پاکستانی ٹی وی چینل میوزک پر ایک پروگرام “بینڈ تو بجے گا” دکھایا جاتا ہے۔ اس پروگرام میں میزبان لڑکے اور لڑکیوں کو کسی کالج یا یونیورسٹی سے بلا کر آمنے سامنے بٹھاتا ہے اور پھر کسی مسئلے پر بحث چھیڑ دیتا ہے۔ آخر میں جس ٹیم کے کمنٹس زیادہ جاندار ہوں اسے فاتح قرار دیتا ہے۔
کل رات جو پروگرام نشر کیا گیا اس میں میڈیکل کالج کی طالبات اور طالبعلم آمنے سامنے تھے اور مباحثہ اس بات پر شروع ہوا کہ لڑکوں کو میڈیکل کالج میں کھلے میرٹ پر داخلہ ملنا چاہۓ یا پھر لڑکوں کا کوٹہ مقرر کردینا چاہۓ۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں زمانہ بدل رہا ہے ایک وقت تھا لڑکیوں کے کوٹے کی بات ہوا کرتی تھی اب لڑکیاں پڑھائی میں اسقدر آگے نکل گئی ہیں کہ جو اوسط لڑکیوں کی کالجوں یونیورسٹیوں میں ہوتی تھی وہ اب لڑکوں کی ہوتی ہے۔ اب لڑکوں کے اپنے کوٹے کا مطالبہ کرنا پڑ رہا ہے۔
لڑکوں کا خیال تھا کہ لڑکیاں میڈیکل کالج میں اسلۓ داخلہ لیتی ہیں کہ وہ اپنے لۓ اچھا رشتہ ڈھونڈ سکیں اور جونہی وہ کالج کے دوسرے یا تیسرے سال میں پہنچتی ہیں اور انہیں اچھا رشتہ مل جاتا ہے تو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر گرہستی سنبھال لیتی ہیں۔ اس طرح قوم کا وقت اور سرمایہ دونوں ضائع کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ لڑکوں نے یہ بھی مانا کہ لڑکے بورڈ کے امتحانات میں تو لڑکیوں سے آگے ہوتے ہیں مگر میڈیکل کالج کے داخلہ ٹیسٹ میں لڑکیاں آگے نکل جاتی ہیں۔ لڑکوں کے بقول اگر پانچ لڑکیاں میڈکل کالج کیلۓ کوالیفائی کرتی ہیں تو ان کے مقابلے میں صرف ایک لڑکا کامیاب ہوتا ہے۔ لڑکوں کا یہ بھی خیال تھا کہ لڑکیاں دور دراز علاقوں میں تنہا نوکری نہیں کرنے سے انکار کردیتی ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کرتی ہیں۔ ایک اور بات لڑکوں نے یہ کہی کہ لڑکیاں زیادہ تر گائناکالوجسٹ یا بچوں کی ڈاکٹر بنتی ہیں اور اسطرح باقی شعبوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہوجاتی ہے۔ لڑکوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ لڑکیاں اکثر ڈاکٹری پاس کرکے گھر بیٹھ جاتی ہیں اور اسطرح قوم نے ان پر جو سرمایہ خرچ کیا ہوتا ہے اس کو برباد کردیتی ہیں۔
لڑکیوں نے کافی اچھے خیالات کا اظہار کرکے اپنا دفاع کیا مگر جیسا کہ ہم نے اوپر کہا جیت لڑکوں کی ہی ہوئی۔
ہمیں یاد ہے جب ہم نے یونیورسٹی کالج آف انجنیرنگ ٹیکسلہ میں 1978 میں داخلہ لیا تھا تو ایک بھی لڑکی وہاں نہیں پڑھتی تھی۔ سب سے پہلی لڑکی سول انجنئرنگ میں 1981 میں آئی جب ہم آخری سال میں تھا۔ اس وقت اس لڑکی کا بہت چرچا ہوا اور سب لوگ تجسس کی خاطر اسے دیکھنے جایا کرتے تھے۔ پچھلے سال جب ہم اسی یونیورسٹی میں گۓ تو کیمپس میں ہمیں لڑکیاں ہی لڑکیاں نظر آئیں۔ یہی حال اب دوسرے کالجز اور یونیورسٹیوں کا ہے۔
ہمارے خیال میں يہ ایک اچھی تبدیلی ہے اگر اسے ایک خاص دائرے تک محدود رکھا جاۓ یعنی بے راہ روی کی بنیاد نہ بنا دیا جاۓ۔ مگر اب چونکہ ہمارا معاشرہ انحطاط کا شکار ہے اسلۓ لڑکیوں کے تعلیم کی طرف زیادہ رجحان نے مغربی آزادی کا چسکا سب کو ڈالنا شروع کردیا ہے جو اب ٹی وی ڈراموں، مباحثوں اور فلموں میں کھل عام دکھایا جاتا ہے۔ جو باتیں پہلے پردہ سکرین پر معیوب ہوا کرتی تھیں وہ اب سٹیٹس کو کا سمبل بن چکی ہیں۔ اب ہمیں امید بھی نہیں ہے کہ کوئی اس مغربی تہزیب کی یلغار کو روک سکے گا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئ ہم ثابت یہ کرنا چاہتے تھے کہ جتنے بھی کمنٹس لڑکوں نے پاس کۓ اور اپنے خیالات کا اظہار کیا وہ مخاطب تو لڑکیوں کو کررہے تھے مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان سب وجوہات کی ذمہ دار لڑکیاں نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔ مثلأ اگر لڑکیاں دوسرے تیسرے سال میں اچھا رشتہ ڈھونڈ لیتی ہیں شادی ان کیساتھ تو لڑکے ہی کرتے ہیں ناں۔ اسی طرح اگر وہ ڈاکٹر بن کر شادی کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہیں تو لڑکے ہی ان کو یہ کہ کر پریکٹس نہیں کرنے دیتے کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خاندان کی مالی ضروریات مرد کے ذمے ہیں اور عورت کا کام صرف گھر کی چاردیواری میں بچوں کو پالنا اور خاوند کی خدمت کرنا ہے۔ اگر لڑکیاں دور دراز علاقوں میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں تو اس کے ذمہ دار بھی لڑکے ہی ہیں۔ پچھلے سال پاکستان کی سیر کے دورا ہماری بڑی بیٹی ہم سے صرف ایک ہی سوال پوچھتی رہی کہ پاکستانی مرد عورتوں کو اسطرح کیوں گھورتے رہتے ہیں اور ہمارے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
تو ثابت یہ ہوا کہ اب بھی پاکستانی معاشرہ مردوں کا غلام ہے اور مرد ہی اپنے خاندان کا سربراہ اور کرتا دھرتا ہے۔ مرد اگر چاہے تو اس کی بیوی، بہن یا بیٹی ڈاکٹری کی پریکٹس کرسکتی ہے اور اگر وہ نہ چاہے تو نہیں کرسکتی۔ کوئی یہ تک سوچنے کی جرات نہیں کرتا کہ لڑکی نے اپنی زندگی کے چھ قیمتی سال پڑھائی میں لگاۓ اور وہ ایک منٹ میں اس کے کۓ کراۓ پر پانی پھیر رہے ہیں۔ ہماری ایک بھتیجی نے بی فارمیسی پانچ سال میں اول پوزیشن کیساتھ اس طرح پاس کی کہ اس کی پانچوں سال کی فیس اس کی اعلی کارکردگی کی وجہ سے معاف رہی۔ مگر جب اس کی شادی ایک آرمی کیپٹن سے ہوئی تو اس نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ اس کو نوکري چھڑوا دی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیاں آگے آنے کی اب جتنی کوشش کررہی ہیں لڑکے اب بھی انہیں اسی کوشش کے برابر واپس دھکیل رہے ہیں۔ یہ کام لڑکوں کا ہے کہ وہ لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں معاشرے کا ایک اہم شہری بننے میں مدد دیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ پاکستانی لڑکیاں اتنی طاقتور ہیں کہ وہ گھر اور نوکری ایک ساتھ چلا سکتی ہیں اگر لڑکے ان کا ساتھ دیں۔
یہی ایک پوائنٹ تھا جو ہمارے خیال میں میزبان کو بتانا چاہۓ تھا اور اسطرح لڑکوں کی بجاۓ لڑکیوں کو کامیاب قرار دینا چاہۓ تھا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا لڑکیوں کو نوکری کرنی چاہۓ یا نہیں اور اگر کرنی چاہۓ تو پھر گھر کے کام کاج میں لڑکوں کو ان کا ہاتھ بٹانا چاہۓ کہ نہیں؟
3 users commented in " مردوں کا غلام معاشرہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackميں آپ کے استدلال سے متفق نہيں ہوں ۔ ميرا مشاہدہ يہ ہے کہ جو لڑکياں ميڈيکل کے علاوہ کوئی اور تعليم حاصل کرتی ہيں ان کی زيادہ تعداد ملازمت کرتی ہے جبکہ ميڈيکل کالج ميں داخل ہونے والی لڑکيوں ميں سے زيادہ سے زيادہ دس فيصد ڈاکٹر بن کر ملازمت کرتی ہيں ۔
اجمل صاحب
ھمارا استدلال یہ ہے کہ اگر طالبات میڈیکل کالج کی پڑھائی ادھوری چھوڑ دیتی ہیں یا شادی کے بعد پریکٹس نہیںکرتیں تو اس کے ذمہ دار لڑکے ہیں لڑکیاں نہیں۔
چوتبا پا
Leave A Reply