پچھلے ہفتے ہم نیوجرسی میں ایک ہفتے کی ٹریننگ پر تھے۔ سارا دن مصروف رہنے کے بعد جب کرنے کو کچھ نہ ہوتا تو شہر میں چکر لگانے نکل پڑتے۔ پہلے ہی دن ہم نے ایک سٹور پر بنگالی بابا کی طرز کا بورڈ دیکھا اور وقت گزاری کیلیےاس کے اندر گھس گئے۔ اندر ایک پچیس سالہ نوجوان اور خوبصورت خاتون نے ہمارا استقبال کیا اور پوچھنے پر پتہ چلا وہ اپنی ماں کیساتھ بنگالی بابا والا کاروبار دس سال سے کر رہی ہے۔ ماضی اور مستقبل کا حال جاننے کی فیس کے تین چار درجات تھے یعنی جتنی زیادہ فیس اتنی زیادہ معلومات۔ ہم نے پہلے درجے کی فیس پر آخری درجے کی معلومات پر سودا کیا اور اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئے۔ اس نے کارڈ ہمارے سامنے پھیلائے اور ہمارے بارے میں بولنے لگی۔ اس نے بہت مختصر ہمارے ماضی اور مستقبل کے بارے میں بتایا جو اسی فیصد معمول کی طرح تھا اور بیس فیصد سچ۔ ہم نے اسے کہا کہ تفصیل بیان کرو، جو تم بیان کر رہی ہو یہ تو سب جانتے ہیں۔
اس کے بعد اس نے بنگالی بابا کا انداز اختیار کر لیا اور کہنے لگی ہم پر کسی کا منفی اثر ہے یعنی کوئی ہماری کامیابی سے جلتا ہےاور وہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کیلیے دو تین دن کا چلہ کاٹنا پڑے گا۔ کہنے لگی اس کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ تم دے نہیں سکو گے۔ ہمارے اسرار پر اس نے فیس ساڑھے چار سو ڈالر بتائی اور ہم اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولے واقعی یہ بہت زیادہ ہے۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ ہم اسے پچیس ڈالر دے جائیں اور باقی رقم تب دیں گے جب ہمارا کام ہو جائے گا۔
دو دن بعد اس نے ہمیں بلایا اور ہمارے حاسد کا نام بتانے کی بجائے اس نے بنگالی بابا کا ایک اور چکر کھیلا۔ یعنی کہنے لگی ہم پر کالے جادو کا اثر ہے۔ ایک جننی ہمارا بچپن سے پیچھا کر رہی ہے اور اب اس کا بیٹا جو ہمارے ساتھ ہی جوان ہوا وہ ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ان جنوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے پورے چالیس دن کا چلہ کاٹنا ضروری ہے۔ ہم بولے ہم سائنس پر یقین رکھتے ہیں اور جب تک کسی کو دیکھ نہ لیں ہمیں یقین نہیں آتا۔ ہم ان باتوں پر یقین نہیں کرتے۔ کہنے لگی جب ایک دن دیکھو گے تو یقین کرنے لگو گے۔ ہم نے کہا اب تک تو ہم نے کچھ دیکھا نہیں تو آئندہ کیا دیکھیں گے۔
ہم بولے ہم تو آئے تھے تم سے اپنے مستقبل کا حال جاننے اور اسے بہتر بنانے کے گر حاصل کرنے اور تم نے ہمیں جادو گروں کے چکر میں ڈال دیا ہے۔ ہم نہیں مانتے ان جادو ٹونوں کو۔ کہنے لگی “مستقبل تو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے، جتنی محنت کرو گے اتنا پھل ملے گا”۔ ہم بولے اگر مستقبل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے تو پھر تمہاری کیا ضرورت ہے۔ یہ سن کر اس کا موڈ آف ہو گیا، اس نے اپنے دفتر کا دروازہ کھولا اور ہمیں جانے کو بولا۔ ہم نے جاتے جاتے اپنے پچیس ڈالر بھی مانگ لئے مگر اس نے تو الٹا ہم سے بقایا مانگ لیا۔ ہم نے اسی میں اپنی عافیت سمجھی اور چل دیے۔
باہر نکل کر ہم نے سوچا، گورے ہوں یا دیسی بنگالی بابے سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نے اس سے ایک اچھی چیز سیکھ لی یعنی “مستقبل آدمی کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے” اور یقین کریں اس کے بعد ہم نے اپنے اندر بہت بڑی تبدیلی محسوس کی۔
اب یہ بات پتہ نہیں زرداری حکومت کو کیسے سمجھ میں آئے گی جو نگر نگر کشکول لیے کبھی فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں، کبھی انتہائی کڑی شرائط پر کیری لوگر بل کی امداد پر بغلیں بجا رہے ہوتے ہیں اور کبھی ٹکے ٹکے کے حکومتی عہدیداروں کے سامنے مسکینوں جیسی شکل بنائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جب ایک عام سا نجومی یہ جانتا ہے کہ وہ دوسرے کا مستقبل سنوارنے میں بے بس ہے تو پھر زرداری صاحب یہ کیوں جان نہیں پائے کہ ان کا مستقبل دوسروں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔
6 users commented in " مستقبل اپنے ہاتھوں میں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackارے آپ کن بنگالیوں کے چکر میں آ گئے، یہ تو سیدھا سادھا ڈراما ہوتا ہے، ان کے پاس اگر کوئی طاقت ہوتی ہے تو وہ شیطانی طاقت ہوتی ہے، اسلیے اگر یہ کوئی کام کر بھی سکتے ہوں تو ان سے نہیں کروانا چاہیے، دوسری بات اگر یہ کسی کے مستقبل کا حال بتا سکتے تو خود دھکے نہ کھا رہے ہوتے
منو بھائی بھی کچھ کہہ رہے ہیں اس مسئلے کے بیچ ذرا ان کی بھی سن لیں!
http://www.jang-group.com/jang/sep2009-daily/27-09-2009/col14.htm
آپ ایک مثبت سوچ کے بندہ هیں که ان کےایک فقرے نے آپ کو مستقبل محنت سے بنانے کی سوچ دی ورنه پاکستان میں دوسروں سےهی توقع لگائے لوگ مایوس هو جاتے هیں یا ان هی لوگوں کی منتیں کرتے هیں که جی میرے لیےکچھ چلا کرو
۔۔۔۔۔تو پھر زرداری صاحب یہ کیوں جان نہیں پائے کہ ان کا مستقبل دوسروں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔۔۔۔۔۔۔
مگر ذرداری یہ جانتے ہیں کہ انکا مستقبل ، وہ مستقبل جس کے لئیے وہ بے چارے اتنی تگ و دور کر رہے ہیں وہ مستقبل واقعی انکے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اور وہ انکا اپنا ہاتھ ہے امریکا کا خاص دستِ کرم جو وہ انگلستان کی شراکت کے ساتھ ، پاکستان کے ایک سے بڑھ کر ایک نااہل ، کرپٹ مگر امریکہ و انگلستانی مفادات کے لئیے ہیرا ثابت ہونے والے ہمارے بے ضمیر حکمرانوں پہ رکھتا آیا ہے۔ ہے نا حیران کن بات کہ امریکہ کا دست شفقت ایک ہی وقت میں پاکستان کے بدترین فوجی آمروں پہ بھی ہے اور پاکستان کے رہمنائے اعلٰی کہلانے والے جمہور کے ٹھیکیداروں پہ بھی ہے۔ یعنی امریکہ کے ہاں پاکستان کے بے غیرت شیر اور مسکینی بلیاں ایک ہی گھاٹ پہ پانی پیتے ہیں۔ اور یہ ہے اس ہاتھ کا کمال جس میں آجکل ذرداری اپنے مستقبل کو تابناک دیکھ رہے ہیں۔ بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ اس ہاتھ میں تو زرداری کو بلاول زرداری سمیت اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل تابناک نظر آرہا ہے۔
ہل من مزید جو انتہائی کڑی شرائط پر کیری لوگر بل کی امداد کی صورت میں مل رہا ہے ۔ جزاک اللہ ۔ اس خیرات کی ُ ُ کڑی شرائط“ تو پاکستان نے چکانی ہیں جبکہ یہ ُ ُخیراتِ بے غیرتی“ تو جناب زرداری کی جیب میں جائے گی ، یہ یوں ہی ہے کہ آپ کی جائیداد پہ میں مہاجن سے قرضہ لے کر اپنی جیب میں ڈال لوں اور جب قرضہ بمع واپس کرنے کا وقت آئے تو آپ کو اپنے کل اثاثے بیچ کر بھی مہاجن کا حساب بے بق نہ کیا جاسکے اور آنے والی کئی نسلیں مہاجن خرید لے۔ پاکستان کے بے چارے مظلوم عوام کے ساتھ تو پچھلے باسٹھ سالوں سے یہ ہاتھ ہوتا آرہا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اور اثاثوں کے بدلے قرضہ ۔ مدد۔ اور خیرات لینے والے مہاجن (امریکہ) کے تنخوادار یا کمیشن پہ کام کرنے والے ملازم ہیں اور جب یہ سب پاکستان سے بھاگ کر امریکہ و انگلستان کی گودی میں جابیٹھتے ہیں تو یہ پیسہ امداد و خیرات وغیرہ لوٹ کر واپس امریکا پہنچ جاتے ہیں بلکہ کئی صورتوں پہ تو یہ امداد وغیرہ باہر سے باہر ہی وصول کر ی جاتی ہے۔ مگر نتیجاْ پاکستان کے عوام اور اثاثوں پہ مہاجن اپنا کیس بڑی مضبوطی سے قائم کرتے ہوئے پہلے سے ذیادہ پاکستان پہ اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے۔
پاکستان کے پہلے سے غریب اور مفلوک الحال عوام نے اپنے بچے تک بیچیں تو بھی یہ کڑی شرائط نہ چکا سکیں کہ امریکہ کے دستِ کرم کا احسان ہی اتنا بھاری ہوتا ہے کہ ہماری کئی نسلیں اسی چکر میں رزقِ خاک ہوگیں ہیں۔ مگر ان خاک ہوتی نسلوں کے ہاتھ کچھ آیا ہو یا نہ آیا ہو۔ ہمارے حکمرانوں کے خزانے تو بھرے گئے ہیں۔
ایک زرداری سب پہ بھاری بجائے خود بھی بہت سمجھدار ہے۔زرداری کے پاس مشیروں کی صورت میں بھاری فیسوں پہ بہت سے بنگالی بابے ہیں جنہیں بخشے ہوئے ُ ُ پچیس ڈالرز“ کا مطالبی بھی ذرادری نے کبھی نہیں کیا۔ بلکہ انکا بھی حصہ بقدرِ جثہ زرداری نکالتت رہتے ہیں۔ یہ بنگالی بابے جو اسے ایک سے بڑھ ایک گُر جانتے ہیں اور سائنسی بنیادوں پہ یہ گُر زرداری کو بتلا چکے ہیں کہ زرداری کا مستقبل حسبِ سابقہ حکمرانوں کے، امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔
البتہ پاکستان والوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کہ اپنی ماں (آزادی) بیچ کر کتنے دن روٹی کھائی جاسکتی ہے۔ اور انکا مستقبل کن ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔
آپ کو بھی اب کہانی بنانا آگئی ہے عنقریب آپ کو اخبار میں لکھنے کی آفر آئے گی اگر نہ بھی آئی تو پیسہ آئے گا ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھتے جائیں
جو دنیا ہے وہ حال ہے مستقبل تو اصل میں موت کے بعد ہے اور وہ کیا ہو یہ اپنے اپنے ہاتھ میں ہے اور یہ زرداری بھی جانتا ہے مگر حال میں ہوس زر اور رافضیت اسکو برا اچھا کرکے اور اچھا برا کرکے دکھا رہے ہیں
افضل بھائی ۔ زرداری کو تو علم ہے اس بات کا اس لئے بچارہ اپنا مستقبل بنانے کے لئے جگہ جگہ کاسہ لئے پھرتا ہے کہ سوئس اکاؤنٹوں میں پیسے کا بہاؤ رُکنے نہ پائے۔ آپ کا خیال ہے کہ وہ یہ سب پاکستان کی محبت میں کر رہے ہوتے ہیں؟
Leave A Reply