ہمارے بچپن کے زمانے میں ایک دوست دوسرے شہر سے ہمارے محلے میں منتقل ہوئے۔ ہم لوگ چھٹی والے دن فجر کی نماز کے بعد لمبی سیر کیلیے دریا کے بند پر چلے جایا کرتے تھے۔ کبھی کبھار جوش میں بند پر دوڑ کے مقبابلے ہوا کرنے اور کبھی کبھار کشتی بھی ہو جایا کرتی تھی۔ ایک دفعہ ہم سے وزن میں زیادہ اور قد میں بڑے دوست نے کشتی لڑنے کو کہا۔ ہم بڑی مشکل سے مانے کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ انہیں چت کرنا بہت مشکل ہو گا اور ہار ہماری ہی ہو گی۔ قدرت خدا کی ایسی کہ جب انہوں نے ہمیں نیچے گرایا وہ بند کی ڈھلوان والی جگہ تھی اور دوست ڈھلوان سے ایسے لڑھکے کہ وہ نیچے اور ہم اوپر۔ بس پھر کیا تھا ہم نے جیت کا وہ اودھم مچایا کہ ہارنے والے دوست منہ دیکھتے رہ گئے۔ انہوں نے بار بار دوبارہ کشتی لڑنے کی درخواست کی مگر ہم نے اگلے سال لڑنے کی بات شروع کر دی اور خود کو ایک سال کیلیے چیمیئن قرار دے دیا۔
انہی دنوں کی بات ہے جو دوست دوسرے شہر سے آئے تھے ایک دن ان کا مقابلہ بھی اسی دوست کیساتھ ہوا۔ دونوں کو کشتی لڑتے کافی دیر ہو گئی مگر ہار جیت کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ اچانک دوسرے شہر سے آئے دوست کی جب کنڈ لگنے لگی تو انہوں نے کشتی روکنے کا شور مچا دیا۔ کشتی روکنے کے بعد جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ میرا زور ختم ہو گیا ہے۔
یہی حال کچھ روز سے ہمارا ہے۔ ہم نے بلاگنگ کی طرف توجہ دینا کم کر دی ہے اور وجہ یہی ہے کہ ہماری دلچسپی اب کم ہو گئی ہے۔ شاید اتنے سالوں کی محنت کی بے اثری ہے کہ ہم نے بلاگنگ یا تو کم کرنے یا پھر اپنا دھیان کسی اور طرف لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اب دیکھِیں ناں ہماری بلاگنگ کے پانچ سال کے عرصے میں کچھ نہیں بدلا بلکہ پاکستان کے حالات بگڑے ہی ہیں۔ اب بڑی دیر بعد ہمیں بلاگر نعمان صاحب کی نصیحت یاد آئی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم جہاں رہ رہے ہیں وہاں کے بارے میں لکھیں مگر تب ہمارے سر پر پاکستان کی بہتری کی دھن سوار تھی اور ہمارا خیال تھا کہ وقت کیساتھ ساتھ اور بہت سارے لوگ مل جائیں گے اور شاید ہم لوگ مل کر ملک کی بہتری کیلیے کچھ کر سکیں گے۔ اب جب ہر اخبار میں درجن بھر کالم نگار اپنا سر پھوڑ پھوڑ کر ملک میں تبدیلی نہیں لا سکے تو ہم کس باغ کی مولی ہیں۔۔
تو دوستو اگلے چند روز میں آپ ہمارے بلاگ پر تبدیلی نوٹ کریں گے۔ یعنی موجودہ بلاگنگ میں وقفہ زیادہ ہونے لگے گا یا پھر ہم اپنے ارد گرد کے بارے میں لکھنا شروع کر دیں گے لیکن وہ بھی بہت کم۔
10 users commented in " زور ختم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبہت خوب!
تو پانچ سال بعد آپ کو سمجھ آ ہی گئی۔ چلئے اچھا ہے۔
یہ اردو بلاگستان ہے۔ اس میں بحثیت ایک اردو بلاگر بھی شمولیت اختیار کی جاسکتی ہے۔ پاکستانی بلاگر ہونا لازمی نہیں۔ اس بات کا اظہار کئی بار دبے لفظوں کیا ہے۔ لیکن یار لوگ ہزاروں میل دور دوسرے ممالک میں بیٹھ کر بھی پاکستان ہی کے شب و روز پر لکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ دنیا بھر کا سفر کرکے ان کا مشاہد کافی وسیع ہونا چاہیے۔ اور دنیا بھر کے موضوعات ان کے پاس ہونے چاہیے۔وہ بہت کچھ دوسرے اہل بلاگستان سے شئیر کرسکتے ہیں۔ کچھ نیا۔۔۔جو دوسروں کے پاس نہیں۔ تصویر کا کوئی نیا رخ ، زندگی کا کوئی انوکھا پہلو جو دوسروں نے نہیں دیکھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بہت کم لوگ اپنی زندگی کی اس سہولت سے فائد اٹھانا چاہتے ہیں۔ خیر اپنی اپنی بات ہے۔
شائد اب آپ کو اپنے بلاگ کا نام بھی بدلنا پڑے ۔ 🙂
ارے ابھی سے زور ختم ہوگیا؟
🙂
ابھی تو مجھے یہ دو کالم بھی لگانا تھے!
http://ejang.jang.com.pk/10-31-2010/pic.asp?picname=12_01.gif
http://ejang.jang.com.pk/10-31-2010/pic.asp?picname=12_02.gif
جاپانی لوگ کہتے هیں
زیادھ ہمت ناں مارو ، تھک جاؤ گے
جهاں تک میرا خیال ہے که اب خود کو کسی ایک هی موضوع تک محدود ناں کریں
اور ناں هی اپنا ایک ایمیج بنانے پر تلے رهیں
اور ناں هی هر روز لکھنے کے چکر میں پڑیں
تو بلاگنگ اسانی سے چل سکتی هے
جو اپ کے اندر ابال اٹھے
چاهے وھ امریکه کا هو که پاکستان کا لکھیں
پاکستان میں هر لکھنے والا ، بولنے والا امریکه اور اسرائیل کے خلاف هی جاتا هے
لیکن ان کے اخلاقی اور دینی(سسٹم) اصولون کی بات کوئی نهیں بتاتا
اپ امریکه کے متعلق لکھیں
که عام امریکه کیسے هیں
اور امریکه کیوں امریکه ہے
میدان چھڈ کے بھاگنا نهیں هے جی
پیوسته رھ شجر سے امید بہار رکھ
ہثھیلی پر سرسوں نہیں جما کرتی
اور روم ایک رات میں نهیں بنا تھا
آپ نے سبزی منڈی میں گلی سڑی سبزیوں کے ڈھیر سے نئی کونپلیں نکلتی دیکھیں هیں ناں ؟
اسی طرح جب پاک ستان کا سارا سسٹم گل سڑ جائے گا تو نئی کونپلیں نکلیں گی
اور اب اس میں کوئی زیادھ دیر نهیں هے
چند دھائیاں هی اور لگ سکتی هیں
آئیں هم اپنا نام ان لوگوں میں لکھ جائیں جو اس نظام کو برا کہتے تھے اور تبدیلی کی امید رکھتے تھے
ارے صاحب آپ ہی بھاگ گئے تو ہمارا کیا ہوگا؟
پاکستان کے مسائل پر لکھیں۔
جنم بھومی جو ھے۔نہ لکھنا زیادتی ہوگی۔
بلاگ کو سر چڑھا لینا کچھ ٹھیک نہیں ھے۔
بچپن میں ایک سال کیلئےزبردستی چمپئین بنے تھے۔
بلاگ پر ہر سال زبردستی چمپیئین بنئے۔
دیکھ لیں ہر دن اپنے آپ کوزبردستی چمپئین بنانے والے کیسے ڈھیٹائی سے بتیسیاں نکال رھے ہیں۔
آپ ناراض نہ ہوئیے گا لیکن کیا واقعی آپکا خیال تھا کہ آپ اپنی بلاگنگ سے پاکستان کے حالات بدل سکتے ہیں؟ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو نرم ترین الفاظ میں آپ انتہائی سادہ لوح ہیں۔
آپ نے اپنی بہت سی تحاریر میں حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوںکو مشورے دیے۔ آپکے خیال میں وہ لوگ بیوقوف ہیں یا عقل سے عاری ہیں؟ ہر بندہ اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور انمیں سے بھی ہر شخص یہی دیکھ کر قدم اٹھاتا ہے۔
اگر میرے الفاظ برے لگے ہیں تو معذرت قبول کیجیے۔
شکر ہے فیصل صاحب آپ نے ہاتھ ہلکا رکھا مگر عثمان صاحب نے اپنی عادت کیمطابق کسر پوری کر دی۔ آپ کی بات درست ہے کہ آپ نے ہلکے الفاظ میں ہم سادہ لوح کہا ہے اگر سخت الفاظ استعمال کرتے تو لازمی انتہائی بیوقوف اور کم عقل کہتے۔
یاسر صاحب اور خاور صاحب کی حوصلہ افزائی کا شکریہ۔
عبداللہ صاحب کالم لگانے سے آپ کو کس نے منع کیا ہے۔
میرا پاکستان صاحب ،
میں نے تو ایک عمومی بات کی ہے۔ اس بلاگستان میں بہت سے بلاگر ہیں جو پاکستان سے باہر مقیم ہیں لیکن بہت کم دوسرے موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ خود میں بھی کوئی تیس مار خان نہیں ہوں۔ بلکہ نوارد ہوں۔ جانے آپ کیوں مجھ سے بدظن رہتے ہیں۔ ارے بھی میرے بات کرنے کا انداز کچھ یوں ہی ہے۔ بے تکلفانہ سا۔ آپ ناراض ہیں تو نہیں کروں گا رخ یہاں کا 🙁
آپ اداس نہ ہوں افضل صاحب،
چاہے کتنا ہی اختلاف رائے ہو مگر ہم سب آپکی بہت عزت کرتے ہیں صرف اس لیئے کہ آپکا دل بڑا ہے!!!
🙂
چليں گھر کے قريب موضوعات پہ لکھيں۔
A ceremony church became Mosque
http://www.youtube.com/watch?v=Qax5YGqcQcM
ویسے آپکا بلاگ ، ایک ڈائری کی مانند ہے جہاں پر آپ عام موضوعات سے خاص موضوعات تک سب کچھ لکھتے ہیں۔ میرے خیال سے آپ سبھی موضوعات پر لکھتے رہیے۔ جہاں رہ رہے ہیں اور جہاںسے تعلق رکھتے ہیں دونوں کے لیے لکھیے۔ پاکستان کے حالت تو ساٹھ سال سے نہیںبدلے اور بدلنے کی امید بھی کم ہے۔ تاہم آپکا بلاگ بی بی سی پر ڈسکس ہو چکا ہے اور آپکو کیا چاہیے؟
Leave A Reply