وائس آف امریکہ کی خبر کیمطابق مستقبل قریب میں تیل کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ جب سے ہم نے یہ خبر پڑھی ہے ہم سوچ رہے ہیں اگر دنیا سے تیل ختم ہو گیا اور اس کا نعم البدل تلاش نہ کیا جا سکا تو پھر دنیا کس طرح کی ہو گی؟
آٹو انڈسٹری والے اس کوشش میں ہیں کہ جلد سے جلد پٹرول اور ڈیزل سے جان چھڑا کر بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں بنا لی جائیں۔ اس کوشش میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے مگر ٹيکنالوجی اپنے ابتدائی مراحل میں ہونے کی وجہ سے ابھی ایک تو گاڑیوں کی قیمت بہت زیادہ ہے اور دوسرے ان کی رفتار بھی کم ہے۔ لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہونے کی وجہ سے ٹانگے اور سائیکل جیسی سست رفتار سواری کا دور واپس آ سکتا ہے۔
ریل گاڑیاں تو پہلے ہی سے بجلی پر چل رہی ہیں یعنی ڈیزل انجن کے بغیر بھی یہ چلتی رہیں گی ہاں تمام سسٹم کو بجلی پر منتقل کرنے کیلیے بہت ساری رقم درکار ہو گی۔
مسئلہ کھڑا ہو گا تو ہوائی سفر کا کیونکہ ابھی تک جہازوں کے تیل کا نعم البدل ایجاد نہیں ہوا۔ بحری جہاز بھی ڈيزل انجن پر چلتے ہیں مگر وہ آسانی سے ایٹمی توانائی یا کوئلے سے چلتے رہیں گے مگر یہ ہوائی جہاز جیسی تیزرفتار سروس کا نعم البدل نہیں بن پائیں گے۔
اکثر ملکوں میں بجلی بھی ڈیزل سے پیدا کی جاتی ہے۔ تیل کی عدم دستیابی کی صورت میں ایٹمی توانائی کا استعمال بڑھانا پڑے گا کیونکہ آنے والے وقت میں پانی کی قلت بھی پیدا ہونے والی ہے۔
اگر تیل ختم ہو گیا تو لازمی ہے قدرتی گیس بھی ختم ہو جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کھانے پکانے کا نظام بجلی پر چلنے لگے گا اور مگر بجلی کی عدم موجودگی میں پھر سے لکڑیوں کو جلانے کیلیے پھونکنیوں کا دور واپس آ جائے گا۔
ہوائی جہازوں کی غیرموجوگی میں جنگیں بھی دوبارہ میدانوں میں لڑی جائیں گی۔ ڈرون حملے بھی بند ہو جائیں گے اور بیرونی حملہ آوروں کو دوسرے ملکوں پر قبضے میں پہلے سے زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اس خبر کے مطابق تیل کا نعم البدل تلاش کرنے کیلیے کوئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ تیل ابھی بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ جب کنویں خشک ہونے لگے تو پھر ہمیں ہوش آئے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے ترقی یافتہ ملک تیل کے نعم البدل پر اندرونِ خانہ کام کر رہے ہوں اور جب تیل ختم ہو جائے تو وہ اس کا متبادل مارکیٹ میں لا کر بے تحاشا دولت کما سکیں۔
8 users commented in " اگر تیل ختم ہو جائے تو؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاور بہت سے ذرائع ہیں جی۔ شمسی توانائی، مصنوعی تیل وغیرہ وغیرہ۔۔ اتنی جلدی تو یہ کافر نہیں چھٹتی منہ سے لگی ہوئی۔
بیشتر ممالک نے تو تیل اپنے پاس محفوظ بھی کیا ہوا ہے اس لیے جب تیل کے ذخائر ختم ہوے تو ایسے ممالک کچھ سال گزارہ کرتے رہیں گے، اس کے علاوہ تیل مہیا کرنے والے ممالک جیسے سعودی عرب ایران وغیرہ بھی پیداوار کے اختتام سے کچھ عرصہ قبل شاید تیل کی رسد روک کر اسے صرف اپنے لیے استعمال کریں۔ میںنے کچھ عرصہ قبل یہ خبر بھی دیکھی تھی کہ ہوائی جہازوں کو پام آئل پر چلانے کا ایک تجربہ کیا گیا ہے جو کامیاب رہا ہے، لیکن اگر مستقل طور پر پام آئل کو استعمال کیا گیا تو کھانے کے تیل کی قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔یوں اشیا کی قیمتیں اور بڑھ جائیں گی اور غریب شاید ختم ہو جائیں گے۔
سب ڈرامہ بازی ہے۔ ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جسکے بعد تیل جیسی ختم ہو جانے والے ایندھن کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، مگر قربان جاؤں اس سرمایہ دارانہ نظام پر جو اس قسم کی ٹیکنالوجی کو منظر عام پر آنے ہی نہیں دیتے۔
تیل ختم ہوجائے تو شاید دنیا میں جنگیں رک جائیں..
ویسے آپ کے بلاگ پر تبصروں میں ڈائریکشن کا مسئلہ کب حل ہوگا؟
مکی صاحب
ڈائریکشن کے مسئلے سے آپ کی کیا مراد ہے۔ ہم اس میدان میںاناڑی ہیں اگر تفصیل بتائیں تو شاید کسی کی مدد سے اسے حل کر لیں۔
محترم افضل صاحب!
اگر تیل ختم ہو جائے تو؟ ہمیں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ہماری اکثریت ابھی تک گدھے ، گھوڑوں پہ سفر کرتے ہیں۔ یاد ہے آپ کو وہ تصویر جو آپ نے ماشٹر جی کی لگائی تھی۔ البتہ جن قوموں نے اپنے آپ کوایک صدی سے تیلی تعیش کاخوگر بنا لیا ہے ۔ اُن کا کیا بنے گا؟- مقامِ فکر ہے کہ اگر وہ قومیں ہمارے گدھوں کے پیچھے پڑ گئیں تو ہمارے گدھوں کا کیا بنے گا۔؟
خیر مشرف تو وہاں پہنچ ہی گیا۔ آپ کے خیال میں وہ کونسے گدھے کو سب سے پہلے رسہ ڈالیں گے۔ وہ اپنے ایک ملک صاحب بھی ہیں۔ جو توپوں سے چڑیوں کا شکار کرتے ہیں۔امریکہ کے لئیے ہر وقت چمکتی بتیسی بھی قابلِ قدر امپورٹ ہوگی۔ یا نہیں ہوگی؟۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ آپ امریکہ میں ہیں۔ ہمارے گدھوں کی کیا قیمت لگائی جائے گی ۔ اگر وہ پہلے سے ہی بک نہیں چکے تو۔۔۔۔ یاد رہے کہ یہ بِک ہے زیر سے ، اسے بَک یعنی زبر سے پڑھنا زبردست طور پہ منع ہے۔ کیا کہتے ہیں آپ بیچ اس مسئلے کے۔؟
فکر ناٹ جی
جب تک غریب ختم نہیں ہوتے جب تک تیل ہی تیل ہے ہر طرف
Leave A Reply