تحریر نذر حافی
اسلامی دنیا میں دینی مدارس کو جو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ کسی اور ادارے کو حاصل نہیں۔کسی بھی اسلامی ملک کے عوامی حلقوںمیں دینی شعورجتنا زیادہ ہو مدارس کا اثر و رسوخ بھی اتنا ہی زیادہ ہوتاہے۔مدارس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ بعض اوقات ایک دینی مدرسہ بیک وقت کئ ذیلی مدارس ،مساجد،قرآن سنٹرزاورلائبریریوں نیزدینی و سماجی سرگرمیوں کی فعالیت کامرکزہوتاہے۔ جب ہم پاکستان جیسے اسلامی ملک میں قائم شدہ دینی مدارس کی صورت حال پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اعتراف کرناپڑتاہے کہ یہاں پر دینی مدارس کوعوامی حلقوں میں وہ مرکزی اہمیت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے۔ظاہرہے کہ جب کسی بھی مرکزی سطح کے ادارے کومرکزی اہمیت نہ ملے تو عوام پراس کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے اورلوگوں میں اس کی مقبولیت کا گراف بھی نیچے آجاتا ہے۔ پھرلوگ ایسے اداروں کو معاشرے پر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور یا پھر انہیں آثار قدیمہ کی متبرک عمارتوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ جو بلڈنگ بھی عصر حاضر کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دیتی وہ خود بخود آثار قدیمہ کا حصہ بن جاتی ہے۔
ہم نے پاکستان میں دینی مدارس کی مشکلات کا صحیح اندازہ لگانے اور ان کی مشکلات کا درست حل ڈھونڈنے کی خاطر Book to Book Research Method کے ساتھ ساتھ Mobile Research Method کو بھی اختیار کیا ہے۔ اس طرز تحقیق کو اختیار کرنے کے لئے ہم نے تعلیم و تدریس سے متعلق کتابوں اور مجلوں سمیت Face to face مختلف علمی شخصیات، طلاب کرام اور محققین سے سوالات کر کے ان کے افکار و نظریات ،تجاویز اورخدشات کوبھی جمع کیا ہے۔ ہم نے اپنی طرف سے یہ کوشش کی ہے کہ ہماری یہ تحقیق کسی نہ کسی حدتک صاحبان علم و دانش کے لئے عملی طورپرمفیدثابت ہو ۔ اس ضمن میں ہم نے Source of Research کے طورپرجن افراد سے معلومات جمع کی ہیں.
انہیں مندرجہ ذیل پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ ایسے دینی طالب علم جو خود تو پاکستان کے کسی دینی مدرسے میں نہیں پڑھے لیکن ایران و عراق کے دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں اور ان کا ہر روز پاکستان سے پڑھ کر آنے والے طالبعلموں سے واسطہ پڑھتاہے۔
۲۔ ایسے طالب علم جو پاکستانی دینی مدرسوں میں بھی زیر تعلیم رہے اوراب جامعۃ الازہر، ایران یاعراق میں زیرِ تعلیم ہیں۔
۳۔ ایسے طالب علم جو پاکستانی مدارس میں کچھ عرصے کے لئے بطور مدرّس اپنی خدمات انجام دےچکے ہیں۔
۴۔ ایسے طالب علم جو بیرون ملک زیرِ تعلیم ہیں لیکن پاکستان میں بعض مدارس کے نظام تعلیم سے بھی مربوط ہیں۔
۵۔ ایسے حضرات جو بیرونی ممالک سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستانی مدارس میں مشغول تدریس ہیں یا پھر انہوں نے اپنے مدارس قائم کئے ہوئے ہیں۔ ہماری جمع کردہ معلومات اور اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے دینی مدارس کو کچھ خارجی اور کچھ داخلی مسائل درپیش ہیں ۔
سب سے پہلےہم خارجی مسائل کا ذکر کرتے ہیں بعد میں داخلی مسائل اور آخر میں ان کا حل ذکر کریں گے۔ مدارس دینیہ کو لاحق خارجی مسائل:
۱۔ حکومتی پالیسی مدارس دینیہ کو خارجی طور پر جس سب سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ حکومتی پالیسی ہے۔چونکہ حکومتیں مدارس کی طاقت سے آگاہ ہوتی ہیں لہذا حاکمان وقت مدارس کی علمی و افرادی قوت کا زور توڑنے کے لئے مذہبی شخصیات کوبعض اوقات بلیک میل کرتے ہیں، ان کے مالی و جنسی سیکنڈ لز سامنے لاتے ہیں، دینی مدارس کے طلاب کو دہشتگردانہ سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرتے ہیں اور عوام کے دلوں میں مدارس کا وقار گرانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں ضیاء الحق نے جہاد کے نام پر ایک مخصوص مکتب فکر کے دینی مدارس کو استعمال کیا پھر انہی کے ذریعے مختلف دہشتگرد گروہوں کو منظم کیا اور بعد میں پرویز مشرف نے ضیاء الحق کے پالتو دہشتگردوں کا صفایا کرنے کے بہانے مدارس پر یلغار کی۔ان ساری کاروائیوں سے دینی مدرسے بدنام ہوئے اور لوگ دہشتگردی کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل سمجھنے لگے ۔ حالانکہ نہ ہی تو ضیاء الحق کو جہاد اور اسلام سے کوئی ہمدردی تھی اور نہ ہی پرویز مشرف کو اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت درکار تھی۔ دونوں نے اپنے اپنے حکومتی مفادات کے لئے دینی مدارس کے “دینی جذبے” سے سوء استفادہ کیا۔
۲۔ میڈیا کا کردار دینی مدارس کے خلاف منفی ماحول کی تشکیل میں، میڈیا بھی حکومتوں کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ میڈیا پر چھائی ہوئی لابیاں حکومتی خفیہ اداروں کے اشاروں پر ایسے پروگرامز اور فیچرز تیار کر تی ہیں جن سے اصل حقائق چھپ جاتے ہیں اور دینی مدارس پر بدنامی کا دھبہ لگ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ابھی پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام تر واقعات کا تانہ بانہ بالآخر جہادی گروپوں سے اور جہادی گروپوں کا تعلق دینی مدارس کے طلاب سے جوڑا جاتا ہے۔ ہمارے بھولے بھالے لوگ ان ساری باتوں کو سچ سمجھتے لگتےہیں حالانکہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام پر واضح کرے کہ سارے دینی مدارس کے طلاب ان دہشت گردانہ گروپوں کا حصہ نہیں ہیں اور جو بیچارے ان گروپوں کا حصہ بنے بھی ہیں وہ سی آئی اے کی سازشوں کے باعث بنے ہیں۔ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ جیسے دہشت گردی کی کڑیاں دینی مدارس سے جوڑتا ہے اسی طرح سی آ اے سے بھی جوڑے اور لوگوں کو امریکہ ، ملا عمر اور اسامہ بن لادن کے گٹھ جوڑسے آگاہ کرے۔
۳۔ بعض علاقائی و مقامی با اثر شخصیات کا کردار بعض علاقوں میں جب دینی مدارس اپنی دینی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہیں تو اس علاقے میں موجود بعض بدعنوان عناصر کے مفادات کو زَک پہنچتی ہے اورلوگوں میں بدعات اوراخلاقی وسماجی برائیوں مثلاًرشوت ،شراب خوری ،سیاسی کرپشن،عقائد اسلامیہ میں تحریف وغیرہ کے خلاف شعور پھیلنے لگتاہےاور لوگوں میں بیداری آنے لگتی ہے۔اگر کہیں پر مقامی باثر شخصیات کے دامن پر بدعات یا اخلاقی و سماجی برائیوں کے دحب_ے ہوں تو یہ لوگ مدارس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیتے ہیں۔
۴۔ عوامی رائے عامہ حکومت، میڈیا اور کرپٹ عناصر عوام کی سادہ لوحی سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت سنی سنائی باتوں پر اپنی رائے قائم کر لیتی ہیں۔اس لئے وہ اکثر اوقات عوامی رائے عامہ کو مدارس کے خلاف اکسانے میں مصروف رہتے ہیں، جس سے عوام ایک تو مدارس کے بارے میں ہمدردانہ غور و فکر نہیں کرتے اور دوسرے حکومت یا بدعنوان عناصر کے خلاف مدارس کی پشت پناہی بھی نہیں کرتے۔
۵۔ دینی مدارس میں باہمی رابطے کا فقدان دینی مدارس کے لئے ایک بڑی مشکل ان کے درمیان باہمی رابطے کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں دینی مدارس،دین اسلام کی ترجمانی کے بجائے فرقہ وارانہ تفرقہ وارانہ بنیادوں پرشیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی اور بریلوی وغیرہ میں تقسیم ہیں۔ ایک فرقے کا دینی مدرسہ دوسرے فرقے کے دینی مدرسے سے ایٹم بمب کا سا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سازشی عناصر جب کسی ایک مدرسے کے خلاف کاروائی کا آغاز کرتے ہیں تو دیگر مدارس خاموشی اختیار کئے رکھتے ہیں۔یاپھراپنی مخصوص تنگ نظری اور فرقہ وارنہ سوچ کی بنیاد پر دوسرے فرقے کے مدارس کے خلاف سازشی عناصرکی ممکنہ مدد بھی کرتے ہیں۔ اس کا عملی نمونہ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں بارہا دیکھا ہے ۔مثلاً اگر دینی مدارس کا باہمی رابطہ مضبو ط ہوتا تو ضیاء الحق ایک مخصوص مکتب فکر کے دینی مدارس میں دہشت گردی کی تربیت دینے میں کامیاب نہ ہوپاتا ۔چونکہ دینی مدارس کا باہمی رابطہ مضبوط نہیں ہوتااسی لئے وہ آپس میں عدم اعتماد کے بھی شکار رہتے ہیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بجائے سیکولر عناصر اور کرپٹ حکمرانوں کے نعروں پر اعتماد کر کے ان کی سازشوں کےشکار ہوجاتے ہیں۔
۶۔ وزارت تعلیم کی پالیسیاں پاکستانی وزارت تعلیم ہمیشہ سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ جو لوگ وزارت تعلیم میں بیٹھے ہوتے ہیں انہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ دینی تعلیم سے کیا مراد ہے؟ یہ دینی نصاب کو توعصرحاضرسے ہم آہنگ [اپ ڈیٹ] کرنا چاہتے ہیں لیکن خوددینی حوالے سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں۔ انہیں نہ ہی تو دین کی اہمیت اور دینی مدارس کے تعلیمی ڈھانچےکی کچھ خبر ہوتی ہے اور نہ ہی یہ دینی تعلیمی نصاب میں تغیر و تبدیلی کے صحیح مفہوم کو سمجھتےہیں۔ چنانچہ یہ کچھ علماء کی ٹیمیں بناکر انہی کے مشوروں پر منصوبے بناتے رہتے ہیں اور بعد میں ان منصوبوں کو بھی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔
۷۔ ٹرسٹیز کی صورتحال کچھ جگہوں پریہ دیکھنے میں آیاہے کہ مدارس کو چلانے کے لئے ٹرسٹ بنائے جاتے ہیں ۔بعض اوقات یہ ٹرسٹ ایسے افرادپرمشتمل ہوتےہیں جن کا شعبہ تعلیم سے کسی طرح کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے افراد ٹرسٹ میں اپنی اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں اور مدیر مدرسہ کو اپنی پالیسوں کے تحت چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے مدرسے کے قیام کے مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے اور اسی طرح بعض مقامات پر جان بوجھ کرمحض فنانس اکٹھاکرنے کے لئے ہر طرح کے افراد کو ٹرسٹ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ظاہر ہے اس طرح کے ٹرسٹ بنانے سے بڑی بڑی عمارتیں تو بن جاتی ہیں لیکن کو ئی علمی و فکری پیش رفت نہیں ہو پاتی۔
۸۔ عصر جدید کے تقاضے جو مدارس عصر جدید کے تقاضوں سے چشم پوشی کرتے ہیں ان کے طالب علم کسی بھی علمی حلقے میں خصوصاً کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے سامنے اپنے آپ کو دینی طالب علم بتانے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔اس طرح کے احساس کمتری میں مبتلا افراداپنی عملی زندگی میں قدم قدم پر مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔یہ افراد عموماً کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے خلاف کمر کس لیتے ہیں۔ ان کے مدارس میں جو بچہ بھی داخلہ لیتا ہے وہ جلد ہی محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کا علمی رشد اور ارتقاء رک گیا ہے۔ چنانچہ بہت سے داخلہ لینے والے طالب علم دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں یاپھر ایسے مدارس کا رخ کرتے ہیں جہاں پر دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی ہو جبکہ یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ بعض طالب علم کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لے کر دینی تعلیم کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیتے ۔احساس کمتری میں مبتلا افراد اگر مدارس میں اساتذہ کے مقام تک پہنچ جائیں تو اگروہ خود پرائمری، مڈل، میٹرک یا ایف اے وغیرہ ہوں تو کوشش کرتے ہیں کہ اِن کا طالب علم اُن سے سکول یاکالج کی تعلیم میں ایک آدھ کلاس آگے نہ نکل جائے۔ اسی طرح بعض مدارس میں آج بھی اخبار پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے یا کسی دینی و ملی ریلی وغیرہ میں شرکت کرنے کو وقت کے زیاںکا باعث سمجھا جاتا ہے۔
۹۔علماء سو اورنام نہاد مفکرین کاکردار بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر اپنے چہروں پر دینداری کاماسک چڑھایاہواہوتاہے۔یہ صرف اور صرف اپنے نام و نمود اور رقم بٹورنےکے چکرمیں ہوتے ہیں۔فتویِ بازی اور دین میں بدعات کو فروغ دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔اسی طرح بعض حضرات فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ٹھگوں کی طرح اپنے نام کے ساتھ “ڈاکٹر”اور”پروفیسر”لگاکربھی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہاں تک تو دینی مدارس کے خارجی مسائل کا ذکرتھا، آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے دینی مدارس کے داخلی مسائل کیا ہیں۔
۱۔ تعلیمی نظام کی مشکلات مدارس میں مقدمات اور علوم اصلی تو پڑھائے جاتے ہیں لیکن علوم عملی پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ مقدمات سے لے کر علوم اصلی سمیت تمام طالب علموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ مثلاً جو طالبعلم، ایم۔ اے کر کے مدرسے میں داخلہ لیتا ہے اور جو مڈل پاس کر کے آتا ہے دونوں کے ہاتھ میں ایک ہی کتاب تھما دی جاتی ہے۔ کتابوں کو تبدیل کرنے، مطالب کو نئے انداز میں ڈھالنے یا نئی کتابیں لکھنے کو گویا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ مدارس کے تعلیمی نظام میں طلاب کی ذہنی سطح کی درجہ بندی کے مطابق اُنہیں تعلیم دینے کا کوئی خاص نظام موجود نہیں۔ جس کے باعث ایک لمبے عرصے تک طلاب قدیم کتابوں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور جب معاشرے میں عملی خدمت انجام دینے کے لئے قدم رکھتے ہیں تو جدید علمی تقاضوں کو نبھانے کے سلسلے میں ان کا ہاتھ خالی ہوتا ہے۔
۲۔ تربیتی نظام کا نہ ہونا ارباب علم و دانش پر واضح ہے کہ مدارس فقط تعلیمی ادارے نہیں ہیں بلکہ تعلیمی و تربیتی ادارے ہیں۔ ایک مدرسے میں تعلیمی نظام بدن کی جبکہ تربیتی نظام روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ تعلیمی نظام کے حوالے سے مدارس کے پاس کسی حد تک ایک لائحہ عمل موجود ہے لیکن تربیتی حوالے سے نمازِ شب، تلاوت قرآن، دعاوں اور مناجات کو ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے پھر زیادہ سے زیادہ اخلاقی دروس کا اہتمام کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ طالب علموں کی تربیت ہو رہی ہے حالانکہ تربیت فکری سے بڑھ کر عملی چیز کا نام ہے۔
۳۔ اساتذہ کے تعیّن، ترقی اور علمی رُشد کا انتظام نہ ہونا دینی مدارس کی ساکھ اور فعالیت کو متاثر کرنے والی ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ عام طور پر دینی مدارس کے پاس اساتذہ کے تعیّن، ترقی اور علمی رشد کا کوئی انتظام نہیں۔ اکثر جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ جس شخص نے جو کتاب پڑھی ہوتی ہے وہ بعد میں وہی کتاب پڑھانے لگ جاتا ہے۔ ایسا شخص ممکن ہے کہ “کتاب” تو پڑھا لے لیکن چونکہ بطورِ استاد اُس کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی لہذا اُسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ایک دینی مدر سے کے استاد کو کن اخلاقی و معنوی اوصاف سے آراستہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ برس ہا برس کی محنت کے باوجود ایسے استاد کے حلقہ درس سے خود اس کی سطح کے طالب علم بھی نہیں نکلتے۔ ایسے اساتذہ کے وجود میں آنے کے باعث ایک تو دیگر طلاب کی علمی ترقی رک جاتی ہے اور دوسرے خود ایسے اساتذہ بھی علمی طور پر ترقی نہیں کر پاتے اور انہی کتابوں کو جن کی تدریس کر رہے ہوتے ہیں لگے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے تعلیمی سلسلے کوآگے جاری نہیں رکھتے حالانکہ اسلام میں علمی ارتقاء کے رُکنے کا کوئی جواز نہیں۔
۴۔ مدارس کی سماجی سرگرمیاں بعض مدارس تو سماجی سرگرمیوں کو حرام سمجھتے ہیں اور بعض ان سرگرمیوں میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ ان کی طالبات ڈنڈے لے کراسلام آباد کی لال مسجد کے سامنے لوگوں پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔سماجی سرگرمیاں اہم ضرور ہیں لیکن سماج کی تربیت کرنے کی خاطر نہ کہ سماج پر تسلط اور دھونس جمانے کی خاطر۔
۵۔ طلبا کے انتخاب کے سلسلے میں مشکلات مدارس کے قیام کے وقت مکمل منصوبہ بندی نہیں کی جاتی جس کی بناپر پنجاب کے اکثر مدارس میں شمالی علاقہ جات کے طلبا ہی نظر آتے ہیں جبکہ مقامی طلبا کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض جگہوں پر مڈل، میٹرک یا ایف۔اے کا معیار بھی نہیں رکھا جاتااور یہ معیار نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو لوگوں کا دینی مدارس کی طرف رجحان پہلے سےہی کم ہے پھراگر میرٹ پربھی سختی کی جائے تو آنے والے افراد پر بھی دینی تعلیم کے دروازے بند ہونے کی مشکل کھڑی ہوجاتی ہے۔
۶۔ مدارس میں طلباء تنظیموں کا غیر فعال ہونا مدارس کی ایک داخلی مشکل یہ بھی ہے کہ مدارس کے طلبا کو کسی تنظیمی لڑی میں پرویا نہیں جاتا جس سے ان کی اجتماعی،علمی اور سیاسی شخصیت میں نکھار نہیں آتا۔ زیادہ تر مدارس میں سکولوں کی بزم ادب کمیٹیوں کی طرز پر چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا دی جاتی ہیں اور ان بزم ادب نما کمیٹیوں میں کام کرنے والے حضرات اپنی عملی زندگی میں بھی اسی اندازمیں کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح بزم ادب کی کمیٹیوں میں کیا جاتاہے۔یعنی کچھ مقدار میں چندہ اکٹھا کر لیا،مٹھائی لے لی،کچھ سنانے [حمد،نعت،قصیدہ،تقریر،دعا،قرآن خوانی،قوالی وغیرہ] کے بہانے کچھ لوگوں کواپنے پاس جمع کرلیا اور پھر یہ سمجھ لیا کہ ہم نےدین کی خدمت کا حق اداکردیاہے۔
۷۔ دینی اساتذہ اور مدیران کی یونین کا نہ ہونا پاکستانی مدارس کی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ اور مدیران کوئی فعال یونین نہیں اور اِن کے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں جس پر جمع ہوکر یہ دینی مدارس کو درپیش مشکلات سے نکالنے کے لئے غوروفکرکرسکیں۔
۸۔ مدرسہ، بطورِ ذریعہ آمدن بعض جگہوں پر مدارس ذریعہ آمدن کے طور پر کھولے جاتے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جو لوگ خود جدید تعلیم سے آشنا نہیں ہوتے وہ بھی مخیر حضرات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے جدیدتعلیم کا نعرہ لگا کر مدرسہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر اِن حضرات سے جدید تعلیم کی تعریف پوچھی جائے تو اِن کے نزدیک انگریزی پڑھا جانے اور کمپیوٹر پرسی ڈی چلانے کا نام جدید تعلیم ہے۔اس طرح کے مدارس کے وجود میں آنے سے حقیقی معنوںمیں دین کی خدمت کرنے والے مدارس کی طرح بھی لوگ مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں: یہاں تک تو ذکر تھامسائل کا،آئیے اب ان مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔مدارس کی مشکلات کو حل کرنے کے سسلسلے میں ہماری جمع کردہ تجاویز اور مشوروں کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے:
الف۔ مدارس اپنی فرقہ وارانہ شناخت [شیعہ،سنی،وہابی،دیوبندی وغیرہ]کے بجائے اسلامی و علمی شناخت کی طرف قدم بڑھائیں ۔
ب۔ علماء اور دانشوروں پر مشتمل ایک اسلامک ایجوکیشنل ٹیم تیارکی جائے جودینی نظام تعلیم کے حوالے سے پہلے سے فعال اداروں کی فعالیت و کارکردگی کا جائزہ لے کر اُنہیں بے لاگ رپورٹ لکھے اورپھر ان تعلیمی پروگراموں کے اجراء کے لئے منصوبہ بندی کرے جن کے اجراء کرنے میں دوسرے ادارے ناکام رہے ہیں۔
ج۔ ملت کے مختلف ماہر ین اقتصادیات کو جمع کر کے مدارس کے لئے فنانشل سپورٹ فنڈ کاپروگرام بنایا جائے۔
د۔ اساتذہ کے انتخاب اور ان کی علمی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے لائحہ عمل بنایاجائے۔
ز۔ تعلیمی نظام کو اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام سے ہم آہنگ تربیتی نظام بھی نصاب میں شامل کیا جائے۔
ر۔ پاکستان میں ملکی سطح پر حقیقی معنوںمیں ایک بین الاقوامی دینی حوزے کی تشکیل کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے۔ س۔ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں جہاں لوگ بچوں کو ابتدائی تعلیم دلوانے سے بھی قاصر ہیں وہاں پر بھی ایسے مدارس قائم کئے جائیں جو دینی و بنیادی تعلیم کو پہلے مرحلے میں مقدمات کی حد تک فراہم کرسکتے ہوں۔
ص۔ دینی مدارس میں دینی و دنیاوی تعلیم کی تقسیم ختم کر کے کالج اور یونیورسٹی کے درمیان ایک حسین امتزاج قائم کرنے کے لئے سنجیدہ طور پر غور و فکر کی جائے۔
ض۔ مدارس کے اندر علوم کو عملی طور پر قابل استفادہ بنانے کے لئے ریسرچ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے جو مندرجہ ذیل شعبوں پر کام کریں۔
۱۔ ترجمہ ۲۔ تصنیف ۳۔ تالیف ۴۔ تحقیق ۵۔ تبلیغ ۶۔ تقریر۷۔ تحریر ۸۔ تکلم [اردو،فارسی، عربی، انگلش]۔ ۹۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ۱۰۔تدریس ۱۱۔مدیریت ۱۲۔علوم سیاسی مدارس کو درپیش مشکلات اور ان کا حل ذکر کرنے کے بعدآخرمیں ہم دعاگو ہیں کہ خداوند عالم ہم سب کوہرقسم کے علاقائی و مذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر دین اسلام کی خدمت کرنےکی توفیق عطافرمائے۔
26 users commented in " پاکستان کے دینی مدارس کو در پیش مشکلات اور اُن کا حل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackلاحول ولا قوة۔۔۔۔
قبلہ یہ تحریر کیا آ پ نے نشے کی حالت میںلکھی ہے؟
معقول بحث تو کُجا آپ کے اس عامیانہ موقوف پر تو قہقہ لگانا بھی محال ہے۔ موجود دور میں مسلمانوں کی جہالت کی علامت ان دینی مدرسوںسے بہتر اور کوئی نہیں ہوسکتی۔
کیا آپ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ دینی مدارس کا پاکستان کی مذہبی دہشت گردی میںکوئی کردار نہیں؟
کیا آپ نے دینی میں ہونے والے جنسی ہراسگی کے واقعات کبھی نہیںسنے؟؟
خیر آپ ان باتوں کو چھوڑیں۔۔۔مجھے یہ بتائیے کہ منافقت کی انتہا کیا ہے؟؟
دینی مدارس کے معاملے کا بہترین حل یہ ہے کہ ان تمام مدارس (بیماری) کو واٹ لگا کر جہالت کے ان کارخانوں کو ہمیشہ کے لئے بند کردینا چاہیے۔
اسلامی علوم پڑھنے کا شوق ہے تو یونیورسٹیوں کا رخ کریں۔
دلچسپ بات ہے کہ کہ ایسے ادارے جن میں تحقیق نام کی کوئی چپز نہیں ان کے مسائل کے لئے آپ نے“ ریسرچ“ کی ہے۔ لطیفہ ہی ہوگیا یہ تو!!!
عثمان صاحب
لگتا ہے آپ نے پوری تحریر پڑھے بغیر اپنی رائے دے دی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ مدرسے ختم ہونے والے نہیں اور جو حل آپ نے پیش کیا ہے وہ ممکن نہیںہے۔ اگر کسی شریف آدمی نے اتنا وقت لگا کر کچھ تجاویز پیش کی ہیںتو شاباش دیجیے ناںکہ انہیں منافق کہنا شروع کر دیں۔
محترم
تحریر میں نے پوری پڑھی ہے۔ لیکن رائے دیتے وقت پوری تحریر کی سرجری کرنے سے گریز ہے کہ عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔
جو حل میں نے پیش کیا ہے وہ میرا نہیں ہے۔ بلکہ زمانے کا جبر آئندہ آنے والی نسلوں کو اس راہ پر مجبور کرے گا۔ یقننا اس وقت بوسیدہ سوچ کے حامل افراد اقلیت میں ہونگے۔انشااللہ!
کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ پاکستان کے دوسرے تعلیمی اداروں کو درپیش خارجی اور داخلی مسائل پر بھی ایک نظر ڈالتے اور ان کا حل پیش کرتے۔۔۔
کیا میں یہ استفسار کرنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ دینی مدارس کی اصلاح حال کے سلسلے میں آپ کی عملی خدمات کا درجہ کیا ہے اور یہ کہ آپ نے اس سلسلے میں کتنا وقت دینی مدارس میں گزارا ہے؟
مجھے آپ کی محنت بہت پسند آئی۔ آپ نے عرق ریزی کے بعد یہ مراسلہ لکھا اور ایک ایک حرف سے آپ کا خلوص جھلک رہا ہے مگر صرف دینی مدارس سے ہی اصلاح احوال کا مطالبہ کیوں؟ کیا باقی تعلیمی اداروں سے فرشتے بنا کر باہر نکالے جاتے ہیں؟ کیا باقی اداروں سے نکلنے والے کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوتے؟
کیا متذکرہ بالا تمام مسائل غیر دینی مدارس پر اثر انداز نہیں ہوتے؟
امید ہے آپ ان سب سوالوں کا جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔۔
http://criticalppp.com/archives/18036
نزر حافی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایالیکن میں عثمان کے خیالات سے پوری طرح متفق ہوں جب سے اسلام کو بڑی بڑی درسگاہوں سے نکال کر مدرسوں میں قید کیا گیا ہے اسلام کی صرف اورصرف تباہی ہی ہوئی !
اورمحمدصاحب نے بہترین تجزیہ پیش کیا ہے،جزاک اللہ
اسلام تین چیزوں پر زور دیتا ہے
ایک اللہ واحدہ لاشریک
دوغرور اور تکبر سے بچو
جس کے نتیجے میں ظلم ناانصافی اور استحصال جنم لیتا ہے ،کیونکہ تمھاری جان مال اولاد خاندان حسب و نسب،صلاحیتیں سب اللہ کی طرف سے ہیں اور اس میں تمھارا کوئی کمال نہیں
اور امن سب کے لیئے،
اب جتنے قوانین اب تک بنائے گئے ہیں ان کا ان اصولوں کی روشنی میں جائزہ لیاجائے اور جو ان سے متصادم ہوں انہیں بیک جنبش قلم ختم کردیا جائے اور آئندہ بننے والے قوانین میں بھی ان اصولوں کو مد نظر رکھا جائے!
صرف اسی طرح اسلام کا پیغام امن و سلامتی پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے کے امکانات ہیں،انشاءاللہ!
http://www.dw-world.de/dw/article/0,,5766289,00.html?maca=urd-rss-urd-all-1497-rdf
پتہ نہیںکیوںہم لوگ اصل موضوع کی بجائے دوسرے مسائل پر اپنی رائے زنی شروع کر دیتے ہیںِ اب موضوع تھا دینی مدرسے جس پر تبصرہ کرنے کی بجائے تبصرے ہو رہے ہیںاسلام پر۔ یہ مضمون لکھنے والے کیساتھ بھی زیادتی ہے اور پڑھنے والے کیساتھ بھی۔
افضل ساحب یہ دینی مدرسے ہی تو اصل مسئلہ ہیں ان کی جگہ بڑی دینی جامعات ہونا چاہیئیں جہاں اعلی تعلیم یافتہ دین پڑھانے والے ہونا چاہیئیں،ورنہ سب بے کار ہے ،درختوں کے پتے چھانٹنے سے کچھ نہ ہوگا جڑوں پر کام کرنا پڑے گا!
نذر حافی صاحب نے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ چھوٹے موٹے مدرسوں میں پوری ہونا مشکل ہیں ان کے لیئے اعلی پائے کی درس گاہیں حکومت کے تعاون سے تشکیل دینا پڑیں گی!
جو کچھ آپ نے لکھا ہے يہ اس وقت مکمل ہو گا جب آپ ہمارے دوسرے تعليمی نظام کی تفصيل بيان کر کے اس کا موازنہ ان مدارس کے ساتھ کريں گے
آپ نے خواتين کے ڈنڈا برداری کی بات لکھی ہے ۔ يہ ستم ظريفی ہے ہمارے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کی ۔ ہوا يوں تھا کہ پرويز مشرف کے حکم پر لال مسجد کے خطيب عبدالعزيز صاحب کو گرفتار کرنے کيلئے پوليس نے آدھی رات کے وقت جامعہ حفصہ پر ہلہ بول ديا اور ہوسٹل ميں مقيم طالبات کو گھسيٹا اور پيٹا ۔عبدالعزيز صاحب اسلام آباد ميں نہيں تھے ۔ اس کے بعد سی ڈی اے نے جامعہ حفصہ گرانے کا نوٹس دے ديا جبکہ اس کی عمارت سی ڈی کی منظوری سے بنی ہوئی تھی ۔ جامعہ حفصہ ميں سينکڑوں يتيم اور لاوارث لڑکياں رہتی تھيں جن کا کوئی اور ٹھکانہ نہ تھا ۔ اس نوٹس کے بعد
دو دن وہ ڈنڑے اور درختوں کی ٹہنياں لے کر جامعہ حفصہ کے باہر کھڑی رہيںاور کچھ وزراء کی يقين دہانی پر کہ جامعہ حفصہ کو نہيں گرايا جائے گا پھر کھڑی نہيں ہوئيں ۔ اسے فلمايا گيا اور کئی ماہ پاکستان اور دنيا کے کئی ممالک ميں دکھايا جاتا رہا ۔ بالآخر اپنے جرم يعنی سينکڑوں معصوم بيگناہ يتيم اور بے سہارا بچيوں کو فاسفوس بموں سے جلا کر ہلاک کرنے کے گناہ کوچھپانے کيلئے جامعہ حفصہ کو جولائی 2007ء ميں مسمار کر ديا گيا تھا
ہماری قوم کی ذہنی حالت کا اندازہ مندجہ بالا مبصرين کی رائے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے
ايک محترم مبصر صاحب نے لکھا ہے کہ اسلامی تعليم کو دوسری يونيورسٹيوں کيلئے چھوڑ ديں ۔ دوسری يونيورسٹيوں ميں سائنسی مضامين کا حال تو ابتر ہے ہی اسلاميات کا يہ حال ہے کہ ايم اے اسلاميات کو دين کی الف بے کا پتہ نہيں ہوتا ۔ نہ وہ قرآن شريف کا ترجمہ کر سکتا ہے اور نہ حديث کا مفہوم اُسے معلوم ہوتا ہے سوائے اس کے کہ وہ خود سيکھنے ميں بہت دلچسپی رکھتا ہو يا کسی مدرسہ کا فارغ التحصيل ہو
صرف ايک مبصر جو ڈاکٹر ہيں اور ڈاکٹروں کی سماجی اور سياسی تحريک کے سرگرم رُکن ہيں نے درست تبصرہ کيا ہے ۔ وجہ ميری نظر ميں صرف ايک ہے کہ اُنہوں نے مدرسوں کے اندر جا کر اُنہوں ديکھا ہے اور تعليم دوسری يونيورسٹی ميں پائی ہے
ميں نے پاکستان ميں مدرسوں پر عملی تحقيق اُس زمانہ ميں کی تھی [1984ء تا 1996ء] جب مدرسوں کا نام اخبار ميں شايد ہی کبھی آتا ہو ۔ جو کچھ اخباروں ميں پچھلے تيس سال سے مدرسوں کے متعلق چھپ رہا ہے اور جو کچھ بيان بازی حکمران يا سياستدان کرتے ہيں اس کا دس فيصد بھی مدرسوں ميں نہيں پايا جاتا
ميں پچھلے کئی سال سے کچھ پرانی کتابوں کی تلاش ميں ہوں جو مجھے ابھی تک نہيں مليں ۔ اللہ کرے جلدی مل جائيں ۔ ان ميں سے دو کے نام مجھے کسی ريٹائرڈ سينيئر سرکاری افسر سے حال ہی ميں مل گئے ہيں ۔ يہ صاحب کچھ سالوں سے مختلف جگہوں پر دين کی سمجھ پيدا کرنے کی کوشش کر رہے ہيں
درسِ نظامی اور اُس کے مصنفين ۔ اختر راہی صاحب کی لکھی ہوئی
ہمارا قديم نظامِ تعليم ۔ رياست علی ندوی صاحب کی لکھی ہوئی
دينی مدرسوں ميں جو درسِ نظامی پڑھايا جاتا ہے يہ ہے ہی درسِ نظامی يعنی دينی مدرسے بطور سی ايس ايس اکيڈمی ماضی بعيد ميں قائم کئے گئے تھے اور بعد ميں ان کی اصلاح کی کسی نے کوشش نہيں کی جس کے قصوروار حکمران اور عوام دونوں ہيں ۔ يہ مدرسے دينی تعليم کيلئے قائم نہيں کئے گئے تھے ۔ دينی تعليم کيلئے جامعات تھیں جو بڑے شہروں کی سب سے بڑی مسجد کے ساتھ قائم تھيں جيسے بادشاہی مسجد لاہور ۔ جامعہ مسجد دہلی وغيرہ ۔ ان جامعات کو 1857ء کے بعد انگريز حکمرانوں نے ختم کر ديا تھا اور زيادہ تر عُلماء شہيد کر ديئے
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کا جہالت کے اندھیروں کی طرف سفر اس وقت شروع ہوا جب دین اور دنیا کو الگ الگ کیا گیا۔ عروج کے زمانے میں علوم حاصل کرنے کے واسطے ایک ہی ادارے تھے۔ یہ نہیں کہ اسلامی علوم کے لئے الگ جبکہ دنیاوی علوم کے لئے الگ۔ باقی رہا آپ کا یونیورسٹیوں کے متعلق بیان تو اس پر سوائے مسکرانے کے اور کچھ کرنے سے قاصر ہوں۔
آپ باخبر آدمی ہیں۔۔۔جامعہ حفصہ سے متعلق ایک معاملے میں میری معلومات میں کچھ اضافہ کردیں۔ یہ جو پاکستان آرمی کے بتیس جوان شہید ہوئے تھے اور ایک ہفتہ تک مسجد کے مختلف حصوں سے جوابی فائرنگ ہوتی رہی تھی تو اس نیک علمی کام کے لئے شبرات کے کن پٹاخوں کا استعمال کیا گیا تھا؟
عثمان صاحب
يہ عمدہ خبر آپ کو کہاں سے ملی ؟ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوج کشی کے دنوں ميں پہلے ايک رينجر آب پارہ کے قريب ہلاک ہوا جہاں مسجد سے نشانہ بنانا ناممکن تھا ۔ پھر تين فوجی مسجد کے پاس شہيد ہوئے جن ميں ايک کرنل يا ليفٹننٹ کرنل تھے ۔ يہ پہلا کمانڈو دستہ تھا جو مسجد ميں داخل ہوا اور پھر باہر نکل آيا ۔ جونہی يہ باہر نکلے باہر سے اُن پر فائرنگ ہوئی اور ہلاک ہو گئے انہيں فوجيوں نے ہی مارا تھا اسلئے ميں نے شہيد لکھا ہے ۔ اس کے بعد کمانڈوز ميں تبديلی کی گئی ۔ اس کے علاوہ کوئی فوجی ہلاک نہيں ہوا اور نہ ہی اسلام آباد کے کسی اخبار ميں ايسی کوئی خبر چھپی جو اُن دنوں آپريشن کمانڈر کی دی ہوئی سب جھوٹ باتيں چھاپ رہے تھے ۔
مسجد سے جوابی فائرنگ آپريشن کمانڈر کی اختراع اور جھوٹ تھا جو وہ ۔ اخباری نمائندوں اور ايدھی ايمبولنس کو بھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ سے اتنا دور رکھا گيا تھا کہ وہاں سے يہ دونوں عمارتيں نظر بھی نہيں آتی تھيں
آپ ميری جولائی 2007ء کی اور يکم سے 8 اگست 2007ء کی تحارير پڑھيئے ۔ آپ کو بہت کچھ مل جائے گا
پاکستان آرمی کے شہدا کے نام اور کچھ کی تصاویر اخبارات میں چھپتی رہی ہیں۔ ایک ہفتہ جاری رہنے والی مسجد سے کی جانے والی فائرنگ میں ٹی وی پر لائیو دیکھتا رہا ہوں۔جامعہ کے طلبہ کا ہاتھوں میں اسلحہ لے کر احتجاج کرتے ہوئے تصاویر اخبارات کے صفحہ اول کی زینت بنتی رہی ہیں۔ خود جامعہ کے مہتمم غازی عبدلرشید ٹیلویثزن پر فون کر کے اور پریس کانفرنس منعقد کرکے اشتعال انگیز پیغامات دیتے ہیں۔ جامعہ کے پرتشدد رویے کی کبھی انھوں نے تردید نہیں کی۔
ان تمام حقائق کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اگر آپ اسے آنکھوں کا دھوکا قرار دیتے ہیں تو میں آپ کے موقف پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا
پاکستانی فوجیوں نے ہی پاکستانی فوجیوں کو مارا؟
کوئی وجہ؟
کوئی ثبوت؟؟
عثمان صاحب
مجھے آپ سے بحث نہيں کرنا ہے ۔ جو ہو چکا اُسے نہ آپ بدل سکتے ہيں اور نہ ميں بلکہ جو ہونے والا ہے اُسے بھی آپ يا ميں نہيں بدل سکتے ۔ آپ بات ٹی وی اور اخبارات کی کر رہے ہيں جن کو سراج کورڈ مارکيٹ کے پاس کيمپ بنا کر وہاں رکھا گيا تھا اور آبپارہ چوک سے لے کر ميلوڈی مارکٹ تک کرفيو تھا اور علاقے پر فوج کا قبضہ تھا ۔ اس سڑک پر رہنے والوں سے کوارٹر خالی کروا لئے گئے تھے
يہ تصاوير اخبارات ميں اور ٹی وی ميں کہاں سے آئيں ؟
جن لوگوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے ديکھا اُن کو جھُٹلانے سے پہلے ذرا لال مسجد اور اس کے گرد و نواح کا چکر لگا کر اندازہ کر ليجئے کہ سراج کورڈ مارکيٹ سے کيا نظر آتا ہے اور کيا نہيں ۔ بی بی سی کو تو آپ مانتے ہوں گے ۔ اس زمانہ کے مضامين ديکھئے ۔ بی بی سی نے اصل صورتِ حال واضح کر دی تھی کہ پاکستانی اخبارات کتنا سچ لکھ رہے تھے
السلام علیکم!عرض یہ ہے کہ دینی مدارس کو موضوع بحث بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت استعمار اپنی پوری توجہ دینی مدارس پر مرکوز کئے ہوے ہے اگر چہ فوج اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے بھی کام کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے ۔یہ ہم سب کی مشترکہ زمہ داری ہے کہ ہم سب ملکر تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر پورے عالم بشریت اور دین و وطن کی فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکنہ کوشش کریں۔
“دینی مدارس کی مشکلات اور ان کا حل”یہ موضوع بہت بڑا ہے اور اس پر ابھی کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔یہ صرف ابتدائی طور پر ایک خاکہ ہے جو صاحبان فکرونظر کی خدمت میں پیش کیا گیاہے۔
آخر میں شکرگزار ہوں ان تمام احباب کا جنہوں نے میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو پڑھنے کے قابل سمجھا،تصیح کی اوراپنی تجاویز و آرا بھی ارسال کیں۔
خداوندعالم ہم سب کو نیک اور ایک بننے کی توفیق عطافرمائے۔والسلام
سچی بات تو یہ ہے کہ تمام تر مسائل کے اصلی ذمہ دار لوگوں کو اس تحقیق میں بے نقاب کیا گیاہے۔ملک و قوم نیز دینی اداروں کی مشکلات کے اصل ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو دین کی الف ب سے بھی واقف نہیں اور اپنے آپ کو بڑا محقق اور روشن فکر سمجھتے ہیں۔جولوگ دینی تعلیم اور دینی مدارس کے خلاف ذہرافشانی کرتے ہیں انھیں اصلا پتہ ہی نہیں کہ دینی مدرسے میں کیا تعلیم دی جاتی ہے اور ایک دینی طالب علم کن کن اوصاف حسنہ سے مزین ہوتاہے۔رہی بات جنسی سکینڈلزاور ایک دوسرے کے خلاف فتوے دینے کی تو یہ کام حکومتی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بے دین اور سیکولر افراد کراتے ہیں نہ کہ دینی مدارس۔علماء کرام کو بلیک میل کرنے کے لئے اس ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے آج تک کیا کچھ نہیں کیا،یہ ہم سب کو معلوم ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی جہالت کو چھپانے کے لئے دینی مدارس کو جہالت کے مراکز قرار دیتے ہیں حالانکہ دینی مدارس میں علوم وحی کا درس دیا جاتاہت،قرآن و حدیث اور دوسرے مذاہب و مکاتب کا تقابلی موازنہ کرایاجاتاہے۔اگر ہم اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر دیکیھیں تو یہ دینی مدارس کی ہی خدمات کا نتیجہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھنا بھی آجاتاہے،اگر آج معاشرے میں عدل و انصاف،توحید اخوت و بھائی چارے جیسی اعلی دینی و اخلاقی اقدار زندہ ہیں تو کسی یونیورسٹی کے پروفیسر یا کیس ایم این اے کی شب و روز محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ دینی مدارس کی خدمات کا نتیجہ ہے۔ آج بھی نماز تراویح سے لے کر نماز جنازہ تک مولوی کے وجود سے قائم ہے نہ کسی بیوروکریٹ یا ایم این اے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی معاشرے میں جو لوگ اسلام کو گالی دینے کی جراءت اپنے اندر نہیں پاتے (اور انشاءاللہ انھیں اسلام کو گالی دینے کی جراءت کبھی بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی مسلمان ان اسلام فوبیا کے مریضوں کاایسا کرنے دیں گے) اسلام فوبیا میں مبتلاء ایسے لوگ اپنا سارا زور مولوی اور شعائرِ اسلام کو بڑا بھال کہنے میں لگا دیتے ہیں۔ بے چارے اپنی دلی بھڑاس کیسے نکالیں۔؟
ایک فیکٹر قادیانی مرزائی یعنی حرفِ عام میں احمدی کے نام سے معروف فتنہ ارتداد یعنی مرتد لوگ بھی ہیں جو مسلمانوں جیسے نام رکھ کر مسلمانوں کو دہوکہ دیتے ہیں اور لایعنی قسم کی جدیدیت کے نام پہ قسم قسم کا جھوٹ بیان کر تے ہوئے مسلمانوں سے ہمدردی جتلاتے ہوئے درحقیقت سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلاتے ہیں- یہ آخری مرتد لوگ نہائت ہی خظرناک ہیں۔ ان کے لن ترانیوں پہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ خود تو مرتد ہیں ہی مگر سمجھتے ہیں کہ اسلام سے ہمدردی کے پردے میں یہ مسلمانوں کو بے وقوف بنا لیں گے۔ لعنت اللہ علی الکاذبین و منافقین-
کوئی بھی صاحب تحریر اسلام کے حوالے کوئی مضمون لکھ دے خوا وہ کتنی سادہ سی بات ہو مگر مرزا ملعون کے پجاری کمر باندھ ، لنگوٹ کس میدان میں اتر آئیں گے اور اس کی سادی سی وجہ ہے۔ کہ مرزائیت یعنی فتنہ ارتداد کو نبوتِ خاتُم النبین صلی اللہ علیہ وسلم ار انکے ماننے والوں یعنی مسلمانوں سے بغض ہے ۔ جسطرح باطل کو حق سے ، اندہیروں کو نور سے ہوتا ہے۔ مرزئیوں۔ قادیانیوں۔ المعروف احمدیوں کو یہ سمجھ نہیں آتا ۔ کہ جھوٹ ہمیشہ جھوٹ ہوتا ہے اور بالآخر مٹ جاتا ہے۔ جبکہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہمیشہ تاقیامت تک حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئیے ڈٹے رہیں گے اور قادیانیت جیسے اٹھنے والے ہر فتنہ ارتداد کو تاریخ کے پاتال اتارتے رہیں گے۔ یعنی جیسے ماضی میں دوسرے تمام کذاب تاریخ میں گُم ہو گئے ہیں۔ لعنت اللہ علی الکاذبین۔
نذر حافی صاحب نے پاکستان میں مسلم مدرسہ جات کی درست سمت میں بحث چھیڑی ہے ۔ جس میں پاکستانی حکومتوں کے سرکاری نظام کے تحت چلنے والے اسکولز اور دیگر تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور اربوں کے فنڈز خرد برد کرنے کے بدلے پاکستان میں پچھلے باسٹھ سالوں سے قوم کو متواتر ناخواندگی اور جہالت کے اندہیروں میں گُم رکھنے میں ہماری کار سرکار اور محکمہ تعلیم وغیرہ کا کیا کردار رہا ہے۔اس پہ بھی ایک اجمالی جائزہ ڈالنے سے بڑے بڑے توپ قسم کے بزعم خویش دانشوروں کی بھی آنکھیں حیرت سے کھُل جائیں گی کہ ایسے میں مدرسہ جات نے کس قدر قربانیاں دیکر غریب عوام کو اپنی بساط کے مطابق تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔ مدرسوں کے خلاف بے جا پروپگنڈہ کرنے والے اپنے پہ عقل و فہم کے دروازے بند کر لیں تو یہ الگ بات ہے۔ ورنہ درمیانی سا شعور رکھنے والا بھی مدرسوں کو پاکستان کی سب سے بڑی این جی او مانے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جس ملک میں سرکاری نظام کی پیداوار جعل ساز نمائیندے ، پارلیمان اور وزارتوں پہ براجمان ہو کر پوری قوم کو لکار رہے ہوں ۔ حق بات کرنے والوں کے خلاف قرادادیں پیش کر رہے ہو ں ، سچ لکھنے والوں کو عبرتناک انجام کی دہمکیاں دے رہے ہوں۔ اتنے بڑے قومی فراڈ کو جسکی دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی، ایسے قومی فراڈ کو جائز قرار دلوانے کے لئیے قومی خزانے کو مال مفت دل بے رحم کے مصداق بندر بانٹ کر رہے ہوں ۔ ُ ُ ڈگری جعلی ہو یا اصلی، ڈگری ہوتی ہے“ جیسے شرمناک بیان داغ کر پوری قوم کی ذہانت کا مذاق سر عام اڑارہے ہوں ۔ وہاں ایسے ملک میں مولوی اور مدرسے کا کردار کسی نعمت سے کم نہیں۔
ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ مدرسوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے اور قومی تعلیم کی ایک سمت اور اہداف مقرر کئیے جائیں تانکہ ایسے اداروں اور مدرسوں سے فارغ التحصیل صاحبان قوم کو اکسویں صدی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں اور قوم کو جہالت و غربت کے عفریت کے منہ سے کیھینچ کر ہم اللہ کے حضور سُرخرُو ہوسکیں۔
گوندل صاحب جو غلط ہے وہ غلط ہے،
اگر باقی تعلیمی ادارے اپنے راستے سے ہٹ چکے ہیں تو انہیں بھی کوئی درست نہیں کہہ رہا،
یہاں چونکہ بات دینی مدرسوں کی ہورہی تھی اس لیئے اسی حوالے سے بات ہوئی باقی دیکھا جائے تو پاکستان کا خصوصا اور باقی اسلامی ممالک کا عموماتعلیمی نظام دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے یہاں پڑھے لکھے جاہل اور کٹھ ملا پیدا ہونا بند ہوں!
عبداللہ صاحب اگر جو سچ وہ سچ ہے تو پھر وہ کون ہے جو دینی مدارس کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑا ہواہے،وہ کون ہے جو دینی مدارس کو شیعہ سنی وہابی اور دیوبندی میں تقسیم کرکے سب کے گرد گھیرا تنگ کیا ہواہے اور ہاں سچ اگر سچ ہے تو پھر بتائیے یہ کون لوگ ہیں جو اتنے مہذب اور تہذیب یافتہ ہیں کہ آج کے دور میں بھی جعلی ڈگریاں لے کر حکومتی کرسیوں پر براجمان ہیں جب کہ علماء کو جاھل اور ان پڑھ کہتے ہیں یاد رکھیے دینی مدارس سے بغض و عناد رکھنے والے وہ مہذب اور پڑھے لکھے افراد ہیں جو آج بھی فخرکے ساتھ ٹشوپیپر سے استنجا کرتے ہیں۔
لارد میکال
توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش ۔ ۔ ۔ لاہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو یہ چند شعر مرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامِ محمدِ عربی پر اسے کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا
جتنے منہ اتنی باتیں ، جتنی باتیں اتنے طعنے ۔ ”یہ زمانے کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے، یہ بسم اللہ کے گنبد میں بند ، ان کی دوڑ مسجد تک ،ان کی باتیں ہماری عقل سے ماورا، ان کا طرز زندگی معاشرے سے میل نہیں کھاتا۔یہ نیم خواندہ ملا ، کٹ حجتی ان کی عادت ، کج بحثی ان کا وطیرہ، کنفیوژن پیدا کرنا ان کامشغلہ“ ©©۔ زمانے بھر نے الزام و دشنام کی توپوں کا رخ ان فاقہ مستوں کی طرف موڑ دیامگر انہوں نے پیٹھ نہ دکھائی۔ اپنوں کے ستم خوردہ اور غیروں کے زخم رسیدہ یہ مہمانان رسول اپنے قافلے سے جدانہیں ہوئے۔دنیا خفاہوئی مگر انہوں نے سب کےلےے دامن دل وسیع رکھا۔لوگوں نے ان کے حلےے پر پھبتیاں کسیں مگر جواب میں کبھی دشنام نہیں پایا۔لکھنے والوں نے کنویں کا مینڈک لکھا ، شیلو واٹر کے تیراک کی پھبتی کسی مگر ان کی پیشانی پر بل نہیں پڑے۔نام نہاد دانشوروں نے سطحیتاور جاہلیت کاطعنہ دیا مگر انہیں مطالعے سے فرصت نہیں کہ تہمتوں کا جوا ب دے سکیں۔
وہ ہر دور میں زمانے کے قد م سے قدم ملا کر چلے مگر کج رفتاری کا ساتھ نہ دیا۔ وہ بسم اللہ کے گنبد میں بند رہے مگر کسی کوٹھے کی زینت کبھی نہ بنے۔ ان کی باتیںعقل سے ماورا نہیں ،بلکہ مادیت پرست عقلوں پر ردائے تیرگی پڑی ہوئی ہے۔ ان کاطرز زندگی معاشرے سے میل کھاتا ہے لیکن وہ اپنے رہن سہن پر مغربی چھاپ نہیں لگانا چاہتے۔ نیم خواندہ اس لےے کہا گیا کیونکہ ان کی اسناد گوروں کے دستخطوں سے پاک ہیں، و ہ اپنے پاکیزہ علم کی سند کسی ٹام اور ہیری سے نہیںلیناچاہتے۔کم علمی کا طعنہ ان پر لگایا جارہا ہے جنہوں نے بچپن اور لڑکپن کتابوں کی چاردیواری میں گزاردیا۔قطرے سے گہر اور ننھی کونپل سے شجر سایہ دار بننے تک غموں کے سینکڑوں موسم آئے،دکھوں کے سیلابوں نے تباہی مچائی مگر ان کے پائے استقلال میں ذرا سی لرزش بھی نہیں آنے پائی۔ وہ اس قبیلے کے جواں مرد ہیں جو حریف سیل بلارہا۔
ان کے حلیے پر بحث ہوئی لیکن ان درویشان خدامست نے کبھی کسی انگریز کی اترن نہیں پہنی۔اپنے رہنما فاتح بیت المقدس کی تقلید میں پیوند زدہ کپڑے توپہنے مگر کسی لارڈ سے پھوٹی کوڑی تک لینا گوارا نہ کی۔ ان کی جیب گل زر کامل عیار سے خالی سہی مگر وہ کسی جمشید کے ساغر نہیں بنے۔ انہوںنے مدرسے کی کچی پکی کھائی مگر باطل کے خلاف ہراول دستے میںوہی نظر آئے۔ پیٹ بھر کے کھانے والے انگریز کے گھوڑوں کے خرخرے کرتے رہے۔پھبتیاںان کے قدم روکنے کے بجائے شوق کو مہمیز دیتی ہیں۔شیلو واٹر کا تیراک انہیں کہا گیا جو جہنم کے کھولتے پانی میں ڈبکیاں کھاتے لوگوںکوبچانے کی تگ و دو کررہے ہیں۔
ان کے نصاب تعلیم پر وہ بات کرتے ہیں جو خود لارڈمیکالے کے یبوست زدہ دماغ سے خیرات مانگتے ہیں۔مدرسوں کے کچے درو دیوار دیکھ کر ناک بھوں وہ چڑھاتے ہیں جنہوںنے گوروں کی چاکری کرکے زمینیں الاٹ کرائیں۔ پیوند زدہ کپڑے دیکھ کر وہ نگاہیں پھیر لیتے ہیں جن کا بال بال رشوت ستانی میں جکڑاہواہے۔ سنت نبوی سے سجے ان چہروں کو دیکھ کر’ بوسیدہ چہرے ‘ کی پھبتی وہ کستے ہیں جن کے روئیں روئیں سے نحوست ٹپکتی ہے۔
وہ زمانے کے بدلتے رجحانات سے ناواقف نہیں مگر ہر ایرے غیرے کو یہ حق نہیں دیتے کہ جابجا بھاشن سناتا پھرے۔انہوں نے نصاب میں تبدیلیاں کی ہیں مگر کسی سے ڈکٹیشن کبھی نہیں لی۔ انہیں فخر ہے کہ آج دنیا میں کہیں بھی اسلام کا نام لیا جاتاہے ، کسی جگہ بھی تکبیر کانعرہ گونجتا ہے تو انہی کی شبانہ روز محنتوں کے طفیل ہے۔زمانہ ان سے برہم ہوا مگر وہ تو ہیں ہی کفن بدوش سدا۔ راہ حق میں ان کا تن بدن چھلنی ہوا مگر ان کی آنکھ میں ابھی نور ہے۔
خوشا وہ ماں باپ جنہوں نے ہر طرف پھیلی پیسے کی آگ میں جھونکنے کے بجائے اپنے بچے محمدی شبستانوں میں بھیجے۔ جنہوں نے نام نہادمفکرین کے اٹکل پچو پڑھانے کے بجائے ابدی صداقتوں کا انتخاب کیا۔
مرحبا وہ نفوس جنہوں نے کڑوی کسیلی سنیں مگر قافلہ نہ بدلا، پیسے کی دوڑ دیکھی مگر اپنے قدموں کا رخ نہ موڑا۔راہ وفا ایسے ہی سرمست دیوانوں کی منتظرہے۔ خمار عشق میں ایسے ہی سودائی اپنے سر کھودیا کرتے ہیںاور منزلیں تمہاری ہی راہ تکتی ہیں، برسوں سے۔
Leave A Reply