے ہو، میری سچائی کی شہادت دی۔” صفحہ 25 پر غلام کہتا ہے : “خدا نے مجھ پر وحی بھیجی اور کہا : میں نے تمہارا انتخاب کیا اور تمہیں ترجیح دی۔ کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں اپنی توحید اور انفرادیت کے مرتبہ پر فائز کرتا ہوں۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ تم خود کو عوام الناس پر ظاہر کرو اور ان میں خود کو شہرت دو جو ہر طرف سے آئیں گے۔ جن کو ہم بذریعہ الہام کہیں گے کہ وہ تمہاری پشت پناہی کریں۔ وہ ہر طرف سے آئیں گے۔ یہی میرے رب نے کہا ہے۔”
غلام نے صفحہ 27 پر بھی کہا : ” اور میرے پاس خدا کی تصدیقات ہیں۔”
’مسیح ناصری ہندوستان‘ (مطبوعہ ربوہ میں) کے صفحہ 12 اور 13 پر غلام کہتا ہے : “انتہائی ملائمت اور صبر کے ساتھ لوگوں کو سچے خدا کی طرف رہبری کرنے کے لیے اور اسلام کے اخلاقی معیار کے دوبارہ تعمیر کے لیے اس نے مجھے بھیجا۔ اس نے مجھے ان نشانیوں سے عزت بخشی جو حق کے متلاشیوں کی تسلی و تشفی اور تیقن کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ اس نے حقیقت میں مجھے معجزے دکھائے اور مجھ پر ایسے پوشیدہ امور اور مستقبل کے راز ظاہر کئے جو سچے علم کی بنیاد کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس نے مجھے ایسے علوم اور معلومات سے سرفراز کیا جن کی تاریکیوں کے بیٹے اور باطل کے حمایتی مخالفت کرتے ہیں۔”
’حمامتہ البشریٰ‘ (مطبوعہ ربوہ 1378 ھ) کے صفحہ 60 پر غلام کہتا ہے : ” یہی وجہ ہے جس کے سبب اللہ تعالٰی نے مجھے انہیں حالات میں بھیجا جن حالات میں مسیح کو بھیجا تھا۔ اس نے دیکھا کہ میرا زمانہ اسی کے زمانے جیسا تھا۔ اس نے ایک قوم دیکھی جو اُسی کے قوم جیسی تھی۔ اس نے تلے کے اوپر تلا دیکھا۔ اس لئے اُس نے عذاب بھیجنے سے قبل مجھے بھیجا تاکہ ایک قوم کو تنبیہ کر دوں، چونکہ ان کے آباء و اجداد متنبہ نہیں کئے گئے تھے، اور تاکہ بدکاروں کا راستہ صاف ہو جائے۔”
’تحفۃ بغداد‘ (مطبوعہ ربوہ 1377 ھ) کے صفحہ 14 پر غلام کہتا ہے : ” میں قسم کھاتا ہوں کہ میں جو عالی خاندان سے ہوں، فی الحقیقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔”
’خطبات الہامیۃ‘ (مطبوعہ ربوہ 1388 ھ) کے صفحہ 6 پر وہ کہتا ہے : ” مجھے آبِ نور سے غسل دیا گیا اور تمام داغوں اور ناپاکیوں سے چشمہ مقدس پر پاک کیا گیا۔ اور مجھے میرے رب نے احمد کہہ کر پکارا۔ سو میری تعریف کرو اور بے عزتی نہ کرو۔”
صفحہ 8 پر وہ کہتا ہے : ” اے لوگو، میں محمدی مسیح ہوں، میں احمد مہدی ہوں اور میرا رب میری پیدائش کے دن سے مجھے قبر میں لٹائے جانے کے دن تک میرے ساتھ ہے۔ مجھے فنا کر دینے والی آگ اور آبِ زلال دیا گیا۔ میں ایک جنوبی ستارہ ہوں اور روحانی بارش ہوں۔”
صفحہ 87 پر وہ یہ بھی کہتا ہے : ” اسی وجہ سے مجھے خدا نے آدم اور مسیح کہہ کر پکارا، جس نے، میرا خیال ہے، مریم کی تخلیق کی، اور احمد، جو فضیلت میں سب سے آگے تھا۔ یہ اُس نے اس لیے کیا تاکہ ظاہر کر سکے کہ اس نے میری روح میں نبیوں کی تمام خصوصیات جمع کر دی تھیں۔”
——————————————————————————–
’البدر‘ مورخہ 5 مارچ 1908 عیسوی میں ایک مضمون کے تحت، جس کا عنوان تھا ’ہمارا دعویٰ کہ ہم رسول و نبی ہیں‘ اس نے لکھا: ” اللہ کے حکم کے مطابق میں اس کا نبی ہوں۔ اگر میں اس سے انکار کرتا ہوں تو میں گنہگار ہوں۔ اگر خدا مجھے اپنا نبی کہتا ہے تو میں اس کی نفی کیسے کر سکتا ہوں۔ میں اس کے حکم کی تعمیل اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک اس دنیا سے کنارہ نہ کر لوں۔” (دیکھیے مسیح موعود کا خط بنام مدیر اخبار عام، لاہور) یہ خط مسیح موعود نے اپنے انتقال سے صرف تین دن پہلے لکھا تھا۔ 23 مئی 1908 عیسوی کو اس نے یہ خط لکھا اور 26 مئی 1908 عیسوی کو، اس کے انتقال کے دن اس اخبار میں شائع ہوا۔
’کلمہ فصیل‘ (قولِ فیصل) مصنفہ بشیر احمد قادیانی اور Review Of Religions نمبر 3، جلد 4، صفحہ 110 پر شائع شدہ میں یہ عبارت شامل ہے : ” اسلامی شریعت نے ہمیں نبی کا جو مطلب بتایا ہے وہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ مسیح موعود استعارتاً نبی ہو۔ بلکہ اس کا سچا نبی ہونا ضروری ہے۔”
’حقیقت النبوۃ‘ مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد میں مصنف صفحہ 174 پر اپنے منشور میں ’فرقہ احمدیہ میں داخلہ کی شرائط‘ کے عنوان سے اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے : “مسیح موعود (یعنی غلام احمد) اللہ تعالٰی کے نبی تھے اور اللہ کے نبی کا انکار سخت گستاخی ہے جو ایمان سے محرومی کی طرف لے جا سکتی ہے۔”
۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔
بعض دوسرے نبیوں پر اپنی فضیلت کا غرور اور بحث
غلام احمد پر غرور اور تکبر بری طرح چھایا ہوا تھا۔ اس لئے اس نے دل کھول کر اپنی تعریف کی۔ اس نے اپنی کتاب ’استفتاء‘ میں مندرجہ ذیل عبارت کا حوالہ دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس سے اس طرح خدا نے خطاب کیا ” میرے لئے تم میری وحدانیت اور انفرادیت کے بمنزلہ ہو۔ میرے لئے تم بمنزلہ میرے عرش کے ہو۔ میرے لئے تم بمنزلہ میرے بیٹے کے ہو۔”
’احمد رسول العالم الموعود‘ نامی کتاب میں شامل ایک مضمون میں وہ کہتا ہے : “حقیقت میں مجھے اللہ القدیر نے خبر دی ہے کہ اسلامی سلسلہ کا مسیح موسوی سلسلہ کے مسیح سے بہتر ہے۔” اسلامی سلسلہ کے مسیح سے اُس کی مراد بذات خود ہے۔ اسی لئے غلام احمد عیسٰی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے دعووں میں سے ایک اور یہ ہے کہ خدا نے کہ کہتے ہوئے اس سے کلام کیا : ” میں نے عیسٰی کے جوہر سے تمہاری تخلیق کی اور تم اور عیسٰی ایک ہی جوہر سے ہو اور ایک ہی ہو۔” (حمامتہ البشریٰ سے) وہ کہتا ہے کہ وہ عیسٰی سے بہتر ہے۔ ’رسالہ تعلیم‘ میں صفحہ 7 پر وہ کہتا ہے : ” اور یقینی طور سے جان لو کہ عیسٰی کا انتقال ہو گیا ہے اور یہ کہ اس کا مقبرہ سرینگر، کشمیر میں محلہ خانیار میں واقعہ ہے۔ اللہ نے اس کی وفات کی خبر کتاب العزیز میں دی۔ اور مجھے مسیح ناصری کی شان سے انکار نہیں حالانکہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ محمدی مسیح، مسیح ناصری سے بلند مرتبہ ہو گا۔ تاہم میں ان کا نہایت احترام کرتا ہوں کیوں کہ وہ امت موسوی میں خاتم الخلفاء تھے جس طرح میں امت محمدی میں خاتم الخلفاء ہوں۔ جس طرح مسیح ناصری ملتِ موسوی کا مسیح موعود تھا اسی طرح میں ملتِ اسلامیہ کا مسیح موعود ہوں۔”
وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی فضیلت کا دعوی کرتا ہے۔ حقیقت النبوۃ، مصنفہ مرزا بشیر احمد، خلیفہ ثانی کے صفحہ 257 پر مصنف کہتا ہے : ” غلام احمد حقیقت میں بعض اولی العظم رسولوں سے افضل تھے۔”
’الفضل‘ جلد 14، شمارہ 29 اپریل 1927 عیسوی سے مندجہ ذیل اقتباس پیش ہے :
“حقیقت میں انہیں بہت سے انبیاء پر فوقیت حاصل ہے اور وہ تمام انبیاء کرام سے افضل ہو سکتے ہیں۔”
اسی صحیفہ ’الفضل‘ کی پانچویں جلد میں ہم پڑھتے ہیں : “اصحاب محمد اور مرزا غلام احمد کے تلامذہ میں کوئی فرق نہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ بعثِ اول سے تعلق رکھتے تھے اور یہ بعثِ ثانی۔ (شمارہ نمبر 92 مورخہ 28 مئی 1918 عیسوی)۔
اسی صحیفہ ’الفضل‘ کی تیسری جلد میں ہم پڑھتے ہیں : “مرزا محمد ہیں۔” وہ خدا کے قول کی تائید کرتا ہے، “اس کا نام احمد ہے۔” (انوارِ خلافت، صفحہ 21)۔ یہ کتاب یہاں تک کہتی ہے کہ غلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی افضلیت حاصل ہے۔ ’خطبات الہامیہ‘ صفحہ 177 پر خود غلام احمد کہتا ہے : “محمد کی روحانیت نے عام وصف کے ساتھ پانچویں ہزارے کے دور میں اپنی تجلی دکھائی۔ اور یہ روحانیت اپنی اجمالی صفات کے ساتھ اس ناکافی وقت میں غایت درجہ بلندی اور اپنے منتہا کو نہیں پہنچی تھی۔ پھر چھٹے ہزارے میں (یعنی مسیح موعود غلام احمد کے زمانے میں) اس روحانیت نے اپنے انتہائی عالیشان لباس میں اپنے بلند ترین مظاہر میں اپنی تجلی دکھائی۔” اپنے رسالہ ’اعجازِ احمدی‘ میں وہ یہ اضافہ کرتا ہے :
“اُن کے لئے چاند کی روشنی گہنا گئی۔”
کیا تمہیں اس سے انکار ہے کہ میرے لئے چاند اور سورج، دونوں کو گہن لگا۔”
اس کا دعویٰ کے اُسے خدا کا بیٹا ہونے کا فخر حاصل ہے اور وہ بمنزلہ عرش کے ہے
’استفتاء‘ کے صفحہ 82 پر غلام کہتا ہے : “تم بمنزلہ میری وحدانیت اور انفرادیت کے ہو۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ تم خود کو عوام میں ظاہر کر دو اور واقف کرا دو۔ تم میرے لئے بمنزلہ میرے عرش کے ہو۔ تم میرے لئے بمنزلہ میرے بیٹے کے ہو۔ تم میرے لئے ایک ایسے مرتبہ پر فائز ہو جو مخلوق کے علم میں نہیں۔”
اجماع امت محمد یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خامتم المرسلین تھے، کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور یہ کہ جو اس سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔
قرآن پاک، سنتِ رسول اور اجماعِ امت سے بے پرواہ غلام احمد دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی اور رسول ہے۔ شریعت کے یہ تینوں ماخذ اس کے ثبوت میں شہادت دیتے ہیں کہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین اور مرسلین ہیں۔
قرآن میں خدا کا قول ہے : “محمد تم لوگوں میں سے کسی کے والد نہیں بلکہ خدا کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔”
خاتم بکسر ’تا‘ پڑھا جائے تو صفت کا اظہار کرتا ہے جو محمد کو انبیاء میں سب سے آخری بیان کرتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ کے بعد کوئی بھی شخص مقام نبوت کو نہیں پہنچ سکتا۔ لہٰذا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ ایک ایسی چیز کا مدعی ہے جو اس کی رسائی سے باہر ہے۔ اسی لفظ کو بفتح ’تا‘ خاتم پڑھا جائے تو بھی عرب علما لغت کے مطابق اس کے یہ ہی معنی و تعبیر ہو گی۔ حقیقت میں مفسرین و محققین نے اس کا یہی مطلب لیا ہے اور سنت صحیحہ نے بھی اسی کی تصدیق کی ہے۔ امام بخاری کی صحیح بخاری میں ابو ہریرہ سے ایک حدیث روایت کی گئی ہے اور انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ فرمایا : “بنی اسرائیل کی رہبری نبیوں کے ذریعہ کی گئی۔ ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرے نبی نے اس کی جانشینی کی۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔”
صحیح بخاری میں ایک دوسری حدیث نقل کی گئی ہے۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول خدا سے سنا۔ فرماتے تھے : میری اور مجھ سے قبل آنے والے نبیوں کی مثال اس شخص کے معاملہ جیسی ہے کہ اس نے ایک مکان بنایا، خوب اچھا اور خوبصورت لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ یہ مکان دیکھنے آتے اور مکان کی تعریف و توصیف کرتے، مگر کہتے ” وہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھ دیتے تم؟” رسولِ خدا نے کہا، “وہ اینٹ میں ہوں – اور میں خاتم النبیین ہوں۔” مسلم کی روایت کے مطابق جابر سے روایت ہے کہ رسولِ خدا نے کہا “اس اینٹ کی جگہ میں ہوں۔ میں آیا اور انبیاء پر مہر لگا دی۔”
یہی اجماع المسلمین ہے اور ضرورتاً مذہب کی ایک حقیقت معلومہ بن گیا ہے۔ ’خاتم النبیین‘ کی تفسیر میں امام ابنِ کثیر کا قول ہے : “اللہ تعالٰی نے ہم سے اپنی کتاب میں کہا ہے، جیسا کہ اس کے رسول نے سنتِ متواترہ میں کہا “کہ اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انہیں جان لینے دو کہ اس کے بعد جو کوئی اس مقام کا دعویٰ کرتا ہے وہ کذاب، مکار، فریبی اور دجال ہے۔” الالوسی نے اپنی تفسیر میں کہا : “اور یہ حقیقت کہ وہ (محمد رسول اللہ) خاتم النبیین ہیں، قرآن پاک میں بیان کی گئی ہے، سنت نے اس کی تصدیق کی ہے اور اُمت کا بالاتفاق اس پر اجماع ہے۔ لہٰذا جو کوئی بھی اس کے برخلاف دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ہے۔”
اُس کا دعویٰ کہ انبیا نے اُس کی شہادت دی
وہ دعویٰ کرتا ہے کہ صالح نے اس کی شہادت دی۔ اپنی کتاب ’مکتوب احمد‘ میں صفحہ 62 پر وہ کہتا ہے : “حقیقتاً صالح نے میری صداقت کی شہادت میری دعوت سے بھی پہلے دی۔ اور کہا کہ وہ ہی عیسیٰ مسیح تھا جو آنے والا تھا۔ اس نے میرا اور میری زوجہ کا نام بتایا اور اس نے اپنے پیروؤں سے کہا : مجھے میرے رب نے ایسا ہی بتایا ہے لہٰذا میری یہ وصیت مجھ سے لے لو۔”
نزول مسیح کے بارے میں اس کے متضاد بیانات کبھی اُس کا انکار، کبھی اقرار، کبھی اس کی تاویلات – رفع مسیح کا بھی باری باری انکار، اقرار اور تاویل
’مکتوب احمد‘ صفحہ 47 پر وہ کہتا ہے : “فی الحقیقت تم نے سنا ہو گا کہ ہم قرآن کے بیان صریح کے مطابق مسیح اور اس کے رفیق کے نزول کے قائل ہیں، ہم اس نزول کے برحق ہونے کو واجب تسلیم کرتے ہیں اور ہمیں یا کسی اور کو اس سے مفسدوں کی طرح منحرف نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی کسی کو اس کے اقرار پر متکبرین کی طرح آزردہ ہونا چاہیے۔”
’حمامۃ البشریٰ‘ کے صفحہ 11 پر وہ کہتا ہے : “اس لقب کے بعد میں سوچا کرتا تھا کہ مسیح موعود ایک غیر ملکی تھا۔ اور اس پوشیدہ راز کے ظاہر ہو جانے تک، جو خدا نے اپنے بہت سے بندوں سے ان کا امتحان لینے کے لئے چھپا رکھا تھا، میں نے کبھی نہیں سوچا تھاکہ میں ہی مسیح موعود تھا۔ اور میرے رب نے ایک الہام میں مجھے عیسیٰ ابن مریم کہہ کر پکارا اور کہا : “اے عیسیٰ، میں تمیہں اپنے پاس بلاؤں گا، تمہیں اپنے تک اٹھاؤں گا اور تمہیں ان لوگوں سے پاک کروں گا جنہوں نے کفر کیا۔ میں ان لوگوں کو جنہوں نے تمہارا اتباع کیا، ان لوگوں سے اونچا مرتبہ دوں گا جو یومِ القیامت پر ایمان نہیں لائے۔ ہم نے تمہیں عیسیٰ ابن مریم بنایا اور تمہیں ایسے مرتبہ پر فائز کیا جس سے مخلوق لا علم ہے۔ اور میں نے تمہیں اپنی توحید اور انفرادیت کے مرتبہ پر فائز کیا اور آج تم میرے ساتھ ہو اور مضبوطی و حفاظت کے ساتھ متمکن ہو۔”
صفحہ 38 پر وہ کہتا ہے : “کیا انہوں نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا ہے کہ خدا نے قرآن میں ہر وہ اہم واقعہ بیان کیا ہے جو اس نے دیکھا۔ پھر اس نے نزول مسیح کے واقعہ کو اس کی عظیم اہمیت اور انتہائی معجزانہ ماہیت کے باوجود کیسے چھوڑ دیا؟ اگر یہ واقعہ سچا تھا تو اس کا ذکر کیوں چھوڑ دیا جبکہ یوسف کی کہانی دوہرائی؟ خدا نے کہا : “ہم تمہیں بہترین قصے سناتے ہیں۔” اور اس نے اصحابِ کہف کا قصہ سنایا۔ اس نے کہا : یہ ہماری عجیب نشانیوں ہیں سے ہیں۔ لیکن اس نے آسمان سے نزول مسیح کے بارے میں اس کی وفات کے ذکر کے بغیر کچھ نہیں کہا۔ اگر نزول کی کوئی حقیقیت ہوتی تو قرآن نے اس کا ذکر ترک نہ کیا ہوتا بلکہ اسے ایک طویل سورۃ میں بیان کیا ہوتا اور اسے کسی دوسرے قصے کی بہ نسبت بہتر بنایا ہوتا کیوں کہ اس کے عجائبات صرف اسی لئے مخصوس ہیں اور کسی دوسرے قصے میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ اُسے اُمت کے لئے ختم دنیا کی نشانی بنا دیتا۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ یہ الفاظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہیں کئے گئے ہیں بلکہ اس گفتگو میں اس سے ایک مجدد عظیم مراد ہے جو مسیح کے نقش قدم پر اس کے مثیل و نظیر ہو گا۔ اسے مسیح کا نام اسی طور پر دیا گیا تھا جس طرح کچھ لوگوں کو عالمِ رویا میں کسی دوسرے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔”
اسی کتاب کے صفحہ 41 پر وہ کہتا ہے : “وہ کہتے ہیں کہ مسیح آسمان سے نازل ہو گا، دجال کو قتل کر دے گا اور عیسائیوں سے جنگ کرے گا۔ یہ تمام خیالات ’خاتم النبیین‘ کے الفاظ کے بارے میں سئے فہمی اور غور و فکر کی کمی کا نتیجہ ہیں۔”
نزول ملائکہ کے بارے میں اس کی توضیح اور اس کا ادّعا کہ وہ خدا کے بازو ہیں
’حمامۃ البشریٰ‘ کے صفحہ 98 پر وہ کہتا ہے : اور دیکھو ملائکہ کو، کہ خدا نے ان کی اپنے بازوؤں کے طور پر کیسے تخلیق کی۔”
’تحفہ بغداد‘ کے صفحہ 34 پر وہ لکھتا ہے : “اور ہم فرشتوں، ان کے مرتبوں اور درجوں پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان کے نزول پر ایمان رکھتے ہیں کہ نزول انوار کی طرح ہوتا ہے نہ کہ ایک انسان کی ایک جگہ سے دوسرے جگہ نقل و حرکت کی طرح۔ وہ اپنا مقام نہیں چھوڑتے۔”
۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔
ہندوستان میں برٹش شہنشاہیت سے وفاداری اور جہاد کی موقوفی
’تریاق القلوب‘ کے صفحہ 15 پر غلام احمد کہتا ہے : میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ درحقیقت برٹش حکومت کی تائید و حمایت میں گزارا ہے۔ وہ کتابیں جو میں نے جہاد کی موقوفی اور انگریزی حکام کی اطاعت کی فرضیت پر لکھی ہیں وہ 50 الماریاں بھرنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ سبھی کتابیں مصر، شام، کابل اور یونان وغیرہ اور عرب ممالک میں شائع ہوئی ہیں۔”
ایک دوسری جگہ وہ کہتا ہے، ” اپنی نوجوانی کے زمانے سے، اور اب میں ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ رہا ہوں، میں اپنی زبان اور قلم کے ذریعہ مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش میں لگا ہوں تا کہ وہ انگریزی حکومت کے وفادار اور ہمدرد رہیں۔ میں ’جہاد‘ کے تصور کو رد کرتا رہا ہوں جس پر ان میں سے کچھ جاہل ایمان رکھتے ہیں اور جو انہیں اس حکومت کے تئیں وفاداری سے روکتا ہے۔” (ضمیمہ کتاب شہادۃ القرآن مصنفہ غلام احمد قادیانی، طبع ششم، صفحہ 10)۔
اسی کتاب میں وہ لکھتا ہے : ” مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے میرے پیروؤں کی تعداد بڑھیگی جہاد پر ایمان رکھنے والوں کی تعداد میں کمی ہو گی کیوں کہ میرے مسیح اور مہدی ہونے پر ایمان لانے کے بعد جہاد سے انکار لازمی ہے۔” صفحہ 17)۔
ایک دوسرے عبارت میں وہ کہتا ہے : ” میں نے عربی، فارسی اور اردو میں درجنوں کتابیں لکھی ہیں جن میں میں نے وضاحت کی ہے کہ انگریزی حکومت کے خلاف، جو ہماری محسن و مربی ہے، جہاد بنیادی طور پر ناجائز ہے۔ اس کے برخلاف ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ پوری وفاداری کے ساتھ اس حکومت کی اطاعت کرئے۔ ان کتابوں کی چھپائی پر میں نے بڑی بڑی رقمیں خرچ کی ہیں اور انہیں اسلامی ممالک میں بھجوایا ہے۔ اور مجھے معلوم ہے کہ ان کتابوں نے اس ملک (ہندوستان) کے باشندوں پر نمایاں اثر چھوڑا ہے۔ میرے پیروؤں نے حقیقتاً ایک ایسے فرقے کی تشکیل کی ہے جس کے دل اس حکومت کے تئیں اخلاص اور وفاداری سے معمور ہیں۔ وہ انتہائی طور سے وفادار ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس ملک کے لئے ایک برکت ہیں اور اس حکومت کے وفادار ہیں اور اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔” (انگریزی حکومت کے نام غلام احمد کے تحریر کردہ ایک خط سے۔)
غلام کہتا ہے : ” حقیقت میں یہ حکومت (یعنی انگریزی حکومت) ہم پر بڑی فیاض رہی ہے اور ہم اس کے شرمندہ احسان ہیں کیوں کہ اگر ہم یہاں سے چلے جائیں (یعنی اگر ہم اس ملک سے باہر چلے جائیں) تو ہم مکہ یا قسطنطنیہ میں پناہ نہیں لے سکتے۔ پھر ہم اس حکومت کے بارے میں کوئی بدخواہی کیسے کر سکتے ہیں؟” (ملفوظاتِ احمدیہ، جلد اول صفحہ 146)۔
وہ یہ بھی کہتا ہے : ” میں اپنا یہ کام مکہ یا مدینہ میں ٹھیک طور سے نہیں کر سکتا، نہ ہی یونان، شام، ایران یا کابل میں۔ لیکن میں یہ اس حکومت کے تحت کر سکتا ہوں جس کی عظمت و نصرت کے لئے میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں۔” (’تبلیغ رسالت‘ مصنفہ مرزا غلام احمد، جلد چہارم صفحہ 69)۔
وہ آگے کہتا ہے : ” سو تھوڑا غوروفکر کرو، اگر تم اس حکومت کے سائے کو چھوڑ دو گے تو روئے زمین پر کون سی جگہ تمہیں پناہ ملے گی؟ کسی ایک حکومت کا نام بتاؤ جو تمہیں اپنی حفاظت میں لینا قبول کرے۔ اسلامی حکومتوں میں سے ہر ایک تمہارے وجود پر سخت غضبناک ہے، تمہارے خاتمہ کے لئے منصوبہ بنا رہا ہے اور بیخبری میں حملہ کرنے کے لیے منتظر ہے کیوں کہ ان کی نظر میں تم کافرو مرتد ہو گئے ہو۔ لہٰذا اس نعمت الٰہیئہ (انگریزی حکومت کا وجود) کو قبول کرو اور اس کی قدر کرو۔ اور یقینی طور سے جان لو کہ اللہ تعالٰی نے اس ملک میں انگریزی حکومت صرف تمہاری بھلائی اور تمہارے مفاد کے لیے قائم کی ہے اگر اس حکومت پر کوئی آفت آتی ہے تو وہ آفت تم پر بھی نازل ہو گی۔ اگر تم میرے قول کی صداقت کا ثبوت چاہتے ہو تو کسی دوسری حکومت کے زیرِ سایہ رہ کر دیکھ لو۔ تب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سی بدقسمتی تمہارے انتظار میں ہے۔ لیکن انگریزی حکومت اللہ کی رحمت اور برکت کا ایک پہلو ہے۔ یہ ایک ایسا قلعہ ہے جو خدا نے تمہاری حفاظت کے لئے تعمیر کیا ہے۔ لہٰذا اپنے دلوں اور روح کی گہرائی میں اس کی قدر و قیمت کو تسلیم کرو۔ انگریز تمہارے لئے ان مسلمانوں کے مقابلے میں ہزار درجہ بہتر ہیں جو تم سے اختلاف رکھتے ہیں کیوں کہ انگریز تمہیں ذلیل کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ تمہیں قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔” (فرقہ کے لئے ایک قیمتی نصیحت – ’تبلیغ رسالت‘ از مرزا احمد میں جلد اول صفحہ 123 پر مندرجہ)۔
اپنی کتاب ’تریاق القلوب‘ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس، قادیان 28 اکتوبر 1902 عیسوی، ضمیمہ 3 میں حکومت عالیہ کے حضور میں ایک عاجزانہ التماس، کے عنوان سے مرزا لکھتا ہے : “عرصہ بیس سال سے میں نے دلی سرگرمی کے ساتھ فارسی، عربی، اردو اور انگریزی میں کتابیں شائع کرنا کبھی ترک نہیں کیا، جن میں میں نے بار بار دہرایا ہے کہ مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ خدا کی نظروں میں گنہگار بننے کے خوف سے اس حکومت کی تابعدار اور وفادار رعایا بنیں۔ ’جہاد‘ میں کوئی حصہ نہ لیں، خون کے پیاسے مہدی کا انتظار نہ کریں اور نہ ایسے واہموں پر یقین کریں جنہیں قرآنی ثبوتوں کی تائید کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ میں نے انہیں تنبیہ کی کہ اگر وہ اس غلطی کو رد کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کم سے کم یہ تو ان کا فرض ہے کہ اس حکومت کے ناشکر گزرا نہ بنیں کیوں کہ اس حکومت سے غداری کر کے خدائی نظروں میں گنہگار نہ بننا ان کا فرض ہے۔” (صفحہ 307)
اسی عاجزانہ التماس میں آگے کہا گیا ہے : “اب اپنی فیاض طبع حکومت سے پوری جراءتمندی کے ساتھ یہ کہنے کا وقت آ گیا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں میں نے یہ خدمات انجام دی ہیں اور ان کا مقابلہ انگریزی ہندوستان میں کسی بھی مسلم خاندان کی خدمات سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ لوگوں کو بیس سال جتنی طویل مدت تک یہ سبق پڑھانے میں ایسا استقلال کسی منافق یا خود غرض انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ ایسے انسان کا کام ہے جس کا دل اس حکومت کی سچی وفاداری سے معمور ہے۔”
صفحہ 309 اور 310 پر وہ کہتا ہے : “میں حقیقت میں کہتا ہوں اور اس کا دعوی کرتا ہوں کہ میں مسلمانوں میں سرکار انگریزی کی رعایا میں سب سے زیادہ تابعدار اور وفادار ہوں کیوں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جنہوں نے انگریزی حکومت کے تئیں میری وفاداری کو اس درجہ بلندی تک پہنچانے میں میری رہبری کی ہے (1) میرے والد مرحوم کا اثر (2) اس فیاض حکومت کی مہربانیاں (3) خدائی الہام۔”
مرزا نے ’شہادۃ القرآن‘ کے ایک ضمیمہ میں ” حکومت کی ہمدردانہ توجہ کے قابل ایک کلمہ ” کے عنوان سے لکھا، جس میں اس نے کہا :
“درحقیقت میرا مذہب جس کا میں لوگوں پر بار بار اظہار کر رہا ہوں یہ ہے کہ اسلام دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنا اور دوسرا اس حکومت کی اطاعت کرنا جس نے امن و امان اور قانون قائم کیا اور اپنے بازو ہم پر پھیلائے اور ناانصافی سے ہماری حفاظت کی۔ اور یہ حکومت انگریزی حکومت ہے۔” (صفحہ 3)
آگے وہ کہتا ہے : ” وہ اہم کام جس کے لئے اپنی نوجوانی سے لیکر زمانہ حال تک جبکہ میری عمر ساٹھ سال کی ہو چکی ہے، میں خود اپنی ذات، اپنی زبان اور اپنے قلم کو وقف کئے ہوئے ہوں یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں کو محبت، خلوص اور انگریزی حکومت کے تئیں وفاداری کے راستے کر طرف رجوع کر دوں۔ اور کچھ بیوقوف مسلمانوں کے دلوں سے جہاد جیسے ان دوسرے واہموں کو دور کر دوں جو انہیں خلوص پر مبنی دوستی اور اچھے تعلقات سے دور کرتے ہیں۔” (صفحہ 10)۔
کچھ آگے چل کر وہ لکھتا ہے : ” میں نے نہ صرف انگریزی ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں کو انگریزی حکومت کی اطاعت سے بھرنے کی کوشش کی، بلکہ میں نے عربی، فارسی اور اردو میں بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں میں نے اسلامی ملکوں کے باشندوں کے سامنے وضاحت کی کہ ہم انگریزی حکومت کی سرپرستی میں اور اس کے خنک سائے میں کس طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور تحفظ، مسرت، فلاح و بہبود اور آزادی کا لطف اٹھا رہے ہیں۔” (صفحہ 10)۔
آگے وہ کہتا ہے : ” مجھے پورا یقین ہے کہ جیسے جیسے میرے پیروؤں کی تعداد میں اضافہ ہو گا، ان لوگوں کی تعداد کم ہو گی جو جہاد پر ایمان رکھتے ہیں کیوں کہ صرف مجھ پر ایمان لانا ہی جہاد سے انکار کرنا ہے۔” (صفحہ 17)
وہ یہ بھی کہتا ہے : ” حالانکہ میں احمدیت کی تبلیغ کے لئے روس گیا تھا۔ لیکن احمدیہ فرقہ اور انگریزی حکومت کے مفادات یکساں ہونے کی وجہ سے میں نے جہاں کہیں بھی لوگوں کو اپنے فرقہ میں شمولیت کی دعوت دی، وہاں انگریزی حکومت کی خدمت کو بھی اپنا فرض سمجھا۔” (الفضل، مورخہ 28 ستمبر 1922 عیسوی میں شائع شدہ محمد امین قادیانی مبلغ کے ایک بیان کا اقتباس)۔
ایک اور جگہ اس نے کہا : ” درحقیقت انگریزی حکومت ہمارے لئے ایک جنت ہے اور احمدی فرقہ اس کی سرپرستی میں مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ اگر تم اس جنت کوکچھ عرصے کے لئے الگ کر دو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے سروں پر زہریلے تیروں کی کیسی زبردست بارش ہوتی ہے۔ ہم اس حکومت کے کیوں نہ مشکور ہوں جس کے ساتھ ہمارے مفاد مشترک ہیں۔ جس کی بربادی کا مطلب ہماری بربادی ہے اور جس کی ترقی سے ہمارے مقصد کی ترقی میں مدد ملتی ہے۔ اس لئے جب کبھی اس حکومت کا دائرہ اثر وسیع ہوتا ہے، ہمارے لئے اپنی دعوت کی تبلیغ کا ایک نیا میدان ظاہر ہوتا ہے۔” (الفضل مورخہ 19 اکتوبر 1915 عیسوی)۔
وہ یہ بھی کہتا ہے : ” احمدیہ فرقہ اور انگریزی حکومت کے درمیان تعلقات اس حکومت اور دوسرے فرقوں کے درمیان موجود تعلقات کی مانند نہیں ہیں۔ ہمارے حالات کے مقتضیات دوسروں سے مختلف ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ حکومت کے لئے سود مند ہے، وہ ہمارے لئے بھی سود مند اور جوں جوں انگریزی عملداری وسیع ہوتی ہے ہمیں بھی ترقی کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ اگر حکومت کو نقصان پہنچتا ہے، خدا نہ کرئے، تو ہم بھی امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل نہ رہیں گے۔” (الفضل، موخہ 27 جولائی 1918 عیسوی میں شائع شدہ قادیانی خلیفہ کے بیان سے)۔
’استفتا‘ کے صفحہ 59 پر وہ کہتا ہے : “حکومت کی تلوار اگر نہ ہوتی تو تمہارے ہاتھوں میں بھی اسی انجام کو پہنچتا جس انجام کو عیسیٰ کافروں کے ہاتھوں سے پہنچا۔ اسی لئے ہم حکومت کے شکرگزار ہیں، خوشامد کے طور پر یا ریاکاری کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر مشکور ہیں۔ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے زیر سایہ اس سے بھی زیادہ تحفظ کا لطف اٹھایا جس کی ہم آجکل اسلام کی حکومت کے تحت امید کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہب میں انگریزوں کے خلاف جہاد میں تلوار اُٹھانا ناجائز ہے۔ اسی لئے تمام مسلمانوں کو ان کے خلاف لڑنے اور ناانصافی اور بداطواری کے حمایت کرنے سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ انہوں نے ہمارے ساتھ حسنِ سلوک سے کام لیا اور ہر طور سے کریم النفسی سے پیش آئے۔ کیا مہربانیوں کا جواب مہربانی سے ہی نہیں دینا چاہیے۔ اس سلسلہ میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان کی حکومت ہمارے لئے جائے امن اور ہمعصروں کے ظلم و ناانصافی سے حفاظت کے لئے پناہ گاہ ہے۔”پھر وہ کہتا ہے : “ان کی سرپرستی میں شب کی سیاہی ہمارے لئے اس دن سے بہتر ہے جو ہم اصنام پرستوں کے زیرِ سایہ گزاریں۔ لہٰذا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے شکر گزار ہوں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم گنہگار ہوں گے۔”
“خلاصہء کلام یہ ہے کہ ہم نے حکومت کو اپنے خیر خواہوں میں پایا اور کلام مقدس نے واجب قرار دیا ہے کہ ہم اس کا شکریہ ادا کریں۔ لہٰذا ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کی خیر خواہی کرتے ہیں۔”
اسی کتاب کے صفحہ 76 پر وہ لکھتا ہے : ” پھر انگریزوں کے عہد میں خدا نے میرے والد کو کچھ گاؤں واپس کر دیئے۔”
’حمامتہ البشریٰ‘ کے صفحہ 56 پر وہ کہتا ہے : ” ہم اس کی سرپرستی میں حفاظت و عافیت اور مکمل آزادی کے ساتھ رہتے ہیں۔”
اسی کتاب میں وہ یہ بھی لکھتا ہے : ” اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ہم مسلم بادشاہوں کے ملک کو ہجرت کر جائیں تو بھی ہم اس سے زیادہ تحفظات اور اطمینان نہیں پا سکتے۔ یہ (انگریزی حکومت) ہمارے ساتھ اور ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ اتنی فیاض رہی ہے کہ ہم اس کی برکات کے لئے قرار واقعی شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔”
وہ یہ بھی کہتا ہے : ” میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ مسلم ہندوستانیوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ غلط راہ پر چلیں اور اس خیر خواہ حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھائیں۔ نہ ہی ان کا اس معاملہ میں کسی دوسرے کی مدد کرنا نہ ہی مخالفوں کی بدکاریوں کی الفاظ، عمل، مشورہ، زر یا معاندانہ تدبیروں سے اعانت کرنا درست ہے۔ حقیقت میں یہ تمام کام قطعی ممنوع ہیں اور وہ جو ان کی حمایت کرتا ہے، خدا اور رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور صریحاً غلطی پر ہے۔ بجائے اس کے شکر بجا لانا واجب ہے۔ اور جو انسانوں کا مشکور نہیں وہ خدا کا شکر بھی نہیں بجا لائے گا۔ محسن کو ایذا پہنچانا خباثت ہے۔ انصاف اور اسلام کے راستے سے انحراف کو وجود میں لاتا ہے اور خدا حملہ آور سے محبت نہیں کرتا۔”
غلام قرآن میں موجود جہاد کے بارے میں تمام آیات کو نظرانداز کر گیا ہے۔ اس نے جہاد اور اس کی فضیلت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث بھی نظر انداز کر دیں اور یہ حقیقت مسلمہ بھی کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔
۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔
قادیان کا حج اور یہ دعویٰ کہ اس کی مسجد، مسجد اقصیٰ ہے اور وہ خود حجر اسود ہے
اخبار ’الفضل‘ کے شمارہ نمبر 1848 جلد نمبر 10، دسمبر 1922 عیسوی میں محکمہ تعلیم قادیان کا ایک اشتہار چھپا۔ اس کا مضمون یہ تھا : ” وہ شخص جو کہ مسیح موعود کے قبہء سفید کی زیارت کرتا ہے وہ مدینہ میں رسول اللہ کے قبہء خضرا سے متعلق برکات میں شرکت پاتا ہے۔ وہ شخص کتنا بدنصیب ہے جو قادیان کے حج اکبر کے دوران خود کو اس نعمت سے محروم رکھتا ہے۔”
قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ قادیان تیسرا مقام مقدس ہے۔ اس بارے میں خلیفہ محمود کہتا ہے : ” درحقیقت خدا نے ان تین مقامات کو مقدس قرار دیا ہے (مکہ، مدینہ اور قادیان) اور اپنی تجلیات کے ظہور کے لئے ان تین مقامات کا انتخاب کیا ہے۔” (الفضل 3 ستمبر 1935 عسیوی)۔
قادیانی مذہب ایک قدم اور آگے بڑھ کر ان آیات کو جو خدا کے شہر الحرام اور مسجد اقصیٰ (یروشلم) کے بارے میں نازل ہوئیں، قادیان پر منطبق کرتا ہے۔ غلام احمد نے ’براہین احمدیہ‘ کے حاشیہ پر تحریر کیا : “خدا کے یہ الفاظ – اور وہ جو اس میں داخل ہوا، مامون رہے گا – مسجد قادیان کے بارے میں صادق ہیں۔” صفحہ 55۔
اپنے ایک شعر میں وہ کہتا ہے : “قادیان کی زمین عزت کی مستحق ہے۔ یہ کائنات کے آغاز سے ہی مقدس سرزمین ہے۔” (’درثمین‘ – غلام احمد کے اقوال کا مجموعہ، صفحہ 52)۔
’الفضل‘ شمارہ 23، جلد 20 میں ہم پڑھتے ہیں : “آیتِ خداوندی – پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ کو شب کے وقت لے گئی مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں – میں مسجد اقصی سے مراد مسجد قادیان ہے۔ اور اگر قادیان کا مرتبہ شہر مقدس کے برابر اور ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی افضل ہے تو اس کا سفر بھی سفر حج کے برابر ہونا چاہیے یا ہو سکتا ہے اس سے بھی افضل ہو۔”
’الفضل‘ کے شمارہ 26 جلد 20 میں ہم پڑھتے ہیں : “حج قادیان فی الواقع بیت الحرام (یعنی کعبہ) کے حج کے برابر ہے۔” ’پیغام صلح‘ نامی صحیفہ، جو لاہوری قادیانیوں کا ترجمان ہے، یہ اضافہ کرتا ہے : “قادیان کے حج کے بغیر مکہ کا حج روکھا سوکھا حج ہے۔ کیوں کہ آج کل حج مکہ نہ اپنا مشن پورا کرتا ہے اور نہ اپنا مقصد حاصل کرتا ہے۔” (شمارہ 33 جلد 21)۔
’استفتا‘ کے صفحہ 42 پر غلام کہتا ہے : “میں ہی حقیقت میں حجرِ اسود ہوں جس کی طرف منہ کر کے ’زمین پر‘ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ اور جس کے لمس سے لوگ برکت حاصل کرتے ہیں۔”
الہام کے دعویٰ کی بنیاد پر قرآن میں تحریف اور اس کی مثالیں
’حمامتہ البشریٰ‘ کے صفحہ 10 پر غلام کہتا ہے : “اس نے کہا : اے احمد تم پر خدا کی برکت ہو، کیوں کہ جب تم نے پھینکا، تو یہ تم نہ تھے، بلکہ خدا تھا جس نے لوگوں کو خبردار کرنے کے لئے پھینکا، جن کے آباء کو خبردار نہیں کیا گیا تھا تا کہ مجرموں کی تدابیر ظاہر ہو جائیں۔ اور اس نے کہا : کہو، اگر یہ میری اختراع ہے تو میرا گناہ مجھ پر ہے۔ یہ وہ ہی ہے جس نے اپنے رسولوں کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے تمام (دوسرے) مذاہب سے ممتاز کر سکے۔ خدا کے الفاظ کوئی نہیں بد سکتا اور تمہاری طرف سے مضحکہ اُڑانے والوں سے نمٹنا ہمارا ذمہ ہے۔ اور اس نے کہا : تم نے اپنے رب سے اس کی رحمت کی نشانی کے لئے اصرار کیا۔ اور اس کی فیاضی کے باعث تم مجنون میں سے نہیں ہو۔ وہ تمہیں دوسرے معبودوں سے ڈراتے ہیں۔ تم ہماری نگاہوں میں ہو۔ میں نے تمہیں المتوکل کہہ کر پکارا ہے (یعنی وہ جو خدا پر بھروسہ رکھتا ہے) اور خدا نے عرش سے تمہاری تعریف کی۔ نہ ہی یہود اور نہ ہی نصاریٰ تم سے مطمئن ہوں گے۔ انہوں نے سازش کی اور خدا نے سازش کی لیکن سازش کرنے والوں میں خدا بہترین ہے۔”
’استفتا‘ کے صفحہ 77 پر وہ کہتا ہے : “اور اس نے ان الفاظ میں مجھ سے کلام کیا جن میں سے کچھ کا بیان ہم یہاں کریں گے۔ اور ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں، جس طرح ہم اللہ خالق الانام کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ کلمات یہ ہیں :
“اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ اے احمد تم پر خدا کی برکت ہو۔ جب تم نے پھینکا، تو یہ تم نہ تھے بلکہ خدا تھا جس نے پھینکا۔ اس مہربان نے قرآن پڑھایا تا کہ تم ان لوگوں کو خبردار کر سکو جن کے آباء کو خبردار نہیں کیا گیا تھا۔ اور مجرموں کی تدابیر ظاہر ہو جائیں۔ کہو، کہ مجھے حکم دیا گیا ہے، اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ کہو کہ حق ظاہر ہو گیا اور باطل مٹ گیا۔ یقیناً باطل کو مٹنا ہی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام برکتیں۔ مبارک ہے وہ جو سکھاتا ہے اور سیکھتا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ جعلسازی ہے۔ تو پھر اللہ کا نام لو انہیں ان کے مباحث میں کھیلتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دو۔ کہو، اگر یہ میرا اختراع ہے تو مجھ پر سخت گناہ ہے۔ اور اس سے زیادہ غلطی پر اور کون ہو گا جو اللہ کے بارے میں غلط بیانی کرئے۔ یہ وہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے تمام (دوسرے) مذہبوں سے ممتاز کر سکے۔ اس کے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ تم نے اُسے کہاں سے حاصل کیا؟ یہ انسانی کلمات کے سوا کچھ بھی نہیں اور دوسروں نے اِس میں اُس کی مدد کی۔ پھر کیا تم اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ خود کو جادو کے پاس لے جاؤ گے۔ دور ہو جاؤ، شئے موعودہ کو لے جاؤ! کون ہے یہ جو ذلیل، جاہل یا مجنوں ہے؟ کہو، میرے پاس خدا کی تصدیق ہے۔ کیا تم مسلمان ہو؟”
صفحہ 79 پر وہ کہتا ہے : “خدا تمہیں نہیں چھوڑے گا جب تک کہ برائی اور بھلائی میں تمیز نہ ہو جائے، جب خدا کی مدد اور فتح آئے اور تمہارے رب کا وعدہ پورا ہو جائے۔ یہی تو ہے وہ جس کے لئے تم جلدی میں تھے۔ میں نے ارادہ کیا کہ (زمین پر) میرا خلیفہ ہو۔ اس لئے میں نے آدم کی تخلیق کی۔ پھر وہ نزدیک آیا اور اپنے آپ کو اتنا جھکایا کہ دو کمان کے برابر دُور یا نزدیک تھا۔ اس نے دین کا احیا کیا اور شریعت کو قائم کیا۔ اے آدم، تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکون پذیر ہو۔ اے ابنِ مریم، تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت پذیر ہو۔ اے احمد، تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت پذیر ہو۔ تمہیں فتح دی گئی اور انہوں نے کہا کہ لیت و لعل کے لئے وقت نہیں یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستہ سے پِھر گئے، ان کو فارس کے ایک شخص نے جواب دیا۔ خدا اپنی عنایت سے اس کی مساعی قبول کرے۔ یا وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک فتحمند جماعت ہیں۔ (اُن کی) پوری جماعت کو جڑ سے اُکھاڑ دیا جائے گا اور پشت موڑ دی جائے گی۔ تم ہمارے پہلو میں ہو، مضبوطی کے ساتھ قائم اور معتبر۔”
صفحہ 80 پر وہ کہتا ہے : “کہو،کہ خدا کا نور تم تک آ گیا ہے۔ اس لئے کفر نہ کرو، اگر تم ایمان والے ہو۔ یا تم اُن سے انعام مانگتے ہو اور اس لئے وہ قرض کے وزن سے دب گئے ہیں۔ ہم نے اُن تک حق پہنچا دیا ہے۔ لیکن وہ حق کے مخالف ہیں۔ لوگوں سے لطف کے ساتھ پیش آؤ اور ان پر رحم کھاؤ۔ تم ان کے درمیان بمنزلہ موسیٰ کے ہو۔ صبر سے کوشش کئے جاؤ وہ جو کچھ کہیں، کہنے دو۔ شاید تم اپنے آپ کو تھکانے جا رہے ہو مبادا وہ منکر ہو جائیں۔ اس کی پیروی نہ کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ مجھے ان کے بارے میں مخاطب نہ کرو جنہوں نے گناہ کئے۔ وہ یقیناً غرق ہونے والے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری تجویزوں کے مطابق پناہ گاہ بناؤ۔ یقیناً جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ واقع میں خدا کی اطاعت کا عہد کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں سے افضل ہے۔ جبکہ وہ جو کافر تھا، تمہارے خلاف سازش کر رہا تھا، اے ہامان میرے لئے آگ روشن کرو۔ شاید میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں۔ درحقیقت میں اُسے ان میں سے سمجھتا ہوں جو جھوٹ بولتے ہیں۔ ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہو۔ اس کے لئے نہیں تھا کہ اس میں داخل ہو سوائے خوف کے۔ اور جو کچھ تم پر گزری وہ خدا کی طرف سے تھا۔”کچھ دوسری مثالیں ’تحفہ بغداد‘ میں صفحہ 21 سے 31 تک ملتی ہیں۔
غلام کہتا ہے : “میں تم پر ایک برکت نازل کروں گا اور اس کے انوار ظاہر کروں گا تا کہ ملوک و سلطان تمہارے لباس کو چھو کر اس سے برکت کے طالب ہوں۔” اور اس (خدا) نے کہا : “میں ان پر قابو رکھتا ہوں جنہوں نے تمہیں ذلیل کرنا چاہا۔ اور یقیناً تمہاری طرف سے مضحکہ اُڑانے والوں سے نمٹنا ہمارا ذمہ ہے۔ اے احمد، تم پر خدا کی برکت ہے کیوں کہ جب تم نے پھینکا یہ تم نہیں تھے بلکہ خدا تھا جس نے پھینکا۔ وہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے تمام (دوسرے) مذاہب سے ممتاز کر سکے۔ کہو، کہ مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ کہو، کہ حق آ پہنچا اور باطل مٹ گیا۔ یقیناً باطل کو مٹنا ہی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سبھی برکتیں۔ مبارک ہے وہ جو علم رکھتا ہے اور جو سیکھتا ہے۔ اور کہو، اگر یہ میری اختراع ہے تو میرا گناہ مجھ پر ہے۔ اور انہوں نے سازش کی اور خدا نے سازش کی لیکن سازش کرنے والوں میں خدا بہترین ہے۔ وہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے تمام (دوسرے) مذاہب سے ممتاز کر سکے۔ خدا کے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں، لہٰذا میرے ساتھ ہو۔ خدا کا ساتھ پکڑے رہو چاہے کہیں بھی ہو، تم جہاں ہو گے وہاں خدا کا چہرہ ہو گا۔”
“تم انسانوں میں بہترین امت ہو اور مومنین کا فخر ہو۔ خدا کی تشفی سے مایوس نہ ہو۔ کیوں کہ خدا کی تشفی قریب ہی ہے اور خدا کی نصرت قریب ہے۔ وہ ہر ایک تنگ گھاٹی سے تمہاری طرف آئیں گے، خدا تمہاری مدد کرے گا۔ تمہیں میری مدد ملے گی، جسے آسمان سے ہمارا الہام حاصل ہو گا۔ خدا کے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا۔ تم آج ہمارے پہلو میں ہو، مضبوطی کے ساتھ قائم اور معتبر۔ انہوں نے کہا کہ یہ جعل سازی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ کا نام لو اور انہیں ان کے مباحث میں کھیلتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دو۔ یقیناً تم پر میری رحمت ہے اس دنیا میں اور آخرت میں۔ اور تم ان میں سے ہو جن کے لئے نصرت بخشی گئی۔ اے احمد، تمہارے لئے بشارت ہے۔ تم میرے محبوب ہو اور میری معیت میں ہو۔ میں نے تمہاری عظمت کا پودا اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ اگر لوگ تعجب کریں تو کہہ دو کہ وہ خدا ہے اور وہ عجیب ہے وہ جس سے بھی خوش ہوتا ہے اس کے ساتھ فیاضی کا برتاؤ کرتا ہے۔ جو کچھ وہ کرتا اس کے بارے میں اس سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔ مگر ان سے پوچھ گچھ ہو گی۔ ان کی ہم عوام الناس میں تشہیر کریں گے۔ جب خدا ایمان والوں کی مدد کرتا ہے تو ان سے رشک کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں سے لطف و کرم سے پیش آؤ۔ اور ان پر رحم کرو۔ تم ان کے درمیان بمنزلہ موسیٰ کے ہو ناانصاف لوگوں کا ظلم صبر کے ساتھ برداشت کرو۔ لوگ ایسی حالت میں چھوڑ دیا جانا پسند کرتے ہیں جہاں وہ کہہ سکیں “ہم ان پر بغیر آزمائش کئے ایمان لائے۔” سو آزمائش یہی ہے۔ لہٰذا مستقل مزاج لوگوں کی طرح صبر کے ساتھ برداشت کرو۔ لیکن یہ آزمائش خدا کی طرف سے ہے، اسی کی عظیم محبت کے لئے۔ تمہارا انعام خدا کے یہاں ہے، اور تمہارا رب تم سے راضی ہو گا اور تمہارے نام کو مکمل کرے گا۔ اور اگر وہ تم کو صرف نامعقولیت کا کُندا سمجھتے ہیں تو کہو کہ میں صادق ہوں اور کچھ دیر میری نشانی کا انتظار کرو۔”
“تعریف ہو اس خدا کی جس نے تمہیں مسیح ابن مریم بنایا۔ کہو، کہ یہ خدا کا فضل ہے، اور میں خطاب کرنے کی تمام شکلوں سے عاری ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہی ایک ہوں۔ وہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کے بجھانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن خدا اپنے نور کی تکمیل کرتا ہے اپنے دین کا احیا کرتا ہے۔ تم چاہتے ہو کہ ہم آسمان سے تم پر آیتیں نازل کریں اور تم دشمنوں کا قلع قمع ک دو۔ اللہ الرحمٰن نے اپنا حکم اپنے نمائندوں کو عطا کیا ہے۔ اس لئے خدا پر بھروسہ رکھو اور ہماری نظر کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق پناہ گاہ تعمیر کرو۔ جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے اپنی اطاعت کا عہد کرتے ہیں۔ اللہ یا ہاتھ ان کے ہاتھوں سے افضل ہے۔ اور وہ لوگ جو عذاب کے مستحق ہیں وہ سازش کرتے ہیں اور اللہ سازش کرنے والوں میں بہترین ہے۔ کہو، میرے پاس اللہ کی تصدیق ہے۔ پھر کیا تم مسلمان ہو؟ میرے ساتھ میرا رب ہے وہ میرے رہبری کرے گا۔ میرے رب نے مجھے دکھایا کہ تم کس طرح مردوں کو زندہ کر دیتے ہو۔ میرے رب معاف کر اور آسمانوں پر سے رحم کر مجھے تنہا نہ چھوڑ، حالانکہ تم خیر الوارثین ہو اے رب، محمد کی امت کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب ہمیں اور ہماری قوم کے جو لوگ حق پر ہیں انہیں ایک جگہ اکٹھا کر۔ کیوں کہ تم ان سب میں بہترین ہو جو (نزاعی معاملوں میں) صلح صفائی کراتے ہیں۔ وہ تمہیں دوسرے معبودوں سے ڈراتے ہیں۔ تم ہماری نگاہوں میں ہو۔ میں نے تمہیں المتوکل کہہ کر پکارا ہے۔ خدا اپنے عرش سے تمہاری تعریف کرتا ہے۔ اے احمد، ہم تمہاری تعریف کرتے ہیں اور تم پر برکت بھیجتے ہیں۔ تمہارا نام مکمل کیا جائے گا۔ لیکن میرا نہیں۔ اس دنیا میں ایک اجنبی یا مسافر کی طرح رہو، راستباز اور نیک چلن لوگوں کے درمیان رہو۔ میں نے تمہیں چنا اور تمہاری طرف اپنی محبت پھینکی ہے۔ اے ابنائے فارس توحید اختیار کرو اور ان کے لئے خوش خبر لاؤ جو ایمان لائے اس امر پر کہ وہ اپنے کے ساتھ یقینی تعلقات رکھتے ہیں۔ خدا کی مخلوق کے سامنے منہ نہ بناؤ۔ لوگو سے بیزار نہ ہو نہ مسلمانوں پر اپنے بازو نیچے کرو۔”
“اے وہ لوگو جو سوال جواب کرتے ہو! تمہیں ان کے بارے میں کس ذریعہ نے بتایا جو سوال جواب کرتے ہیں تم ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی دیکھو گے اور وہ تم پر اللہ کی برکتیں بھیجیں گے۔ اے ہمارے رب ہم نے ایک شخص کو سنا ہے ایمان کی طرف بلاتے ہوئے۔ اے رب ہم ایمان لائے لہٰذا ہمارا نام شاہدین میں لکھ لے، تم عجیب ہو، تمہارا انعام قریب ہے اور تمہارے ساتھ آسمان اور زمین کے سپاہی ہیں۔ میں تمہیں اپنی وحدانیت اور انفرادیت کے بمنزلہ سمجھتا ہوں۔ وقت آ گیا ہے کہ تمہاری مدد کی جائے اور تم عوام الناس میں متعارف ہو۔ اے احمد تم پر خدا کی برکت ہو۔ جو برکت خدا نے تم پر کی، وہ تمہیں حقیقت میں پہلے حاصل تھی۔ تم میری حضوری میں عالی رتبہ ہو۔ میں نے تمہیں خود اپنے لئے منتخت کیا اور تمہیں ایسے رتبہ پر فائز کیا جو مخلوق کے لئے نامعلوم ہے۔ یقیناً خدا تمہیں اس وقت تک نہیں چھوڑے گا جب تک برائی اور بھلائی میں تمیز نہ ہو جائے۔ یوسف اور اس کی کامیابی پر نظر رکھو۔ اللہ اس کے معاملات کا مالک ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس سے ناواقف ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ (زمین پر) میرا خلیفہ ہو۔ اس لئے میں نے آدم کی تخلیق کی تا کہ وہ دین کا احیاء کر سکے اور شریعت کو قائم کر سکے۔
کتاب ذالفقار علی ولی : اگر ایمان کو ثریا کے ساتھ باندھ دیا گیا ہوتا تو بھی اہل فارس اس تک پہنچ جاتے۔ اس کا روغن روشنی پھیلاتا حالانکہ اسے آگ نے ذرا بھی نہ چھوڑا ہوتا۔ خدا رسولوں کے حلیہ میں تھا۔ کہو، اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو، میری پیروی کرو اور خدا تم سے محبت کرئے گا۔ اور محمد اور اس کی آل پر درود بھیجو وہ تمام ابنِ آدم کے سردار اور خاتم النبیین ہیں۔ تمہارا رب تم پر مہربان ہے اور خدا تمہارا دفاع مہیا کرئے گا۔ اور اگر لوگ تمہارا دفاع نہیں کرتے، خدا تمہارا دفاع مہیا کرئے گا اگرچہ کہ دنیا کے لوگوں میں سے ایک شخص بھی تمہارا دفاع نہ کرئے۔ ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور اس کی بربادی ہو۔ اس کے لئے نہیں تھا کہ وہ اس میں داخل ہو سوائے خوف کے۔ اور جو کچھ تم پر گزری وہ خدا کی طرف سے تھا اور جان لو کہ انعام متقیوں کے لئے ہے۔ اور اگر تم ہم خاندان اور اہلِ قرابت ہوتے، یقیناً ہم انہیں ایک نشانی اس عورت میں دکھائیں گے جو پہلے سے شادی شدہ ہے، اور اسے تمہاری طرف واپس بھیج دیں گے، اپنی طرف سے رحم کے طور پر۔ یقیناً ہم باعمل ہو گئے ہیں۔ اور انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان میں شامل ہوئے جنہوں نے میرا مضحکہ اُڑایا۔ تمہارے رب کی طرف سے بشارت ہو تمہیں نکاح الحق کی۔ لہٰذا میری احسان فراموشی نہ کرو۔ ہم نے اس کا نکاح تم سے کیا۔ خدا کے الفاظ کوئی بدل نہیں سکتا۔ اور ہم اُسے تمہارے لئے بحال کرنے جا رہے ہیں۔ یقیناً تمہارا رب جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ یہ ہماری فیاضی ہے تا کہ یہ ایک نشانی ہو دیکھنے والوں کے لئے۔ دو آنکھیں قربان کر دی جائیں گی، تمام ذی روح چیزوں کو فنا ہونا ہے۔ اور ہم انہیں نشانیاں آسمانوں میں، خود ان میں دکھائیں گے، اور ہم انہیں فاسقین کی سزا دکھائیں گے۔
“جب خدا کی نصرت اور فتح آتی ہے اور زمانہ کی تقدیر ہمارے ہاتھ میں آتی ہے، تو کیا یہ ہمارا حق نہیں ہے۔ لیکن جنہوں نے اس پر یقین نہیں کیا انہوں نے واضح غلطی کی۔ تم ایک پوشیدہ خزانہ تھے، اس لئے میں نے اسے ظاہر کرنا چاہا۔ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے اور ہم نے اُنہیں چاک کر کے کھول دیا۔ کہو، کہ میں ایک بشر ہوں جس پر وحی آتی ہے۔ لیکن یقیناً تمہارا خدا ایک ہے اور تمام نیکی قرآن میں ہے جسے صرف انہیں ہی چھونا چاہیے جو پاک ہوں۔ حقیقت میں میں ایک طویل عرصہ تمہارے درمیان رہ چکا ہوں قبل اِس کے (آنے کے) پھر کیا تم میں ذرا بھی عقل نہیں۔
“کہو، کہ اللہ کی ہدایت، ہدایت ہے اور میرا رب میری معیت میں ہے۔ اے رب، میری مغفرت کر اور آسمان سے مجھ پر مہربان رہ۔ اے رب میں مغلوب ہوں، لیکن فاتح ہوں گا۔ ایلی، ایلی تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ اے اللہ القادر کے بندے، میں تیرے ساتھ ہوں، میں تمہیں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ میں نے تمہارے لئے اپنی مہربانی اور اپنی قدرت کا پودا اپنے ہاتھ سے لگایا ہے، اور تم آج میرے ساتھ ہو، مضبوطی سے قائم اور معتبر۔ میں تمہارا ہمیشہ حاضر رہنے والا ہاتھ ہوں، میں تمہارا خالق ہوں۔ میں نے تمہارے اندر صدق کی روح پھونکی اور اپنی محبت تمہاری طرف پھینکی ہے۔ تا کہ تم میری نظروں کے سامنے ایک تخم کی طرح اپنی نشوونما کرو جیسے پہلے اس کا انکوا پھوٹتا ہے۔ پھر اس میں مضبوطی آتی ہے اور یہ توانائی کے ساتھ بڑھ کر اپنے ڈنٹھل پر سیدھا کھڑا ہوتا ہے۔ حقیقت میں ہم نے تمہیں فتح مبین عطا کی۔ تا کہ خدا تمہارے وہ گناہ معاف کر دے جو پہلے سرزد ہوئے۔ اور جو ہنوز ہونے والے ہیں۔ لہٰذا شکریہ ادا کرو۔ خدا نے اپنے بندہ کو قبول کیا اور اُسے اس سے بری کیا جو لوگ کہتے ہیں اور وہ خدا کی نگاہوں میں ایک مقبول بندہ تھا، لیکن جب خدا نے اپنی تجلی پہاڑ پر بے نقاب کی تو وہ سفوف بن گیا۔ خدا کمزور کو کافروں کی مکاری بنا دیتا ہے، تا کہ ہم اُسے اپنی رحمت کے خیال سے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دیں اور اس لئے بھی کہ اُسے ہم سے عظمت مِلے۔ اس طرح ہم انہیں انعام دیتے ہیں جو بخوبی کام کرتے ہیں۔ تم میرے ساتھ ہو اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میرا راز تمہارا راز ہے۔ اولیا کے اسرار ظاہر نہیں کئے جائیں گے۔ تم حق مبین پر ہو، اس دنیا میں اور آخرت میں ممتاز، اور مقربین میں ہو۔ بے شرم شخص صرف اپنی موت کے وقت یقین کرئے گا۔ وہ میرا دشمن ہے اور تمہارا دشمن ہے، ایک گئو سالہ، ایک مجسم واہمہ، ذلیل و خوار۔ کہو، میں خدا کا حکم ہوں اور عجلت کرنے والوں میں سے نہ ہو۔”
“نبیوں کا چاند تمہارے پاس آئے گا اور تمہارا حکم خوب چلے گا اور ہم نے ایمان والوں کی نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ وہ دن جب حق آئے گا اور حقیقت ظاہر ہو گی اور کھونے والے کھوئیں گے تو تم دیکھو گے کہ ناعاقب اندیش مسجد میں جھکے ہوئے کہتے ہوں گے : اے رب ہمیں معاف کر دے کیونکہ ہم غلطی پر تھے۔ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں، خدا تمہیں معاف کر دے گا۔ وہ الرحم الرحیمن ہے۔ تمہاری موت جب آئے گی تو میں تم سے مطمئن ہوں گا اور تم پر سلامتی ہو گی اس لئے بیخوف ہو کر اس میں داخل ہو۔”
۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔
قادیانی فرقہ کی ہندوؤں میں منظورِ نظر بننے کی کوشش اور اس پر ہندوؤں کو مسرت
’اعلان‘ کے صفحہ 14 پر وہ کہتا ہے : “دینی مسئلوں پر مسلمان، ہندو، آریہ، عیسائی اور سکھ مقرروں کی تقریریں ہوتی ہیں۔ ہر ایک مقرر اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے مذہب پر تنقید نہ کرئے اپنے دین کی تائید میں وہ جو کچھ بھی کہنا چاہے، کہہ سکتا ہے۔ مگر تہذیب و اخلاق کا خیال کرتے ہوئے۔”
یہ بات جاننے لائق ہے کہ ہندوستان میں قومی لیڈروں نے قادیانی مذہت کے تصور کا خیر مقدم کیا ہے کیوں کہ یہ ہندوستان کو تقدس عطا کرتا ہے اور بطور قبلہ اور روحانی مرکز حجار کے بجائے ہندوستان کی طرف منہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی ہمت افزائی کرتا ہے، اور چونکہ یہ مسلمانوں میں ہندوستان سے متعلق حب الوطنی کو فروغ دیتا ہے، یا وہ ایسا سوچتے ہیں، پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف ہنگاموں کے دوران کچھ بڑے ہندو اخباروں نے قادیانیوں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کی حمایت میں مضامین شائع کئے اور اپنے قارئین سے کہا کہ بقیہ مسلم فرقہ کے خلاف قادیانیوں کی حمایت و تائید ایک فرض تھا اور یہ کہ پاکستان میں قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان نزاع اصل میں ایک طرف عرب رسالت اور اس کے پیروؤں اور دوسری جانب ہندوستانی رسالت اور اس کے پیروؤں کے درمیان آویزش اور رقابت تھی۔ ہندوستان میں انگریزی کے ایک مقتدر اخبار (سٹیٹسمین) کے نام، جس نے یہ مسئلہ اُٹھایا تھا، ایک خط میں ڈاکٹر اقبال نے کہا، ” قادیانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی حریف رسالت کی بنیاد پر ایک نئے فرقے کی تشکیل کی ایک منظم کوشش ہے۔”
ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو جواب دیتے ہوئے، جنہوں نے اپنی ایک تقریر میں تعجب ظاہر کیا تھا کہ مسلمان قادیانیت کو اسلام سے جدا قرار دینے کے لئے کیوں اصرار کرتے ہیں جبکہ وہ بہت سے مسلم فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے، ڈاکٹر اقبال نے کہا : ” قادیانیت نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہندوستانی نبی کے لئے ایک نیا فرقہ تراشنا چاہتی ہے۔”
انہوں نے یہ بھی کہا : “قادیانی مذہب ہندوستان میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے لئے یہودی فلسفی، اسینوزا کے عقائد سے زیادہ خطرناک ہے جو یہودی نظام کے خلاف بغاوت کر رہا ہے۔”
ڈاکٹر محمد اقبال عقیدہء ختم نبوت کی اہمیت کے، اسلام کے اجتماعی ڈھانچے اور امت مسلمہ کے اتحاد کے محافظ کے طور پر، قائل تھے۔ وہ اس کے بھی قائل تھے کہ اس عقیدہ کے خلاف کوئی بھی بغاوت کسی بھی رواداری یا صبر و تحمل کی مستحق نہیں تھی کیونکہ یہ اسلام کی رفیع الشان عمارت کی بنیاد پر ضرب پہنچا کر مہندم کرنے والی کلہاڑی کا کام کرتی ہے۔ ’اسٹیٹسمین‘ کے نام اپنے مذکورہ بالا خط میں انہوں نے لکھا :
“یہ عقیدہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ایک بالکل صحیح خطِ فاضل ہے اسلام اور ان دیگر مذاہت کے درمیان جن میں خدا کی وحدانیت کا عقیدہ مشترک ہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر متفق ہیں مگر سلسلہ وحی جاری رہنے اور رسالت کے قیام پر ایمان رکھتے ہیں جیسے ہندوستان میں برہمو سماج۔ اس خط فاضل کے ذریعہ یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کون سا فرقہ اسلام سے متعلق ہے اور کون سا اس سے جدا ہے۔ میں تاریخ میں کسی ایسے مسلم فرقے سے ناواقف ہوں جس نے اس خط کو پار کرنے کی جراءت کی۔”
مرزا بشیر الدین ابنِ غلام احمد اور موجودہ قادیانی خلیفہ نے اپنی کتاب “آئینہ صدقات” میں کہا ہے :
“ہر وہ مسلمان جس نے مسیح موعود کی بیعت نہیں کی، خواہ اس نے ان کے بارے میں سنا یا نہیں، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔” (صفحہ 25)۔
یہی بیان اس نے عدالت کے سامنے دیا اور کہا : “ہم مرزا غلام احمد کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن غیر احمدی (یعنی غیر قادیانی) ان کی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ قرآن کہتا ہے کہ جو کوئی بھی نبیوں میں سے کسی نبی کی نبوت سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔ چنانچہ غیر احمدی کافر ہیں۔”
خود غلام احمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کہا تھا :
“ہم ہر معاملے میں مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اللہ میں، رسول میں، قرآن میں، نماز میں، روزہ میں، حج میں اور زکاۃ میں۔ ان سبھی معاملوں میں ہمارے درمیان لازمی اختلاف ہے۔” (الفضل 30 جولائی 1931 عیسوی)
ڈاکٹر اقبال کے مطابق قادیانی اسلام سے سکھوں کی بہ نسبت زیادہ دور ہیں، جو کہ کٹر ہندو ہیں۔ انگریزی حکومت نے سکھوں کو ہندوؤں سے جداگانہ فرقہ (غیر ہندو اقلیت) تسلیم کیا ہے۔ حالانکہ اس اقلیت اور ہندوؤں میں سماجی، مذہبی اور تہذیبی رشتے موجود ہیں اور دونوں فرقے کے لوگ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں جبکہ قادیانیت مسلمانوں کے ساتھ شادی ممنوع قرار دیتی ہے اور ان کے بانی نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھنے کا بڑی سختی سے حکم دیتے ہوئے کہا : “مسلمان حقیقت میں کھٹا دودھ ہیں اور ہم تازہ دودھ ہیں۔”
لاہوری جماعت اور اسکے باطل عقائد
غلام احمد اور اس کے جانشین نور الدین کے زمانے میں قادیانی مذہب میں صرف ایک فرقہ تھا۔ لیکن نور الدین کے آخری زمانہ حیات میں قادیانیوں میں کچھ اختلاف پیدا ہوئے۔ نور الدین کے مرنے کے بعد یہ لوگ دو جماعتوں میں منقسم ہو گئے۔ قادیانی جماعت جس کا صدر محمود غلام احمد ہے اور لاہوری جماعت جس کا صدر اور لیڈر محمد علی ہے جس نے قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ قادیان کی جماعت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ غلام احمد نبی اور رسول تھا۔ جبکہ لاہوری جماعت بظاہر غلام احمد کی نبوت کا اقرار نہیں کرتی، لیکن غلام احمد کی کتابیں اس کے دعوی نبوت و رسالت سے بھری پڑی ہیں۔ اس لئے وہ کیا کر سکتے ہیں؟
لاہوری جماعت کے اپنے مخصوص عقائد ہیں جن کی وہ اپنی کتابوں کے ذریعہ تبلیغ کرتے ہیں۔ وہ اس پر ایمان نہیں رکھتے کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ محمد علی کے مطابقِ جو اس جماعت کا لیڈر ہے، عیسیٰ علیہ السلام یوسف نجار کے بیٹے تھے۔ محمد علی نے اپنے عقیدہ کی موافقت میں آیات میں تحریف بھی کی ہے۔ (دیکھئے اس کی کتاب عیسیٰ اور محمد، صفحہ 76)۔
’مجلہ اسلامیہ‘ (دی اسلامک ریویو) جو انگلینڈ میں ووکنگ سے شائع ہونے والا اس جماعت کا رسالہ ہے، میں ایک بار ڈاکٹر مارکوس کا مضمون شامل تھا، جس میں لکھا تھا : “محمد علیہ السلام اعلان کرتے ہیں کہ یوسف عیسیٰ علیہ السلام کے باپ تھے۔” اس رسالہ نے اس جملہ پر کبھی رائے زنی نہیں کی کیونکہ یہ ان کے مذہبی عقیدہ کے مطابق تھا۔
اپنے ترجمہ قرآن میں محمد علی نے لفظی ترجمہ کے قاعدہ کی تقلید کی۔ لیکن اپنے کئے ہوئے لفظی ترجمہ کی تفسیر صفحے کے نیچے حاشیہ پر کی۔ اپنی تفسیر میں اس نے اسی تاویل کی پابندی کی جو اس کے اپنے مذہبی عقیدہ کے مطابق تھی۔ جیسا کہ اس نے مندرجہ ذیل قرآنی آیت کے ساتھ کیا :
” میں تمہارے لئے مٹی سے، جیسی کہ وہ تھی، ایک چڑیا بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں اور یہ خدا کی اجازت سے چڑیا بن جاتی ہے۔ اور میں انہیں اچھا کرتا ہوں جو پیدائشی اندھے اور کوڑھی تھے۔ اور میں خدا کی اجازت سے مُردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔”
اس نے اس آیت کی تاویل میں ان کا طریقہ اختیار کیا جو معجزات میں ایمان نہیں رکھتے اور اس کے معنی میں ان کے طریقہ پر تصرف کیا جو نہیں جانتے کہ قرآن نہایت شستہ عربی زبان میں نازل ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے قادیانی مذہب
(مملکت سعودی عرب میں مجلس اعلٰی برائے دعوت و ارشاد نے اس امر کی سفارش کی ہے کہ یہ تحقیقاتی مضمون چھپوا کر شائع کر دیا جائے۔)
بشکریہ اردو محفل
اصل مضمون اور رابطہ لنک۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8563
عبداللہ آتھم ایک مرتد عیسائی کے ساتھ مرزا قادیانی کا مناظرہ ہوا۔ مرزا کا دعویٰ تھا کہ میں مثیلِ مسیح ہوں۔ عیسائیوں نے میدانِ مناظرہ میں ایک مردہ لا کر رکھ دیا، ایک کوڑھی اور ایک اندھا لے آئے اور مرزا سے مطالبہ کیا کہ قرآن پاک میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ وہ مردوں کو زندہ، اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے تھے۔ اگر تو سچا مسیح ہے تو اپنی مسیحائی دکھا کہ یہ مردہ زندہ ہو جائے، اندھا بینا ہو جائے اور کوڑھی تندرست ہو جائے۔
مرزا نے کہا کہ میں آج رات استخارہ کروں گا اگر اللہ کی طرف سے مجھے ایسا کرنے کی اجازت مل گئی تو میں ایسا کروں گا ورنہ نہیں۔ عیسائیوں نے کہا عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی ان کاموں کیلیے استخارہ نہیں کیاتھا تُو جھوٹا ہے حیلے بہانے کرتا ہے۔ بہرحال عیسائیوں نے ایک رات کی مہلت دے دی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے صلاح مشورہ کر کے یہ کام کر دکھائیں۔
مرزا قادیانی اگلے دن آیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مناظرہ بند کرو کیونکہ یہ ماننے والے نہیں اور پیشن گوئی کی کہ آج کی تاریخ ( ۵ جون ۱۸۹۳) سے مخالف مناظر پندرہ ماہ کے اندر اندر بسزائے موت ہاویہ میں جا گرے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور مرزا نے لکھا میں اس وقت یہ اقرار کرتا ہوں اگر یہ پیشن گوئی جھوٹی نکلی یعنی جو فریق خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کو تیار ہوں، مجھ کو ذلیل کیا جائے، منہ سیاہ کیا جائے، میرے گلے میں رسہ ڈالا جائے، مجھ کو پھانسی دی جائے، ہر ایک بات کیلیے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا ضرور کرے گا ضرور کرے گا۔ زمین و آسمان ٹل جائیں مگر اس کی باتیں نہیں ٹلیں گی اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو۔ (جنگ مقدس صفحہ ۱۸۹)
پیشن گوئی کی میعاد ۵ ستمبر ۱۸۹۴ تھی مگر آتھم نے اس تاریخ تک نہ تو عیسائیت سے توبہ کی، نہ اسلام کی طرف رجوع کیا اور نہ ہی بسزائے موت ہاویہ میں گرا۔ مرزا نے اس کو مارنے کیلیے ٹونے ٹوٹکے بھی کیے۔ آخری دن چنوں پر سورۃ الفیل کا وظیفہ بھی پڑھا اور ساری رات قادیان میں مرزا اور مرزائیوں نے بڑی آہ زاری کے ساتھ ’’یا اللہ آتھم مر جائے‘‘ کی دعائیں بھی کیں مگر سب بے سود ہوا۔ نہ آتھم پر ٹونے ٹوٹکوں کا اثر ہوا اور نہ خدا نے مرزا قادیانی کی آہ زاری اور بددعاؤں کو آتھم کے حق میں قبول فرمایا۔ آخرکار مرزا قادیانی اپنے قول کے مطابق جھوٹا، ذلیل، روسیاہ، سب سے بڑا شیطان، سب سے بڑا بدکار اور سب سے بڑا لعنتی ثابت ہوا۔
۵ستمبر کو عیسائی صلیب اور سیاہی لیکر مرزا کا منہ کالا کرنے پہنچ گئے لیکن پولیس نے ان کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ وہ بار بار للکارتے رہے کہ او کمینے انسان تو اپنے آپ کو ’’کاسر (توڑنے والا) صلیب‘‘ کہتا ہے لیکن آج صلیبی پولیس کی وجہ سے ہی تیرا سر گردن پر ٹکا ہوا ہے۔ آخر وہ مرزا کے دروازہ پر یہ شعر لکھ کر چلے گئے
ڈھیٹ اور بے شرم بھی ہوتے ہیں دنیا میں مگر
سب پر سبقت لے گئی ہے بے حیائی آپ کی
پنجہ آتھم سے ہے مشکل رہائی آپ کی
توڑ ڈالے گا آتھم نازک کلائی آپ کی
میں عیسائیوں نے اپنی فتح کے جلوس نکالے۔ وہ گلیوں میں ناچتے تھے اور اسلام اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑاتے تھے۔ (سراج منیر صفحہ ۱۸)
اس پیشن گوئی کے غلط ہونے کی وجہ سے مرزا کا سالا مرزا سعید احمد عیسائی ہو گیا اور کئی مرزائی بھی عیسائی ہو گئے۔ (کتاب البریہ صفحہ ۱۰۵)
اس پیشن گوئی اور اپنے جھوٹے ہونے کے باوجود مرزا لکھتا ہے میں بہت پریشان بیٹھا تھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا جو سر سے پاؤں تک لہو لہان تھا۔ اس نے کہا کہ آج آسمان پر سارے فرشتے میری طرح ماتم کر رہے ہیں کہ آج اسلام کا بہت مذاق اڑایا گیا لیکن اس کے باوجود مرزا نے پوری ڈھٹائی سے لکھا جو ہماری فتح کا قائل نہیں اسے ولدالحرام بننے کا شوق ہے۔ (انوارالاسلام صفحہ۱۱)
بشکری سعد کا بلاگ
http://saadblog.wordpress.com/2009/07/17/qadiani-manazra/
الطاف اگر اپنی جماعت میں ہی اس بات کی رائے شماری کرا کے دیکھ لے کہ قادیانی کافر ہیں یا مسلمان تو اس کی آنکھیں کھل جائیں گی!
غالبآ الطاف حسین صاحب نے اپنے انٹرویو لینے والے شخص سے پنگا لینا غیر مناسب خیال کرتے ہوئے قادیانیوں کے حق میں کہا ہوگا۔ کیوں کہ بحیثیت مسلمان نا سہی بحیثیت پاکستانی ہی ان پر لازم ہے کہ وہ آئین کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے خلاف کوئی الفاظ ادا کرنے سے پہلے سوچ لیں۔
اگر الطاف حسین چاہیں تو قادیانیوں سے ہمدردی کرنے سے پہلے مرزا کے کسی ماننے والے سے دریافت کرلیں کہ ان کے مذہبی نظریات کی رو سے ‘الطاف حسین‘ مسلمان ہے؟
جواب سنتے ہی الطاف بھائی کی تمام ہمدردی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی۔
ابھی ایک جگہ بات ہوئی تھی کہ الطاف “دباؤ“ میں آجاتے ہیں۔ سو محمد اسد بھائی کا تبصرہ ہی صائب لگتا ہے۔ “دباؤ“ کس چیز کا ہوسکتا ہے، وہ سب احباب اپنی اپنی مرضی کا سوچ لیں۔
pakistandesk.com/?p=2681
Deobandi founder Qasim Nanutwi himself denied Khatm-e-Nabuwat (in the meaning of last);
http://www.youtube.com/watch?v=0sw6Qyqjh04
Why have deobandi scholars not disassociated themselves from him? Why are those who are complaining against Altaf Hussein not protesting against deobandis?
This is just pure hypocrisy on the part of these religious blackmailers to blackmail MQM and Altaf Hussein as MQM are against Mullait and talk of equality for all.
This is not a religious issue but of political blackmail by the clergy.
اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو جتنا نقصان مسلمانوں نے پہنچایا ہے کسی یہودی عیسائی کافر نے نہیں پہنچایا ہوگا،کیا ہم مسلمانوں کے اعمال و افعال بلکل ویسے ہی ہیں جیسا ہنارے نبی نے کہا تھا ہم آج چوری کو چوری بےایمانی کو بےایمانی نہیں سمجھتے جبکہ نبی پاک نے باربار کہا کہ جسنے یہ یہ برائیاں کیں وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی آپ نے خود ہی اسے دائرہ اسلام سے خارج فرمادیا کیا ہم میں سے کسی کو اس بات کا خوف نہیں کہ جب ہم اپنے تئیں خود کو مسلمان سمجھ کر جام کوثر کے منتظر ہوں گے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے منہ پھیر لیں گے،ہم دوسروں کا مزہب صحیح کرنے کے بجائے اگر صرف اپنے آپ کو صحیح راستے پر چلائیں تو اللہ ہمارے دشمنوں کے لیئے کافی ہوجائے گااور کیا بعید کہ یہ قادیانی جن کے مزہب سے ہم اتنے خوفزدہ ہیں یہ بھی خود راہ حق اختیار کرلیں ،اللہ ہمیں سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین
قادیانی بے شک مسلمان نہیں مگر انسان تو ہیں اور اللہ کے قانون کو ہاتھ میں لے کر کسی کافر کا بھی بے جا قتل قتل ہے اور اللہ اس کا حساب ضرور لے گا،کیونکہ وہ صرف رب المسلمین نہیں رب العالمین ہے!
باقی یہ بات سچ ہے کہ قادیانیوں نے اپنی کتابوں میں تبدیلی کر کے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی لکھنا شروع کردیا ہے،اب یہ معاملہ ان کے اور اللہ کے درمیان ہے کیونکہ ایک صحابی نے کہا کہ میں ایک کافر کو قتل کرنے ہی والا تھا کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا مینے پھر بھی اسے قتل کردیاکیونکہ مجھے لگا کہ اس نے موت سے بچنے کے لیئے کلمہ پڑھا ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے اس کا سینہ چیر کر دیکھا تھااور یہ بات آپنے اتنی بار فرمائی کہ میں دل میں خواہش کرنے لگا کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا تاکہ یہ قبیح فعل حالت اسلام مجھ سے سرزد نہ ہوتا،
وماعلینا الابلاغ،
باقی یہ بات سچ ہے کہ قادیانیوں نے اپنی کتابوں میں تبدیلی کر کے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی لکھنا شروع کردیا ہے۔۔۔ عبداللہ۔
عبداللہ آپکی یہ بات درست نہیں۔ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہئیے۔ احمدی ُخاتم النبین ، لکھتے ہیں مگر لفظ خاتم کو، مہر، کے معنوں میں لیتے ہیں۔ ختم نبوت کے معنوں میں نہیں لیتے۔
اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے قادیانیوں نے ’خاتم النبیین‘ کی یہ تفسیر کی کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ محمد صلی اللہ علی وسلم انبیاء کی مہر ہیں تا کہ ان کے بعد آنے والے ہر نبی کی نبوت پر ان کی مہر تصدیق ثبت ہو۔ اس سلسلہ میں یہ مسیح موعود کہتا ہے : “ان الفاظ (یعنی خاتم النبیین) کا مطلب یہ ہے کہ اب کسی بھی نبوت پر ایمان نہیں لایا جا سکتا۔ تا وقتیکہ اس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت نہ ہو۔ جس طرح کوئی دستاویز اس وقت تک معتبر نہیں ہوتی جب تک اس پر مہر تصدیق ثبت نہ ہو جائے، اسی طرح ہر وہ نبوت جس پر اس کی مہر تصدیق نہیں غیر صحیح ہے۔”
’ملفوظات احمدیہ‘ مرتبہ محمد منظور الٰہی قادیانی میں صفحہ 290 پر درج ہے : “اس سے انکار نہ کرو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انبیا کی مُہر ہیں لیکن لفظ ’مُہر‘ سے وہ مراد نہیں جو عام طور پر عوام الناس کی اکثریت سمجھتی ہے، کیوں کہ یہ مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، ان کی اعلٰی و ارفع شان کے قطعی خلاف ہے۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نبوت کی نعمت عظمٰی سے محروم کر دیا۔ اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ وہ انبیاء کی مہر ہیں۔ اب فی الحال کوئی نبی نہیں ہو گا سوائے اس کے جس کی تصدیق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کریں۔ ان معنی میں ہمارا ایمان ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ (الفضل مورخہ 22 ستمبر 1939 عیسوی – الفضل ایک روزانہ اخبار ہے جو تقسیم ملک سے پہلے قادیان سے شائع ہوتا تھا۔ اب یہ ربوہ سے شائع ہوتا ہے اور قادیانیوں کا ترجمان ہے۔)
’الفضل، مورخہ 22 مئی 1922 عیسوی میں ہم پڑھتے ہیں : “مہر ایک چھاپ ہوتی ہے۔ سو اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھاپ ہیں، تو وہ یہ کیسے ہو سکتے ہیں اگر ان کی اُمت میں کوئی اور نبی نہیں؟”
احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں
http://www.alislam.org/urdu/library/115/index.html
ملاحظہ فرمائیں علامہ اقبال کی ایک تحریر جو پنڈت جواہر لعل نہرو کے ایک مضمون کے جواب میں لکھا گیا تھا۔ نہرو نے مسلمانوں کو تلقین کی تھی کہ وہ قادیانیوں کو ایک فرقہ کے طور پر تسلیم کر لیں اور انہیں مسلمان سمجھ کر برداشت کریں
http://www.koranselskab.dk/profiler/iqbal/ahmadiyya.htm
http://www.koranselskab.dk/profiler/iqbal/ahmadism.htm
طفر اقبال ۔ جزاک اللہ
یہ وہی خط ہے جسمیں علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے قادیانیوں (احمدیوں) کو اسلام کے غدار قرار دیا ہے۔
قومی سیاسی دھارے میں بھی تو شامل ہونا ہے نا بھئی !
وسلام
اس الطاف بد بخت قادیانوں کی طرح جنسی دیوانہ ہی
اوپر کہیں گوہر شاہی کا ذکر پڑھا تو سوچا یہ تحریر آپ احباب کی نظر کروں
http://aazaanpk.blogspot.com/p/goher-shahi-fitna.html
Leave A Reply