ہم نے جنرل بشرف کا تازہ انٹرویو جیو پر سنا جو ان کے دور اقتدار والے انٹرویوز سے ایک سو اسی درجے الٹ تھا۔ کہاں جنرل بشرف کی کھنکتی آواز اور کہاں اب دھیماپن۔ کہاں عقاب جیسی شاطر آنکھیں اور کہاں لٹی ہوئی غیرت والوں کی طرح جھکی ہوئی نظریں۔ کہاں چہرے پر وجاہت اور کہاں شرابیوں والا مرجھایا ہوا منہ۔ کہاں انٹرویو کرنے والے کی خبر لینا اور کہاں انٹرویو لینے والی کے سامنے بھیگی بلی بن کر بیٹھنا۔
لگتا ہے شراب نے جہاں جنرل بشرف کی ظاہری شکل متاثر کی ہے وہیں ان کے ذہن کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ وگرنہ سیاست میں داخل ہونے والا کبھی نازک معاملات پر اپنا منہ نہیں کھولے گا جس طرح جنرل بشرف نے ڈاکٹر قدیر، اکبر بگٹی اور چوہدریوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک پر جنرل بشرف کی بیان بازی پاگل پن کے سوا کچھ نہیں۔ گر جنرل بشرف ہوش میں ہوتے تو وہ کبھی اپنے مخالفین کی ذاتی برائیوں کو زیربحث نہ لاتے بلکہ پاکستان کے بگڑتے سیاسی حالات کو موضوع بحث بناتے۔ اپنے پرانے سیاسی حلیفوں کی دل آزاری کی بجائے انہیں ساتھ ملانے کی کوشش کرتے۔ اب جب ان کیساتھ ق لیگ بھی نہیں ہے تو پھر عمران خان اور شیخ رشید کی طرح اپنی پارٹی کے وہ اکیلے ہی لیڈر ہوں گے۔ اگلے انتخابات میں سیٹ ملنا تو درکنار وہ جس طرح کی زبان درازی پر اتر آئے ہیں ان کے ملک واپس آنے کا بھی امکان کم ہے۔
اب تو بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے مرنے کی دعائیں مانگا کریں تا کہ ان کی مزید مٹی پلید ہونے سے بچ جائے۔
14 users commented in " مخبوط الحواس "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackواقعی!
بالکل صحیح عنوان لکھا آپ نے
مجھے لگتا ہے کہ میڈیا جان بوجھ کر مشرف کو اگے لارہا تاکہ وہ موجودہ حکومت سے بیزاری کو کیش کراسکے۔ مشرف کہیں سے بوکھلایا ہوا نہیں ہے وہ بڑی پالیسی سے کھیل رہا ہے، آخر میڈیا کو کیا موت آگئی ہے کہ اچانک سب نے اس گڑے ہوئے مردے کو زندا کرنا شروع کردیا اور دے دھڑا دھڑ سب انٹرویو کے لئے جارہے ہیں۔ آپ نے بدھ کے روز جیو نیوز کا خبرنامہ سنا، وہ خبرنامہ کم اور مشرف نامہ زیادہ تھا۔
سب سے نازک مسئلہ جس پر مشرف نے منہ خلا وہ کشمیر میں در اندازی سے متعلق تھا اور مشرف نے یہ بیان کافی سوچ سمجھ کے دیا ہے۔ آپ پچھلے تین چار روز میں بھارتی اخبارات کا مطالعہ کریں وہ اس معاملے کو کتنا اچھال رہے ہیں اور اچھالیں گے پاکستانیوں کو کوئی اندازہ نہیں۔ کشمیر میں موجودہ تحریک جو سو فیصد کشمیری ہے پر مشرف کا یہ بیان پیٹھ میں چھورا گھونپنے کے مترادف ہے۔
لگتا ہے کہ اپ بھی جنگ اور جیو کی پالسی فالو کرریے ہیں۔ مشرف کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
واقعی یہ بات توبالکل درست ہےکہ مشرف صاحب کایہ انٹرویوان کےچہرےاورالفاظ کےبالکل الٹ تھاایسابجھابھجھاساچہرہ کہ کیاکہیں؟اوراوپرسےباتیں ایسی کہ جن کوسن کراپنےکوتوطیش آیالیکن دشمنوں نےاس انٹرویوکوخوب استعمال کیاہے۔اللہ تعالی میرےملک کودشمن کی نظربدسےبچائے۔ آمین ثم آمین
میرا پاکستان صاحب، حسب سابق یہ پوسٹ آپکی طبیعت کی بے انتہا سادگی کو ظاہر کرتی ہے۔
مشرف نے شراب نوشی پچھلے دو تین سال میں شروع نہیں کی۔ میں اپنی ذاتی سادگی کو ایک طرف رکھ کر اور انکے پس منظر کو سامنے رکھ کر اندازہ لگائوں تو وہ اس عادت کے پچھلی کئ دہائیوں سے شکار ہونگے۔
اس لئے آپکی بیشتر باتیں محض آپکی سادہ طبیعت کے اندازے ہیں۔ اور کچھ نہیں۔
اگر وہ پہلے کسی کو وجیہہ لگتے تھے تو ابھی بھی اس میں کوئ خاص فرق نہیں آیا اور حامد میر جیسے لوگوں کو وہ پہلے بھی بد شکل لگتے تھے اور اب بھی لگتے ہیں۔ اور جیسے جیسے وقت گذرے گا انہیں اور بد صورت لگیں گے۔
’نواز شریف اندر سے طالبان ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2010/10/101008_mush_int_javed.shtml
چونکہ مشرف نے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ’ملائیت‘ پر آہنی ہاتھ ڈالا اس لیے مشرف کی نہ ہی میڈیا سے بنتی ہے اور نہ ہی عوام سے کہ ان دونوں کا جھکاؤ ’ملاں ازم‘ کی طرف ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے کوئی انہونی بات نہیں کہی بلکہ ایک کڑوا سچ اپنے منہ سے ادا کیا ہے اور یہ ایسا کڑوا سچ ہے جو کہ بھارت اور پاکستان کا بچہ بچہ دہائیوں سے جانتا آ رہا ہے۔
پرویز مشرف نے کشمیر پر بیان دے کر ایک سچ کو بیان کیا ہے اور جس کو آپ ہم سب مانتے..
آپ کی آوازہماری ویب سائٹ کے بارے میں رائے بھیجیں
سائن اِن | نئے آنے والے یہاں سائن اِن کریں
مشرف کی نئی جماعت
پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے جمعہ کو لندن میں اپنی نئی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔
پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ وہ سیاست میں اس لیے آئے ہیں کیونکہ پاکستان میں ایسی کوئی قیادت نہیں ہے جو ملک کو صحیح راہ پر گامزن کر سکے۔
پرویز مشرف نے اس موقع پر کہا کہ ان کے دورِ اقتدار کے آخری حصے میں جو غلطیاں ہوئیں اس پر وہ قوم سے معافی کے طلبگار ہیں۔ انہوں نے ان غلطیوں کی تفصیل نہیں بتائی تاہم انہوں نے کہا کہ وہ خود میڈیا پر آ کر ان غلطیوں کی وجوہات بیان کریں گے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مشرف سیاست میں باقاعدہ قدم رکھ کر کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ آپ کے خیال میں کیا مشرف پاکستان میں اتنی مقبولیت رکھتے ہیں کہ وہ سیاست میں کامیاب ہو سکیں؟ آپ پرویز مشرف کے سیاسی مستقبل کو کیسا دیکھتے ہیں؟
تفصیل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
(ازراہِ کرم نوٹ فرمائیں کہ صرف اردو میں ٹائپ کی جانے والی آراء شائع کی جائیں گی۔ اس کے لیے آن سکرین کی بورڈ پر alt+shift دبا کر اردو سلیکٹ کریں)
شائع شدہ: 10/1/10 3:52 PM GMT
اپنا تبصرہ شامل کریں
تبصرےتبصروں کی تعداد:182
قارئین کے تجویز کردہ تازہ ترین تمام تبصرے اپنی آمد کے حساب سے
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13
وقت ارسال : 10/1/10 8:29 PM GMT
مشرف صاحب کا سياسی جماعت بنانے کا سن کر بہت خوشی ہوئی۔ تمام پڑھے لکھے محب وطن خواتين و حضرات کو اس پارٹی ميں ضرور شامل ہونا چاہيے۔ مشرف صاحب اميد کی آخری کرن ہيں، ان کا ساتھ ديں۔
Nadeem Ahmed، Weston
تجویز کنندہ 0 لوگ
اس تبصرے پر رائے دیں
شکایت کریں
وقت ارسال : 10/1/10 8:09 PM GMT
سابق آمر کی طرف سے اپنی سياسی جماعت کا اعلان کھوئے ہوئے اقتدار کو ياد کرنے کی ايک ناکام کوشش ہے۔ انہيں ياد رکھنا چاہيے کہ
’سدا عيش دوراں دکھاتا نہيں
گيا وقت پھر ہاتھ آتا نہيں ‘
وہ ايک آمر تھے۔ انتہائی متنازعہ اور ناکام حکمران ثابت ہوئے اور سياست ميں بھی ناکام ہی ہوں گے کہ سیاست وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گايا نہيں جاتا۔ سوال يہ ہے کہ پاکستان ميں سينٹ، قومی و صوبائی اسمبليوں ميں انہيں کتنی حمايت حاصل ہے؟
عبدالوحید خان، Birmingham، برطانیہ
تجویز کنندہ 0 لوگ
اس تبصرے پر رائے دیں
شکایت کریں
وقت ارسال : 10/1/10 7:56 PM GMT
پرویز مشرف اگر بین الاقوامی مواصلاتی اداروں کو پاکستان میں ٹیلی کام کے شعبے میں کام کرنے کی اجازت نہ دیتے تو آج بھی پاکستان میں اِن کمنگ کال دس روپے فی منٹ ہوتی۔ یہ موبائل فون کی انتہائی سستی کالز کا یقینی ہونے کا سہرا آپ ہی کے سر جاتا ہے۔ آج درجنوں پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور آزاد میڈیا یہ سب آپ ہی کی بدولت ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ موجودہ دور میں آپ جرات، ذہانت، صبر اور اُمید کا تنہا پیکر ہیں۔ اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو۔
kamran arif، sharjah، متحدہ عرب امارات
تجویز کنندہ 0 لوگ
اس تبصرے پر رائے دیں
شکایت کریں
وقت ارسال : 10/1/10 7:52 PM GMT
نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے امریکہ کا دشمن بننے کے بجائے مصلحتاً اتحادی بننے کو ترجیح دی۔ آپ نے ہی سب سے پہلے پاکستان میں شدت پسندی کے خطرے کو محسوس کیا اور دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دیا۔ ایٹمی پاکستان کے دارالخلافہ کے وسط میں شدت پسندوں کے خطرناک رفتار سے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک کا قلع قمع کرنا بھی پرویز مشرف کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آپ نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو جس طرح سنوارا اُس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔
ان حالات میں مشرف ہی سب سے بہتر ليڈر ہیں جو ملک کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے امریکہ کا دشمن بننے کے بجائے مصلحتاً اتحادی بننے کو ترجیح دی۔ آپ نے ہی سب سے پہلے پاکستان میں شدت پسندی کے خطرے کو محسوس کیا اور دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دیا۔ ایٹمی پاکستان کے دارالخلافہ کے وسط میں شدت پسندوں کے خطرناک رفتار سے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک کا قلع قمع کرنا بھی پرویز مشرف کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آپ نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو جس طرح سنوارا اُس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔
ان حالات میں مشرف ہی سب سے بہتر ليڈر ہیں جو ملک کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
مخبوط الحواس نہیں ہے۔ دیگر سیاسی حریفوں کو مخبوط الحواس کر دیا ہے۔ اگر اتنا بےکار اور ان کے سیاسی کیرئیر کے لئے غیر نقصان دہ شخص ہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، نا دین اتنی اہمیت۔ سچ یہ ہے کے ان کے واپس آنے سے سب کو پریشانے لاحق ہے۔ اتنے دبنگ طریقے سے آجتک کسی سیاستدان نے اپنی کسی غلطی کی معافی مانگی ہے؟
مشرف کا دور ايک بہترين دور تھا۔ پاکستان کی عوام کی ايک بڑی تعداد اس کی حمايت کرتی ہے۔ مشرف کا سياست ميں آنا پاکستان کی لیے اچھا ہے۔
مجھے تو آج تک يہ سمجھ نہیں آئی کہ آخر مشرف سے کيا غلطی ہوئی؟ عدليہ؟ يا ضيائی اسلام سے لڑائی؟ اگر يہ غلطی تھی تو ميری دعا ہے کہ مشرف صاحب يہ غلطی بار بار کريں جب تک کہ يہ دونوں طبقات ٹھيک نہ ہو جائيں۔ آج کل پاکستان ميں جس کو کوئی کام نہیں آتا وہ يا تو صحافی بن جاتا ہے يا وکيل اور يہ دونوں جاہل طبقے مشرف صاحب کے خلاف تھے اور رہيں گے۔ اور پاکستان کے تمام مسائل کی بنياد ہی يہی لوگ ہيں۔
Leave A Reply