ویلنٹائن ڈے کا مطلب ہے اپنے لور کو تحفہ دینا اور محبت نباہنے کا عہد کرنا۔ ویلنٹائن ڈے پر تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ یہ صدیوں پرانی روایت ہے مگر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اب یہ جدید شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ جب سے کمیونیکیشن نے فاصلے کم کرنے شروع کۓ ہیں ایک علاقے کے رسم و رواج دوسرے علاقوں میں تیزی سے پہنچنا شروع ہوگۓ ہیں۔ ٹی وی، ڈش، انٹرنیٹ نے اب گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں چھوڑا جو دوسرے خطوں کے رسم و رواج سے متاثر نہ ہوا ہے۔ انڈیا کی ثقافت کی پاکستان پر یلغار سب کے سامنے ہے۔ اب شادیوں میں لڑکیاں بندیاں بھی لگاتی ہیں اور لڑکے لڑکیاں ڈانس بھی کرتے ہیں۔ دلہن کی سہیلیاں دلہن سے بھی زیادہ سج دھج کر آتی ہیں۔ لڑکے لڑکیوں کے ڈانس مقابلوں کا اہتمام اسی طرح کیا جاتا ہے جسطرح ہم انڈین فلموں میں دیکھتے ہیں۔
موبائل فون نے تانک جھانک اور چوری چھپے پیغامات کے پرانے طریقوں کو ختم کردیا ہے۔ اب موبائل پر محبوب کو پیغام بھیجنا بہت آسان ہوچکا ہے۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ پرانے عاشق یعنی شیریں فرہاد، لیلی مجنوں اور ہیر رانجھا اگر دوبارہ دنیا میں لوٹ آئیں تو اپنی محبت کی بازی اتنی آسانی سے جیت لیں کہ فلمسازوں کو تین گھنٹے کی فلم بنانے کا طریقہ ہی نہ آۓ۔
اب ہماری فلمیں آزاد ہیں اور چوری چھپے کے عشق اب ختم ہوچکے ہیں۔ اب اکثر فلموں میں سرِ عام عشق ہوتا ہے اور اکثر کہانی تین کرداروں پر گھومتی ہے یعنی ایک عاشق اور دو معشوقائیں یا ایک معشوق اور دو عاشق۔ اب تو عرصہ ہی ہوا ہے ایسی فلم بنے جس میں محبت کی لازوال کہانی بیان کی گئ ہو۔
ویلنٹائن ڈے بھی عاشقوں کیلۓ ایک نعمت بن کر وارد ہوا ہے۔ اب آپ جس سے محبت کرتے ہیں مگر اب تک اظہار کرنے کی جرات نہیں کرپاۓ اسے صرف پھول یا اگر آپ غریب ہیں تو پھر ایک سستا سا کارڈ بھیج کر اپنے دل کی آواز اس تک پہنچا سکتے ہیں۔ آگے آپ کے محبوب کی مرضی ہے کہ وہ بہت ساری آفروں میں سے کس کی آفر قبول کرتا ہے۔
پہلے زمانے میں عشق صرف یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کی وجہ سے پروان چڑھا کرتے تھے یا پھر محلوں میں لڑکیوں کا سکول اور کالج تک پیچھا کرکے محبت کی پینگیں بڑھائی جایا کرتی تھیں۔ اب موبائل سے ٹیکسٹ بھیجۓ یا پھر نمبر گھمایے اور محبت کی کہانی شروع کردیجۓ۔
افسوس اسی بات کا ہے کہ ہم نے ویلنٹائن، بسنت اور ہندوانہ طرز کی شادی کی رسومات کو تو آسانی سے اپنا لیا مگر یورپ اور ہندوستان کے اچھے اصولوں کو نہیں اپنایا۔ کتنا اچھا ہوتا اگر ہم انڈیا کی تقلید کرتے ہوۓ پاکستان میں جمہوریت قائم کرتے اور کبھی فوج کو سول محکموں میں داخل نہ کرتے۔ اچھا ہوتا اگر ہم یورپ کے عدالتی انصاف کے نظام کی تقلید کرتے جہاں ہر چھوٹے بڑے کو ایک ساتھ حاضر ہونا پڑتا ہے۔ ہم امریکیوں کی طرح اپنے وطن سے محبت کرتے اور وطن کی مٹی کو ہر چیز سے مقدم سمجھتے۔ امریکی بچوں کی طرح اپنے کالج اور یونیورسٹی کے اخراجات خود برداشت کرنے کیلۓ نوکری کرتے، پولیس، ٹیکس اور دوسرے سرکاری محکموں سے رشوت کا خاتمہ کرتے۔
ہم لڑائی مار کٹائی سے پرہیز کرتے اور رواداری کو اپنانے۔ جھوٹ بولنے اور ایک دوسرے کو دھوکہ دینے سے پہلے سوچتے کہ عدالت میں ان جرائم کی بھی پکڑ ہوسکتی ہے۔ اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھتے اور سڑکوں اور گلیوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نہ لگاتے۔ رشوت لینے اور دینے سے توبہ کرتے اور ہر کام جائز طریقے سے کرتے اور کرواتے۔
اچھا یہی ہوگا کہ ہم ویلنٹائن ڈے، نیو ایئر اور لبرل ازم کے ساتھ ساتھ یورپ کی اوپر بیان کردہ اچھائیوں کو اپنائیں جن کی وجہ سے یورپ آج ترقی یافتہ ہے اور ہم پسماندہ۔ خدا ہمیں برے کاموں کی بجاۓ اچھے کاموں کی تقلید کی توفیق عطا فرماۓ تاکہ ہم بھی دنیا میں ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی صف میں شامل ہوسکیں۔ آمین
15 users commented in " ویلنٹائن ڈے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackانتہائی اہم بات کی آپ نے ہم نے وہ چیزیں تو دوسری تہذیبوں کی اپنا لی جس میں ہماری دل لگی کا سامان تھا مگر وہ باتیںجس میں ہمیں کچھ قربانی دینی پڑتی جس میں کچھ محنت کرنی پڑتی وہ ہم نے نہیں اپنائی یعنی قانون کی پاسداری، محنت کی عظمت، جمہوری اصول، برداشت وغیرہ۔ ہم مغرب کے آوارہ اور لفنگوں کے فیشن تو اپنانے میں فخرمحسوس کرتے ہیں مگر باقی چیزوں کو کافروں کی تہذیب کہہ کر رد کردیتے ہیں۔
بہت اچھا لکھا ہے آپ نے
Magharba main taraqee to secularism kee marhoon e minnat hai yaanee aap ka amzhab or firqa kia hai is say koi faraq naheen parta balkay aapkee qabliat pay nigah kee jattee hai. Lekin aap ko to secularism say chir hay to phir bhugteeay.
یہ انتہائی مضحکہ خیز بیان ہے کے مغرب میں بشمول امریکہ جو بھی اچھائی ہے وہ سیکولرازم کی بدولت ہے۔ جناب عالی یہ بتائیں ٹریفک کے قوانین کی پابندی، ایمانداری، میرٹ ان تمام چیزوں کا سیکولرازم سے کیا لینا دینا؟
راشد صاحب کی بات بالکل ٹھیک ہے کہ سیکولرازم ہو یا مذہب دونوں قانون کی پاسداری سکھاتے ہیں۔ دونوں کہتے ہیں کہ عوام کو ان کا حق جمہوریت دو، ان کے حقوق کا خیال رکھو اور کرپشن، ذخیرہ اندوزی، ڈاکے چوریوں سے معاشرہ پاک کرو۔
Secularism kee badulat aik Sunni bharat ka sadr hai (zimnun arz hai kay us nay wo atom bomb banaya jo pakistani sunnion kay khilaf istemall hoga yannee Pakistan or pakistani sunnion ko khatray main dala or Islam kay dushmanoon ko support kia). Kia pakistan main koi ghair-sunni president ya prime minister ho sakta hai chahay jitna bhee qabal ho?
Taraqee siraf traffick kay quaneen pay amal kurnay say nahain hotee or merit ka secularism say bhuhat talaq hai agar app hur uhday kay liay pehlay mazhab or firqa dekhtain hain to merit kia hua?
میرے بھائی آپ بہت بنیادی باتوں میں کنفیوز ہیں۔ پہلی چیز تو یہ کے پاکستان کی اور اسرائیل کی بنیداد مذہب پر ہے لہٰذا یہاں غیر مسلم صدر اور وزیر اعظم کا مسئلہ ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ٹریفک قوانین اس کا مطلب چھوٹے اور بنیادی قوانین کی پاسداری ہوتا ہے جو ترقی کا بنادی جز ہے۔ مجھے کوئی ایک مثال ایسے معاشرے کی لا کر دے دیںجہاںترقی بھی ہو اور بنیادی قوانین کی دھجیاں بھی اڑائی جاتی ہوں جب اجتماعی طور پر آپ بنیادی قوانین کی پاسداری نہیںکرتے تو پھر معاشرے میں لاقانونیت، رشوت عام ہو جاتی ہے۔ رہ گئی بات عبدالکلام صاحب کی تو ان کے مطابق انکا وطن بھارت ہے اور اپنے وطن کے دفاع کے لیے وہ جو کررہے ہیں میرے حساب سے وہ بالکل درست ہے۔ ہم نے بھی تو ایٹم بم بنایا ہے بھارت پر گرانے کے لیے اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض کر دوں کے دنیا میںمسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد بھارت میں ہی رہتی ہے عجیب بات ہے نہ ؟ ویسے ترقی اگر ٹریفک کے قوانین پر پابندی، میرٹ پر عمل درآمد اور بنیادی تعلیم سے نہیںہوتی تو براہ کرم ترقی کی کنجی تو تحریر کر د یں؟
شیوسینا نے ویلنٹائن ڈے کو بھارت کی ثقافتی روایات کے خلاف قرار دیا۔
http://daily.urdupoint.com/todayNewsLive.php?news_id=21212&featured=1&cat_id=2
یہ صاحب جو اپنے آپ کو ۔ می ۔ لکھتے ہیں ناجانے کس دنیا میں رہتے ہیں ۔ مطالعہ کئے بغیر اپنے آپ کو فلسفی سمجھ بیٹھے ہیں ۔ سیکولرزم مذہب کو ذاتی معاملہ کہتا ہے جبکہ مذہب محنت ۔ دیانت داری ۔ رواداری اور انسانی فلاح کیلئے تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ مسلمان ملکوں کی پستی کی وجہ مذہب سے دُوری ہے نہ کہ کہ مذہب ۔
Ajmal sahib jitna ghota islam ko pakistan main lagaya jata hai aur kahan huta hay? Phir bhee yeah haal?
جناب می صاحب
آپ کے سارے دلائل کی تردید ہماری موجودہ سیکولر حکومت کے سات سال کی کاکردگی کررہی ہے۔ جتنا جنرل صاحب نے مذہب کو تیاگ کر سیکولراز، کا رونا رویا ہے اور اسی کو حکومت کی بنیاد بنایا ہے پہلے کبھی کسی نے ایسا نہیںکیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ وہی بے ڈھنگی معاشرے کی چال، وہی کرپشن، وہی اقربا پروری، وہی خود غرضی، ملک سے غداری، عوام کے حقوق کی پامالی اور غیروں کی حکم پروری۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ مذہب اور سیکولرازم بعد کی بات ہے پہلے حکمران کا قوم کے ساتھ مخلص ہونا ضروری ہے۔
جو آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا کبھی غیر سنی صدر یا وزیر اعظم نہیں بنا، وہاں آپ یھ بھی دیکھیں کہ امریکہ کی صدر آج تک کوئی عورت نہیںبنی جہاںعورتوں کے حقوق کا رونا رویا جاتا ہے اور نہ ہی یورپ کے کسی ملک میںغیر عیسائی حکمران کبھی منتخب ھوا ہے۔
ھم پھر یہی کہیںگے کہ مذہب یا سیکولرازم ملکوں کی ترقی میں بعد میںآتے ہیں، پہلے حکمرانوں کا باعمل ہونا ضروری ہوتا ہے چاہے وہ سیکولرازم پر عمل کریںیا مذہب پر۔ اگر حکمرانوں کی نیت میں ہی خرابی ہو تو پھر سیکولرازم بھی کسی کام کا نہیں۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو سیکولرازم کے سارے نظریات اسلام سے حاصل کئے ہوئے ہیں۔
اس کے بعد بھی آپ مزید بحث برائے بحث کرنا چاہتے ہیں تو پھر بات آگے بڑھانے ک کوئی فائدہ نہیں۔
America main aurat ka qanoonan sadar banna mana nahain hai. Pakistan main aaeen ghair sunnion kay sath taasub baratta hai or who qanoonan mana kia jatay hain brabar kay huqooq say.
جناب می صاحب آئین اور ملک کسی ایک قوم کے لیے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے لہذا آئین اور قوانین اکثریت کے حساب سے اور اقلیتوں کے تحفظ کو ملحوظ رکھ کر بنائے جاتے ہیں ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں عورتیںوزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں۔ امریکہ میں قانون اور آئین تو منع نہیںکرتے مگر معاشرہ کسی سیاہ فام یا عورت کو شاید صدر دیکھنا پسند نہیںکرتا۔۔ Action Speaks Louder than words دیکھیں اب کی بار ہیلری کلنٹن یا براق اوباما صدر بنتے ہیں یا نہیں یا پھر نیویارک کے سابق میر جوڈی گولیانی 🙂
جناب مالک بلاگ۔ معذرت چاہتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کے اس بلاگ پر یہ میری آخری پوسٹ ہے۔
مندرجہ بالا بحث نہایت دلچسپ ہے اور اسی زمرے میں میں نے اپنا حالیہ بلاگ بھی لکھا تھا۔
میرے خیال میں اسلام سے بڑا سیکولر مذہب کوءی نہیں، کیونکہ دین کے معاملے میں کوءی جبر نہیں۔ جہاں تک ملک کو چلانے والے قوانین کا تعلق ہے تو اسکے لءے بھی سیکولر طریقہ کار اپنانا چاہیے، یعنی اگر عوام کی اکثریت چاہے تو شریعت نافذ ہو ورنہ نہیں۔ ورنہ تو یہی حال ہو گا کہ لوگ سودی نظام کو گالیاں تو دیتے ہیں لیکن زکوۃ کی کٹوتی کے وقت پیسہ بنک سے نکال لیتے ہیں۔ تبدیلی لوگو ں کی سطح سے آنی چاہیے۔ جہاں تک اداروں (یعنی قوانین، اصول، رولز آف دی گیم) کا تعلق ہے تو اس میں ہمیں بہت بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، اگرچہ اسلام نے بنیاد فراہم کر دی ہے۔
دعا کا طالب،
Faisal sahib aapkay blog ka url kia hai?
Leave A Reply