پچھلے دنوں اخبارات میں ناظم میاں جاوید کی عیاشیوں کے چرچے ہوۓ اور ہم نے بھی اس پر “حدود آرڈینینس اور ناظم میاں جاوید” کے عنوان کے تحت لکھا تھا۔ اس کےبعد اخبارات کی اطلاعات کے مطابق خفیہ اداروں نے اس مقام کی تصویریں بھی بنائیں جہاں یہ عیاشی کا کھیل کھیلا گیا۔ مگر بعد میں حکومت نے کونسا ایکشن لیا یہ کسی کو معلوم نہیں۔
خدا کا کرنا ایسا ہواکہ اس مجرے کی کنجری سونو وال کے گھر پچھلے ہفتے ڈاکہ پڑا اور بقول سونووال کے سات آٹھ ڈاکو جن کی عمریں ۲۰ سے ۳۰ سال کے درمیان تھیں آدھی رات کو اس کے گھر گھس آۓ۔ اس کے گھر والوں کو رسیوں سے باندھا اور اسے گھسیٹتے ہوۓ دوسرے کمرے میں لے گۓ۔ سونووال کہتی ہے کہ جوان ڈاکوؤں نے اس پر صرف تشدد کیا مگر اطلاع یہی ہے کہ اس رات ڈاکوؤں نے سونووال کا گینگ ریپ کیا جس کی اس نے اخباری بیان میں تردید کی ہے۔ ہمارا قیاس بھی یہی کہتا ہے کہ پاکستانی ڈاکو ابھی اتنے شریف نہیں ہوۓ کہ وہ ایک کنجری کے گھر ڈاکہ ڈالیں اور اسے صرف تشدد کرکے چھوڑ دیں۔اس طرح تو یہ ڈاکو نہ ہوۓ طالبان ہوۓ، جنہوں نے سونووال کو اس کے گناہوں کی سزا دینے کیلۓ صرف تشدد کیا ہو۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ سونووال کیساتھ جو ہوا اچھا ہوا یا یہ قدرت کا انتقام تھا مگر سونووال کو یہ یاد رکھنا چاہۓ کہ جس طرح کے کاروبار میں وہ ملوث ہے اس میں اس طرح کے حادثے تو ہوتے رہیں گے۔ حقوقِ نسواں بل چونکہ لاگو ہوچکا ہے جس کی رو سے اخبارات گینگ ریپ کی خبر کو نہیں چھاپ سکتے۔ اچھا ہوتا اگر سونووال گینگ ریپ کا اقرار کرتی اور ڈاکوؤں کیخلاف مقدمہ درج کراتی شائد اسے بھی ایسا ہی انصاف مل جاتا جس طرح کا مشہور اداکارہ شبنم کو ضیاالحق کے دور میں ملا تھا۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈاکوؤں نے سونووال کو جان سے مار دینے کی دھمکی دی ہو اور سونووال یہ جانتے ہوۓ کہ حکومت اس کی حفاظت تو کرنہیں پاۓ گی اس نے خاموشي میں ہی اپنی عافیت سمجھی ہو۔ دراصل پکڑا تماشبین میاں جاوید نےجانا تھا اور پکڑی گئ بیچاری کنجری۔
10 users commented in " ایسا تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکچھ عجیب سی پوسٹ ہے۔ لگتا ہے جیسے آپ گینگ ریپ پر خوشی منا رہے ہوں۔
آپ کی اس بات پر که ڈاکو نه هوئے طالبان هوئے پڑه کر میرا ہاسا نکل گیا ـ
ہس ہس کے برا حال هوگیا ـ
اس دور میں اتنے مخلص لوگ ـ یه طالبان بهی آپنی مثال آپ هیں ـ
اللە انہیں کامیاب کرے ـ
میں زکریا کی بات سے متفق ہوں۔ جب وہ کہہ رہی ہے کہ نہیں ہوا تو آپ کو یہ اطلاع کیونکر ہے کہ گینگ ریپ ہوا ہے؟
وہی ہوا جس بات کا ہمیں خدشہ تھا۔ یہ پوسٹ لکھنے سے پہلے ہم نے سو بار سوچا اور بار بار سوچا کہ اس موضوع پر اس طرح لکھیں کہ وہ الزام ہمارے سر نہ لگے جس کا ذکر مہربان ذکریا نے کیا ہے۔
بہرحال اپنا نقطہ نظر ٹھیک طرح سے بیان نہ کرنے پر ہم معزرت خواہ ہیں۔
بھائیو اور بہنو !
القمر آن لائن ڈاٹ کام تقریبا ایک ماہ سے آن لائن نہیں تھا ۔ انہیں کوئی مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا یو آر ایل (URL) تبدیل کردیا ہے ۔ آج ہی مجھے ان کی طرف سے ایک تفصیلی ای میل ملا ہے تو نیچے دیا جارہا ہے ، آپ سے درخواست ہے کہ یہ یو آر ایل دیگر دوستوں کو بھی ای میل کردیں تاکہ سب کو اطلاع ہوسکے ۔
Dear Sir/Mam
Greetings
Due to some serious hackers’ attacks Al Qamar Online (www.alqamaronline.com) is available now on
http://www.alqamar.org
Please update your address book/ Directory/ Website Listing/ Web Pages
Note the New URL: http://www.alqamar.org
Please inform your Friends and colleagues as well about this change of URL Address
Use the following Email Address for further Correspondence
Official Email Address : mail@alqamar.org
News Desk: news@alqamar.org
To Send Literary Stuff: poetry@alqamar.org
General Inquiries info@alqamar.org
Contacts:
U.K +44 7796515479
U.S. +1 5163142803
France +33 680763697
Spain +34 933593077
Denmark +45 2216654
Germany +49 1726650343
Norway +47 94497861
Pakistan +92 3335211447
We apologize for inconvenience, but hope that new address will be more helpful and Easy to use.
Best regards.
Al Qamar Information Desk
info@alqamar.org
اگرچہ سونوال نے جو کچھ کیا یا وہ کررہی ہے وہ بھی ٹھیک نہیں لیکن کسی کے گھر میں گھس کر وہاں عورتوں پر تشدد کرنا اور اس بعد ازاں ان کی آبرویزی کرنا بھی کسی طرح قابل معافی نہیں ۔ یعنی کسی کو اس وجہ سے زنابالجبر کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ جس سے زنا کیا گیا وہ خود فحش تھی یا وہ جذبات کو ابھارنے والے کام کررہی تھی کیونکہ جس شخص نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اسلام اس سے بھی اسی طرح برداشت اور حدود کے پابندی کا تقاضا کرتا ہے جس طرح سے کسی فحش افعال میں مبتلا خاتون سے ۔
یہ سب باتیں معاشرے کی اصلاح و تربیت سے تعلق رکھتے ہیں دراصل حدود آرڈیننس کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہ بغیر کسی ابتدائی تیاری اور معاشرے کے تربیت اور اصلاح کے بغیر نافذ کئے گئے جس سے مسائل کم ہونے کی بجائے کچھ اور بڑھ گئے ۔ بہرحال افضل صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ وہ وہ کچھ نہیں کہنا چاہ رہے تھے جس قسم کا تاثر اس تحریر سے لیا جارہا ہے ۔
حدود آرڈیننس اور اب موجودہ حقوق نسواں بل پر میں ایک تفصیلی مضمون لکھ رہا ہوں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے ایک پوسٹ میرے ویبلاگ پر موجود ہے جس میں نئے بل پر چند علما کے آرا دی ہوئی ہیں اور جلد ہی میں اس پر ایک دو اور مضامین پوسٹ کرنے والا ہوں ۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ وہ مضامین دیکھ کر ان پر اپنی آرا سے آگاہ کریں ۔
يہ بات تو سہی ہے کہ جب زيادتی کی نشانہ بننے والی ايک بات کا اقرار نہيں کرتی تو خواہ وہ جھوٹ بول رہی ہو کسی دوسرے کو قيافہ آرائی کا اختيار نہيں ۔ ديگر بڑے گناہ کا تذکرہ اس کے مداوہ کيلئے تو کيا جا سکتا ہے ليکن کسی اور مقصد کيلئے نہيں ۔ آخری بات يہ کہ کوئی عورت کتنی ہی اوباش کيوں نہ ہو کسی کو اس سے زيادتی کا حق حاصل نہيں ہے ۔
ميں نے جو کچھ اوپر لکھا ہے يہ دين اسلام کا فلسفہ ہے اور اس سے بڑی بدقسمتی کيا ہو سکتی ہے کہ مسلمان کہلانے والوں کی اکثريت اس سے ناواقف ہے ۔
اجمل صاحب !
آپ کا ویبلاگ نہیں کھل رہا ، میں وزٹ کرنا چاہتا ہوں کوئی طریقہ بتادیں ۔ جن جن دوستوں کا ویبلاگ اردوسپاٹ میں ہے وہ نہیں کھل رہے ہیں ۔ براہ کرم کوئی طریقہ بنادیں ۔
ای میل کریں : roghani7@gmail.com
شکریہ
السلام علیکم!
میں زکریا بھائی کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ کوئی عورت بھی اپنی مرضی سے رنڈی، کنجری وغیرہ نہیں بنتی۔عورت کو اس گرے ہوئے مقام پر مرد ہی لیکر جاتا ہے۔ جب عورت یہ کام کرے تو کنجری لیکن مرد جو اس کے پاس جا کر منہ کالا کرے اسے کچھ بھی نہ کہا جائے۔ آپ کم از کم اگر اس ناظم کو کنجر لکھ دیتے، تو تحریری توازن آپ کا ٹھیک رہتا۔ اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو ایمان کی بہترین حالت میں موت عطا فرمائے چاہے وہ کوئی کنجری ہے یا بزرگ۔
mansoor.lahore@gmail.com
mail karein i m from lahore…m/26
Leave A Reply