سينٹ کے وقفہ سوالات ميں جب حکومت سے پوچھا گيا کہ عالمي مارکيٹ ميں تيل کي قميتيں 75 ڈالر في بيرل سے 59 ڈالرفي بيرل تک کم ہوچکي ہيں مگر پاکستان ميں پٹرول کي قيمتيں کم نہيں کي جارہيں۔ اس کے جواب ميں وفاقي حکومت کا کہنا تھا کہ حکومت اب تک 80 ارب روپے کا خسارہ برداشت کرچکي ہے اور جب تک يہ پورا نہيں ہوگا تيل کي قيمتيں کم نہيں کي جائيں گي۔
يہ بات ريکارڈ پر ہے جن بھي ملکوں نے ترقي کي ہے يا جو اب بھي ترقي يافتہ ہيں انہوں نے بجلي تيل گيس ہميشہ سستي مہيا کي ہے اور يہي دنيا کے بڑے بڑے اکانومسٹ کا اصول رہا ہے۔ اسي اصول کي بنا پر بھارتي پنجاب ميں حکومت کسانوں کوبجلي مفت فراہم کررہي ہے۔ کيا يہ اصول ہمارے ماہرِ معاشيات جوبيک وقت وزيرِ خزانہ اور وزيرِ اعظم ہيں کي نظر سے نہيں گزرا؟
ہم پہلے بھي کئي بار اس موضوع پر اظہارِ خيال کرچکے ہيں مگر نتيجہ صفر ہي رہا ہے۔ جب تيل کي قيمتيں علامي مارکيٹ کے اتار چڑھاؤ پر چھوڑي گئيں تو يہي کہا گيا تھا کہ آج کے بعد پٹرول اسي طرح سستا مہنگا کيا جاۓ گا۔ يہ سسٹم تب تک تو چلتا رہا جب عالمي مارکيٹ ميں تيل مہنگا ہوتا رہا ليکن جب تيل سستا ہونے کي باري آئي تو حکومت کي نيت ميں خلل آگيا اور خسارے کا جواز گھڑا گيا۔ حيراني اس بات پر ہے کہ حکومت ڈھٹائي کيساتھ وعدے سے مکرتي ہے اور اس کے چہرے پر ملال تک نہيں آتا۔ يہ سب پرويز صاحب کے وردي بدلنے کے وعدے سے مکرنے کے بعد سے حکومت کا وطيرہ بن چکا ہے اور اسے وعدوں سے پھرتے ہوۓ بلکل شرم نہيں آتي۔
سينٹ ميں سوال پوچھنے والے کو اگر دوسرا سوال پوچھنے کي اجازت ہوتي تو وہ ضرور پوچھتے کہ اب تک حکومت کتنا خسارہ پورا کرچکي ہے اور 80 ارب کا خسارہ کب پورا ہوگا؟ کيونکہ اب اميد تو يہي ہے کہ عالمي مارکيٹ ميں تيل کي قيمتيں شائد ہي 75 ڈالر پر دوبارہ پہنچ پائيں۔ حکومت کو ايک نہ ايک دن پٹرول کي قيمتيں کم کرنا ہي ہوں گي۔
5 users commented in " 80 ارب کا خسارہ کب پورا ہوگا؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسر ایک بات اور یہ کہ آپ کل کی معاشیات میں وہ منافع جو ہونا ہو مگر نہ ہو اسے بھی خسارہ سمجھا جاتا ہے!!! کیا ایک سوال یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ یہ کون سا خسارہ ہے وہ جو منافع ہونا تھا یا وہ جسے حکومت نے اپنی جیب سے بھرا؟؟؟؟؟
گزشتہ دنوں سینٹ میں دیا جانے والے بیان حکومت کی ساہوکارانہ اور تاجرانہ ذہنیت کا عکاس ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ وہ اس ملک کے عوام ، جو اس ملک کے اصل مالک ہیں ، کے ساتھ بھی گاہک جیسا سلوک روا رکھ رہی ہے ۔
حکومت کا منافع پورا کرنے والا بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں نمایاں کمی پر ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا جبکہ کم و بیش ایک ماہ کا عرصہ اس بیان کے بعد بھی گزر گیا ہے ۔ یوں اگر حکومت ہی کے فارمولے پر دیکھا جائے تو ایک ماہ بعد عوام حکومت کا وہ احسان چکھا دیں گے جو ان پر واجب آلادا چلا آرہا تھا۔
مطلق العنان حکومت
السلام علیکم
جناب سر افضل صاحب۔میں نے آپکی ان دی لائن آف فائر سیریز کو اپنی نئی بنائی گئی اردو لائیبریری میں سجا دیا ہے۔امید ہے آپ اس کا برا نہیں مانیں گے۔دراصل میرے لئے یہ یادگار تحریر ہے جس میں سچ کی آنچ زیادہ ہے۔
اگر آپ اجازت دیں گے تو میں آپ کی اورتحریریں بھی اس کتب خانے کی زینت بنانا چاہوں گا۔بلکہ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ میرے کتب خانے کو بھی ساتھ ساتھ رونق بخشیں۔
کتب خانے کا پتہ
http://urduhome.com/library
آپ کی ان دی لائن آف فائر کا پتہ
http://urduhome.com/library/InTheLineOfFire
شیخو
جناب افضل صاحب !
ایک تو یہاں تبصرے میں (ۃ،ے،ں) وغہرہ نہیں لکھے جارہے ہیں ۔
دوسرے جتنے بھی دوستوں کا ویبلاگ “بلاگ سپاٹ“ میں رجسٹرڈ ہیں وہ نہیں دیکھے جارہے ہیں۔ ۔ میں چاہتا ہوں کہ شعیب صفدر، شاکر عزیز،خاور کھوکھر،اجمل بھوپال، قدیر احمد رانا ، نبیل ، منیر طاہر صاحبان اور دیگر دوستوں کا ویبلاگ وزٹ کروں لیکن ناکام ! کیا کروں ۔
Leave A Reply