آج کل موجودہ کرپٹ سسٹم کو تبدیل کرنے کی بحث چل پڑی ہے۔ ایم کیو ایم کے الطاف حسین اور تحریک انصاف کے عمران خان نے تبدیلی کیلیے جرنیلوں کی حمایت سے بھی دریغ نہیں کیا۔ بلاگر فرحان دانش کے بقول کامران خان کے شو میں سو فیصد عوام نے تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ عوام کو بھی نظام سے سروکار نہیں مگر وہ حکمران ایسا چاہتے ہیں جو مسلمان ہو اور نبی پاک صلعم کی ہدایت کی روشنی میں خود بھی زندگی گزارے اور عوام کا بھی خیال رکھے۔
ہم اس سے پہلے پھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ میڈیا اب اتنا طاقتور ہو چکا ہے اگر وہ چاہے تو عوام کو اس تبدیلی کیلیے دنوں میں تیار کر سکتا ہے۔ ابھی تک میڈیا نے کرپٹ نظام پر شدید تنقید کی ہے مگر اس نے عوام کی تربیت کیلیے کوئی خاص پروگرام پیش نہیں کیا۔ مسائل پر بحث ہو رہی ہے مگر حل کیلیے عوام کی رہنمائی نہیں کر رہا۔
میڈیا اگر انڈین پروگراموں اور ڈراموں کو چھوڑ کر دو سال کیلیے عوام کی اصلاح کا بیڑا اٹھا لے تو ہمیں سو فیصد امید ہے اگلے انتخابات میں نیک دل اور ہمدرد سیاستدان ہی اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔
یہی کچھ عمران خان اور الطاف حسین کو کرنا ہو گا۔ وہ میدان میں نکلیں، شہر شہر گاؤں گاؤں گھومیں اور عوام کی تربیت کا فریضہ انجام دیں۔ ابھی تک ہماری حزب اختلاف نے تبدیلی کیلیے ذرہ برابر بھی عوامی کوشش نہیں کی۔ صرف اور صرف میڈیا پر مباحث میں حصہ لیا جا رہا ہے اور خالی بیان داغے جا رہے ہیں۔ ابھی تک کسی بھی سیاستدان نے تبدیلی کیلیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ نہ جلسہ کیا ہے اور نہ جلوس نکالا ہے۔ اس وقت لوگ موجودہ نظام سے اکتائے ہوئے ہیں اور لوہا گرم ہے۔ جو بھی پہلی چوٹ لگائے گا وہ ضرور کامیاب ہو گا۔
میڈیا کو چاہیے کہ وہ ایسے ڈرامے، ٹاک شوز اور دوسرے پروگرام اس طرح ترتیب دے کہ عوام میں اچھے برے کی تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ عوام پارٹی اور مردہ لیڈروں کی قبروں کی سیاست سے باہر نکل کر سوچنا شروع کریں تا کہ اگلے انتخابات میں وہ ایسے نمائندے چنیں جو ان کا خیال رکھیں۔
13 users commented in " تبدیلی کیلیے میڈیا اور حزب اختلاف کا کردار "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمتفق۔
تبدیلی عوام کے ووٹ کے ذریعئے آنی چاہئیے۔ عوام کو یہ فیصلہ کرنا چاہئیے کہ انکے لئیے کون صحیح اور کون غلط ہے۔
فوج وغیرہ کی بجائے جمہوریت چلتی رہی تو عوام میں اچھے لوگوں کے چناؤ کا شعور پیدا ہوجائے گا۔
آج دنیا ٹی وی کے ایک سروے پول کے مطابق 75فیصد عوام کا کہنا ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف مارشل لاء جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔
http://img825.imageshack.us/img825/9730/fsdfk.jpg
میں آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ عوام پارٹی اور مردہ لیڈروں کی قبروں کی سیاست سے باہر نکل کر سوچنا شروع کریں تا کہ اگلے انتخابات میں وہ ایسے نمائندے چنیں جو ان کا خیال رکھیں۔
اگلے دو تین سال کے اندر اندر یہ سیاستدان اس ملک کو ایسے انجام سے دوچار کرکے رکھ دیں گے کہ جس کا تصور کرکے ہی بدن پر جھرجھری طاری ہو جاتی ہے۔
media is playing a very good role and people have now developed sense to know what is wrong and right. Still I want to speak against the martial law.Becoz this will make the circumstances uncontrollable once again as hatred for army will increase day by day.
کیا ہوا، کہاں تو آپ الطاف حسین کو مشورہ دے رہے تھے کہ ہمت ہے تو گورنمنٹ میں اپنی ساجھے داری چھوڑ کر نک جائیں اور پھر تبدیلی کی بات کریں اور کہاں عمران خان جب اس ریس میں شامل ہوئے کہ ہم بھی تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ نے الطاف حسین کو بھی عزت دے دی۔
اور یہ آپ نے کیسے اخذ کیا کہ عوام کو نظام سے سروکار نہیں وہ صرف حکمران مسلمان چاہتے ہیں۔ سبھی حکمران مسلمان گذرے ہیں اور ضیاء صاحب تو اسلام کے مطابق زندگی بھی گذارتے تھے اور عوام کا بھی ‘خیال’ رکھتے تھے۔ مگر عوام ان سے بھی نا خوش رہے۔
یہ آئیڈیا بھی خاصہ زبردست ہے کہ میڈیا عوام کی اصلاح کرے۔ میرا خیال ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو اسکا خیال نہیں آیا۔ اور انہوں نے خوامخواہ اتنا وقت عوام کی تعلیم اور اپنے آئین کی اصلاح سازی اور نطام عدل کو بہتر بنانے میں خرچ کیا۔ میرا تو خیال تھآ کہ میڈیا رف پروپیگینڈہ کر سکتا ہے اور یہ اہل دانش اور ہمارے پالیسی ساز ہیں جو اسے پروپیگینڈہ کرنے کے لئے مناسب راہ سجھا سکتے ہیں۔
ویسے بر سبیل تذکرہ میڈیا کو چلانے والے لوگ کس ہنر میں یکتا ہیں اور کہاں کے دانا ہیں کہ آپ انہیں یہ ذمہ داری دینے کو تیار ہو گئے۔
اسی طرح جمہوریت کی شان میں اقبال کہہ چکے ہیں کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اب اگر آپ ایک ہزار گوریلوں کو ہزار سال بھی گنتے رہیں تو وہ گوریلے ہی رہیں گے۔ گوریلوں کو انسان بننے میں کئ ارب سال لگے بقول سائینس اور بقول مسلمان ہم کبھی گوریلا نہیں تھے۔
عنیقہ صاحبہ
ہم نے عمران خان کا نام بھی منفی انداز میں لیا ہے اور ان کے بیان کی تعریف نہیں کی۔
آپ کی ساری باتیں سچ ہیں اور ہم تعلیم کی اہمیت سے انکاری نہیںہیں۔ مگر آج کل جس طرح میڈیا عوام پر اثر انداز ہو رہا ہے ہم نے اس وجہ سے میڈیا کو کردار ادا کرنے کو کہا ہے۔
سچے مسلمان حکمران کی بات ہم نے کامران خان کے سروے سے لی ہے۔ کس نے کہا کہ ضیا سچا مسلمان حکمران تھا۔ سچا مسلمان حکمران وہی ہو گا جو وہ اپنے لیے پسند کرے گا وہی وہ دوسروں کیلیے پسند کرے گا اور اسلام کی اصل روح کیمطابق اپنی رعایا کا خیال رکھے گا۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
آج بھی اگر عوام کو فیصلے کا حق دیا گیا تو وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے ہماری عوام کو یہ شعور ہی نہیں ہے کہ انکے حق میں کون بہتر ہے ۔ اپنے الطاف بھائی کو ہی لے لیں انکی عبادت کرنے والے انکی آواز سننے کے لیے جمح ہوجاتے ہیں ۔ کیا مرد اور کیا خواتین ۔ وہ یوکے سے فون پر شام غربان کرتے ہیں ۔۔۔اب تو وہ منہ کے کنسیر کی وجہ سے نہیں بول پا رہے ۔۔۔۔لیکن بیانات پوری طرح آ رہے ہیں ۔ عمران خان سے تھوڑی بہت امید ہے لیکن وہ بندہ بھی یہاں وہاں ہو جاتا ہے ۔۔۔ جہاں تک فوج نے ملک کو سہارا دیا ۔۔۔وہ بھی ہم سب کے سامنے ہے ۔ اب یہ دعا کرنی چاہے کہ کوئی جرنیل آئے تو خوف خدا کے ساتھ آئے۔۔اور ملک کے لیے ہو خزانے کے لیے نہیں ۔۔۔ ہمارے ملک کو اگر بچانا ہے تو نوجوانوں کو آگے انا ہو گا ۔۔۔۔ اور میڈیا سے عوام میں شعور بیدار کرنا ہوگا ۔۔۔ کیونکہ میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔۔۔کبھی کبھی حد سے زیادہ بھی ہو جاتا ہے ۔۔۔ لیکن خیر
جناب ترقی یافتہ جاہل ممالک کا میڈیا تو عوام کی اصلاح کرتا ہی نہیں!!!!۔
ہیں جی؟ ۔۔۔۔۔۔وہ جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں جی؟!!!!!
دانشوران پاکستان سے گذارش ھے کہ ترقی یافتہ ممالک کے میڈیا سے کیا صرف ہالی وڈ کی فلیمیں ہی دیکھتے ہیں؟
ترقی یافتہ ممالک کا میڈیا عوام کی تربیت میں پیش پیش ہوتا ھے۔اور جدھر دل کرتا ھے عوام کا رخ موڑ لیتا ھے۔
دیوتا قسم کے لیڈران کو اگر میرا پاکستان والے گلی گلی کوچے میں نکلنے کی تکلیف دہ بات کہہ دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بات کو کالا کالا کردیا جائے۔
عوام کی تعلیمی پالیسیاں آئین وغیرہ بھی اس میڈیا کے اثر رسوخ سے بنتے ہیں۔
میرے خیال مجھے ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔کہ جھاگ بیٹھنے کے بعد سوچا جائے تو سمجھ آجائے گا۔
ٍفرحان دانش اگر پورا پاکستان کہے کہ مارشل لاء نافظ کردیا جائے اور میں اکیلا رہ جاوں تب بھی چینخ چینخ کے کہوں گا کہ مارشل لاء پاکستان کے لئے زہر قاتل ہے۔ کرپشن انڈیا میں بھی ہے لیکن انہیوں نے اپنے لنگڑے للرے کرپٹ نظام کو چلنے دیا اور آج وہ ہم سے بیتر ہیں۔ لیکن پاکستان میں کیا ہوا پاکستان کی تاریخ کے بڑے حصہ پر فوجی جرنیل چھائے رہے لیکن پھر اور یہ تمام جرنیل سوائے تباہی کے پاکستان کو کچھ نہیں دے سکے۔
اگر ایم کیو ایم کرپٹ سیاست دانوں کے واقعی خلاف ہے تو انکی گود میں کیوں بیٹھی ہے، اگر ایم کیو ایم جاگیرداروں کے خلاف ہے تو ہر دفعہ جاگیرداروں کی بےساکھی کیوں بنتی۔ یہ منافقت ہے، کھلی منافقت۔
عمران خان بھی کونسا اصول پسند شخص ہیں، اگر انہوں نے بھی حمایت کردی تو الطاف حسین کو کونسی سند مل گئی۔
عوام تبدیلی چاہتی ہے، فوجی بغاوت اور مارشل لاء نہیں
عوام صرف پی پی پی، مسلم لیگ اور اے این پی سے ہی بدزن نہیں، اس فہرست میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے جو پچھلے 26 برس سے اقتدار میں ہے۔
پاکستان میں تبدیلی آئے گی، لیکن وہ تبدیلی قرآن و سنت کی بالادستی کی مرہون منت ہوگی، شریعت اور خلافت پاکستان کا مستقبل ہے، مشرف، شجاعت،، زراداری، شریف،، اسفند یار اور الطاف جیسے آمریکہ پرست لیڈران نہیں جن کے قبلے واشنٹن میں ہیں۔ فوج میں بھی اصطلاحات کی ضرورت ہیں
پاکستان مارشل دور میں توڑا اور پاکستان کے اکثر مسائل مارشل لا دور کی پیداوار ہیں۔ آج دہشت گردی اور مہنگائی کا تحفہ بھی مشرف کے سیاہ دور کا دیا ہوا تحفہ ہے۔
مجھے لگتا ہے الطاف حسین جرنل ورکرز سے قبل زیادہ پی گئے ہوں گے اس لئے اول فول بک گئے، اور بیچارے ایم کیو ایم کے دوسرے لیڈران اپنے قائد کے بیان کے لئے نت نئی تاویلات ایجاد کررہے ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ اس قوم کی یاداشت بہت کمزور ہے، فوجی آمروں سے بار بار دھوکہ کھانے کے بعد اب وہ دوبارہ دھوکہ کھانے کے لئے تیار ہے۔ یہ زہنی پسماندگی کی زندہ علامت ہے۔
کاشف نصیر سے اتفاق کرتا ہوں۔ اس وقت عوام الطاف قادیانی دہشت گرد ، نوازشریف منافق، عمران خان کنفیوڈ، زرداری بدعنوان کے علاوہ شجاعت ، فضل ڈیزل وغیرہ سب خلاصی چاہتے ہیں۔ ذرائع آزاد الیکشن تو ہونے دیں۔ پاپوش کے ایک پولنگ پوتھ پر 1200 رجسرڈ ووٹرز میں سے متحدہ دہشت گردوں کو 3 ہزار ملتے ہیں ۔ یہ ہیں انتخابات
پاپوش اور اورنگی میں بیٹھے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کو بڑی مرچیں لگی ہوئی ہیں
الطاف اور فوج نے مل کر ان کا پلان جو چوپٹ کردیا ہے!!!
🙂
کاشف کبھی کبھی لکھنے سے پہلے اپنے چھوٹے سے دماغ کو بھی زحمت دے دیا کرو!
کسی نے مارشل لاء کے نفاذ کی بات نہیں کی ہے اور جو بات کہی گئی ہے اسے سمجھدار تو سمجھ چکے ہیں ناسمجھ بھی کچھ عرصے میں سمجھ جائیں گے،سوائے ان کے جن کی پاکستان پر قبضہ کرنے کی خواہش ناکام ہوگئی ہے اور ان بے وقوفوں سے کسی کو کوئی ہمدردی نہیں!!!
ابو سعد، آپ نے منور حسن صاحب کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ کیا قوم ان سے بھی خلاصی نہیں چاہتی یا قوم انہیں ہی چاہتی ہے کہ وہ ایک اچھے خیال رکھنے والے مسلمان حکمران ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح کاشف نصیر صاحب نے بھی وضاحت نہیں دی کہ قوم جماعت اسلامی سے نجات چاہتی ہے یا نہیں۔ یا انہیں ہی چاہتی ہے۔ انہوں نے اپنی فہرست میں یہ نہیں بتایا کہ جماعت اسلامی کا قبلہ کس طرف ہے۔
الطاف حسین تو زیادہ پی گئے تو انہوں نے بیان داغ دیا کہ انہوں نے توبہ ابھی نہیں کی ہے۔ آپکی اس بات پہ مجھے یقین ہے لیکن عمران خان تو مدت ہوئ توبہ کر چکے ہے۔ انکی طرف سے یہ بیان کیوں آگیا۔ ایک شعر یونہی یاد آگیا۔
مجھ تک کب اسکی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
Leave A Reply