ڈاکٹر عافیہ کو آج امریکی عدالت نے سزا سنا دی۔ اگر ان کی زندگی پر غور کیا جائے تو ان کی کہانی نے بہت سارے ایسے موڑ لیے جو صرف فلموں میں دکھائے جاتے ہیں۔ یعنی پہلے تعلیم میں اپنی قابلیت منوانا، پھر ان پر دہشت گردی کا الزام لگنا اور ان کا نام امریکہ کے انتہائی مطلوب لوگوں میں شامل ہونا۔ اس کے بعد ان کا 2003 میں اغوا ہو جانا۔ پھر کئی سال بعد ایک دم نمودار ہونا اور پکڑے جانا۔ دوران حراست ان کا فوجی پر رائفل تاننا اور زخمی ہو جانا۔ ذخمی حالت میں ان کو امریکہ لا کر عدالت میں پیش کرنا۔ ان پر مقدمہ چلنا اور انہیں سزا ہو جانا۔
جب وہ دوبارہ نمودار ہوئیں تو ان کے پاس صرف ایک بچہ تھا۔ پھر دوسرے بچے کو نامعلوم افراد کا ان کے گھر کے باہر چھوڑ جانا۔ تیسرے بچے کا ابھی تک کوئی اتہ پتہ معلوم نہ ہونا۔
ان کی رہائی کیلیے لوگوں کا احتجاج کرنا اور حکومت کو مجبور کرنا کہ وہ ان کا مقدمہ لڑے۔ حکومت کا امریکہ کی اتحادی ہونے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو رہا نہ کروا سکنا۔ اس طرح کے واقعات اب تک سب رنگ ڈائجسٹ میں پڑھے تھے آج اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیے۔
13 users commented in " ڈاکٹر عافیہ کی کہانی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہمارے اردگرد کی کہانی ہوتی ہے ۔۔۔ جو بہت حد تک سچائی پر مبنی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
ایسا لگتا ہے کہ آپکو ڈاکٹر عافیہ سے کوئی ہمدردی نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر ڈاکٹر عافیہ آپ کے علاقے یا خاندان سے تعلق رکھتیں تب بھی آپ کی تحریر میں ایسی ہی بے حسی موجود ہوتی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تحریر سے میں یہ نیک شگون لیتا ہوں، جس طرح فلموں میں اختتام ہیرو یا ہیروئن کے حق میں اچھا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس فلم کو بھی جلد اختتام تک پہنچائے تاکہ ہیروئن ہنسی خوشی زندگی گزار سکے۔ آمین
ڈاکٹر عافیہ سمیت مسلمانوں کے اکثر مسئلہ تجدید ایمان، طاعت محض، علم و معرفت اور جہاد فی سبیل اللہ سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ اسکے لئے مسلمان نوجوانوں کو ایمان سازی، حصول علم اور جہاد فی سبیل اللہ کی تیاریوں میں اپنے آپ کو کھپا دینا چاہئے۔ یہی مسلمانوں کا مقصد ہے اور اسی لئے انہیں کو بھیجا گیا ہے۔
lekin kashif jihad kay leeay F16 to amreeka say hee lenay partay hain, is ka kiya karain?
مومن تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ۔۔۔۔۔۔
اور
اگرچہ بت ہے جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم آزاں لا الہ لااللہ
تو کاشف نصیر تم کب جارہے ہو افغانستان امریکا کی فوج سے لڑنے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
o hu khudaya abduallah, aap tu nanga hee kar daytay hain
کچھ دِن پہلے جماعتی نعرے لگا رہے تھے “امریکہ کے ایوانوں میں، آگ لگا دو، آگ لگا دو”. شاید پٹرول کی بوتل ہاتھ میں لے کر W 11 پر جانے کا موڈ تھا ان کا.
کاشف کا ارادہ شاید W 22 پکڑنے کا ہے . “صدر، ٹاور، کیماڑی، کابول کابول کابل اے”
وسلام،
گفتاری
آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ امريکی عدليہ غير جانبدار اور سياسی کنٹرول سے آزاد ہے ۔ کسی بھی مجرمانہ قانون کے مقدمے کے تحت، قانون مدعا علیہ کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ مقدمے کے سماعت کی ضمانت ديتا ہے۔ مجرمانہ ضابطےميں مشتبہ مجرموں کو خرمست اورغیر اِمتیازی سلوک کے خلاف پورے تحفظات حاصل ہيں۔ خاص طور پر يہ ضابطے مشتبہ افراد اور مدعا علیہان کے قانونی حقوق کو یقينی بنانے ہيں جس ميں پولیس کے ابتدائی رابطے، گرفتاری، تفتیش، سزا اور اپيل شامل ہيں۔
عافيہ صديقی کو ایک وکیل کا حق ملا تھا اور اسے يقینا بھرپور طريقے سے دفاع پیش کرنے کا بھی پورا اختيار تھا۔ لہذا ان بے بنياد اور جھوٹے دعوں سے يہ نتيجہ نہيں اخذ کرنا چاہيے کہ يہ جج جانبدار اور اسلام کے خلاف ہيں ۔ عدالت کی کارروائی ميں کسی بھی حکمتی افسر کو مداخلت کرنے کا اختيار نہيں۔
جو بھی قوانین اور اصول اختیار کيے گۓ، وہ اس ملک متسلط قوانین کے مطابق ہيں۔
ذوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
Hum jantey haein ya sab drama.
Mujhay ya batoo k 2005 se khan thee؟؟
…katana toture keya usee
يہ الزامات بالکل بے بنیاد اور جھوٹے ہيں. ڈاکٹر صدیقی جولائی 2008 ء سے قبل کسی بھی وقت امریکی تحویل میں نہیں تھيں-
جولائ 17 کو ان کی گرفتاری افغان اہلکاروں کے ہاتھوں ہوئ تھی۔ اس واقعے کے صرف ايک دن بعد ايک پريس کانفرنس بھی ہوئ تھی جس ميں صحافيوں کو ان کی گرفتاری کے بارے ميں تفصيلات سے آگاہ کيا گيا تھا۔ اس واقعے کو ميڈيا رپورٹ ميں بھی شائع کيا گيا تھا۔ ليکن چونکہ اس وقت ڈاکٹر عافيہ کی شناخت نہيں ہو سکی تھی اس ليے يہ خبر شہ سرخيوں ميں جگہ حاصل نہ کر سکی۔
يہاں ميں جولائ 18 کو مختلف ميڈيا پر اس خبر کی رپورٹنگ کے حوالے سے کچھ ويب لنکس دے رہا ہوں
http://www.khaleejtimes.com/DisplayArticle08.asp?xfile=data/subcontinent/2008/July/subcontinent_July573.xml§ion=subcontinent
http://www.lankabusinessonline.com/fullstory.php?nid=1558516363
http://www.taipeitimes.com/News/world/archives/2008/07/19/2003417865
http://www.dailystar.com.lb/article.asp?
edition_id=10&categ_id=2&article_id=94279
ذوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
عافیہ! تو آبروئے ملتِ مرحوم ہے
86برس سزا پانے والی سائنس دان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی
عبدالہادی احمد
[جنرل مشرف نے ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کیوں کیا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی شہری تھیں۔امریکاانہیں پاکستانی شہری گردانتا ہے ۔ یہ مضمون میں نے مسلسل37 گھنٹے لکھ کراسی مخمصے کودور کرنے کی کوشش ہے۔ یہ مشکل کام میں نے ایک مقدس فرض جان کرکیاہے،تاکہ دوسروں کو بھی اس موضوع پر لکھنے کی تحریک ملے اورہرپاکستانی یہ محسوس کرے کہ86 برس کی سزا صرف ڈاکٹر عافیہ کونہیں،ہر پاکستانی کو دی گئی ہے۔یہ مضمون یہی احساس آپ سب کے ساتھ شیئر کرنے کی ایک ابتدائی کوشش ہے۔اللہ کرے ہمارے لکھنے والے زیادہ سے زیادہ اس موضوع پر اظہارِ خیال کریں،تاکہ ہماری سوئی ہوئی قومی غیرت بیدار ہو ]
٭٭٭
کمرئہ عدالت میں انصاف کا خون کرتے اور ڈاکٹر عافیہ کو86سال قید کی سزا سناتے ہوئے امریکی جج رچرڈ برمن کا لہجہ غصے سے کانپ رہا تھااور سیکورٹی کے اہل کار سخت خوف زدہ تھے؛ جبکہ عافیہ صدیقی پورا وقت پراعتماد اور مطمئن نظر آئیں۔ امریکی عدالت نے عافیہ کو یہ سزا ایک ایسے مقدمے میں سنائی جس میں فرد جرم عاید کرنے سے لے کرفیصلے تک پوری کارروائی تضادات سے لبریز تھی۔جہاں گواہوں کے نام اوران کی گواہیاں تک جھوٹی تھیں۔۔۔اسی لیے ملزم اور صفائی کے وکیلوں سے چھپائی گئیں۔ اس مقدمے کی کارروائی اور فیصلے کی بدولت آج امریکی بھی کہہ رہے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت اور انتقام پر مبنی یہ مقدمہ امریکی نظام عدل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا ۔استغاثے کی پوری کہانی بہت بڑاجھوٹ تھی۔کہانی کےمطابق ایک ایسی نحیف و نزار خاتون سے تفتیش کی جارہی تھی جسےمسلح اور تربیت یافتہ امریکی فوجیوں نے گرفتار کررکھا تھا، وہ اچانک ایک امریکی کمانڈو کی رائفل چھین کران پر فائرنگ شروع کردیتی ہے۔آگے چل کرلاکھوں کروڑوں امریکیوںنے اپنی آنکھوں سے اس عورت کو دیکھا جو ہڈیوں کا پنجرا بن چکی تھی،انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔اس نے کیسے اتنے مضبوط اور تربیت یافتہ فوجیوں پر فائرنگ کی ہوگی۔پھر یہ کیسی گولیاں تھیں کہ جن سے کوئی امریکی فوجی زخمی نہ ہوا ،نہ ہی ملزمہ کی نام نہاد فائرنگ کا کوئی نشان اس کمرے کی دیواروں پرملا؛ البتہ خود عافیہ ایک امریکی فوجی کی گولی سے زخمی ہوگئیں۔کسی نے بھی الزام لگانے والوںسےیہ نہ پوچھا کہ بمشکل50پونڈ وزن رکھنے والی اورامریکی فوجیوں کے نرغے میں پھنسی ہوئی ایک دھان پان سی عورت سکورٹی افسرسے رائفل چھین کر کیسے فائرنگ کرسکتی ہے؟ اور فائرنگ بھی ایسی کہ جس سے کوئی زخمی تک نہ ہوا۔اگریہ واقعہ سچ مچ اسی طرح پیش آیا ہوتا، تو ایسے بزدل اورنکمے فوجیوں کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا،جن سے ایک ایسی عورت نے بندوق چھین لی جو برسوں تشدد سہتے سہتےاس حال کو پہنچی ہوئی تھی کہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل بھی نہ تھی۔
امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے کہا تھا فیصلہ امریکی قانون کے مطابق ہوگا۔اس فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ امریکی دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ان قانون امریکیوں کے لیے الگ ہے اور مسلمانوں کے لیے الگ۔۔۔حقیقت یہ ڈاکٹر عافیہ86 برس سزائے قید کا اعلان ھونےکے بعدصرف پاکستان کا مسئلہ نہیں رہیں، وہ پورے عالم اسلام بلکہ ساری دنیا کے انصاف پسندوں کا مسئلہ بن گئی ہیں۔ یہ مقدمہ وار آن ٹیرر نہیں، وار آن اسلام ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کی رودادِ حیات
مارچ 1972 میں گلشن اقبال کراچی کے ڈاکٹر محمد صدیقی اور محترمہ عصمت صدیقی کے گھر ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام عافیہ رکھا گیا۔ آج دنیا اسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام سے جانتی ہے۔ ابتدائی تعلیم کراچی میں مکمل کرنے کے بعد1990ءمیںاعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے بڑے بھائی کے پاس ٹیکساس امریکہ چلی گئیں اورہوسٹن یونیورسٹی میںد اخلہ لیا۔ ان کا پورا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ عافیہ صدیقی کے والد نے بھی برطانیہ میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی، عافیہ تین بہن بھائیوںمیں سب سے چھوٹی ہیں۔ ان کے ایک بھائی امریکہ میں آرکیٹیکٹ ہیں اور بڑی بہن فوزیہ دماغی امراض (نیورولوجی) کی ماہر ہیں اور پہلے نیو یارک میں کام کرتی رہی ہیں۔ ایک سال کے بعد عافیہ امریکہ کے عالمی شہرت یافتہ میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(MIT ) میں آگئیں جہاں اپنی زندگی کے دس بہترین برس گزارے۔ مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق عافیہ کو برینڈیزلے گیا۔ یہاںانہوں نے نیورو سائنسزکی تعلیم حاصل کی اوریہیں سے نیورو لوجیکل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ڈاکٹر عافیہ نے ایک انعام یافتہ ایم آئی ٹی کی گریجویٹ خاتون کا اعزاز حاصل کیاتھا اور اب وہ ایک اعلی پائے کی سائنس دان بن چکی تھیں اور معذور بچوں پر تحقیق کر رہی تھیں۔پچاس سےزاید یونیورسٹیوںنےان کواعزازی ڈگریاںدیںجوکسی بھی پاکستانی کےلیےمنفرد اعزازھے۔
1995ءمیںنیوروسائنسز کی تعلیم کے لیے کراچی سے آئے ہوئے ایک ہم خیال اور ہم نظریہ طالب علم محمد امجد خاں سے عافیہ کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعدانہوں نے نیورولوجی میں ریسرچ شروع کی۔ شادی کے چند سال بعد میاں بیوی میں اختلافات رہنے لگے تھے۔ عافیہ کی والدہ کے مطابق شادی کے بعد امجد سے ان کا جھگڑا اس بات پر تھا کہ بچوں کی پرورش امریکہ میں ہو یا پاکستان میں۔ عافیہ بچوں کو امریکہ میں ہی رکھنے کے حق میں تھیں۔ لیکن گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ پہلے ایف بی آئی نے امجد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا۔ امجد خان پر الزام لگا تھاکہ انہوں نے امریکہ میں پیٹرول سٹیشنوں کو دھماکے سے اڑانے کامنصوبہ بنایا تھا۔ ان سے اس پر پوچھ گچھ ہوئی کہ انہوں نے رات میں دیکھنے والی دور بین، زرہ بکتر اور عسکری موضوعات پر کتابیں کیوں خریدی تھیں۔ امجد کا موقف تھا کہ یہ سامان انہوں نے شکار کھیلنے کے لیے خریدا ہے۔ عافیہ سے بھی پوچھ گچھ کی گئی لیکن بعد میں دونوں کو چھوڑ دیا گیا۔ اس کے کچھ دن بعد وہ پاکستان لوٹ گئے کیونکہ ان کے خیال میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ میں پاکستانیوں کے خلاف امتیاز بڑھ رہا تھا۔ 23نومبر 1996ءمیںپہلے بچے احمدکی ولادت ہوئی اور دو سال بعد مریم پیدا ہوئی۔ اسی دوران نائن الیون کاحادثہ ہوا،اس کے ساتھ ہی عافیہ کا دکھوں کا سفربھی شروع ہوگیا۔ نائن الیون کے بعد عافیہ اور امجد کچھ دنوں کے لیے پاکستان آئے لیکن پھر واپس امریکہ چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ پاکستان لوٹے۔3اگست2002ءکو ان کے سب سے چھوٹے بیٹے سلمان کی پیدائش ہوئی۔ سلیمان کے دنیامیں آنے سے پہلے ہی ڈاکٹر عافیہ کو طلاق ہوگئی تاکہ آگ اورخون کے دریا وہ اکیلی ہی عبور کریں۔ اس وقت عافیہ کے یہاں تیسرے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ بچے کی ولادت کے تھوڑے ہی دن بعدڈاکٹر عافیہ اچانک غائب ہو گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ امریکا میں ہی تھیں کہ ایف بی آئی کی لسٹ پر ان کا نام آگیا تھا۔ اس بدنامِ زمانہ ادارے کی فہرست میں آنے کے بعد ان کے لیے امریکا میں سکون سے کام کرنا مشکل ہو گیا۔ اگرچہ امریکیوں کے پاس ان کے بارے میںکوئی ٹھوس شواہد نہ تھے، لیکن نائن الیون کے بعدحالات ایسے تھے کہ سارا کاروبار ہی شکوک وشبہات پر چلایا جا رہا تھا۔ امریکی اورپاکستانی ایجنسیوں نے ان کے بارے میںخاصی تحقیق کی مگر وہ ان کے بارے میں کچھ بھی حاصل نہ کر پائے۔ ان پر یہ مضحکہ خیز الزام عاید کیا گیا کہ وہ مذہب اسلام اور خاص کر جہاد کی تعلیم حاصل کرتی رہی ہیں۔ اس لیے وہ یقیناً القاعدہ سے متعلق ہو گئی تھیں، اس بنا پرانہیں خطرناک دہشت گرد قرار دیا گیا۔القاعدہ کے ساتھ وابستہ کرنے کے لیے ڈاکٹر عافیہ پر یہ الزام بھی عاید کیا گیا کہ انہوں نے خالد شیخ محمد کے عزیز عمار علی بلوچی سے شادی کر رکھی ہے۔بعد میں ان کے مقدمے کے دوران کوئی شواہد نہ ہونے کی بنا پرپورے مقدمے میںالقاعدہ سے ان کے تعلق کا ذکر تک نہ آیا۔ وہ کن حالات میں غائب ہوئیں، اس بارے میں کئی طرح کی کہانیاںمشہور ہوئیں۔ سب سے پہلے امریکی جریدے نیوز ویک میں خبر چھپی کہ عافیہ القاعدہ کے ’سلیپر سیل‘ کا حصہ تھیں۔ 2004ءمیں ایف بی آئی نے کہا کہ پوچھ گچھ کے لیے عافیہ اسے مطلوب ہیں۔ بعد میں کہا گیا کہ القاعدہ کے ایسے گروہ میں شامل تھیں جو لائبیریا سے ہیروں کی سمگلنگ کرتا اور اس آمدنی سے القاعدہ کی مدد کی جاتی ہے۔ نیوز ویک جیسے جریدوں کے مطابق سمگلنگ کا مقصد القاعدہ کے کیمیاوی اور حیاتیاتی اسلحے کے پروگرام کے لیے فنڈز اکھٹا کرنا تھا۔ اس دوران کہیں کہیں یہ بات بھی سنائی دیتی رہی کہ وہ افغانستان میں امریکی قید میں ہیں۔
طلاق کے بعدویسے بھی ڈاکٹر عافیہ کی دکھوں بھری زندگی کی شروعات ہوگئی تھی۔25دسمبر2002ءکو کرسمس کے موقعے پر عافیہ اپنے بچوں کو اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ کے پاس ایک بار پھر امریکہ چلی گئیں جو بالٹی مور کے سینائی ہسپتال میں ملازمت کرتی تھیں۔ وہ بچوں کے ساتھ امریکا منتقل ہونے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ ابھی عافیہ اپنے لیے کسی موزوں جاب کی تلاش میں ہی تھیںکہ انہوں نے خود کو نادیدہ خطرے میں گھراہوا محسوس کیا؛ چنانچہ فروری2003ءکووہ پاکستان واپس لوٹ آئیں۔ مارچ 2003میں ہی امریکی ٹی وی چینلز پر عافیہ کی تصاویر مشتہر ہونے لگیں۔ انہیں القاعدہ کا ایک خطرناک رکن ظاہر کیا گیا۔ یہ امریکا میں موجود مسلمانوں کے خلاف سوچی سمجھی امریکی مہم کا حصہ تھا۔ ان ہی دنوں نیوز ویک نے عافیہ کوایک سٹوری میں القاعدہ کے دو اہم ارکان خالد شیخ محمداور علی المیری قطری کے ساتھ منسلک کر دیا۔ خالد شیخ محمد راولپنڈی سے گرفتار ہوگئے تو عافیہ کے حوالے سے بھی بڑی بڑی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔
ڈاکٹر عافیہ کی چیخیں
30مارچ 2003ءکو عافیہ نہایت گھبراہٹ کے عالم میں اپنی ماں کے گھر گلشن اقبال کراچی سے نکلیں۔ چھ برس کا بیٹااحمد، چار برس کی مریم اور چھ ماہ کا سلمان ان کے ساتھ تھے۔ عافیہ راولپنڈی جانے کے لیے میٹروکیب ٹیکسی میں سوار ہوکر کراچی ایئر پورٹ روانہ ہوئیں، مگروہ فلائیٹ تک نہ پہنچ سکیں۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا بھیڑیوں نے عافیہ کو اس کے معصوم بچوں کے ساتھ راستے میں ہی د بوچ لیا۔ اس سے اگلے روز وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں عافیہ صدیقی کی گرفتاری کی تصدیق کر دی۔ ان ہی دنوں میں خفیہ ایجنسیوں کے لوگ عافیہ کے گھر جانے لگے اور گھر والوں کو خاموش رہنے کے لیے ڈراتے دھمکاتے رہے۔ عافیہ صدیقی کی والدہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے غائب ہونے کے بعد ایک شخص موٹرسائیکل پر ان کے گھر آیا اور انہیں دھمکی دی کہ’ ’ اگراپنی بیٹی اورنواسی نواسوںکوزندہ دیکھناچاہتی ہو توخاموش رہو“۔پاکستان میں ڈاکٹر عافیہ کے خاندان کو مسلسل دھمکایا جا رہا تھا۔ان کو اپنے بارے میں فکر نہ تھی ،لیکن وہ عافیہ کی خاطر زبان بند کیے ہوئے تھے۔ایک ایسے ہی موقعے پر عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی نے کہا کہ بگرام ائیر بیس پر گزشتہ پانچ سالوں کے دوران عافیہ صدیقی پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے ہیں،مگر ان پر کوئی جرم ثابت نہ کیا جاسکا۔ مسلسل تشدد کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت تشویش ناک حد تک خراب ہو گئی ہے۔ ہمیں امریکی عدالت سے انصاف کی امید نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور دباو¿ ڈالا جارہا ہے کہ ہماری جانب سے اسلام آباد میں دائر کیا جانے والا مقدمہ واپس لے لیا جائے ورنہ مجھے بھی اٹھا کر اسی طرح غائب کر دیا جائے گا۔ فوزیہ صدیقی نے کہا ، مجھے بھی فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر ہم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں زبان بند نہ کی تو ہمارے خاندان کو قتل کر دیا جائے گا۔30دسمبر2003ءکو عافیہ کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے اعجاز الحق کے ہمراہ فیصل صالح حیات سے ملاقات کی تو وزیرداخلہ نے یہ کہہ کر تسلی دے دی کہ مجھے یقین ہے کہ عافیہ کو چھوڑ دیا گیا ہو گا۔ آپ خاموش رہو اور اس کے فون کا انتظار کرو، لیکن عافیہ آئیں نہ ان کا فون۔
ڈاکٹر عافیہ اور بردہ فروش مشرف
اس دن جب عافیہ اغواہوئی تھیں پاکستان کے آمرصدرمشرف اور وزیرِ اعظم ظفر اللہ جمالی کی حکومت تھی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اسی زمانے میں اغوا ہوئیںجب ہزاروں انسانوں کے قاتل،انسان فروش اوربردہ فروش جنرل مشرف پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو فروخت کر کے ڈالر کما رہے تھے۔ مشرف نے اپنی کتاب” ان دی لائن آف فائر“میں اعتراف کیا ہے کہ ان کی حکومت نے سینکڑوں ملزم پیسوں کے عوض یا رضاکارانہ طور پر امریکہ کے حوالے کیے۔ اس زمانے میں وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات تھے۔ کیا صدر،وزیر اعظم اور وزیرِ داخلہ کے علم میں یہ بات نہ تھی کہ ایک پاکستانی خاتون کو (جسے امریکی خفیہ ادارے نامزد کر چکے تھے) کب، کیوں اور کس قانون کے تحت اغوا کیا گیا اور کسی غیر ملک کے حوالے کیا گیا؟ اس روز لیفٹننٹ جنرل احسان الحق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تھے۔ کیا آئی ایس آئی کو معلوم نہ ہو سکاکہ ایک پاکستانی شہری کو کوئی ملکی یا غیرملکی ایجنسی یا فرد ٹھوس قانونی جواز کے بغیر اغوا کر کے لے جا رہا ہے؟ عافیہ صدیقی غائب ہوئیں تو سید محب اسد ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے تھے۔ امیگریشن اور پاسپورٹ کنٹرول کی ذمہ داری ایف آئی اے کی ہے۔ ایف آئی اے کے علم میں ہو نا چاہیے تھا کہ کوئی پاکستانی باشندہ جبراً یا جعلی دستاویزات پر غیر قانونی یا خفیہ کوشش کے تحت ملک کی فضائی، زمینی یا بحری حدود سے باہر لے جایا جارہاہے۔ ایسا نہیں تھا،حکام اور ادارے سب جانتے تھے۔ اگلے دن پاکستانی اخبارات میں خبر چھپی تھی کہ القاعدہ سے روابط کے الزام میں ایک عورت کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اس کی تصدیق پاکستان کی وزارت داخلہ نے کر دی تھی۔ پھر وزیر داخلہ فیصل صالح حیات کے حوالے سے یہ خبر چھپ گئی کہ عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس سے امریکی ڈرامے کا پلان خراب ہونے کا ڈر تھا، اس لیے بعد میں حکومت پاکستان اور امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے صاف انکار کر دیا کہ عافیہ کی گم شدگی سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا۔ اس سب کے بعد اچانک امریکہ نے اعلان کر دیا کہ انہیں افغانستان سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اب وہ امریکہ میں ہیں اور انہوں نے افغانستان میں حراست کے دوران امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
عافیہ صدیقی کے اغوا ہونے کے واقعے سے لے کرامریکیوں کی طرف سے انہیں گرفتار کرنے کے دعوے یااعتراف کے درمیان پانچ برس کی مدت حائل ہے۔ ان پانچ برسوں میں عافیہ کہاں رہیں۔ پاکستان کی بیٹی نے سرزمین وطن سے افغانستان اور وہاں سے امریکا پہنچنے تک ایک طویل سفر کیوں کر طے کیا، اس طویل مدت میں اس پر کیا گزری۔اگر عافیہ دہشت گرد تھی تو کیا اپنے بچوں کو ساتھ لے کر دہشت گردی کرنے ئی تھی؟کوئی سچ مچ کی دہشت گرد ماں بھی اگرکہیں دہشت گردی کرتی ہے تواپنے بچوں کو ساتھ نہیں رکھتی۔ یہ کہانی ابھی ان کہی ہے۔ اگر یوان رڈلے اس بات کا انکشاف نہ کرتیں تو دنیا قیدی نمبر650سے ہمیشہ لا علم ہی رہتی۔ اگر امریکی ڈاکٹر عافیہ کے مجرم ہیں تو وہ پاکستانی کیسے بے گناہ قرار پا سکتے ہیں جنہوں نے ان کے اغوا میں حصہ لیا،ان کو امریکا کے ہاتھ بیچااور انہیں افغانستان پہنچانے میں دلالی کی۔ اس پاکستانی ادارے یا افراد کو کب بے نقاب کیا جائے گا یا ان مکروہ چہروں پر ہمیشہ نقاب پڑی رہے گی؟ سوال یہ ہے کسی فرد یا تنظیم نے کسی مقامی عدالت میں ایسی پٹیشن داخل کیوں نہ کی جس میں ان پاکستانی اداروں اور افراد کے ناموں کے انکشاف اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا جن پر اس پورے ڈرامے میں اہم کردار ادا کرنے کا شبہہ ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کا اصل جرم
عافیہ پر لگائے لگائے تمام الزامات بوگس ہیں، سوائے ایک کے ا ور اس سے وہ خود بھی انکارنہیں کرتیں۔ وہ بلاشبہ اسلام پر فخر کرنے والی عملی مسلمان تھیں۔ خصوصاً نائن الیون کے بعدامریکا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جتنی شدت سے پرپیگنڈا کرتا وہ اسی قدر شدت سے اسلام کی محبت سے سرشار ہو جاتیں اور اپنے ایمان و دین کے لیے جان ومال کی قربانی دینے پر آمادہ ہوتی جاتیں۔ ان کاتعلیمی کیریر بھی گواہی دیتا ہے کہ عافیہ ایک مضبوط عقیدے کی باعمل اور داعیانہ صفات رکھنے والی خاتون رہی ہیں۔ کردارو عمل میں ان کا اصول ہمیشہ یہی رہا کہ دوستی اللہ کے لیے اور دشمنی بھی اسی کے واسطے۔ امریکہ میں قیام کے دوران عافیہ نے جنون کی حد تک اسلام کی دعوت کا کام کیا، یہی ان کا جرم ٹھہرا۔ اسی وجہ سے امریکی شروع دن سے اس سے خائف رہنے لگے تھے۔ MITمیں دورانِ تعلیم وہ اپنے کلاس فیلوز میں قرآن اور اسلامی کتب تقسیم کرتی رہتی تھیں۔ انہوںنے وہاں قرآن کے سٹڈی سرکل ترتیب دیے۔ عافیہ نے امریکی جیلوں میں بھی دعوت کا بھرپور کام کیا جہاں وہ قرآن مجید اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کرنے جاتی رہیں۔ بوسنیا کی جنگ اور اس میں مسلمانوں کے قتل عام نے عافیہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ عافیہ نے بوسنیائی عورتوں اور خصوصاً حاملہ بوسنین کے قتل عام پر ایک گرافکس پریزینٹیشن بھی بنائی، جسے وہ اپنے لیپ ٹاپ کمپیوٹر پر لوگوں کو دکھاتی رہتی تھیں۔ عافیہ نے بوسنین یتیم بچوں اور بیواﺅں کے لیے بھرپور فنڈریزنگ کی۔ اس کے لیے وہ باقاعدہ مقامی مسجد میں بھی جاتی تھیں اور وہاں ایک لیکچر بھی دیا۔ دوران خطاب نمازیوں سے پوچھا کہ کسی کے پاس ایک سے زائد بوٹ ہیں؟ تو آدھے نمازیوں نے ہاتھ کھڑے کر دئےے جس پر عافیہ نے ترغیب دلائی کیوں نہ یہ اضافی جوڑا آپ بوسنیا والوں کو دے دیں، تو اس پر نمازیوں اور حتیٰ کہ امام مسجد نے بھی اپنا ایک ایک جوتوں کاجوڑا دے دیا۔
2004ءمیں بوسٹن میگزین میں عافیہ پر ایک مضمون چھپا‘جس میں لکھا گیا کہ عافیہ نے ایک سٹڈی سرکل میں اپنے خیالات کااظہارکچھ اس طرح سے کیاتھا: ”اگر ہم خلوص اور تحمل سے اللہ کے دین کا کام کریں تو کیا عجب یہی امریکا کل کوایک اسلامی ریاست بن جائے“۔ عافیہ نے مقامی مسلم بچوں کے درجنوں گروپ ترتیب د ے رکھے تھے جنہیں وہ باری باری اختتام ِہفتہ قرآنی قاعدہ پڑھانے جایا کرتی تھیں۔ بچوں کو قاعدہ پڑھانا ہی عافیہ کا اصل جرم ٹھہرا اور امریکیوں نے اس قاعدے سے ا ن کو’القاعدہ‘ بنا دیا۔ مجموعی اعتبار سے عافیہ کی زندگی پوری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔ اپنے عقیدے اور نظریے پر اپنی عائلی زندگی قربان کر دی، امریکا کے پر تعیش ماحول میںاپنا کیریراورمستقبل لٹا دیا، اپنی خوشیاں، اپنے بچے یہاں تک کہ جسم وجاں اور دل ودماغ بھی نثار کر دیا۔86برس کی سزا کا اعلان انہوں نے جس سکون سے سنا اور جو رد عمل ظاہر کیا وہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک کمزور ترین جسمانی قوت رکھنے والا مسلمان بھی ایک پوری سپر پاور کو شکست سے دوچار کر سکتا ہے۔
امریکی ڈرامہ کیسے شروع ہوا
2006ءکے تقریباً وسط میں چور مچائے شور کے مصداق امریکی ایف آئی نے ایک ڈرامہ رچایا اور اپنی ویب سائٹ پر عافیہ کی تلاش کااشتہاردے دیا۔ حالانکہ عافیہ کو بہت پہلے اغوا اورقید کرنے کے بعد ایف بی آئی نے اپنے تسلط میں لے رکھا تھااور اب وہ ان کے ظلم کی چکی میں پس رہی تھیں۔ پاکستانی نژاد لارڈ نذیر احمد نے ہاﺅس آف لارڈز انگلینڈ میں ایک احتجاجی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ بگرام کی ا مریکی جیل میںایک قیدی خاتون ہے جس کا نمبر650ہے۔ اس کے ساتھ امریکی نہایت سفاکانہ مظالم روا رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اسے وحشیانہ جسمانی اورجنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ جیل میںاسے مردوں کے ساتھ رکھا گیا ہے حتیٰ کہ اسے علاحدہ ٹوائلٹ کی سہولت بھی نہیں دی گئی۔ ظلم وجور کے اس نقارخانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی۔اس سے بہت پہلے فروری2002ءمیں ایک بے گناہ پاکستانی قیدی معظم بیگ کواسلام آباد سے گرفتار کر کے قندھار ،بگرام اور آخر کار گوانتا ناموبے پہنچایا گیا۔ کیوباکی اس جیل سے وہ2005ءمیں رہا ہوا۔ آزادی کے بعدTheEnemy Combatant کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اپنی کتاب میں انہوں نے قیدی نمبر650کا تذکرہ بھی کیا۔ معظم بیگ نے لکھا کہ بگرام جیل میں ایک قیدی خاتون جس کا نمبر650 ہے، جب امریکی اسے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو اس کی دل دوز چیخوں سے پوری بگرام جیل لرز اٹھتی ہیں۔ اس کی کتاب میں یہ معلومات پڑھ کر معروف و مشہور نو مسلم برطانوی صحافی خاتون یو ان ریڈلے نے تحقیق وتفتیش کا آغاز کیا۔ سات جولائی 2008ءکو اسلام آباد میں عمران خان کے ہمراہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے ریڈلے نے انکشاف کیا کہ650نمبر خاتون قیدی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی ہیں۔ ریڈلے کے اس دھماکہ خیز انکشاف کے نتیجے میں امریکیوں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ بغلیں جھانکنے لگے۔3اگست2008ءکو بی بی سی نے رپورٹ دی کہ ایف بی آئی والوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں ان کے خاندان کی وکیل کو بتایا ہے کہ وہ زندہ ہے مگر زخمی حالت میںاور افغانستان کی جیل میں ہے۔ مگر نہ تو یہ بتایا گیا کہ زخمی کیسے ہوئی، نہ یہ کہ افغانستان کیسے پہنچی اور اس کے مصوم بچے کہاں ہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ معمہ بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر ڈاکٹر عافیہ کانام ابھی تک مطلوب ترین (Most Wanted)افراد میں درج تھا۔ اگر عافیہ امریکی جیل پہنچ چکی تھیں تو موسٹ وانٹڈ کا کیا مطلب تھا؟ تب امریکیوں نے ایک بہت بڑا اور نہایت ہی جھوٹاڈرامہ رچایا۔
3اگست2008ءکوہوسٹن (ٹیکساس) میںمقیم عافیہ کے بڑے بھائی محمد علی صدیقی کے پاس ایف بی آئی کا ایجنٹ آکر انہیں مطلع کرتا ہے کہ تمہاری بہن عافیہ افغانستان سے پکڑی گئی ہے۔ اس سے اگلے روز امریکی فیڈرل پراسیکیوٹر نے میڈیا کے سامنے ’وضاحت‘ کرتے ہوئے کہا، عافیہ جولائی کے وسط میں افغانستان سے پکڑی گئی ہے۔ کہاں اور کیسے پکڑی گئی؟ اس سلسلے میںجو کہانی گھڑی گئی وہ جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہ تھا۔ کہا گیا ،ڈاکٹر عافیہ سترہ جولائی کو مشکوک حالت میں غزنی کے گورنر کے محل کے صحن میںچلتی پائی گئی۔ افغان نیشنل پولیس کے اہل کاروں نے اس کے بیگ سے بارود بنانے کے نوٹس‘ اہم امریکی عمارات کی تصاویر اور دھماکہ خیز دھاتیں برآمد کی ہیں۔ان کے سامان میں امریکہ کی اہم عمارتو ں کے نقشے اور ان کے پرس سے کیمیکل مواد شیشے کی بوتلیں اور مرتبان بھی موجودتھے جن میں خطر ناک بم بنانے کا کیمیکل بھرا ہوا تھا۔(یہ اسی طرح کی امریکی خبر تھی جیسی عراق میں کیمیکل کی موجودگی کی خبرتھی۔ جو کبھی برآمد نہ کیے جاسکے)۔امریکی وضاحت میں یہ بھی کہا گیا،چونکہ ڈاکٹر عافیہ ایک مدت سے امریکی حکومت کو مطلوب تھی؛لہذا گرفتاری کے بعد افغانوں نے انہیں امریکیوں کے سپرد کر دیا تھا ۔امریکیوںنے عافیہ کی کہانی مارچ 30مارچ2003ءکے بجائے اگست2008ءسے اوربگرام کے بجائے غزنی سے شروع کی،لیکن یہ نہ بتایاکہ 30مارچ2003ئءسے3اگست2008تک عافیہ پر کیاگزری؟ان کو کس نے پکڑا اور کہاںسے پکڑا اورچھپا کہاںرکھا تھا،اس پورے عرصے میںان کے بچے کس کے پاس رہے؟امریکیوںنے ان سوالوں کے جواب میںآج بھی اپنے لب بند کررکھ
Leave A Reply