حکومت کے ذرائع نے بتایا ہے کہ جنرل صدر پرویز مشرف نے برطانوی شہری مرزا طاہر حسین کی پھانسی کی سزا کو عمرقید میں بدل دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ وزیرِ اعثم شوکت عزیز نے صدر سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پھانسی کو عمر قید میں بدلنے کی سفارش کی تھی۔
اس وقت ملک سیاسی اکھاڑے کا منظر پیش کررہا ہے۔ پہلے سرحد حکومت نے حسبہ بل پاس کیا اور اب حکومت نے حقوقِ نسواں بل پاس کر لیا ہے۔ اس کے بعد ایم ایم اے اس مخمصے کا شکار ہوگئ ہے کہ وہ استعفے دے کہ نہ دے۔
اسی شوروغل کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ جنرل صدر نے مرزا طاہر حسین کی پھانسی کی سزا کو عمر قید ميں بدل دیا تاکہ میڈیا اور عوام کی اسطرف نظر ہی نہ جاۓ۔ اسے کہتے ہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ظاہر ہے جنرل صدرِ پاکستان نے اپنے حلیف برطانیہ کے دباؤ میں آکر یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے پھانسی کی سزا کو دو ماہ کیلۓ اسی لۓ مؤخر کیا گیا تھا تاکہ یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ سکے اور کسی مناسب موقع پر اس کو بدلا جاسکے۔ مقتول جمشید خان کے وارث ٹھیک کہ رہے ہیں کہ وہ غریب آدمی ہیں ان کی کون سنے گا۔ اسی طرح اس سے پہلے جب مختاراں مائی کے مجرموں کو عدالت نے رہا کیا تو حکومت نے بین الاقوامی دباؤ میں آکر انہیں پھر گرفتار کرلیا اور وجہ امنِ عامہ قرار پائی۔ اب چونکہ مرزا طاہر حسین پہلے ہی اٹھارہ سال سزا بھگت چکا ہے اسلۓ جلد ہی رہا کردیا جاۓ گا اور وہ چپکے سے برطانیہ چلا جاۓگا۔
ہم تو شروع سے ہی اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا میں نہ کوئی جمہوریت ہے اور نہ انصاف ہے۔ اگر یہ دونوں چیزیں ہوتیں تو کئی ممالک میں انتخابات جیتنے والی پارٹیوں کو حکومت دینے کی بجاۓ مارشل لاء نہ لگا دیۓ جاتے۔ یو این او میں بڑی طاقتوں کے پاس ویٹو پاور نہ ہوتی۔ لاہور کے ایک علاقے کا ناظم سرِ عام مجروں میں شرکت نہ کر رہا ہوتا اور ہماری فوجی حکومت جمہوریت کی آڑ میں ہر محکمے کی سربراہ نہ بنی بیٹھی ہوتی۔
عدل سے یہی کہا جاتا رہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ آج لاٹھی جنرل صدر مشرف کے ہاتھ میں ہے اور انہوں نے نواز شریف، بینظیر، جاوید ہاشمی جسیے منہ زور سیاستدانوں کو کھڈے لائن لگا رکھا ہے۔ کل حکومت جب کسی اور کی ہوگی تو پتہ نہیں پھر کس کس کی کمبختی آۓ گی۔
اسی لۓ میری مقتول کے وارثوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ اس وقت کا انتظار کریں جب وقت کی بے آواز لاٹھی ظالموں پر برسے گی اور پھر انہیں بچانے والے بھی ہھاگ جائیں گے۔ ویسے یہ لوگ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔
7 users commented in " برطانوی شہری مرزا طاہر حیسن کی پھانسی کی سزا ختم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجناب ایسا تو ہوتا ہے ایسے معاملات میں!!!! شہزادے کا پاکستان آنے کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ طاہر کو باہر نکالا جائے!!! یہ بات سچ ہے کہ صرف مقتول کے وارثوں کو معافی کا اختیار ہونا چاہئے!!!! ان کی غیر موجودگی میں ریاست کا سربراہ جو بہتر سمجھے وہ کرے!!!! اگر اس میں سمجھ ہو تو!!!! جان کس کی اہم ہے!!! اپنے شہری و عوام کی یا ان کے بندے کی جن کی چاکری ہو رہی ہے!!!!
دیکهیں اس معاملے میں بہت سی باتیں مشکوک تهیں ـ همارے اخباری علم کے مطابق ملزم بیان کرتا هے که اس نے حفاظت خود اختیاری میں ایسا کیا ـ
قتل کی سزا قتل بات تو ٹھیک هے که اللّه سائیں کا حکم ہے ـ
مگراس سے پہلے اٹهارا سال کی قید کس کهاتے میں جائے گی ؟
جہاں تک بات هے پرنس چارلس صاحب کی سفارش کی ـ تو جناب پہلے ان کو اس بات کا یقین دلایا گیا هو گا که مرزا طاہر حسین مظلوم ہے ـ
پهر آپنے ملک کے شہریوں کے لئے کام کرنے کی برطانوي ریٹیوٹیشن کچھ اس طوح کی ہی هے ـ آپ برطانوی حکام کو یقین دلادیں یا ان کو اس بات کا یقین هو که آپ حق پر هیں تو پهر هر حد تک آپکی مدد کی جائے گي ـ
ٹائپ کرنے میں غلطی هو گئي لفظ هے
ریپُوٹیشن
خاور، اخباری رپورٹس پر مبنی علم تو خاصا ناقص بھی ہو سکتا ہے۔ میڈیا اور خصوصاً بی بی سی میں صرف مرزا طاہر کا مؤقف بیان کیا جاتا رہا ہے۔ بھول کر ایک مرتبہ مقتول کے خاندان کی بات بھی شائع کر دی تو پتا چلا کہ مقتول کا نام جمشید تھا۔ جمشید کے باپ نے یہی کہا تھا کہ میڈیا مسلسل یکطرفہ کہانی بیان کرتا آیا ہے۔ اس کے پاس ایک خط بھی موجود تھا جس میں مرزا طاہر نے اپنی تحریر میں جمشید کے قتل کا اعتراف کیا ہے اور اس کی معافی طلب کی ہوئی ہے۔ اب بتائیں کہ کس کا یقین کیا جائے؟
بی بی سی اور دوسرے مغربی میڈیا میں اس معاملے کی پروجیکشن صرف سزائے موت کے حوالے سے ہو رہی ہے کہ موت کی سزا دینا انسانیت کے خلاف ہے۔ وہاں بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتار دینے والوں کو بھی نفسیاتی مریض قرار دے کر محض کچھ سال قید کی سزا دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جاؤ اپنی کارکردگی دہراؤ۔
ایک چھوٹی سی بات ہمارے چھوٹے سے دماغ میں بھی آئ تھی اور وہ یہ کہ اگر یہ پتہ چل جاتا کہ وہ بندوق جس سے جمشید کو قتل کیا گیا کس کی ملکیت تھی،اگر جمشید کی ملکیت تھی تو اس نے باہر کیوں نکالی،اس سے کیس مرزا طاہر کے حق میں جاتا ہے اور اگرطاہر کی ملکیت تھی تو پھر اس کے مجرم ہونے کے چانسس زیادہ ہیں،بحر حال اب تو مقدمہ ختم ہوا اگلی پیشی سب کی بڑی ادالت مین ہونا ہے،
عدالت میں،
بہرحال
Leave A Reply