جب سے ہم نے پڑھا ہے کہ ایس اینڈ پی نے انڈیا کی ریٹنگ نیگیٹو سے سٹیبل کر دی ہے ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان میں کیا کمی ہے جو وہ اتنی ترقی نہیں کر رہا جتنی انڈیا کر رہا ہے۔ انڈیا کی معیشت چین کے بعد سب سے زیادھ تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ انڈیا کی آبادی اگر سوا ارب ہے تو پاکستان کی آبادی بھی بیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ آج کل پاکستان میں جس شہر میں بھی چلے جائیں عوام ہی عوام نظر آتے ہیں۔
انڈیا اور پاکستان ایک ہی خطے میں واقع ہیں ان کے عوام کا رہن بھی ایک جیسا ہے۔ تعلیم بھی ایک جیسی ہے اور حکومتی لیول پر کرپشن میں بھی دونوں برابر ہیں، تو پھر فرق کہاں پر ہے۔
کیا پاکستان اور انڈیا میں یہ فرق ہے کہ ہمارا وزیراعظم کم پڑھا لکھا اور انڈیا کا وزیراعظم زیادہ پڑھا لکھا ہے؟ ویسے تو پاکستانی وزیراعظم کی بجائے صدر کا انڈین وزیراعظم سے موازنہ کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں صدر زرداری ہی حکومت چلا رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے انڈیا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہوتی ہو یا ہو سکتا ہے وہاں پر غیرملکیوں کا عمل دخل کم ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے وہاں پر اندسٹری زیادہ لگ رہی ہو۔ کہیں کوئی نہ کوئی فرق تو ہو گا ہی۔ ہمارے قارئین ہماری اس مشکل کا حل پیش کر سکتے ہیں کہ پاکستان انڈین کے مقابلے میں کیوں پیچھے رہتا جا رہا ہے؟
15 users commented in " ہم میں کیا کمی ہے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبھارت اور پاکستان کی ہائر ایجوکیشن میں بہت بڑا گیپ آچکا ہے۔۔انڈیا کے دو انجینئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی تعلیمی ادارے دنیا کے پچاس بہترین ٹیکنالوجی اداروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ جو فرق سامنے نظر آتا ہے اس میں
1۔ جمہوریت یا نظام کا تسلسل
2۔ لمبے عرصے کے لیے بنائی گئیں پالیسیوں پر حکومت بدلنے کا اثر نا ہونا۔
3۔ بھارتی قوم پرستی کا مثبت استعمال
4۔ سمندر پار مقیم بھارتیوں کا منظم ہونا اور ملک کی مثبت تصویر کشی کرنا
ہم نے بم بنانے کا مقابلہ تو جاری رکھا لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی میں انڈیا کو اکیلا چھوڑ دیا اس لیے اب گیپ بڑا ہوتا جارہا ہے ۔۔۔ انڈیا کا مقابلہ اب پاکستان سے نہیں چین، برازیل اور جرمنی سے ہے۔۔ ہم بدقسمتی سے مختلف فہرستوں میں کسی اچھی جگہ نہیں ہیں لیکن واپس پلٹنے کے لیے ابھی بھی وقت موجود ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں قصے کہانیوں اور رونے پیٹنے کو چھوڑ کر اصل میدان میں آنا ہوگا۔
ہم انڈیا سے تعلیم میں ہم پلہ نہیں ہے۔ انڈیا میں تعلیم کی شرھ چحیاسٹح فی صد ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں ان لوگوں کو بحی ملا لیا جاءے جو اپنا نام خود لکح لیتے ہیں۔ جیسے تیسے تو تعلیم کی شرح چالیس فی صد سے زیادہ نہیں بنتی۔ میری والدہ ساٹح کی دہاء میں پاکستان آئیں تھیں۔ اس وقت وہ وہاں پہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ بقول انکے پرائمری تعلیم لکھنوئ میں سب کے لئے ضروری تھی۔ اور گلی میں پھرنے والے بچوں کو بھی پکڑ کر اسکول لے جایا جاتا تھا۔
راشد کامران صاھب کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ اعلی تعلیم میں ہمارا اور انکا کوئ مقابلہ نہیں۔ یقین نہ ہو تو اپنے تعلیمی اداروں اور انکے تعلیمی اداروں کی عالمی سطح پہ رینکنگ کو دیکھ لیں۔
یہ بھی بالکل سحیح ہے کہ بھارت میں قوم پرستی زیادہ مثبت انداز میں کام کرتی ہے۔ ایک زمانے میں جب ہمارے یہاں اسمگلنگ کا سامان کھلے عام ملا کرتا تھا۔ بھارت میں سوائے انڈین پروڈکٹ کے کسی چیز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اسکے علاوہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں نمود نمائش اتنی نہیں رکھتے جتنی ہمارے یہاں ہوتی ہے۔ یہ تو ہمارے اور انکے لیڈران کے طرز بو دو باش سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔
تمام احباب اور خصوصی طور پر صاحب بلاک سے نہایت معزرت کے ساتھ، کیونکہ اس موضوں پر اس سے زیادہ مناسب اور سادہ انداز میں اس لفظ کے بغیر بات سمجھانا زرا مشکل ہے جس کااستعمال شاید طبیعت نازک پر گراں گزرے مگر سچی بات یھی ہے کہ ہمارے اندر ہر جگہ اور طبقے میں انڈین کے مقابلے میں کمی نہیں بلکہ زیادتی ہے اور وہ ہے “کمینگی“ میں۔ اگر ہم ہر میدان میں تھوڑے سے کم “ک“ ہوجائیں تو ہمارا شمار بھی انہی اقوام میں ہوجائے جن کو ہم سے بہتر درجے میں شمار کیا جاتا ہے۔
(صاف گوئی کے لیے ایک دفع پھر معزرت)
ہم میں صرف عقل کی کمی ہے اس لیئے جو جس لاٹھی سے ہانکتا ہے ہم ہنک لیتے ہیں!
ویسے چوہدری حشمت کی ذیادتی والی بات بھی خاصی قابل غور ہے ؛)
خود پسند اور خود سر حکمران۔ملکی خود کفالت کے لئیے مطلوبہ سیاسی اور اخلاقی جراءت کی کمی۔ قول و فعل میں تضاد۔ علم کی کمی اور منافقت کی ذیادتی۔ باتوں کے غازی اور عمل سے فارغ۔وقتی بیانات اور لمبے دعوے۔ جمہوریت کا عدم تسلسل۔ معاشرے میں عدم استحکام۔ باسٹھ سالوں سے ترقی کا منعکوس محض غیر مکی بھیک سے بنائے ، چلائے۔ دیوالیہ کئیے گئے بڑے پراجیکٹ۔ قومی وسائل کا غلط استعمال اور ان وسائل پہ عدم انحصاری۔ خود کفالت کی عدم منصوبہ بندی۔ پاکستان کے لئیے عالمی بنک اور عالمی معاشی اداروں کے تنخواہ دار اہلکاروں کا پاکستانی وزارت خزانہ کا مسلسل وزیر اور مشیران ہونا۔ وزارتِ تعلیم میں ہائر ایجوکیشن کے نام پہ گرانقدر مشاہیروں اور سہولتوں کے ساتھ بڑے بڑے مگر مچھوں کو امپورٹ کرنا جو اپنے اقامتی ممالک میں بھی واجبی تعلیمی استداد کے مالک ہوتے ہیں۔ مائکرو انڈسٹری اور اسکے لئیے مطلوبہ منصوبہ بندی ، رہنمائی اور مناسب فنانس کی متواتر عدم موجودگی کی وجہ سے چھوٹی اور درمیانی صنعت کو نیپنے نہ دیا جانا۔ملکی وسائل کو روزبروں بڑھتے ہوئے ملکی مسائل کے مطابق ترقی نہ دینا۔ عوام کی جہالت اور انتہائی نچلے درجے کی فنی تربیت تک کے لئیے ریاستی غفلت۔
اس طرح کی بے شمار وجوہات ہیں جنہیں بجا طور پہ گنوایا جاسکتا ہے مگر جس چیز نے سب سے زیادہ نقصان دیا ہے وہ ہے اعلیٰ تعلیم کی کمی اور اعلٰی تعلیم کے حامل افراد کے لئیے ملک میں جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کرنا کہ وہ دوسرے ممالک کو پاکستان کی انتظامیہ سے کچھ اس بری طرح سے بد گمان ہو کر بھاگیں کہ پھر وہ ساری عمر پاکستانی ریاست اور اسکی انتظامیہ کو اپنی سوتن (سوکن) سمجھیں۔ اور اندھوں کے دیس میں سبھی کانے راج سنگھاسن پہ بیٹھ کر موج میلا کریں ۔خیرات کھائیں۔ بھیک میں ملی امداد کی بندر بانٹ کریں۔ کیونکہ انکی ایک آنکھ دیکھنے والے بھگا دئیے گئے تو باقی اندھے انکی ایک انکھ کیسے دیکھیں۔؟ پاکستان میں دنیا کے کم ترین معیار کی فیکلٹیز اور یونیورسٹیز ہیں اور جب ان سے بے مقصد موضوعات میں بے مقصدی اور واجبی سے علم کے ساتھ ایم اے اور ایم ایس سی وغیرہ کو علم کی معراج سمجھ لیا جائے تو پھر لطیفے ہوتے ہیں تحقیق و ترقی نہیں ہوتی۔
اسکی دو مثالیں فکر انگیز ہیں۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ جسے پاکستان سے سخت مقابلے میں سے چُنے گئے مجموعی ٹیلینٹ کی “ دا کریم آف دا کریم “ کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس کے ساری دنیا میں پھیلے سفارت خانوں کے سفیران کرام میں سے صرف ڈاکٹر ملیحہ لودھی پی ایچ ڈی ہیں اور ایک اور ایمبیسڈر احسن سرمد تھے جو غالباََ انجنئرنگ میں ڈگری رکھتے تھے ۔ باقی سب ۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔ دوسری مثال وہ پاکستان کے ایک بڑے اخبار کی چند دن پہلے وہ اخباری اطلاع ہے جس کے مطابق پاکستان کے پانی بجلی کے وزیر، پانی بجلی جیسے حساس موضوع پہ بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں انگریزی میں بریفنگ دیتے ہوئے کسی میٹرک پاس نوجوان کی طرح غلطیوں کی بھرمار پُر پہلے سے لکھی تحریر کے نکات بیان کرتے چلے گئے جس سے پورا بیان سیاق و سباق سے ہٹ جاتا ہے۔ اور باوجود دوسرے عہدیداروں کے توجہ دلانے کے وزیر موصوف انگریزی میں رواں دواں رہے۔ ہم نہیں کہتے کہ انگریزی آنا ضروری ہے کہ انگریزی کو جب تک ہم اپنی مادری زبانوں کی طرح ایک عام زبان جان کر اسکے مقابلے میں احساس کمتری اور ندامت سے باہر نہیں آتے تب تک ہماری انپڑھ اشرفیہ کا اعتماد نہیں بحال ہوگا اور بے اعتماد لوگ سوائے احکامات پہ یس سر کہنے کے علاوہ خود سے کچھ نہیں سوچ سکتے۔ اگر وزیر موصوف کو انگریزی درست طور پہ نہیں اٹی تھی تو وہی بات اردو میں کر لیتے۔ مگر اب اس انگریزی کو کیا کہا جائے جس نے پاکستان میں ایک ایسی کلاس کی زبان بن گئی ہے جو پاکستان کے وسائل پہ قابض اور اسکے عوام پہ اختیار رکھنے والوں کی شناخت بن گئی ہے۔ اور محض اس کلاس میں پاؤں رکھنے کی کوشش میں وزیر موصوف لطیفہ بنے۔
نہ صرف مادی ترقی کے لئیے بلکہ دنیا میں باوقار قوموں کی طرح زندگی گزارنے کے لئیے ۔ ہر قسم کے احساس کمتری سے عاری، خود اعتماد، پڑھی لکھی، دیندار و دیانتدار ، مخلص۔ جرآئت مند قیادت اور انتظامیہ کا ہمہ وقت ہونا بہت ضروری ہے۔ ایسی قیادت اور منصوبہ ساز جو پاکستان کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ہر سطح پہ ہر قسم کے مسائل کو مقامی وسائل سے حل کرنے کے لئیے ہر قسم کی چھوٹی یا بڑی کمیٹیاں قائم کرتے ہوئے مسائل کا حل زمینی حقائق کے مطابق اور دیرپا نکالیں۔ جس سے پاکستانی نئے ٹیلنٹ کو سمجھنے سیکھنے میں مدد ملے گی اور تجربہ حاصل ہوگا۔ لیکن اگر بدقسمتی سے بھینسوں کے باڑہ تک تعمیر کرنے کے لئیے انجنئر کوریا اور تعلیمی ماہرین امریکہ اور عالمی بنک سے معاشی کلرکان درآمد (امپورٹ) کریں گے تو ۔۔۔ بسا اے آرز کہ خاک شُد۔۔۔۔۔
تمام دوستوں کی گفتگو سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ فرق نیتوں کا ہے اور کمی اخلاص کی ہے۔
تعلیم کا فرق بنیادی اور مرکزی فرق ہے بھارتی حکومت پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے، ہماری حکومت میں برادری خاندان اور واقفیت سے ووٹ لے کر آنے والے موجود ہیں، بھارت میں بھی پاکستان کی طرح کی اندھی شدت پسندی موجود ہے، جیسے شیو سینا وغیرہ، لیکن مرکزی حکومت کافی حد تک ایسی چیزوں سے پاک ہے۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بھارتی عوام تعلیم کی وجہ سے کچھ نکھر چکے ہیں۔ ، ایک اور فرق ہم میں سے ہر دوسرے تیسرے بندے کا مطلب پرست ہونا بھی ہے۔
“پاکستان میں کیا کمی ہے جو وہ اتنی ترقی نہیں کر رہا جتنی انڈیا کر رہا ہے۔ “
سيکولزم-
مذہبی جنگيں رکيں تو کوئی اور کام ہو-
http://www.jang-group.com/jang/mar2010-daily/20-03-2010/col14.htm
http://www.jang-group.com/jang/mar2010-daily/20-03-2010/col4.htm
http://www.jang.com.pk/jang/mar2010-daily/22-03-2010/col9.htm
http://www.jang-group.com/jang/mar2010-daily/22-03-2010/col4.htm
I agree with Muhammed’s comment: Secularism
and of course education. we are far behind India not only we do not have enough facilities available but we have our curriculum all messed up with religious fanaticism
۔۔۔۔And Secularism fanaticism in Pakistan is same taht ANTI ISLAMIZM
سب سے بڑا فرق زندہ اور مردہ قوم کا ہے
Leave A Reply