ایکسپریس کی خبر کے مطابق ایک امریکی تحقیقاتی ادارے پیو فورم آن رلیجن ایند پبلک لائف کی رپورٹ کیمطابق اس وقت دنیا میں ہر چوتھا انسان مسلمان ہے۔ اسلام عیسائیت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ستاون کروڑ ہے اور ان کی زیادہ تعداد جنوبی ایشیا میں رہائش پذیر ہے۔
اتنی بڑی تعدا میں مسلمان ہونے کے باوجود وہ اس وقت بے بس و لاچار ہیں۔ ان کی اکثریت غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ مسلمانوں کے زیادہ تر ممالک پر ڈکٹیٹروں کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے عام پبلک کی رائے ان کے حکمرانوں کی رائے سے اکثر مختلف ہوتی ہے۔
ہمارے ایک تازہ سروے کیمطابق مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے مستقبل قریب کو روشن ہوتا نہیں دیکھ رہے۔ آدھے لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان سو سال بعد ورلڈ پاور بن جائیں گے اور آدھے لوگ بالکل مایوس ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان کبھی بھی سپرپاور نہیں بنیں گے۔ اس مایوسی کی وجہ مسلمان حکمرانوں کی بے حسی، خود غرضی اور عوام سے غداری ہے۔
عوام چونکہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں اسلیے ابھی وہ ڈکٹیٹروں کا تختہ الٹنے کے قابل نہیں ہیں۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح میڈیا دن بدن ترقی کر رہا ہے وہ دن دور نہیں جب دور دراز کے دیہاتی بھی ایک دن جاگ جائیں گے اور پھر وہ خود نہ صرف اپنے حکمران منتخب کریں گے بلکہ ان کا احتساب بھی کریں گے۔ اگر میڈیا کی ترقی کی یہی رفتار رہی تو ہم ان مسلمانوں کی صف میں شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مسلمان سو سال بعد ورلڈ پاور بن جائیں گے۔
7 users commented in " دنیا کا ہر چوتھا انسان مسلمان مگر ناامید "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackافضل صاحب ایک چھوٹی سی تصیح۔ یہ بیورو فورم نہیں بلکہ پیو فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف ہے۔
http://pewforum.org/docs/?DocID=450
راشد صاحب
غلطی کی درستگی کیلیے شکریہ۔ دراصل ایکسپریس نے پیور لکھا اور ہم نے اسے بیورو بنا دیا۔
تعداد زیادہ ہونے میں اگر کوئی خوبی ہو، کوئی ترقی ہو تو بتائیں۔ ابھی عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
عارف صاحب،
تعداد سے فرق تو پڑتا ہے۔ اب دیکھیں انڈیا کی آبادی زیادہ ہے اسی وجہ سے وہ کاروباری دنیا کیلیے اہم ہے اور دوسرے آبادی کے تناسب کے لحاظ سے کافی معقول تعداد میں لوگ ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔
کینیڈا کی آبادی امریکہ کے مقابلے میں دس فیصد ہے اور یہی وجہ ہے کینیڈا وہ ترقی نہیںکر پایا جو امریکہ نے کی ہے۔
پاکستان کی ترقی کا دارو مدار تب شروع ہوگا جب پاکستان کی عوام ہی درست ہو گی
جس ملک کے لوگ اپنوں سے مطمعن نہیں ہوں گے وہ دوسروں سے آگے کیسے آیئں گے
جی میں نے انٹرنیٹ پر کہیں ایسے ہی مضمون پر تبصرہ کیا تھا، وہ پیش کر دیتا ہوں۔
مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کا فائدہ ؟
جب ہم محتاج رہیں، ملازمتیں، بڑے بڑے ادارے، حکومتی عہدے، اگر گوروں کے ہاتھ میں ہوں تو ہمیں کیا فائدہ جی ؟
اگر چالیس فیصد فوج مسلمان ہو، اور بڑے بڑے پانچ فیصد جنرل غیر مسلم ہوں ، تو فائدہ ؟
تعلیم ، ترقی، ایجاد، ہنر، کچھ بھی پاس نہ ہو تو فائدہ ؟
اور یورپی مسلمان، جو نہ مسلمان ہیں ، نہ عیسائی، جو گوروں کے رنگ میں رچ بس گئے ہیں، جو ان جیسا پہنتے ہیں ، ان جیسا کھاتے ہیں، ان کی بیٹیاں اپنے رشتے خود تلاش کرتی ہیں،
بوائے فرینڈ، ڈیٹ کا کلچر، ہندی افلام پسند کرنے والے، موسیقی پہ سر دھننے والے، کبھی کبھار شراب کو منہ لگانے والے ؟
ایسے مسلمان اگر ہزاروں کیا، لاکھوں ہو جائیں، لاکھوں کیا ، کروڑوں ہو جائیں تو فائدہ ؟
ہم پاکستانی 16 کروڑ سے زیادہ ہیں، لیکن اس تعداد سے ہم نے کون سا تیر مار لیا ؟
ہمارے پاس سب سے بڑی اسلامی فوج ہے ، ہم ڈرون حملے رکوا سکے ؟
اگر ہم نے گوروں کے نیچے رہ کر ہی کام کرنا ہے تو ہم کروڑوں اربوں بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور نہ اسلام کو غلبہ دلا سکتے ہیں
اسلام میں تعداد کی کبھی اہمیت نہیں رہی
کوالٹی کی اہمیت رہی ہے،
اسلام کا پہلا معرکہ 313 کا 1000 سے تھا
لیکن وہ 313 کوالٹی مسلم تھے اسی لیے وہ غلبہ پا گئے
اور وہ 1000 ڈرپوک، بزدل، کالے دلوں والے، سچ کو نہ تسلیم کرنے والے ، عیاشیاں کرنے والے تھے، اسی لیے وہ ہار گئے
اور آج کے بیشتر مسلمان ان 1000 جیسے ہی ہیں ، جناب عالی
Leave A Reply