یہ تصویر دہشت گردوں کی کاروائی کے دوران لی گئی ہے۔ اس تصویر میں دیکھیں پولیس والا کیسے اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا ہے اور اخباری نمائندہ کیسے جان ہتھیلی پر رکھے اگلی تصویر کا انتظار کر رہا ہے۔
جس نے عوام کی حفاظت کرنی ہے وہ عوام کو ڈھال بنا کر شتر مرغ کی طرح گردن دبائے قیامت کے ٹلنے کا انتظار کر رہا ہے۔ واقعی جان بہت پیاری ہوتی ہے۔ حیرت ہے پریس فوٹو گرافر پر کہ اسے اپنا کام انجام دینے کیلیے کوئی ڈر نہیں لگ رہا۔ کتنا فرق ہے دونوں میں۔
نوٹ: تبصروں سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ ہم نے پولیس کے محکمے پر تنقید کی ہے۔ ایسی بات نہیں ہے ہم نے تو صرف اس پولیس والے اور پریس رپورٹر کا انفرادی طور پر ذکر کیا ہے۔
12 users commented in " پولیس اور پریس رپورٹر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackفرق موٹی ویشن کا ہے جی
فوٹو گرافر کی عین موقع کی تصویر اس کو شہرت کی بلندیوںپہ پہنچا دے گی
اور پلسیا سن ڈُوڈ کی بندوق سے دہشت گرد مار بھی گرائے گا تو ہلاک شدگان مین ایک گنتی کا اضافہ
بلکہ فیر بھی گالیاںہی کھائے گا کہ دہشت گرد مینار پہ چڑھنے ہی کیوں دیا؟
فرق تو ہے نا جی
جنہوں نے اندر جا کر کاروائی کی ہے اور اپنی جانیں دی ہیں، وہ بھی پولیس والے ہی تھے۔
اس تصویر کو دیکھ کر نہیں کہا جا سکتا کہ پولیس نے بزدلی دکھائی۔ ہو سکتا ہے یہ آگے جانے لگے ہوں اور اچانک فائر آیا ہو تو یہ چند لمحات کے لیے اوٹ لے بیٹھے ہوں اور پھر آگے گئے ہوں۔
نیز آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک پولیس والا فائرنگ پوزیشن میں بیٹھا ہے اور اس کی گن سیدھی ہے۔ اسے دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ یہ ان چھپنے والے سویلنز کو کور کر رہا ہے؟٫
معاف کیجیے گا، ہر بات پر تنقید اچھی بات نہیں ہوتی۔
تصویریں بولتی ہیں درست مگر ایک تصویو یا کسی فوری ردعمل پر ایسی تصاویر بھی آ جاتی ہیں جو سچ کی عکاس نہیں ہوتی یہ تصویر بھی مکمل سچائیکی عکاس نہیں ہو سکتی۔
مجھے بھی یہاں کوئی شتر مرغ نہیں لگ رہا۔ رپورٹر بلاشبہ بے وقوفانہ حد تک بہادری دکھا رہا ہے لیکن پولیس والے کسی طور بزدل نظر نہیں آرہے۔ بے سرو سامانی کے عالم میں چھپنا اور مقابلہ کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ 15 یا 20 ہزار کے لئے ان کی یہ کارکردگی بلاشبہ بہت قابل تعریف ہے۔ رہی بات لوگوں کی جان مال کی حفاظت کی تو اس کی زمہ داری پولیس سے پہلے خفیہ ایجنسیز سے شروع ہوتی ہے جو فوج کے انڈر ہیں وہ ان سے دس گنا زیادہ مراعات لیتے ہیں اور کارکردگی صفر
معاف کیجیے گا ہم نے صرف اس پولیس والے کی بات کی ہے جو سر نیچے کیے ہوئے ہے۔ پوری پولیس یا فوج کی بات نہیں کی۔ پولیس نے جو ایکشن لیا اس پر تو کوئی شک کی گنجائش ہی نہیںہے۔
پولیس کا ہے فرض مدد اپنے آپ کی۔
قدیر احمد کا تبصرہ سب سے جاندار ہے
ایسا ہی ہے
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
واقعی تصویر واقع کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ کیونکہ پولیس نےہی جان ہتھیلی پررکھ کریہ آپریشن کیاہے۔ ماناکہ پولیس میں کالی بھیڑیں ہیں جوکہ اس محمکہ کوبدنام کرتیں رہتی ہیں۔
والسلام
جاویداقبال
ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی اسٹریٹیجی ڈسکس کررہا ہو اپنے برابر والے سے!!!
باقی اس کا بھی آدھا جسم تو باہر ہی ہے!!!
مین بھی قدیر صاحب کی رائے پرمتفق ہوں
ویسے وہاں موجودہر شخص یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ ان کا مقابلہ کر رہا ہے اور یہی بات کافی ہے
اور پولیس والے بھی انسان ہین اور ڈر بھی انسانی نفسیات کا جز ہے
اب گبر سنگھ تو نہ بنیں کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا
کیونکہ آپ اس کی درگت بنا دیں گے اپنے بلاگ پر
یہ تصویر میںنے بھی دیکھی تھی لیکن عرض یہ کہ فوٹوگرافر کا مکمل جسم گاڑی کی اوٹ میں ہے جبکہ پولیس کا سپاہی بغیر کسی اوٹ کے ہے۔ اس دونوںکا موازنہ کرنا شائد درست نہیں۔
نہ نہ آپ بالکل پولس پر تنقید کریں مگر ناجائز تنقید کسی پر بھی ہو ٹھیک نہیں ہے!!!
Leave A Reply