آج گوانتاناموبے جیل کی پانچویں سالگرہ تھی اور اس بات کا اندازہ تب ہوا جب انگلینڈ اور ایک دو دوسرے یورپی ملکوں میں اس جیل کے خلاف احتجاج ریکارڈ کراۓ گئے۔ لندن میں تو بہت زیادہ تعداد میں لوگوں نے سنگترہ رنگ کے سوٹ پہن کر اور منہ پر ماسک باندہ کر مظاہرہ کیا۔ اس دوران ایک گروہ نے گوانتاناموبے کے روزوشب کی عکاسی کرتے ہوۓ ایک شو بھی پیش کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم اپنی ویب سائٹ پر اسے ایک سکینڈل کہتی ہے۔
اسلامی دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں، این جی او یا حزبِ اختلاف میں سے کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ماڈرن دور کی کالے پانیوں میں قائم جیل کیخلاف احتجاج کرسکے جو ہمیں پتھر کے زمانے کی یاد دلاتی ہے جب قیدیوں کو بے پناہ اذیتیں دی جاتی تھیں، انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا اور ان کو اپنی زمین سے دور کالے پانی بھیج دیا جاتا تھا جہاں سے پھر ان کی صرف موت کی خبر آیا کرتی تھی۔ اب دنیا ترقی کرچکی ہے، لوگ پڑھے لکھے اور باشعور ہیں، جمہوریت کا دور دورہ ہے، عدالتوں کا نظام کام کر رہا ہے مگر اس کے باوجود انسانوں کو اس طرح قیدِ تنہائی میں رکھنا اور وہ بھی کوئی مقدمہ چلاۓ بغیر بہت بڑی ناانصافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے گوانتاموبے کی جیل کی شروع سے مخالفت کی اور اسے انسانیت کے نام پر دھبہ قرار دیا ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ گوانتاناموبے جیل قائم کرکے کونسے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اس سے دنیا میں جمہوریت کی بدنامی ضرور ہورہی ہے۔ پانچ سال کا عرصہ کسی جرم کی تفتیش کیلۓ بہت ہوتا ہے اور اس دوران قیدی سے جو راز معلوم کرنے ہوں وہ اگلواۓ جاسکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان قیدیوں کو عدالت میں پیش کیا جاۓ اور تفتیش کے دوران حاصل ہونے والے ثبوتوں کی روشنی میں انہیں سزا دی جاۓ۔ اگر اتنی لمبی قید کے باوجود قیدیوں سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکا تو پھر ان کو اب رہا کردیا جانا چاہۓ۔ اس طرح جمہوریت کی خدمت ہوگی اور آنے والی نسلوں کیلۓ ایک مثال بھی قاتم ہوگی۔
گوانتاناموبے کے قیام کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسطرح دہشت گرد آزاد نہیں ہیں اوران کی دہشتگردی سے دنیا محفوظ ہے۔ لیکن بہت ساری تنظیمیں بار بار یہ کہ چکی ہیں کہ چند تخریب کاروں اور دہشت گردوں کیساتھ ساتھ بہت سے بےگناہ بھی گٹمو میں جیل کاٹ رہے ہیں۔
لگتا ہے گٹمو کے قیدی اب اپنی زندگی سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ یہ انزازہ ہم نے اس خط سے لگایا ہے جو ایک قیدی نے اپنی بیوی کو لکھا ہے اور جسے ایک عدالت میں سنا کر حکومت سے پوچھا گیا ہے کہ اس قیدی کو مقامی عدالت میں پیش کرنے کی بجاۓ گٹمو کیوں بھیجا گیا۔
یہ خط سترہ اکتوبر دو ہزار چھ کو لکھا گیا تھا اور مختلف مقامات سے ہوتا ہوا دس جنوری دو ہزار سات کو ان کی بیوی کو سندھ کے شہر ٹنڈو اللہ یار میں ملا جہاں کی وہ رہنے والی ہیں۔
قیدی کے تحریر کردہ خط کے چند اقتباسات یوں ہیں۔
’اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ!
آپ بالکل یاد نہیں آتیں کیونکہ یاد تو وہ آتا ہے جو پل بھر کے لیے بھول گیا ہو۔
ذاتی شعر (ہماری کشتی میں ذرا سوچ کر قدم رکھنا دریائے شہداؤں میں کنارے نہیں ملتے) آپ کا اتنے غم میں ایک پیاری سی بیٹی دینے کا شکریہ۔۔منال (ماجد کی بیٹی کانام جو ان کی گرفتاری کے دو ماہ بعد پیدا ہوئی) کو اول قرآن کی خافظہ بنانا اور پھر انگلش سکول کی تعلیم دینا لیکن اگر اس کی دینی تعلیم میں حرج پڑے تو اسکول چھڑا دینا۔ آپ بھی قرآن حفظ کا کورس دوبارہ کریں۔مجھے تو کچا پکا دو ڈھائی پارہ قرآن کا یاد ہوگیا ہے‘۔
’اپنی لائف سٹوری کسی فلمی سٹوری سے کم نہیں بس اس میں ایک دو گانے پڑ جائیں تو کچھ جان پڑ جائے
’تو بس اپنے قدم جما رکھ۔۔۔۔میری واپسی کا نہ سوچ اس طرح ٹائم جلدی گزرے گا۔ بس اب جنت میں ملاقات ہو گی اور اگر واپس آیا تو یہ اللہ کا ہدیہ ہوگا‘۔
ماجد نے اپنے خط میں چند قرآنی آیتوں کا حوالہ دیکر اپنی بیوی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسے تفسیر کے ساتھ پڑھیں۔ اس کے بعد ماجد نے تین شعر بھی لکھے ہیں جن میں انہوں نے اپنی بیوی سے محبت کا اظہار کیا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے لکھا ہے ’اپنی لائف سٹوری کسی فلمی سٹوری سے کم نہیں بس اس میں ایک دو گانے پڑ جائیں تو کچھ جان پڑ جائے‘۔
انہوں نے اپنی بیوی سے کہا ہے ’اپنا دل ہلکا کرنے کے لے روزانہ کی ایکٹوٹی(معمولات) ایک پرسنل(ذاتی) ڈائری میں لکھ لیا کریں اور میں واپس آؤں گا تو پڑھوں گا شائد سمجھ سکوں کہ تم کن خیالوں اور مشکلات سے گذر رہی تھیں‘۔
گوانتا ناموبے کا قیدی اپنی بیوی کو لکھتا ہے ’باقی جان من سب خیریت ہے بس میرے لیے دعا کرو اور اس وقت دنیا میں میرے لیے ایک تو ہی ہے جو میرے لیے دل و جان سے دعا کر سکتی ہے۔امی کے لیےمیں خاص دعا کرتا ہوں اور امی ابو کو بولنا کہ اگر اللہ نے مجھے قبول کر لیا توانشااللہ سترلوگوں میں ایک وہ بھی ہیں جنہیں اللہ نے مجاہد کے لیے شفاعت کرنے کا وعدہ کیا ہے‘۔
خط کے اختتام پر ا نہوں نے تین چار بار’ تم سے محبت ہے‘ تحریر کیا ہے۔خط پر ان کے انگلش اور اردو کے دستخط ہیں جبکہ خط کے شروع میں انگلش میں لکھا ہے کہ میری بیوی انگلش نہیں پڑھ سکتی اس لیے میں نے اردو لکھی ہے۔
وکیل صفائی کےمطابق ماجد خان کو پانچ مارچ دوہزار تین کو کراچی سے پکڑا گیا تھا جس کے بعدان کی گوانتا ناموبے میں حراست کی اطلاع ملی۔
2 users commented in " گوانتاناموبے کی پانچویں سالگرہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجناب آپ ہم سے احتجاج توقّع نہ کریں۔ ہم پیسہ کمانے یا اسے خرچ کرنے میں مشغول ہیں۔
پنجابی کا ایک محاور هے
جڈا وڈا سر انہیاں وڈیاں پیڑاں
یعنی جتنا بڑا سر هو گا اتنی هی بڑی سر دردیاں بهی هوں گی ـ
اور اللّه بادشاھ کا حکم ہے که کسی کی برداشت سے زیاده اس پر بوجھ نہیں ڈالا جاتا ـ
اس جیل کے قیدی عظیم سے بڑھ کر هیں ـ ان لوگوں سے لگ کر عظمت بهی فخر کرتي هے ـ
بہت بڑے لوگ هیں یه مجاہد
انمول سمجهتے هیں ناں جی آپ ؟
کجھ ارب ڈالر یا پلاٹ یا کجھ بهی ان کا مول نہیں بن سکتا ـ
بے قیمت یعنی ناٹ فار سیل ـ
عورت کی طرح مل جائے تو نکاح کر کے مفت ورنه ناٹ فار سیل ـ
Leave A Reply