پاکستان میں اگر حکومت کرپشن اور رشوت ختم کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے تو اسے پانچ ہزار نیک اور ایماندار پاکستانیوں کی ضرورت ہو گی۔ وہ پانچ ہزار محب وطن شہری مولوی بھی ہو سکتے ہیں، خفیہ والے بھی، سرکاری ملازم بھی اور تبلیغی جماعت والے بھی۔
ان پانچ ہزار کی پاک فوج کو ملک کے کونے کونے میں پھیلا کر حکم دیا جائے کہ وہ کرپٹ اور راشی افسران کو رنگے ہاتھوں پکڑنے میں مدد دیں۔ یہ لوگ ملک کے ہر تھانے، عدالت، سکول سمیت تمام سرکاری محکموں کاعام شہری کے بھیس میں دورہ کریں گے اور متعلقہ افسر کے رشوت مانگنے پر اسے رشوت دیتے ہوئے خفیہ کیمرے یا ٹیپ ریکارڈر سے ثبوت اکٹھے کر لیں۔ ان ثبوتوں کی روشنی میں راشی اور کرپٹ افسر کو سخت سے سخت سزا دے کر باقی بچ جانے والے افسروں کیلیے عبرت بنا دیا جائے۔ حکومت اگر اس پلان پر چھ ماہ عمل کرے تو کرپشن اور رشوت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ حکومت اگر چاہے تو۔
اب آپ کہیں گے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ پانچ ہزار اہلکار ایماندار ہوں گے۔ اس کا بھی علاج ہے۔ ان اہلکاروں کو پہلے تو تنخواہ معقول دی جائے، پھر کرپٹ اور راشی افسر سے ملنے والے جرمانے میں حصہ دیا جائے اور آخر میں ان پانچ ہزار کے اوپر بھی ایک دو درجن خفیہ والے لگا دیے جائیں۔ اگر ان پانچ ہزار میں سے کوئی حرامی نکلے تو اسے سرعام پھانسی دے دی جائے۔
9 users commented in " کرپشن اور رشوت کا علاج "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپکی بات سے ملکی حالات پہ آپ کی فکر مندی اور درد ٹپکتا ہے۔ دنیا میں بہت سی قومیں ہم سے بھی ذیادہ بد تر حالات سے واپس پلٹیں اور آج کے دور میں بھی ماضی کی کچھ گئی گزی قومیں عزت سے جی رہی ہیں۔ جس مسئلے کی آپ نے نشاندہی کی ہے۔ بلاشبہ اسے حل کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ کچھ انقلابی ہونگے اور کچھ روائتی بھی ہوسکتے ہیں۔ آپ کے تجویز کردہ طریقہ کار کو بھی آزمایا جاسکتا ہے ۔ طریقہ کار کوئی بھی ہو۔ اسے آزمانے کے لئیے بنیادی چیز خلوص نیت ہے۔ اور پاکستان کے بااختیار طبقے میں پاکستا کے لئیے خلوصِ نیت کا زبردست فقدان پایا جاتا ہے۔یہ تو وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالٰی یا قرآنِ کریم کا ذکر بھی تبھی کرتے ہیں جب انھوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئیے اللہ تعالٰی یا قرآنِ کریم کی قسم اٹھوانی ہو۔
گُڈ گورنس یا سکھا شاہی کا تعلق نظام سے زیادہ نیت کے خلوص اور نیت کے فتور سے ہوتا ہے۔بدنیت اور بد دیانت آدمی مسجد میں بیٹھ کر بھی ہیرا پھیری اور بدیانتی کا کوئی رستہ نکال لے گا۔ جبکہ نیکو کار اور دیانتدار انسان مواقع ہونے کے باوجود بھی بدیانتی سے باز رہے گا۔ اسی طرح کا معاملہ حکمرانوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسے بھی ممالک ہیں جن کے آئین چند رسومات و روایات اور چند ایک صحفات کے کامن لاء پہ محیط ہیں مگر وہ محض دیانتداری اور خلوصِ نیت کی وجہ سے دنیا کی کامیاب ترین قوموں کی صف میں کھڑے ہیں اور اُنھیں ہماری طرح کرپشن کے خلاف نت نئے طریقے بھی نہیں سوچنے پڑتے۔
کس کس کو پکڑوائیں گے یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑاہوا ہے!
مرزا اختیار بیگ ایک جانی پہچانی تجارتی شخصیت ہیں اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑ چکے ہیں گہ کہ اس نشست سے خوش بخت شجاعت جیتی تھیں اور انہیں مشیر بنالیا گیا،اب اگر وہ کچھ کہہ رہے ہیں تو ۔۔۔۔۔
http://www.jang-group.com/jang/mar2010-daily/08-03-2010/col2.htm
http://www.jang-group.com/jang/mar2010-daily/08-03-2010/col13.htm
سر جی آج فیر کوئی خواب دیکھ لیا آپ نے؟
پانچ ہزار ہی کیوں؟
مولوی بھی ہو سکتے ہیں، خفیہ والے بھی، سرکاری ملازم بھی اور تبلیغی جماعت والے بھی۔
یہ تو آپ نے پھر جانبداری کا ثبوت دیا۔ اور کہہ رہے ہیں کہ ملک سے کرپشن ختم کی جائے۔ کرپشن ختم کرنا ہے تو صرف میرٹ کو اپنا لیا جائے۔ اور جانبداریت ختم کی جائے۔
پانچ ہزار یا دس ہزار کی بجائے اگر معاشرے میں ناسور کی طرح پنپنے والی معاشرتی اور سماجی خرابیوں پر قابو پا لیا جائے تو معاملات سدھر سکتے ہیں ۔برے کو برا جانا جائے نہ کہ عزت وتکریم سے نوازا جائے ۔ رشوت خور ، بے ایمان ، قبضہ گروپ طاقت کے سر چشمے بنے ہوئے ہیں ۔بھٹو دور میں ایک سیٹھ عابد کو سمگلر کہا گیا تو سارا ملک ہی اسے اس نام سے جاننے لگا ۔ سیاستدان نہیں بن سکا ۔ اب لاکھوں نہیں تو ہزاروں اس سے بڑے نام بدنام ہیں سب سیاستدان ہیں عوامی ریلیوں کی شان اور فنکشنز کی جان سمجھے جاتے ہیں ۔عوام ان کے پیچھے ہیں ۔ شوگر یا بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہو تو صرف دوا کافی نہیں اس کے ساتھ ساتھ میٹھا اور نمک کا پرہیز بھی کیا جاتا ہے ۔
میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں جس سے پاکستان کے لیے آپ کے دل میں موجود درد جھلکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تجویز کردہ حل سے ذہن تبدیل نہیں ہوتے اور رشوت یا کرپشن کا تعلق محض سزا سے نہیں۔ جب کسی معاشرے کی اکثریت بگڑ جائے تو کہیں نا کہیں پرورش کے نظام میں سقم ہوتا ہے اور وہ ہماری ابتدائی تعلیم اور گھر ہے جہاں سے بنیادی معاشرت کی تعلیم درست طور نہیں دی جارہی نظریاتی بھی اور عملی بھی۔ جب تک ہم بنیادیں درست نہیں کریں گے۔۔ لیپا پوتی اور رنگ و روغن کرنے سے عمارت میں مضبوطی پیدا نہیں ہوگی چاہے آپ چار کروڑ لوگ ہی مانیٹرنگ پر کیوں نا لگا دیں۔
مسائل کا کل وقتی حل تلاش کرنا چاہیے نا کہ جزوقتی۔ اس طریقہ پر عمل درآمد کی کوشش کی گئی تو ان پانچ ہزار لوگوں کو کسی شدت پسند گروہ سے جوڑ کر ‘جبری امانت‘ اور ‘ڈنڈے کے زور پر اچھائی‘ پھیلانے جیسے الزامات کا سامنا ہوگا۔ جمہوریت میں اکثریت کی رائے ہی مانی جاتی ہے ناں؟ تو پھر سمجھیے اکثریت کرپٹ ہے تبھی ان کے نمائندہ بھی کرپٹ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی سدھرنا چاہتا ہے نا سدھارنا چاہتا ہے۔
Leave A Reply