باپ نے بیٹے کی جوانی کی پچیس بہاریں دیکھیں اور بیٹے کی شہ زوری اور جوانی پر خوب اتراتا رہا۔ اس کا بیٹا ہر فن مولا تھا یعنی ہر کھیل میں آگے۔ اس نے باڈی بلڈنگ شروع کر دی اور ضلع کا چیمپین قرار پایا۔ کرکٹ میں اتنا طاقتور کہ شاہد آفریدی کی طرح چھکے لگانے کا ماہر۔ جہاں بھی اسلم جاتا وہ اپنے بیٹے کے نام سے جانا پہچانا جاتا۔
اسلم کا باپ اور دو چچا کمہاروں کا کام کرتے تھے اور ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ ان کے پاس ایک کھوتی ہوتی تھی جس پر وہ چکنی مٹی لاتے اور برتن بناتے۔ جوان تھے اور بچوں میں خود کفیل تھے۔ گرمیوں میں رات کو اکثر گلی میں ہی سو جایا کرتے۔ اتنی سخت محنت نے ان کے دماغ بھی اکھڑ بنا دیے تھے۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا کہ وہ آپس میں لڑا نہیں کرتے تھے۔ انہی لڑائی جھگڑوں میں ان کی اولادیں جوان ہو گئیں۔ اولادوں نے کمہاروں کا کام کرنے کی بجائے دوسرے پیشے اختیار کر لیے۔ اسلم نے مستریوں کا کام سیکھا اور باہر چلا گیا۔ اس کی شادی ہوئی اور اس کی غیرموجودگی میں ہی بچے جوان ہو گئے۔
پچھلے سال ہم پاکستان گئے تو اسلم بھی اٹلی سے آیا ہوا تھا۔ وہ بہت بڑا گھر بنوا رہا تھا۔ ایک دن وہ ہمیں گھر کے سامنے ایک جوان لڑکے کسیاتھ ملا اور پوچھنے لگا کہ پہچانو یہ کون ہے۔ ہم نے مذاق سے کہا تمہارا بھائی کیونکہ اسلم اب بھی جوان ہی لگ رہا تھا۔ کہنے لگا نہیں یہ میرا بیٹا ہے اور میں اس کی جلد ہی شادی کرنے والا ہوں۔
چند ماہ قبل دوست نے بتایا کہ اس نے بیٹے کی دھوم دھام سے شادی کی اور وہ نئے گھر میں اکٹھے رہنے لگے۔ ابھی گھر کو مکمل ہوئے اور بیٹے کی شادی کئے چند ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ اپنے بزرگوں کی طرح ان کے گھر میں بھی لڑائی شروع ہو گئی۔ پہلے ساس بہو لڑیں پھر باپ بیٹا بھی میدان میں کود پڑے۔ اس لڑائی کی وجہ سے اسلم نے بیٹے کو بہو سمیت گھر سے نکال دیا۔
تمام دوست احباب نے اسلم کو بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بضد رہا کہ بیٹا جب در در کی ٹھوکریں کھائے گا تو خود ہی سیدھا ہو جائے گی۔ بیٹے کی کمائی چونکہ زیادہ نہیں تھی اس لیے چند دنوں میں ہی وہ ہمت ہار بیٹھا۔ لیکن اس نے ایسا قدم اٹھایا جو بہت کم لوگ اٹھاتے ہیں۔ یعنی بجائے اس کے کہ وہ اپنے باپ سے معافی مانگ کر صلح کرتا، ایک دن وہ بیوی سمیت ماں باپ کی اجازت کے بغیر اپنے گھر واپس آ گیا۔ جب باپ گھر آیا تو بیٹا بولا ابا میں گھر واپس آ گیا ہوں اور اب اگر مجھے گھر سے نکال سکتے ہو تو نکال کر دکھاؤ۔ اسلم نے جب دیکھا بیٹا تن کر سامنے کھڑا ہو گیا ہے تو اس نے خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
وہ دن اور آج کا دن نہ ساس بہو کی لڑائی ہوئی ہے اور نہ باپ بیٹے کی۔ کیونکہ ماں بھی بیٹے کے خوف کی وجہ سے بہو کو کچھ نہیں کہتی اور باپ ویسے ہی اٹلی واپس چلا گیا ہے۔
3 users commented in " پلٹ کر جھپٹنا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackابا جان تو بہت ڈرپوک نکلے سوکھی اکڑ سے ہي ڈر گئے کمائی کر کے تھوڑا ہی کھلا رہا تھا بيٹا انکا جو ساری فيملی دبک کر بيٹھ گئی ميرے تو ايسے بہو بيٹا ہوں تو لال سرخ کر کے ايسا نکالوں کہ مڑ کر ميري گلی ميں آنا بھول جائيں کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے
میں تو ڈر گیا ہوں پہلا تبصرہ پڑھ کر ۔ بھاگ یہاں سے اپنی خیر چاہیئے تو
اسکا صحیح عنوان ہونا چاہئیے تھا۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔
Leave A Reply