سابق لطیف کھوسہ ہم نے جان بوجھ کر لکھا ہے کیونکہ وہ صرف سابق اٹارنی جنرل ہی نہیں رہے بلکہ مکمل طور پر سابق ہو چکے ہیں یعنی اب ان کا نام صرف کہانیوں میں لیا جائے گا۔
لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس کی بحالی میں تب تک بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جب تک پیپلز پارٹی نے حکومت نہیں بنا لی۔ چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں ان کے گنج سے رستے خون والی تصویر نے اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ بنائی۔ بلکہ ٹی وی پر بھی ان کی ویڈیو چلائی جاتی رہی۔
چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک سے بیوفائی کے صلے میں انہیں تب اٹارنی جنرل بنا دیا گیا جب فاروق نائیک سینٹ کے چیئرمین بن گئے۔ ان کی قسمت بری تھی، چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک نے ایک نیا موڑ لیا اور چیف جسٹس بحال ہو گئے۔ یعنی لطیف کھوسہ نے جس تحریک کو راستے میں چھوڑا وہ کامیاب ہوئی اور وہ اپنا منہ دیکھتے رہ گئے۔
پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک دن بار کونسل کی ایک تقریب میں جا گھسے اور خوب ذلیل ہو کر نکلے۔ بعد میں وہ اٹارنی جنرل ہونے کے باجود منظر سے ہٹ گئے اور صرف ایک سرکاری وکیل بن کر رہ گئے۔
قسمت نے پلٹا کھایا اور ایک عورت نے ان پر لاکھوں روپے کی رشوت کا الزام لگا دیا اور وہ بھی ججوں کے نام پر۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے پاس انہیں ہٹانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیے پیپلز پارٹی نے سزا دینے کی بجائے ایک راشی وکیل کو وزیراعظم کا مشیر مقرر کر دیا۔ ان کی موجودہ شہرت کی بنا پر تو یہی لگتا ہے کہ ان کی خدمات ایک راشی ماہر کے طور پر حاصل کی گئی ہیں یعنی وہ وزیراعظم کو رشوت لینے کے ڈھنگ سکھایا کریں گے۔
کل عدالت میں لطیف کھوسہ صاحب اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور چیف جسٹس کیساتھ الجھ پڑے۔ انہوں نے بہتیرا سمجھایا کہ مقدمے پر بات کریں مگر کھوسہ صاحب ذاتی تو تکار پر اتر آئے۔ سزا سے بچنے کیلیے ملزمان آخر میں دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ان پر مقدمہ چلا تو وہ سارے پول کھول دیں گے اور یہی حربہ کل کھوسہ نے آزمایا۔ مگر اب وہ حربہ چلنے والا نہیں کیونکہ ان کا واسطہ چیف جسٹس سے نہیں بلکہ ان کی اپنی کرپٹ حکومت سے پڑا ہے اور کھوسہ میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ سانپ کی بل میں ہاتھ ڈالیں۔
یقین نہیں آتا کہ غداری کا بدلہ اتنی جلدی مل جاتا ہے جتنی جلدی کھوسہ کو ملا۔ یعنی دو سال کے اندر اندر پہلے چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک سے شہرت حاصل کی، پھر تحریک کو راستے میں چھوڑا، اٹارنی جنرل بنے اور کل ملزم بن کر چیف جسٹس کی عدالت ميں کھڑے تھے۔ واہ ری قدرت تیرے سارے کام نرالے۔
5 users commented in " سابق لطیف کھوسہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackخاطر جمع رکھئے چیف جسٹس میں اتنا حوصلہ نہیںکہ کھوسہ کو پول کھولنے پر مجبور کردیں۔ اگر پول کھلے تو چیف سمیت کافی لوگ سرعام مزید رُسوا ہوجائیں گے۔
گو میں چیف جسٹس کا حمائیتی ہوں لیکن یہ مقدمہ ان کو نہیں سننا چاہئیے کیونکہ وہ کھوسہ کے معاملے میں بغض کا شکار ہوسکتے ہیں۔
دنیا یا تو فورا بدلہ لے لیتی ہے نہیں تو کچھ لوگوں کو ایسی ڈھیل دیتی ہے کہ وہ اپنی نخوت وتکبر میں بیحد آگے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر غرور وتکبر والے کا یہی حال ہونا چاہئے۔ خدا ان سب کو ایسا ٹھکانے لگائے کہ پھر نہ ابھریں اور ایسی قیادات پاکستان کو مہیا کرے جو بحرانوں سے نکل کر چوٹی پر لے جائے۔ آمین
راشی کا لفظ رشوت دینے والے پر اطلاق ہوتا ہے جبکہ لینے والے کو مرتشی کہتے ہیں۔
راسخ صاحب
باتیںآپ کی درست ہیں اور تصیح کا بھی شکریہ مگر کنفیوژن باقی ہے۔ راشی اگر رشوت دینے والے کو کہتے ہیں تو پھر راشی افسر کی اصطلاح شاید غلط استعمال ہوتی ہو گی۔ کوئی اردو داں اگر اس غلط فہمی کا ازالہ کر دے تو نوازش ہو گی۔
گنج سے خون نکلنے کی بھی بات خوب یاد کروائی
میں تو کہتا ہوں کہ میرا خیال ہے کہ نلکے کے نیچے بیٹھا نہا رہا ہو گا اور جلدی میں اٹھتے ہوئے ٹنڈ مار دی ہو گی نلکے میں، اور آ گیا کہ وکلا تحریک میں ٹنڈ پھڑوائی ہے
Leave A Reply