آج حکومت نے ججز کی تقرری کا نوٹیفکیشن واپس لے کر ایک دفعہ پھر ہزیمت اٹھائی ہے۔ وہی ہوا جو پہلے ہوتا آ رہا ہے یعنی ہر برائی صدر زرداری کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے اور ہر اچھائی وزیراعظم کے کھاتے میں۔ صدر کے احکامات پر عمل درآمد سپریم کورٹ نے نہیں کیا اور بعد میں وزیراعظم نے اسے واپس لیکر سپریم کورٹ کی مرضی کیمطابق ججوں کی تقرری میں ردوبدل کر دیا۔ جج رمدے صاحب کو ایک سال کیلیے ایڈہاک مقرر کر کے حکومت نے سپریم کورٹ کو خیرسگالی کا پیغام بھی دے دیا ہے۔
پتہ نہیں اس کے پیچھے کونسا راز چھپا ہوا ہے کہ حکومت پہلے طاقت کے دوسرے ستون سے پنگا لیتی ہے اور پھر پسپائی اختیار کر لیتی ہے۔ ہو سکتا ہے اس طرح حکومت یہ ٹیسٹ کرتی ہو کہ اس کی عوامی مقبولیت کتنی ہے اور حزب اختلاف میں کتنا دم ہے۔ ورنہ تو کوئی حکومت بار بار ہزیمت اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
لگتا ہے صدر زرداری نے جو نجومی اپنے مستقبل کا حال جاننے کیلیے رکھا ہوا ہے اس کا ستارہ گردش میں ہے کیونکہ اس کا ہر مشورہ الٹا پڑ رہا ہے۔ ہم تو صدر زرداری کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ نجومیوں کے چکر میں پڑنے کی بجائے عوام کو اپنا نجومی بنائیں اور ان کے جذبات دیکھ کر عوامی مقبولیت کے فیصلے کریں۔
8 users commented in " ایک قدم آگے دو قدم پیچھے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackیہ کسی کی ہار یا جیت کا مسئلہ نہیں بلکہ قانون کی بالادستی کا مسئلہ ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے
میرا خیال بھی یہی ہے کہ صدر زرداری یہ تمام فیصلے نجومیوں کو سامنے بٹھا کر کر رہے ہیں۔ نجومیوں کی پیشن گوئ ہے کہ اگر زرداری صاحب نے اپریل تک کا وقت نکال لیا تو اقتدار پہ باقی رہ جائیں گے۔ اور انکے اس قدم کے بعد مجھے تو یقیں ہو چلا ہے کہ یہ سب وقت نکالنے کی باتیں ہیں۔ اقتدار کے ساتھ تو، توہم پرستی جڑی ہوتی ہے۔ دوسرے اس طرح کے ڈراموں سے قوم بھی مصروف رہتی ہے۔ ملک میں فلمی صنعت کے زوال کے بعد اب یہی کام سیاستداں کر رہے ہیں۔ لیکن عوام کے لئے اس شو کی ٹکٹیں خاصی مہنگی ہیں۔
آجکل صدر زرداری کی قسمت خراب چل رہی ہے
آپ نے بھی عدالت کو طاقت کا ستون کہہ دیا۔ بس اسی بات کا ڈر ہے اور خاکم بدہن لگتا ہے یہی ہونے جارہا ہے۔ یعنی جن کی اوقات ہونی چاہئے (عوام) ان کی کوئی اوقات نہیں اور جو ان کے ملازمین ہیں وہ طاقت وغیرہا کے ستون بنائے جارہے ہیں۔
عوام نے اپنے نمائندے بھیج جو دیے ہیں پارلیمنٹ میں منہ میں گھنگینیاں ڈال کر بیٹھنے اور اپنے اپنے لیڈروں کےدفاع سے فرصت ملے گی تو سرچشمہ بھی بننے کا سوچیں گے شاید
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/02/100217_asma_judges_mah.shtml
عاصمہ کے فلسفے اختلافی ہوتے ہیں مگر اس وقت وہ جو کہہ رہی ہیں دل کو لگتی ہے۔ وکلا گردی بہت بھیانک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ مگر اصل ہاتھ پس پردہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ابھی عاصمہ بھی کترا رہی ہیں۔
میں جس ادارے کابیحد حمائتی ہوں ان کی وطن سے بے پناہ مبحت اور قربانیوں کے سبب ان سے میری یہی التجا ہوگی کہ وہ پاکستان کے دوسرے یا تیسرے درجے کے کرپٹ ترین ادارے کے سر پر صرف اس وجہ سے ہاتھ نہ رکھیں کہ ۔۔۔۔۔۔
“نہ کھلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے“۔
چوہدری صاحب کی بات بالکل درست ہے۔
Leave A Reply