حکمرانوں کے دوغلے پن کو دیکھ دیکھ کر ہمارا اس بات پر یقین پکا ہو چکا ہے کہ مذہب صرف غریبوں کیلیے ہوتا ہے۔ امیروں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور اگر ہے بھی تو صرف دکھاوے کی حد تک یعنی لوگوں کو چکر دینے کی حد تک اور شاید تبھی آج لفظ سیاست انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
بھٹو نے پتہ نہیں کیوں ایک دفعہ جلسے میں کہ دیا کہ وہ شراب پیتے ہیں مگر تھوڑی۔ مگر جب وہ زیرِ عتاب آئے تو انہوں نے شراب پر پابندی لگا دی۔ مگر ہمیں سو فیصد یقین ہے بھٹو نے خود شراب نوشی ترک نہیں کی ہو گی۔ بھٹو نے عوامی غضب سے بچنے کیلیے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا حالانکہ اس کے نزدیک قادیانی اور غیرقادیانی ایک برابر تھے۔
جنرل ضیاع بھی اسی طرح کا ڈکٹیٹر تھا۔ غیروں کی گود میں بیٹھ کر اسلام کے نام پر گیارہ سال گزار گیا مگر اسلامی نظام کا مکمل نفاذ نہ کر سکا۔ اس نے بلاسود بنکاری کا نظام دیا مگر منافع پھر بھی سودی نظام کے برابر تھا اور تاریخ شاہد ہے آج تک اس نظام کے ماتحت کبھی کسی بنک نے نقصان شو نہیں کیا۔ جنرل ضیاع ہر سال رمضان میں شب بیداری کیلیے سعودی عرب جاتا رہا مگر سرکاری خرچ پر۔ اسے ٹی وی پر آنسو بہاتے ہوئے دکھایا جاتا مگر مخالفین کو کچلنے کیلیے اس نے کراچی کے لوگوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
اس کے بعد بینظیر، نواز شریف اور ان کے حواری بھی مذہب کو اپنے سیاسی کیریر کیلیے استعمال کرتے رہے۔ نواز شریف نے بھی اسلامی نظام کی بات کی مگر کبھی اسلامی نظام نافذ نہ کر سکے۔ آج کل وہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور اس کا مقصد سعودیوں کے دربار میں پرویز مشرف پر ہاتھ ہولا رکھنے کا اقرار کرنا ہے۔ لیکن موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بھی مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کی زیارت کرنے میں لگے ہوئے ہیں
اتنی لمبی تمہید کا مقصد جنگ کی یہ خبر ہے جس کے مطابق پرویز مشرف کو رمضان میں لندن کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے دیکھا گیا ہے اور وہ بھی شراب کیساتھ۔ یہ وہی پرویز مشرف ہے جس کو احرام باندھے خانہ کعبہ کے طواف کرتے ہوئے اس وقت ٹی وی پر دکھایا گیا جب وہ چیف جسٹس کے بحران میں پھنسا ہوا تھا۔ اب لندن کا اخبار پرویز مشرف سے سوال کر رہا ہے کہ ایک طرف لندن کا وزیراعظم مسلمانوں سے یکجہتی کیلیے گوروں کو ایک روزہ رکھنے کی ترغیب دے رہا ہے اور دوسری طرف مسلمان ملک کا سابق صدر سرِعام رمضان کا مذاق اڑا رہا ہے۔ ہم اس سے پہلے بھی اپنے ایک فوجی دوست کے ذریعے بتا چکے ہیں کہ پرویز مشرف بہت بڑا شرابی اور رنڈی باز تھا۔ پھر شراب پیتے ہوئے بھی مشرف کی تصاویر چھاپی گئیں مگر ہم اسے کمانڈو اور نڈر جنرل سمجھتے رہے۔ اس خبر کے بعد امید ہے سب کو یقین ہو جائے گا کہ پرویز مشرف مذہبی تھا یا نہیں۔
8 users commented in " ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاس بات میں کوئی شک نہیں مشرف انتہائی واہیات انسان تھا۔
Ik musharaf nahi , pakistan ke sub seyasetdan sharabi hain.
لو جی اب گرما گرم اور تازے تبصروں کا انتظار کرو
میں تو ان تبصروں پہ ہی تبصرے کروں گا 😉 ۔
آپ کو کیا تکلیف اے۔۔۔
اپنے پیسوں کی روٹی کھائی اے، دارو پیا اے
مجے پتہ نئیں تھا کہ رمضان اے
نئیں تو میں کمرے میں بیٹھ جاتا
میری ہر بات خراب لگتی اے
احسان فرامواش ایں، میں نے خدمت کی اے، ملک کی ، قوم کی ۔۔۔ بلاااا بلااااا بلااااا
افضل بھائی تو پرویز مشرف نے کبھی “مولانا پرویز مشرف“ کہلوایا؟ یہ جو شریفے اور زرداری اور دیگر ہیں ان کی کرتوتیں کیوں کوئی اخبار نہیں چھاپتا؟ پرویز مشرف میں جو برائیاں ہیں بالکل ہیں لیکن اگر کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ یہ برائیاں صرف پرویز مشرف میں ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں ہی رہتا ہے۔ ہماری موجودہ حکمرانوں کی کھیپ اسی میٹیریل سے بنی ہے اور اس میں استثناء کم از کم میرے علم میںنہیں۔
ان ہاتھیوں کے کھانے اور دکھانے کے دانت ایک ہی ہیں۔۔ ہم لوگ ہمیشہ دیکھنے میں غلطی کرتے ہیں۔۔ جن دانتوں کو دیکھ کر آنے پر بھنگڑے ڈالتے ہیں۔۔ انہیں دانتوں سے کھاتا دیکھ کر جانے پر مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔۔ بعد میں اپنی حماقت پر پردہ ڈالنے کے لیے کوئی دوسرا ہاتھی پکڑ لیتے ہیں۔ اور دائرے کا سفر جاری ہے۔
اور دائرے کا سفر جاری ہے۔۔۔ راشد کامران
کوئی شک نہیں ۔ ہم موسٰی علیۃ والسلام کے گمشدہ قبیلے کی طرح ایک ہی جگہ پہ گھومتے جارہے ہیں۔
مشہور کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود کا کالم اس مسئلےپر مزید روشنی ڈالتا ہے۔
http://www.jang.com.pk/jang/sep2009-daily/21-09-2009/col4.htm
Leave A Reply