پہلے اسلام آباد میں دھماکہ ہوا، پھر پشاور میں اور اب ڈی آئی خان میں۔ ہمیں تو یہ تینوں خود کش دھماکے قبائلیوں کیساتھ جنگ کا حصہ لگتے ہیں۔ نہ ہی ان میں انتہا پسند تنظیمیں ملوث ہیں اور نہ ہی القائدہ کا کوئی تعلق لگتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں جب وزیرستان میں حکومت نے ہوائی حملوں سے بے گناہ لوگ مارے جن کی بعد میں اخبار نویسوں نے تصدیق بھی کی، تب وہاں کے مقامی لوگوں نے جنہیں اب حکومت اور میڈیا مقامی طالبان کہتا ہے نے ایک جرگہ بلایا اور اس میں بدلہ لینے کا عہد کیا۔ اسی طرح اس سے قبل باجوڑ اور دوسرے علاقوں میں بھی ہلاکتوں کے بعد وہاں کے لوگوں نے حکومت سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ ہوسکتا ہے انہی لوگوں نے بدلہ لینے کیلۓ یہ خود کش حملے کۓ ہوں۔ کیونکہ ان حملوں کا نشانہ حکومتی پولیس تھی نہ کہ کسی فرقے کے لوگ۔
ہم بھی کتنے کم عقل ہیں کسی کی جنگ اپنے ملک میں لڑ رہے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد باقی ماندہ لوگوں کا اپنا دشمن بنا رہے ہیں۔ کیا پاکستان باقی تمام مسائل سے آزاد ہے جو حکومت اپنے سارے وسائل انتہاپسندی کے خاتمے کیلۓ استعمال کررہی ہے۔ اس سے پہلے بھی بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں کاروائیاں ہوتی رہی ہیں جن کا کچھ نتیجہ نہیں نکلا۔ اب بھی یہ جنگ بناں کسی نتیجے کے جاری رہے گی۔ حکومت اور اس کے ایڈوائزر اگر عقل مند ہوتے تو قبائلی علاقوں کے مسائل کا حل گولی کی بجاۓ مزاکرات سے کرتے۔ قتل و غارت کی بجاۓ کچھ لے اور کچھ دے کر معاملات نمٹانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ پتہ نہیں ہمیں کب عقل آۓ گی اور ہم ہر مسئلے کا حل مزاکرات سے ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ قبائلیوں سے مزاکرات کرے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کرے۔ وہاں ترقیاتی کام شروع کرواۓ اور تعلیم کا بندوبست کرے۔ ہم سے زیادہ تو امریکہ عقل مند ہے جس نے پاکستان سے انتہاپسندی ختم کرنے کیلۓ تعلیم کو ذریعہ بنایا ہے۔ وہ ایک طرف حکومت کو تعلیمی نصاب بدلنے کہ رہا ہے تو دوسری طرف تعلیمی اداروں کو کروڑوں روپوں کی امداد بھی دے رہا ہے۔ عقل مند وہی ہوتا ہے جو جنگ میں اپنا کم سے کم نقصان ہونے دے اور فتح بھی حاصل کرے۔ ہم ہیں کہ روزانہ جانی نقصان بھی اٹھا رہے ہیں اور جیت سے کوسوں دور بھی ہیں۔
ہمارے مسائل تبھی حل ہوں گے جب حکومت کی باگ دوڑ پڑھے لکھے اور مخلص لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ ایسے لوگوں کے ہاتھ حکومت تبھی آۓ گی جب لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے اچھے لوگوں کو منتخب کریں گے۔ وہ وقت دور نہیں جب لوگ اپنے ووٹ کی اہمیت جان جائیں گے اور حکومت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔
5 users commented in " کیا دھماکے قبائلیوں کیساتھ جنگ کا حصہ تو نہیں؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیرا نہیں خیال کہ یہ قبائلیوں کی حرکت ہو!!!!!
میرا ایک دوست کہتا ہے کہ اس میں اُ کا ہاتھ ہے جن کی ٹانگ ہمارے ہر معاملے میں نظر آتی ہے!!! ہمارا ہر کام دراصل اُ کا کام ہوتا ہے اور اسے ہم اپنی ضرورت قرار دیتے ہیں!!!
Hmmm … seems so to me too … with the ongoing activities in baluchistan ….!
جناب آپ ان دهماکوں کی ہسٹری اور طریقه واردات پر غور کریں ـ ایک فوجی حکومت ضیاء صاحب کے دور میں شروع هوئے تهے ـ اور ان کا ذمے دار کبهی بهی نہیں پکڑا گیا ـ
هو سکتا هے که یه ” اندورونی طاقت ” کا کام هو ؟
ان حالیه دهماکوں میں فرقه واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے مگر کہیں بهی کسی اہل تشیح ان کا الزام اہل سنت پر نہیں رکها اور کہیں بهی کسی اہل سنت نے ان دهماكوں پر خوشی کا اظہار نہیں کیا ـ
کیونکه اب عام پاکستانی بهی اس ”اندورونی طاقت ”کی چالوں کوکسی حد تک سمجهنے لگے هیں ـ
پاکستان کے عام لوگ پاکستان سے بے مشروط محبت کرتے هیں اس لئے ان سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں هو سکتا ـ
مگر ایلیٹ لوگ ، اللّه ان سے بچائے انہوں نے پاکستان کو اپنی کمینگیوں کا اکهاڑا بنایا هوا هے ـ
میں یہاں لکھ نهیں سکتا ـ
آپ کسی بهی پاکستانی سے پوچھ لیں یه دهماکے کس کا کام هیں ـ
وه فوراَ آپ کو بتائے گا که
یه ـ ـ ـ ـ ـ کا کام هے ـ
میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ یہ قبائلی کاروائی نہیں تھی۔
جناب عالی اس ساری فرقہ واریت کی فصل کا کیا ہوگا جو ہم برسوں سے تیار کرتے آئے ہیں؟ کیا آپ لوگوں نے منمبر سے بلند ہونے والی فرقہ واریت نہیںسنیں؟ کیا آپ کے خیال میں ہمارے مدرسوں میں امن و آشتی کا پیغام دیا جاتا ہے؟ میرا نہیںخیال۔۔ جن بچوں کو ہم نے انسانی جانوں کے عوضجنت کی کنجیاں تھمائی ہیں وہ بھی تو اپنا حصہ اس کار خیر میں ڈالیں گے۔۔
ملاؤں کی بوئی ہوئی فصل اب تیار ہے۔۔
Leave A Reply