ہمارے بلاگر دوست افتخار اجمل، شعیبب صفدر، سیدہ شگفتہ، نعمان اور فرحان دانش پہلے ہی اس دہشت گردی اور بعد میں ہونے والے نقصان پر اپنا احتجاج درج کرا چکے ہیں۔ یہ واقعی بہت دردناک سانحہ ہے اور اس سے بھی دردناک بعد میں جلاؤ گھیراؤ کا واقعہ ہے۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق اب تک ۳۰ ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ ۳۰ ارب روپے بہت بڑی رقم ہے اور حکومت نے ازالے کا وعدہ تو کیا ہے مگر اس نقصان کا ازالہ حکومت کے بس کی بات نہیں ہو گی۔
ہمیں پہلے ہی خطرہ تھا کہ ذوالجناح کے جلوس پر کہیں نہ کہیں حملہ ضرور ہو گا کیونکہ جتنی بھی احتیاط کی جائے اس طرح کا ہجوم دہشت گردوں کیلیے سب سے آسان نشانہ ہوتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت اس دفعہ شیعہ حضرات سے جلوس نہ نکالنے کی درخواست کرتی اور عزہ داری اپنے اپنے امام باڑوں کی چاردیواریوں میں کی جاتی۔ مگر چونکہ تازیہ نکالنا شیعہ حضرات کے مذہب کا حصہ بن چکا ہے اسلیے انہیں امام باڑوں کی چاردیواریوں تک محدود رکھنا ناممکن تھا۔
سب کے تجزیے اپنی اپنی جگہ درست لگتے ہیں۔ یہ دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے دکانوں کو آگ لگائی اور مشتعل عزہ دار بھی جو اپنوں کی اموات دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ سکے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے شیعہ مخالف مسلک کے لوگوں کا یہ کام ہو۔ اگر ماضی کو سامنے رکھا جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ فرقہ واریت ہی اس کا سبب ہو گی یا پھر عام نوجوانوں نے لوٹ مار کیلیے آگ لگائی ہو۔ اب چونکہ میڈیا ہر جگہ موجود ہے تو ٹی وی کی ویڈیوز سے آگ لگانے والوں کو پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ اگر چند شرپسند بھی پکڑے گئے تو اس دہشت گردی کے پیچھے چھپے ہاتھ کو سامنے لانا مشکل نہیں ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ پکڑے جانے والے اگر کسی بڑی پارٹی کے کارکن نکلے تو معاملہ وہیں دب جائے گا۔ اب یہ شہری، صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس دہشت گردی کے اصل محرکات کو جاننے کیلیے کتنی مخلص اور سنجیدہ ہیں۔
7 users commented in " کراچی میں دہشت گردی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackعمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے ” اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر اُس کیلئے جواب دہ ہے”۔ يحاں لوگ بھوک سے بھی مر رہے ہیں اور بم دھماکوں اور گولیوں سے بھی اور حکمران آئیں وائیں شائیں کر رہے ہیں
اجمل صاحب
ساری بات ایمان اور اللہ کے خوف کی ہے
یہ وہ لوگ تھے جو صحابیوں میں بھی اعلیٰ ہونے کے باوجود اللہ سے ڈرتے تھے اور اور اپنے ہر عمل کی جوابدہی کا یقین رکھتے تھے
رضی اللہ عنہ!
مگر تف ہے ان خبیثوں پر جن کا مزہب ہی ایسوں کو لعن تان کرنا ہے
یہ بات درست محسوس نہیں ہوتی کہ اتنے بڑے پیمانہ پر جلاؤ گھیراؤ میں مشتعل عزہ دار یا پھر شیعہ مخالف فرقہ ملوث ہوسکتا ہے۔ یہ خودکش بم دھماکہ میں ملوث پاکستانی طالبان یا پھر کوئی تیسرا گروہ ضرور ملوث ہوسکتا ہے جو کراچی کے کاروباری حالات کو خراب کر کے اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل میں کارفرما ہے۔
یہ عزادار نہیں تھے! جو تھے وہ واقعی دہشت گرد تھے!
میں یہاں یہ بتا دوں جلاؤ گراؤں کا انداز وہ ہی تحا جو 9 اپریل 2008 کو وکلاء کے جیمبر بلانے والوں کا تھا اور کیمیکل بھی وہ ہی استعمال ہوا ہے!
اللہ تعالٰی رحم فرمائے۔
آپ کو اور آپکے اہل خانہ کو نيا سال مبارک
کراچی میں ہونے والے اس سانحے نے ایک بار پھر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ کراچی کی پولس اور قانون نافز کرنے والے ادارے نہ تو پیپلز پارٹی کی حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور نہ ہی ایم کیو ایم کی حکومت کے کنٹرول میں تھے، بلکہ ان کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں اور کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں اس بات کا ثبوت پہلے بھی ملتا رہا ہے خواہ وہ 12 مئی کا واقعہ ہو یا 27 دسمبر کا یا 9اپریل کا ان کی کارکردگی ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہی ہے!اگر ہم کراچی کو آئندہ ایسے کسیسانحے سے محفوظ رکہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیئے لازم ہے کہ کراچی میں پولس کراچی کے رہنے والوں پر مشتمل ہو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مکمل کنٹرول یہاں کی حکومت کے پاس ہو ورنہ ایسے سانحے بار بار ہوتے رہیں گے اور ہم خفیہ ہاتھ تلاش ہی کرتے رہ جائیں گے،
رہیافضل صاحب کی یہ بات،
اب چونکہ میڈیا ہر جگہ موجود ہے تو ٹی وی کی ویڈیوز سے آگ لگانے والوں کو پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ اگر چند شرپسند بھی پکڑے گئے تو اس دہشت گردی کے پیچھے چھپے ہاتھ کو سامنے لانا مشکل نہیں ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ پکڑے جانے والے اگر کسی بڑی پارٹی کے کارکن نکلے تو معاملہ وہیں دب جائے گا۔ اب یہ شہری، صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس دہشت گردی کے اصل محرکات کو جاننے کے لیئے کس قدر مخلص اور سنجیدہ ہے!
میراجواب،
جناب صرف میڈیا نہیں سٹی گورنمنٹ کے کیمرے بھی موجود تھے اور انہوں نے مجرموں کو کیپچر کیا ہے،
جس کی بنیاد پرچند خبث باطن رکھنے والوں نے تو یہاں تک الزام لگایا تھا کہ سٹی گورنمنٹ ان کیمروں کی فوٹیج کو اسی لیئے منظر عام پر نہیں لا رہی کہ اس لوٹ مار میں ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ملوث ہیں!
اب جبکہ سٹی گورنمنٹ کے کیمروں کی فوٹیج منظر عام پر آچکی ہیں اورانکیبنیادپرپولسکچھ پکڑ دھکڑ بھی کررہی ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ چور کا بھائی گرہ کٹ کے مترادف اپنے کتنے بھائی بندوں کو پکڑتی ہے ویسے پولس والوں کسی کے بھائی نہیں ہوتے وہ صرف اپنے مفادات کے لیئے مجرموں کو پالتے ہیں اور جب مجرم منظر عام پر آجائے تو کسی پولس مقابلے میں انکا صفایا کردیتے ہیں اسے کہتے ہیں چپڑی اور دو دو اپنا نام اور عزت بھی محفوظ رہتی ہے واہ واہ بھی ہوجاتی ہے اور نئے پلے مجرم خوفزدہ بھی رہتے ہیں ،یہ ہے اصل صورتحال اور حکومت کے اندر چلتی ایک اورحکومت!
Leave A Reply