وائس آف امریکہ کے “راؤنڈ ٹيبل” شو میں ہمارے وفاقی وزیر قانون اور انسانی حقوق”قانون کے لمبے ہاتھ” اور” اپنے بگ ہینڈ” میں فرق محسوس نہ کرسکے اور دی نیوز کے انصار عباسی کو اس طرح مخاطب ہوئے “جو مجھے بگ ہینڈ یعنی بازو دے گا میں اس کے خاندان کو بگ ہینڈ یعنی بازو دوں گا”
ہم سب جانتے ہیں کہ کسی کو اس طرح مخاطب کرنا ہمارے معاشرے میں بہت بڑی گالی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن وصی صاحب اس بات کو جانتے ہوئے بھی اپنے الفاظ کو کئ بار دہرا گئے۔ اس کے جواب میں ایک سامع نے سوال پوچھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے وزیر سے کیا سوال کرے جسے بولنے کی تمیز ہی نہیں۔
ہٹ دھرمی کی انتہا دیکھئے کہ انہوں نے جیو کے پروگرام میں اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے کے عمل سے صاف مکر گئے وہ تو بھلا ہو ریکارڈنگ کا جو اسی وقت انہیں سنا دی گئ اور ان کے پاس اس بات کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
وصی ظفر صاحب ذرا غصیلے واقع ہوئے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ پی آئی اے کاؤنٹر پر پی آئی والوں سے الجھ چکے ہیں جب ان کے بیٹے نے قطار پھلانگ کر بکنگ کلرک تک پہنچنے کی کوشش کی اور قطار میں لگے ایک شخص کے اعتراض پر اس کا تھوبڑا بگاڑ دیا۔
ایک دفعہ وہ ہوٹل میں بیرے کو تھپڑ بھی رسید کرکے نام کما چکے ہیں۔
اب اتنا کچھ ہونے کے باوجود یہ جنرل صدر مشرف پر منحصر ہے کہ وہ اپنے چنے ہوئے آدمی کو مزید کہاں تک برداشت کرتے ہیں۔ شیخ رشید کی وزارت اطلاعات سے علیحدگی بتاتی ہے کہ اب وصی ظفر صاحب کے دن بھی گنے جاچکے ہیں۔ اگر شیخ رشید کی زبان درازی برداشت نہیں ہوسکی تو پھر وصی ظفر صاحب کیسے برداشت کئے جائیں گے۔ جنرل صدر مشرف صاحب کو آج نہیں تو کل اپنے ایک اور غصیلے وزیر سے چھٹکارا حاصل کرنا ہی فائدے میں رہے گا۔ ایک صاحب نے ٹھیک لکھا ہے کہ جس طرح چیف جسٹس کا فیصلہ جوڈیشل کونسل سے پہلے ہی عوام نے سنا دیا ہے اس طرح عوام نے وصی ظفر صاحب کے بارے میں بھی فیصلہ دے دیا ہے۔ اب یہ جنرل صدر مشرف پر منحصر ہے کہ وہ کب عامی فیصلے کی تائید کرتے ہیں۔
لگتا ہے وصی ظفر صاحب کا بازو ہی لمبا نہیں بلکہ ہاتھ بھی لمبے ہیں اسی لئے اتنی بڑی بڑی گستاخیوں کے بعد بھی ان کا چیف انہیں کہتا ہوگا “لگے رہو منا بھائی”
21 users commented in " کیا وصی ظفر صاحب اس کے بعد بھی وزیر قانون رہیں گے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسب اہم بات یہ کے وزارت قانون ایسے شخص کو دی گئی ہے جس کو بنیادی معاشرتی آداب کا بھی خیال نہیں ہے وہ آئین اور قانون کی پاسداری کس طرح کرے گا۔۔ رہ گئی بات “بازو دینے کی“ تو کون نہیں جانتا ہمارے وزراء اور مشیران کرام اخلاق کے کن مراتب پر فائز ہیں۔۔ ایک پروگرام میں شیر افگن صاحب سے سوال ہوا کے آپ لوگ اپنی گاڑیوں پر ایم این اے کی پلیٹ کیوں لگاتے ہیں جب کہ یہ قانونا جرم ہے تو موصوف کا جواب تھا عام لوگوں میں اور ہم میں فرق ہونا چاہیے۔۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ بیان سیاسی خودکشی ہوا کرتا ہے مگر ہمارے یہاں وزارت کے اوصاف میں سے ایک۔۔ بلکہ کچھ رہنما تو مغربی ممالک کی شہریت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں اور اپنی عیاشیوں کو بھی عوام کے سامنے انکے بھلے کی بات بنا کر پیش کرتے ہیں۔۔ اس صورت حال میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کے نظام کو نظام میں رہ کر تبدیل کیا جا سکتا ہے تو میں اس بات سے بھر پور اختلاف کروں گا۔
وزير موصوف کی عاقلانہ اور پُر مغز گفتگو سُن کر کوئ بھی انسان اپنے ہوش کھو سکتا ہے جبکہ خود وصی ظفر صاحب خود بھی نہيں جانتے کہ وہ کيا کر رہے ہيں اور وزارت کی کُرسی حاصل کرتے ہی اُسے اپنی خاندانی وراثت سمجھ بيٹھتے ہيں جبھی تو پورا کا پورا خاندان اسے اپنی ذاتی جائيداد سمجھتا ہے لہٰزا اپنی من مانی کرنے کا کوئ بھی موقع ہاتھ سے نہيں جانے ديتے ہيں اور رہی يہ بات کہ وزير موصوف کيا کہنا چاہتے تھے جو کہنے کے بعد احساس ہُوا کہ کہيں کُچھ غلط ہو گيا شايد اورانکار ميں ہی عقل مندی ہے ہم مُکرنا نہيں کہہ رہے مگر ان عقل مندوں کے کيا کہنے کے پکڑ کر ريکارڈنگ کرلی ذرا خيال نہيں کيا کہ کہاں ہم عام فہم عوام اور کہاں لا محدود علم رکھنے والے ہمارے وُزراۓ کرام ہم بھلا اُن کو چيلنج کر سکتے ہيں يا شايد کُُچھ مغالطہ ہو گيا ہو گا کيونکہ ايک فلم بھی تو آئ تھی نا „لمبے ہتھ قانون دے„ بالکُل ٹھيک ساری غلط فہمی ايسی ہی رہی ہوگی جيسے کہا کرتے ہيں نا جی عقل نُوں ہتھ مارو يعنی بات ہے سمجھ کي، کيا سمجھے آپ حضرات؟
دعاگو
شاہدہ اکرم
شاہدہ اکرم صاحبہ سے اتفاق کروں گا کے بیشتر وزرا کا حال پنجابی فلموں کے ایکٹرز جیسا ہی ہے اور آج ٹی وی کے ایک شو ہاؤس آف ریپریزینٹیٹو میں وزیروں اور سیاستدانوں کے جو کردار دکھائے گئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے وہی حقیقت ہے۔۔ ہر وزیر اس انتظار میں ہے کہ موقع ملے اور وہ کیمرے کے سامنے کہے “یہ شادی نہیں ہوسکتی“ اور وصی ظفر تو باقاعدہ گنڈاسے کے ساتھ کہنے کے موڈ میں لگتے ہیں۔
ہم نے بہت ساری حکومتیںدیکھی ہیںمگر جتنی یہ حکومت عوام میں غیرمقبول ہے پھلی کبھی نہیں تھیں مگر اس کے باوجود عوام خاموش ہیں اس کی وجہ معلوم ہو تو بتائیں۔
وصی ظفر کی سب سے اہم قابلیت آپ لوگوں کو نھیں پتہ اس لئے ایسے سوالات پوچھ رہے ہیں۔ موصوف کا بھائی آئی ایس آئی میں اہم عہدہ پر ہے۔
احمد صاحب
آپ کی بات واقعی درست ہے۔ وصی ظفر کے بھائی طارق ظفر میجر جنرل آئی ایس آئی ہیں۔
اس کا مطلب ہوا کھ وصی ظفر صاحب کا کلا مضبوط ہے وج جنگل کے بادشاہ ہیںجو چاہے کہیں انہیںان کا چیف بھی نہیں روک سکے گا۔
وصی ظفر ساڈا شیر اے
باقی سب ہیر پھیر اے
عوام اس لیئے خاموش ہیں میرا پاکستان صاحب،کہ ان کاے پاس کوئ متبادل قیادت موجود نہیں،چور کوہٹائیں گے تو ڈاکو آجاہیں گے،ان غریبوں کی جان مفت مین جائے گی،کیا سمجھے!
افضل صاحب میرا خیال ہے عوام تنگ آگئے ہیں۔۔ انکا خیال ہے کے ان لوگوں کو جی بھر کا کھیل لینے دو اور لوٹ لینے دو۔۔ سب کو شرافت کے پردوں سے باہر آنے دو تاکہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ سکے کے ہمیں تو موقع ہی نہیں ملا۔۔ اسکے بعد تو
لازم ہے کے ہم بھی دیکھیں گے
جب تخت اچھالے جائیں گے اور تاج گرائے جائیں گے
ہم مظلوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سروں پر
یہ بجلی کڑکڑ کڑکے گی
۔۔۔
پھر راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
ہم دیکھیں گے۔۔
اگر وصی صاحب کا بھائ ميجر جنرل ہے تو کيا اُن کو اپنی زبان کے جوہر دکھانے کا کُھلا لا ئسنس مل گيا ہے ؟اور وہ جو بھی دل چاہے کر سکتے ہيں اور شايد يہی ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہم دوسروں کے کندھوں پر رکھی ہُوئ بندوق بہت مہارت سے اپنی ملکيّت سمجھ کر اپنے کندھوں پر سجانا ايک شان سمجھتے ہيں اور اسی منفی سوچ کی وجہ سے آج اس طرح کے حالات کا سامنا کر رہے ہيں ليکن اگر ان سب باتوں کو بُھول کر نئ قيادت کے لۓ اِدھر اُدھر نظريں گُھمائيں تو معافی چاہتی ہوں سواۓ عمران خان کے اورکوئ عقل مند متبادل ہے کيا ؟
دعاگو
شاہدہ اکرم
اس آڈیو کلپ کا لنک کہیں سے مل سکتا ہے؟
شاہدہ اکرم۔ عمران خان نے کبھی اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش ہی نہیں کیا۔۔ وہ تو ان ہی لوگوں کے ساتھ کاندھا ملا کر کھڑے ہوئے ہیں جن کی کرپشن سے نجات کے لیے انہوں نے تحریک انصاف بنائی تھی۔۔ اب انکی تحریک انصاف بھی مشرف سے نجات کی تحریک نجات بن چکی ہے مگر کسی کے پاس بھی اس کے بعد کا کوئی جواب نہیں ۔۔ بینظیر کو کوئی ایسا سیٹ اپ منظور نہیں جس میں وہ وزیر اعظم نہ ہوں، قاضی صاحب کو ایسا الیکشن منظور نہیں جس میں جماعت نہ جیتے (یا جس حلقے میں جماعت نہ جیتے) عمران خان صرف اپنی شخصیت کی وجہ سے ایک سیٹ لے اڑے ورنہ تحریک انصاف کے ساتھ بھی انصاف ہو چکا ہوتا۔۔ ہمارا سیاسی کلچر بڑا ظالم ہے۔۔ سسٹم میں رہ کر سسٹم نہیں بدل سکتا۔۔ متبادل قیادت کیسے بیوروکریسی اور فوج سے لڑے گی ؟
وصی ظفر صاحب کی شائستہ گفتگو یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔۔ آخری اطلاعات تک یو ٹیوب پر یہ لنک ایکٹو تھا۔۔
http://www.youtube.com/watch?v=gG3D_s422pU&mode=related&search=
ہماری ایک پرانی فلم تھی “انسانیت کے دشمن“ اسکے تھیم سانگ کا ایک بند یاد آ گیا جو موجودہ حالات پر فٹ بیٹھتا ہے ، ویسے بھی عدلیہ سے پہلے مشرف صاحب کل فرما چکے ہیں کہ وہ خود فیصلے سے آگاہ کریں گے یعنی ۔ ۔ ۔ فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے ۔ ۔۔ قانون کا تو ۔ ۔ صرف نام ہے ۔ ۔ ۔اصل قانون ہیں مشرف صاحب
قانون کب تھا اندھا
اندھا کیا گیا ہے
انصاف کا ترازو
اب ڈولنے لگا ہے
یہ جھوٹ کو سراہیں
سچ کو ملیں سزائیں
بنتے ہیں رہنما یہ
ہیں اصل میں یہ رہزن!!
انسانیت کے دشمن ، ، ،
میں شاہدہ اکرام صاحبہ اور راشد کامران صاحب کے تبصروں کے کچھ حصوں سے متفق ہوں ۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے سڑکوں پر آنے والوں میں ہمیشہ طالب علم اور وکلاء کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ ہمارے ملک میں سیاست دھوکہ دہی بن چکی ہے ۔ جھوٹ بولنے والے لیڈروں کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ۔ اس سے بڑا ظلم یا جرم کیا ہو سکتا ہے کہ ایک لیڈر شراب پیئے اور زنا کو جائز سمجھے پھر برملا اعلان کرے “میں مسلمان اور سیّد ہوں”۔
پچھلے 50 سال میں فوجی اور غیر فوجی آمروں نے حکومت میں آنے کے بعد اچھے سیاستدانوں کو نااہل قرار دیا اور بدمعاشوں کی پشت پناہی کی اور عوام کو صرف پیٹ پالنے کی فکر میں مبتلا کرنے کیلئے ہر قدم اٹھایا ۔ جس سے موجودہ صورتِ حال پیدا ہوئی ۔
لیکن اللہ سُبحانہُ و تعالٰی کا طریقہ انوکھا ہے کہ وہ ممولے کو باز سے لڑا دیتا ہے اور ممولے کو جتا بھی دیتا ہے ۔ سیّدنا داؤد علیہ السلام جسمانی طور پر نحیف چھوٹا قد اور مقابلہ جالوت سے جو لمبا قد اور اتنے مضبوط پٹھوں والا کہ دیکھنے والے دہل جاتے اور اس کے قریب آنے کی بھی جرأت نہ کرتے ۔ جب سیّدنا داؤد علیہ السلام نے جالود کو مقابلہ کیلئے للکارہ تو وہاں موجود ہر شخص نے زوردار قہقہہ لگایا اور جالوت نے اِتراتے ہوئے سیّدنا داؤد علیہ السلام سے کہا کہ “چلو پہلے تم وار کرو” ۔ سیّدنا داؤد علیہ السلام نے اپنی غلیل میں ایک پتھر رکھ کر جالوت کے ماتھا کا نشانہ لگایا اور جالوت وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ سُبحان اللہ ۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اُن کمزور لوگوں میں سے ہیں کہ جب جنوری 2001 میں اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان سعیدالزمان صدیقی اور عدالتِ عظمٰی کے 5 دوسرے جج صاحبان نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کیا تو انہوں نے انکار کی جرأت نہ کی تھی مگر عدالتِ عظمٰی کا سربراہ بنتے ہی اُنہوں نے اپنی زندگی عوام کی خاطر خطرہ میں ڈالنے کا عمل شروع کر دیا ۔ پھر تصادم کا وقت آیا تو اللہ نے اُنہیں ثابت قدم رکھا جس کے نتیجہ میں وہ سیاسی قوتیں جو ایک اجلاس میں اکٹھا ہونے کو تیار نہ تھیں ایک دم اسلام آباد کے اجلاس میں اکٹھے بیٹھ گئیں ۔ افسوس صرف یہ ہے کہ محترمہ کی آنکھوں پر ابھی بھی خودغرضی کا پردہ پڑا ہے ۔ اور مسلمانوں کو غداروں کی وجہ ہی سے ہمیشہ شکست ہوئی ہے ۔ غرناطہ میں حکمران کا وزیرِ خاص ۔ بغداد میں سائنسدان اور مشیرِ خاص طوسی اور ہندوستان میں میر صادق اور میر جعفر ۔
راشد صاحب ميں نے اپنی طرف سے ايک خيال ظاہر کيا تھا عمران خا ن کی صورت ميں ورنہ سب ہی ايک ہی تھيلی کے چٹے بٹے ہيں پھر بھی عمران خان ايک ايسے انسان نظر آتے ہيں جو کُچھ مُلک کے لۓ درد مند دل رکھنے والے دکھائ ديتے ہيں اور باقی بی بی اور بابوں کی خواہشات کا ذکر آپ نے بھی کر ديا ہے اور ديکھيں تو کُچھ آگے کُنواں پيچھے کھائ والا معاملہ ہے کہ دور دور تک کوئ ايسی قيادت نہيں ہے جو مُلک کے حق ميں ہو سب صرف اور صرف اپنے لۓ جی رہے ہيں نعروں کے طور پر ہی ہے يہ بات صرف کہ سب سے پہلے پاکستان ورنہ سب سے پہلے اپنا آپ ،رہی بات سسٹم کی تو سسٹم کی الف ب سے بھی کوئ واقف نہيں س سياست تک پہنچنا تو بہت دور کی بات ہے ، کسی بھائ کو اس شائستہ گُفتگو کا کلپ درکار ہے youtube پر بھی لنک محفوظ ہے اور بی بي سی اُردو بلاگ ميں وُسعت اللہ خان صاحب کے بلاگ بازو تے بانہہ سے بھی آپ کو يہ لنک مل سکتا ہے اور ويسے بھی اُن کا يہ بلاگ پڑھنے کے لائق ہے اور پڑھنے سے بھی زيادہ سُننے سے تعلُق رکھتا ہے
خير انديش
شاہدہ اکرم
پہلے ایک تصحیح میرا پاکستان! وائس آف امریکہ کے شو کا نام ’’راؤنڈ ٹیبل‘‘ ہے۔ کامران خان کا شو جیو ٹی وی پر ہوتا ہے جس پر کل ہماری بہادر حکومت پابندی لگا چکی ہے۔ بہرحال کامران خان اسوقت بھی کسی دوسرے نام کے پروگرام سے ایک لائیو کوریج کر رہے ہیں۔ اسوقت پولیس اور مظاہرین(جو سپریم کورٹ جانے کی کوشش کر رہے ہیں) کے درمیان زبردست کشکمش جاری ہے۔
جی اصل مضمون آپ کا وصی ظفر گالی والا کے بارے میں تھا۔ ان کے کیا ہی کہنے۔۔۔انہیں نہ تو محاوروں کا مطلب آتا ہے اور ان کی تربیت کے بارے میں خاصی حد تک صحیح شک نیوز کے ایڈیٹر صاحب ظاہر ہی کر چکے ہیں۔
بدتمیز! لنک اور پوری کوریج پاکستانیات ڈاٹ کام پر موجود ہے۔
جی اس وقت جب میں جیو کی لائیو کوریج دیکھ رہا ہوں۔۔۔پولیس نے جیو کے آفس پر حملہ کر دیا ہے عمارت کے شیشے توڑ دئیے گئے ہیں ۔۔۔حامد میر سمیت تمام سٹاف کو زد و کوب کیا جا رہا ہے، حد یہ ہے کہ اس عمارت کے اندر آنسو گیس کے شیل پھینکے جا رہے ہیں تاکہ سٹاف تنگ آکر عمارت سے نکل آئے۔ حامد میر صاحب آخر تک فون پر صورتحال بتاتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔شیم شیم شیم
ساجد صاحب کا شکریھ۔ ہم نے اپنی پوسٹ میںتصیح کردی ہے۔
ہم شاہدہ صاحبہ کی اس بات سے متفق ہیںکہ عمران بیشک اکیلا ہے لیکن بات دلیل کے ساتھ کرتا ہے اور دوسروں کو لاجواب کردیتا ہے۔ ان حالات میں وہی سے بہتر چوائس لگتا ہے۔
يہ ميرا پاکستان ہے نا تيرا پاکستان ہے
يہ اُس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے
اس وقت جيو چينل کی لائيو کوريج کو ديکھ کر کُچھ ايسا محسوس ہو رہا ہے گويا ہم اپنے مُلک ميں نہيں ہيں بلکہ کسی جنگ کے ميدان کی سی صورتحال دکھائ دے رہی ہے آنسو گيس کے شيل ، صحافيوں پر لاٹھی چارج ،توڑ پھوڑ کيا ہے يہ ؟يہی ہے وہ مملکت پاکستان ،اسلامی جمہوريہء پاکستان جس کے حصول کے لۓ لاکھوں جانوں کا نزرانہ ديا گيا کاش کہ ہم اپنی ذات سے اُٹھ کر پوری قوم کے لۓ سوچيں اے کاش ،ليکن کب ہو گا ؟ايسا کون بتاۓ گا؟بےبسی سی بے بسی ہے
ميرا پاکستان ، اگر تصحيح کر سکيں تو کر ديں ساجدہ نہيں شاہدہ
شکريہ
شاہدہ اکرم
[shahidaakram], ABUDHABI, متحدہ عرب امارات
رنڈی کے بچٰٰے ہے یے وزٰیر لوگ
Leave A Reply